جمعرات، 7 جنوری، 2016

خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی

کچھ قارئین کے خیال میں کبھی کبھی میں بہت اچھا لکھ لیتا ہوں۔ لفظ جوڑنا بڑی پرانی بیماری ہے۔ عرصہ ہوا، ایک عشرہ اس بلاگ کو ہو گیا اور اس سے بھی پہلے سے لفظ جوڑ جوڑ کر ٹاٹ بُننے کی عادت ہے۔ کبھی کبھی لفظوں کی کُترن سے بنی یہ گدڑیاں اتنی اچھی بن جاتی ہیں کہ دیکھنے والے پسندیدگی کی رعایت دے جاتے ہیں۔ لفظ لکھاری کے غلام ہوتے ہیں۔ جیسے لوہا لوہار کا غلام ہوتا ہے، اس کے ہاتھوں میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ جیسے بڑھئی لکڑی میں سے اور مصور رنگوں میں سے شاہکار نکال لاتا ہے۔ لیکن میرے جیسے لفظوں کے لکھاری نہیں لفظوں کے بھکاری ہوا کرتے ہیں۔ کہ جب دل کرے لفظ مہربان ہو جاتے ہیں اور جب دل کرے رُوٹھ جاتے ہیں۔ لفظوں کی یہ لُکن میٹی تاعمر چلتی ہے، دھوپ چھاؤں کا کھیل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اسی لیے کبھی کبھی تو پوبارہ ہو جاتے ہیں لیکن اکثر تین کانے ہی نکلتے ہیں۔

سنا ہے اقبال پر اشعار اُترا کرتے تھے۔ جب میرے جیسے بھکاری یہ سنتے ہیں تو خود کو اقبال نہیں تو اس کے آس پڑوس کی کوئی چیز سمجھ کر لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن لفظ رُوٹھے ہوں تو خالی کاغذ منہ چِڑاتا رہتا ہے۔ چار حرف جُڑ بھی جائیں تو معنی سے خالی، بے روح ڈھانچے وجود میں آتے ہیں۔ ذہن و دل میں جو کچھ کہنے کی تمنا ہوتی ہے اس کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ جب لکھنا بھی ہو اور لفظ نہ ملیں تو اندر مانو آرے چلتے ہیں، بن پانی کے مچھلی کے کلیجے پر بھی شاید ایسے ہی آرے چلتے ہوں گے۔ جہاں کچھ بھی نہ ہو، کوئی ہریاول نہ ہو، بنجر بیابان ویرانہ ہو، وہاں سے بھلا چشمہ کیسے پھُوٹے؟ جب زبردستی چشمہ نکالنے کی کوشش کرو تو پھر یہی کچھ ہو گا۔ خلا میں سانس لینے سے بھلا آکسیجن تو نہیں مل جائے گی نا۔

بے بسی، بے کسی، کم مائیگی، کونسا احساس ہے جو اس تڑپن میں شامل نہیں ہوتا۔ اور جب لکھنا کسی ایسی ہستی کے بارے میں ہو، کہ جس کے بارے میں لکھنے میں لوگ فخر محسوس کریں، اور شاکر جیسے کمی کمین بھی ان ﷺکے مدح خوانوں میں نام لکھوانا چاہیں، لیکن لفظ نہ ملیں۔ دل کا مُدعا زبان پر آنے سے پہلے ہی آنسوؤں کے راستے بہ نکلے۔ تو ایسی بے بسی اور بے کسی کو کیا نام دیا جائے۔ حسان بن ثابتؓ سے لے کر آج تک ان کے جتنے مدح خواں ہوئے، کتنے خوش نصیب لگتے ہیں۔ اور پھر اپنے جلے نصیبوں پر نگاہ جاتی ہے تو اور رونا آتا ہے۔ آنسو اور اُبل پڑتے ہیں۔ محمد الرسول اللہ ﷺ کی شان میں لکھنے والے کتنے خوش نصیب ہیں۔ شاعر ان کی شان میں شعر کہتے ہیں، کتنے خوبصورت شعر کہتے ہیں۔ شاکر جیسے کمی کمین شعر نہیں کہہ سکتے تو نثر کے چار لفظ بھی نہیں لکھ پاتے کہ ان کی اتنی اوقات نہیں ہے۔ رحمتِ ایزدی کی آس میں نظریں ہر بار خالی لوٹ آتی ہیں، کاسہ لفظوں سے خالی ہی رہتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ صرف سسکیاں باقی رہ جاتی ہیں۔ اور حسن نثار پر رشک آتا ہے۔

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا
سانس تُو لیتا اور میں جی اُٹھتا
کاش مکہ کی میں فضا ہوتا
خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی
اور تیرے پاؤں چومتا ہوتا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔