ڈسکورس کی اصطلاح ادب، تنقید نگاری، عمرانیات، علومِ ترجمہ، سیاسیات وغیرہ وغیرہ میں بکثرت استعمال کی جاتی ہے۔ اس شعبے کے ماہرین اور طلبہ اس سے اپنے اپنے انداز میں واقفیت رکھتے ہیں۔ ڈسکورس کو ترجمہ کریں تو بیانیہ، کلامیہ یا خطابت کا لفظ مناسب لگتا ہے جن میں سے کلامیہ مجھے اس لیے پسند ہے چونکہ یہ پہلے کسی اور معانی کے لیے مستعمل نہیں۔ بیانیہ آج کل ہمارے کالم نگار بڑی شد و مد سے نیریٹِوْ کے اردو متبادل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ خطابت کا لفظ فصاحت و بلاغت اور تقریر و خطبہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ تو قارئین ڈسکورس یا کلامیہ ہم زبان کے ایک درجہ کو کہتے ہیں۔
زبان آواز سے شروع ہوتی ہے۔ آوازیں مل کر بامعنی ٹکڑے بناتی ہیں جنہیں صرفیے کہا جاتا ہے۔ اردو (اور عربی) گرامر میں صرف الفاظ کی ساخت سے متعلق علم کو کہا جاتا ہے۔ چنانچہ صرف و نحو (گرامر) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ صرف کے بعد لفظ آتے ہیں۔ اور پھر جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں نحو یعنی گرامر کا درجہ آتا ہے۔ اس کے بعد معنیات اور پھر سیاقی معنیات جسے انگریزی میں پریگمیٹکس کہا جاتا ہے، آتی ہے۔ جب بات فقرے کی حدود سے ماوراء ہو جاتی ہے تو پھر ہم زبان کو ڈسکورس یا کلامیہ کہہ دیتے ہیں۔
کلامیہ زبان و بیان کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جسے ابلاغی طور پر مکمل سمجھا جاتا ہے۔ یعنی زبان کا ایک خود انحصاری ٹکڑا، جو اپنے اندر ساختی اور معنیاتی تانے بانے کے ساتھ بڑی مضبوطی سے بندھا ہوتا ہے۔ اس کی مثال مولوی صاحب کا وعظ، سیاستدان کی تقریر، کمنٹیٹر کا رواں تبصرہ، فیس بک کی ایک پوسٹ، کسی بلاگر کی ایک تحریر، مستنصر حسین تارڑ یا کسی بھی مصنف کی ایک کتاب یا ناول یا افسانہ، کسی شاعر کی نظم یا دیگر صنفِ شاعری، کسی کالم نگار کا کالم، ایک خبر یا خبری مضمون، ایک اداریہ، کسی استاد کا لیکچر، دو یا زیادہ لوگوں کا مکالمہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب میں سے آپ کوئی بھی ابلاغی ٹکڑا اٹھا لیں وہ اپنے آپ میں بڑی حد تک مکمل ہو گا۔ اس میں آپ کو ساختی یعنی گرامر کی سطح پر ایسے روابط ملیں گے جو اسے باندھے رکھتے ہیں۔ مثلاً اسمائے ضمیر کا استعمال علی ایک لڑکا ہے۔ وہ کام کرتا ہے۔ وہ اسکول جاتا ہے۔۔۔۔ ان تین فقروں میں پہلا اور اس کے بعد ہر فقرہ آپس میں مربوط ہیں چونکہ اسمائے ضمیر پہلے فقرے کے اسم کی طرف اشارہ کناں ہیں۔ اسی طرح معنیاتی لحاظ سے بھی ان میں ربط موجود ہے۔ علی ایک لڑکا ہے۔ وہ سرخ رنگ کی ہے۔ اس رنگ کا ہیلمٹ ابو کل لے کر آئے تھے۔۔۔ میں ساختی لحاظ سے تو روابط شاید موجود ہوں، معنیاتی لحاظ سے تینوں جملے تین مختلف جگہوں سے اٹھائے گئے ہیں۔ چنانچہ ان کا کوئی ربط نہیں بن رہا اور ہر جملہ ہماری توقعات کو ٹھوکر مار کر ایک نیا مضمون متعارف کروا رہا ہے۔ ایسے بارہ پندرہ جملے پڑھنے کے بعد خاصا امکان ہے کہ آپ لکھنے والے کے سر پر بال (اگر کوئی باقی ہے بھی تو) نہ رہنے دیں۔ تو اب تک نتیجہ یہ ہے کہ ہماری زبان صرف فقرات تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ فقروں سے اوپر ایک درجہ کلامیے کا بھی ہے جو ہماری زبان کو روزمرہ میں ابلاغ کے قابل بناتا ہے۔ ایک عام اہلِ زبان کو ان سارے درجات سے قطعاً کوئی سروکار نہیں چونکہ وہ زبان جانتا ہے اور یہ اس کے لیے کافی ہے۔ لیکن ماہرینِ لسانیات چونکہ ویلے ہوتے ہیں، اور کوئی کام نہیں ہوتا اس لیے پچھلی ایک ڈیڑھ صدی سے وہ بیٹھے یہی کام کر رہے ہیں یعنی لسانیات کی شاخیں متعارف کروانا اور ایسے درجات تعمیر کرتے رہنا۔ تو آپ اگر ابھی تک میرے ساتھ ہیں تو بسم اللہ۔ اگر اس سے پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں تو پھر لیٹ اللہ حافظ قبول فرمائیں۔
تو میرے باقی ماندہ قاری/ئین ہم چلتے ہیں کلامیے کے ایک اور پہلو کی طرف جو تنقید اور انتقادی لسانیات کا موضوع ہے۔ اوپر ہم نے کلامیے کو نیوٹرل نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ لیکن کلامیہ (یا دوسرے لفظوں میں زبان) نیوٹرل نہیں ہوتی۔ زبان میں ہمیشہ سیاست ملوث ہوتی ہے، ہر لفظ کے پیچھے ایک ایجنڈا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کلامیے کے ذریعے لوگ کسی کی حق تلفی کر سکتے ہیں، کسی کو پاکباز اور کسی کو شیطان پیش کر سکتے ہیں، کسی کے حقوق سلب کر سکتے ہیں، کسی کو سچا اور کسی کو جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں، کسی کو برتر اور کسی کو ادنٰی ثابت کر سکتے ہیں۔ یہ سب کھلم کھُلا نہیں ہوتا۔ یہ سب زبان کی میکانیات کے ذریعے ڈھکے چھپے انداز میں کیا جاتا ہے۔ مثلاً صنفی برابری کی مثال ہی لے لیں۔ پدرسری معاشروں کی وجہ سے انگریزی اور اردو جیسی زبانوں میں مذکر غائب اسمِ ضمیر کا استعمال عام رہا ہے۔ انگریزی میں تو ہِی کی جگہ دے اور شی کا استعمال کافی عام ہو چکا ہے لیکن اردو جیسی زبان میں اب بھی ڈیفالٹ مذکر اسمِ ضمیر مستعمل ہے مثلاً میں ترجمہ کرتے وقت لکھتا ہوں "کوئی اور اس دستاویز کی تدوین کر رہا ہے" جبکہ میں اس کی جگہ 'رہی ہے' بھی برت سکتا ہوں جو کہ میں لاشعوری طور پر نہیں کرتا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اس سے صنفی برابری کو کتنا نقصان پہنچتا ہے، یہاں مقصد تنقیدی نقطہ نظر بارے بات کرنا تھا۔ کلامیے کا تجزیہ ایک پورا شعبۂ علم ہے جسے کلامیے کا انتقادی تجزیہ کہا جاتا ہے۔ صنفی مطالعات (خصوصاً تانیثیت)، نسلی رواداری کے حوالے سے (تارکینِ وطن کے حوالے سے مستعمل کلامیہ)، سیاسیات اور سیاسی بیانات، اخبارات اور ٹیلی وژن، اور دیگر میڈیا سے پیدا ہونے والے کلامیے کا انتقادی تجزیہ ایک کثیر الشعبہ جاتی میدان ہے۔ سیاسیات، لسانیات، ادب، اور عمرانیات وغیرہ میں اس پر بے تحاشا کام ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے۔
انتقادی نقطہ نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ کلامیہ معاشرے کو سانچے میں ڈھالتا ہے۔ کلامیے کے ذریعے آپ عدم کو بھی موجود ثابت کر سکتے ہیں۔ اس کی آسان مثال وہی کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ سمجھ لیا جائے۔ اسی طرح سماج بھی کلامیے کی تشکیل کرتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو کلامیہ اوپر بیان کردہ تعریف کے مطابق صرف ایک ابلاغی عمل کا نام نہیں۔ بلکہ کلامیہ تو ایک لہر ہے جو کئی ابلاغی اعمال (تقریر، وعظ، گفتگو، مکالمہ، بلاگ، کالم، فیس بک اسٹیٹس) سے مل کر بنتی ہے۔ ہمارے سماج میں اور اس عالمی گاؤں میں کلامیے کی کئی لہریں پائی جاتی ہیں۔ ایک کلامیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہے، ایک کلامیہ جہاد اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ہے، ایک کلامیہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے کا ہے، ایک کلامیہ پاکستان کے سارے سیاستدان کرپٹ ہیں کا ہے، ایک کلامیہ فوج سارے مسائل کے حل کا ہے، ایک کلامیہ اسلاموفوبیا کا ہے، ایک کلامیہ اخوت و بھائی چارہ اب جرمنی منتقل ہو چکا ہے کا ہے، ایک کلامیہ پناہ گزینوں کو پناہ دینے کے حق میں ہے اور ایک اس کی مخالفت کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔الغرض یہ دنیا ابلاغ کا ایک سمندر ہے۔۔ابلاغ زبان کے ذریعے ہوتا ہے اور زبان کے ذریعے کلامیہ تشکیل دیا جاتا ہے۔۔۔اور پھر ایک رنگا نہیں رنگ برنگا، لہر در لہر کوئی پچاس فٹ اونچی لہر ہے کوئی بمشکل ایک فٹ اونچا اٹھ پاتی ہے۔۔۔کلامیے کی یہ رنگ برنگی اور متنوع لہریں بہتی رہتی ہیں، ادھر سے اُدھر چلتی رہتی ہیں۔ اور جب ہم زبان میں کوئی ابلاغی ٹکڑا لکھتے ہیں یا بولتے ہیں تو ہم کسی نہ کسی انداز میں ان میں سے ایک یا زیادہ کلامیاتی لہروں پر سواری کر رہے ہوتے ہیں۔ اب تک میں نے جسے ابلاغی ٹکڑے کہا اسے اب متن یا ٹیکسٹ کہوں تو آپ کی سمجھ میں آسانی سے آ جائے گا۔ متون ہوا میں تخلیق نہیں ہوتے، متون آپس میں ربط و توافق کے حامل ہوتے ہیں جسے انگریزی میں انٹرٹیکسچویلٹی کہا جاتا ہے۔ ہر متن میں دوسرے متون کا عکس ظاہراً یا باطناً موجود ہوتا ہے۔ ہر نیا متن، متون کے طویل سلسلے کی تازہ ترین مثال یا نمونہ ہوتا ہے۔ ہر متن اپنے آپ کو منوانے کے لیے، اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے، اپنی جواز دہی کے لیے دوسرے متون کا سہارا لیتا ہے۔ تو پھر جو کچھ ہم لکھتے ہیں یا بولتے ہیں وہ ایک ربط و توافق کے ایک ایسے لامحدود نیٹ ورک سے منسلک ہوتا ہے کہ ہم لاشعوری طور پر کبھی اس پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں فرماتے۔
تو اب تک بات یہاں پہنچی کہ کلامیہ اور معاشرہ ایک دوسرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور ہمارے سماج میں زبان کی صورت میں کلامیے لہر در لہر ادھر سے اُدھر بہتے رہتے ہیں۔ اور ہم اور دیگر افراد یا گروہ (چاہے وہ غالب ہوں یا مغلوب، ظالم ہوں یا مظلوم) اپنی پسند کی کلامیاتی لہروں پر سوار ہو کر اپنی اپنی بھیرویں بجاتے پھرتے ہیں۔ میڈیا کلامیہ کی ترسیل کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ کلامیہ کے ذریعے لوگوں کے دل و دماغ بدل کر غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کیا جاتا ہے، اسٹیٹس کو برقرار رکھا جاتا ہے، برتری (انگریزی میں hegemony) تخلیق کی جاتی ہے۔ اور میڈیا اس سب میں بہت بڑا کھلاڑی ہے۔ کلامیہ ہی ہے نا جس نے دو ہفتے پہلے جرمنی کو انصارِ مدینہ کا جانشین ثابت کر دیا، اور اب بھی کلامیہ ہی ہے جو سرحدیں بند کرنے پر سب "نیوٹرل" موڈ میں دکھا رہا ہے۔
اس تحریر کے پسِ پُشت تین چار محرکات تھے، ان میں تازہ ترین آج ایک بلاگر کی پوسٹ کا اقتباس تھا۔ لکھاری نے مثال ناروے میں قتل کرنے والے شدت پسند عیسائی سائیکو کی دی ہوئی تھی اور ان کا متن اسلاموفوبیا کے کلامیے پر سواری کی کوشش کر رہا تھا یعنی جب بھی مسلمان ہو تو دہشت گرد ہوتا ہے، اور غیر مسلم ہو تو زیادہ سے زیادہ پاگل قرار دے دیا جاتا ہے جیسے ناروے کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ان کی اس کھچڑی سی تحریر سے مجھے یہ تحریر لکھنے کا خیال آ گیا جو میں اب لکھ کر ختم کر رہا ہوں۔ اور یہ ختم ہو گئی۔ آپ کے پلے کچھ نہ پڑا ہو تو اس میں میرا بھلا کیا قصور ہے؟
اچھا ہے
جواب دیںحذف کریں