جمعرات، 21 جنوری، 2016

ایک سانحہ اور

آج صبح ناشتے کے دوران ہی فیس بک پر یہ خبر نظر آ گئی تھی۔ یہ واقعہ ہوئے بھی چار گھنٹے بیت چکے تھے۔ اس کے بعد سارا دن اندر کھُد بُد لگی رہی اور ہر کچھ دیر بعد موبائل پر بی بی سی اردو یا ایکسپریس پی کے کھل جاتی اور اب رات ہو چکی ہے۔ میرے سامنے بھانت بھانت کے لوگ بھانت بھانت کی باتیں کر کے اپنے اپنے بستروں میں جا چکے ہیں۔ آپریشن کے بعد جامعہ کو کلیئر قرار دیا جا چکا ہے۔ شہداء کے لواحقین پر قیامت کا سماں ہے۔ دہشت گرد چار بندے مروا کر بھی جشن کی کیفیت میں ہوں گے۔ میرے ملک کی سلامتی کے ذمہ دار بھی لکیر پیٹ چکے ہیں، کھرا نکالنے کے بیانات دے چکے ہیں۔ اور میں یہاں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کیا لکھوں؟ میں ایک استاد ہوں۔ زندگی کے تین عشرے جس ایک کام کے لیے محنت کی وہ کسی جامعہ میں تدریسی عہدے کا حصول تھا۔ جب واپس جاؤں گا تو تدریس میرا اوڑھنا بچھونا ہو گی۔ تو میں یہ سوچ رکھوں کہ باچا خان یونیورسٹی کے دو پروفیسروں اور طلبہ کی طرح دہشت گرد میرے بھی منتظر ہوں گے؟ وہ میری یونیورسٹی کی دیواریں پھلانگ کر میرے بچوں کو میرے سامنے گولیاں مارنے چلے آئیں گے؟ کیا مجھے پی ایچ ڈی کے ساتھ ان سے نمٹنے کی ٹریننگ بھی لینی ہو گی؟

میں بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں۔ میرے وطن میں نصف رات گزر چکی ہے اور میں یہاں اتنی دور بیٹھا ایسی ہی لایعنی باتیں سوچ رہا ہوں۔ کہ میرے وطن میں استاد کی کوئی اوقات تو نہیں رہی تھی اب اس کو جینے کا حق بھی نہیں ملے گا؟ میرے وطن میں تعلیم تو پہلے ہی نایاب تھی جو پڑھنا چاہتے ہیں گولیاں ہی ان کا مقدر رہیں گی؟ میں بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں۔ میری آنکھیں خشک ہیں، میرا دل سرد صحرا ہے جس میں دور دور تک کوئی سوچ نہیں ابھرتی۔ بس اس طرح کے سینکڑوں سوال بگولوں کی طرح چکراتے پھرتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔