شہر تھا، نہروں کا شہر ایمسٹرڈیم۔ جال تھا، ایک دوسرے کو کاٹتی ہر طرف کو بڑھتی چلی جاتی سڑکوں کا جال۔ مشینیں تھیں، سڑکوں پر دوڑتی ان گنت مشینیں۔ عمارتیں تھیں، قطار اندر قطار کھڑی چھوٹی بڑی قدیم اور جدید عمارتیں۔ وجود تھے، دو ٹانگوں والے ہزاروں وجود، آپس میں مگن چلتے رکتے چہلیں کرتے وجود۔ اور ایک مسافر تھا، تنہا مسافر۔
پانی تھا، گدلا سبزئی پانی۔ بجرے تھے، کشتیاں تھیں اور گھر تھے۔ ان میں آنکھیں تھیں، متجسس آنکھیں، مگن آنکھیں، ٹٹولتی آنکھیں، کچھ ڈھونڈتی آنکھیں۔ جنگل تھا، کنکریٹ کا جنگل، آپس میں مگن، بے نیاز عمارتوں کا جنگل۔ اور ایک مسافر تھا، بے قرار مسافر۔
آسمان تھا، سرمئی چادر اوڑھے نیم روشن آسمان۔ ہوا تھی، سرد اور بے پرواہ ہوا۔ سورج تھا، بادلوں کی اوٹ میں چھپا شرمندہ سا سورج۔ درخت تھے، پتوں سے عاری ٹنڈ منڈ درخت۔ اور ایک مسافر تھا، اجنبی مسافر۔
بستی تھی، سرخی میں ڈوبی ایک بستی۔ پنجرے تھے، شیشے کے پنجرے۔ مال تھا، غازے میک اپ سے سجا مال، جوان بوڑھا خوبصورت بھدا مال۔ چہرے تھے، تاثرات سے عاری چہرے، لُبھاتے بُلاتے چہرے۔ نگاہیں تھیں، ہوس ناک نگاہیں، کھا جانے والی نگاہیں۔ اور ایک مسافر تھا، سزا جزا نیکی بدی کے بیچ معلق مسافر۔
رات تھی، سیاہ رات۔ روشنیاں تھیں، ہر طرف سے پھُوٹتی روشنیاں، دعوت انگیز روشنیاں۔ رنگ تھے، چمکیلے بھڑکیلے رنگ۔ اجنبیت تھی، زمین سے اُبلتی اجنبیت۔ تنہائی تھی، لامتناہی تنہائی۔ اور ایک مسافر تھا، سرگرداں مسافر۔
یوں تو پوری تحریرلاجواب ہے لیکن چوتھا پیراگراف سب پہ بھاری -ماحول کی اُداسی اور اجبیت کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے -
جواب دیںحذف کریں