ہر کربلا کے بعد، ہر سانحے کے بعد، ہر گلشن اجڑ جانے کے بعد میں جو ایک پیشہ ور نوحہ گر ہوں بیٹھتا ہوں، نوحہ لکھتا ہوں۔ میں جو ایک پیشہ ور عزا دار ہوں، سینہ پیٹتا ہوں۔ ہر قیامت گزرنے کے بعد گریبان چاک کیے گلیوں میں مرثیے پڑھتا پھِرتا ہوں۔ ہر بار میرا دل کرتا ہے کاش میں اُن ﷺ کے قدموں میں جا کر بیٹھ سکتا۔ اُن ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر، اُن ﷺ کے سامنے بیٹھ کر رو رو کر پگھل جاتا۔ اُنھیں بتاتا کہ
سیدی ﷺ میرا وطن لہو لہو ہے۔
سیدی ﷺ، آپ کے نام لیواؤں نے ایک دوسرے پر زمین تنگ کر دی ہے۔
سیدی ﷺ میرے وطن میں بہار اُترے تو وہ بھی خزاں میں بدل جاتی ہے۔
سیدی ﷺ جہاں میرے نونہالوں کے گلشن ہونا تھے وہاں بارود اور موت کا راج ہے۔
سیدی ﷺ جہاں گلابوں کی کیاریاں ہونی تھیں وہاں خون کی سرخی کے کیارے ہیں۔
سیدی ﷺ اب تو لگتا ہے کہ نیلی چھتری والے نے بھی ہم سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔
سیدی ﷺ آنکھیں رو رو کر صحرا ہو گئیں لیکن رحمت کی بارش نہیں برستی۔
سیدی ﷺ لگتا ہے کہ دعائیں بھی آدھ رستے سے واپس لوٹ آتی ہیں۔
سیدی ﷺ میں لاشے اُٹھا اُٹھا کر تھک گیا ہوں۔
کاش میں ان ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو سکوں۔ ان ﷺ کے سامنے رو رو کر پگھل جاؤں، ان ﷺ کے پیروں کی خاک ہو جاؤں ۔ کاش رنج و الم کی یہ گٹھڑی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بھاری ہوتی چلی جاتی ہے، میں انﷺ کے سامنے لےجا کر رکھوں، انھیں ایک ایک زخم کھول کھول کر دکھاؤں۔ کاش مالک مجھ پر یہ کرم کر دے کہ میں اُن ﷺ کے سامنے حاضر ہو سکوں۔ اور عرض کروں کہ سیدی ﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے، ہم سے آسمان والا روٹھ گیا، ہماری سفارش کیجیے۔ سیدی ﷺ ہمیں کالی کملی کے سائے میں چھُپا لیجیے۔
جزاک اللہ - آقا ﷺ کا کرم تو اپنوں پہ بھی ہے غیروں پربھی وہ رحمت العالمین ہیں ان کی نظرِ کرم سے اُمت کیونکرمحروم رہے گی - یہ آزمائش کی گھڑی ان شاءاللہ جلد گذر جائے گی - یہ غم قیامت کے ہیں ننھے پھولوں کالہو اتنا پاک ہے کہ رحمت خداوندی جوش میں آئے گی ضرور آئے گی
کرب اپنی جگہ مگر مایوسی کفر ہے۔ آپ جیسے لوگ بھی رونے لگیں گے تو چپ کون کروائے گا؟ مرہم کون رکھے گا؟ امید کون دلائے گا؟ قوت کون بخشے گا؟
جواب دیںحذف کریںہماری آپ سے درخواست ہو گی کہ اپنے قلم کی قوت کو انکار کی بجائے اثبات کے لیے استعمال فرمائیے۔ مرثیے کی بجائے رجز لکھیے۔ اسی کی ہمیں ضرورت ہے۔
شاد باشید۔