یہ وسطی پنجاب کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں سے ہم باہر نکل رہے ہیں۔ نہر کا پُل پار کرتے ہی بائیں طرف کو ایک سڑک مُڑتی ہے۔ چھ سات فٹ چوڑی یہ سڑک جو پچھلی سے پچھلی سرکار نے بنا کر دی تھی اب عمر کے اس حصے میں ہے کہ ہموار چلتے چلتے اچانک غوطہ کھا جاتی ہے۔ کہیں سے تارکول اور بجری اڑ گئی ہے، کہیں سے پتھر بھی داغِ مفارقت دے گیا ہے اور وہاں ایک گھاؤ منہ پھاڑے اپنے شکار کا منتظر ہے۔ اور اگر سڑک سے بے وفائی کر کے کچے میں نہ اترا جائے تو اس کی بوڑھی ہڈیوں کا درد جیسے سواری سے ہوتا ہوا سوار کے اندر تک اترتا چلا جاتا ہے۔ کچھ دیر نہر کے ساتھ چلنے کے بعد سڑک دائیں مڑ کر اس سے جدا ہو جاتی ہے۔ دونوں جانب کھیت ہیں اور بیچ میں یہ ادھڑی ہوئی پٹی جس پر سواری چلتی جاتی ہے۔ کچھ دور جا کر یہ ٹکڑا ختم ہوتا ہے تو ایک نسبتاً نیا ٹکڑا شروع ہو جاتا ہے جو موجودہ صوبائی سرکار کے ازحد کرم کا نتیجہ ہے۔ سواری کچھ تیز ہوتی ہے اور پھر پنجاب کے دیہی علاقوں کا منظر ابھرنے لگتا ہے۔ درمیان سے گزرتی سڑک، ایک جانب اسکول، دوسری جانب دوکانیں اور پنجاب کی مٹی کے رنگ جیسے گندمی لوگ، جنہیں اب ایسی سواریاں دیکھنے کی عادت ہو گئی ہے۔ کچھ برس پہلے تک جہاں فصلیں تھیں اب وہاں کچی گلیاں اور پکی اینٹوں سے اٹھائی کچی دیواروں کے مکان کھڑے ہیں۔ یہ مکان بھی لیکن کچھ دیر بعد ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور کھیت منظر میں واپس چلے آتے ہیں۔ سڑک چلتی جاتی ہے اور سڑک کے ساتھ سواری اور سوار، اور پھر چلتے چلتے کچھ کہے سنے بغیر وہ سڑک کو چھوڑ کر ایک اور دیہے کی جانب مُڑجاتے ہیں۔ سڑک کو شاید ایسی الوداعی ملاقاتوں کی اب عادت ہو گئی ہے، وہ کچھ کہے بغیر آگے بڑھ جاتی ہے اور سوار پکی اینٹوں والی کچی گلیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ سواری رکتی ہے، اور سوار اتر تے ہیں۔ تیس کے قریب پہنچتی عمر کے دو جوان اور بڑھاپے کی دہلیز میں داخل ہو چکی ایک خاتون۔ پکی اینٹوں لیکن گارے کی کچی دیواروں سے بنے مکان کا دروازہ کھلتا ہے اور ہم اندر داخل ہوتے ہیں۔ ایک طویل گلی ہے، جس کے بعد ایک مختصر سا کچا قطعہ اور پھر پکی اینٹوں کا فرش ہے۔ ایک طرف بیری کا درخت چھاؤں کیے ہے دوسری طرف بوڑھی کنیر کا پھولدار درخت ہے۔ اور ان کی چھاؤں میں ایک ہڈیوں بھرا وجود، جس میں آنے والوں کو دیکھ کر جیسے زندگی بھر گئی ہے، دئیے کی سی ٹمٹماتی آنکھوں میں روشنی جاگ اٹھی ہے ، چارپائی سے اٹھنے کے لیے کوشاں ہے۔ اپنی بیٹی کے بیٹوں کو پیار دیتا ہوا ، اپنی بیٹی سے ملتا ہوا یہ وجود میری نانی اماں، میری ماں کی ماں جن کے توانائی بھرے، متحرک وجود کی یادیں میرے ذہن کی تختی پر کندہ ہیں، اور آج ان کا وجود کتنا اجنبی ہو گیا ہے۔ جیسے اصل کا صرف سایہ باقی رہ گیا ہو۔
بیس برس پیچھے چلتے ہیں۔ وہی مکان ہے، ویسی ہی لمبی گلی ہے، صحن ابھی کچا ہے، تین کمروں کے سامنے ابھی برآمدہ تعمیر نہیں ہوا، کنیر ہے لیکن بیری ابھی نہیں ہے، ایک سایہ دار دھریک کا درخت گرمیوں کی اس شام اندھیرے میں سیاہ وجود سمیت کھڑا ہے۔ کچے صحن میں چارپائیاں بچھی ہیں اور ایک طرف ایک بوڑھا وجود لیٹا ہے۔ اور اس کے قریب چند جوان مرد اور بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی ایک خاتون، اس سے محوِ کلام ہیں۔ بوڑھا وجود میری والدہ کی دادی اور ان کی بیٹی اور ان کے بچے، جنہیں دیکھ کر اس بوڑھے کی وجود کی آنکھوں میں بھی روشنی اترتی ہو گی، جن کے قدموں کی چاپ پر وہ بھی اٹھ بیٹھنے کو بے تاب ہوتی ہوں گی، جن کے چلتے پھرتے، متحرک اور توانائی بھرے وجود کی یادیں ان جوان بچوں کے ذہنوں میں بھی نقش ہوں گی۔
حال میں واپس آتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایک تصویر زیرِ گردش ہے، ایک بوڑھا وجود، چارپائی پر غربت اور پیرانہ سالی کی چادر تلے چھپے ایک اور بوڑھے وجود کے ہمراہ ہے۔ ایک اور تصویر میں وہ اسے کھینچتا ہوا لے جا رہا ہے۔ کسی نے یہ تصویر شیئر کر رکھی ہے، کسی نے اس کے نیچے سرکار کو گالیاں لکھ رکھی ہیں۔
تین منظر ہیں، لیکن کردار یکساں ہیں پیرانہ سالی، دکھ، بے کسی، لاچاری، محتاجی۔ کہیں یہ لاچاری اولاد نے کچھ سنبھال رکھی ہے کہیں ہسپتالوں اور سڑکوں پر رُل رہی ہے۔ اور دیکھنے والی آنکھ جب یہ سب کچھ دیکھتی ہے تو پالنے والے سے اپنے اور ان کے لیے پناہ اور رحم مانگتی ہے۔ ان کے آخری دن آسان کرنے کی دعا مانگتی ہے۔ کریم نے اپنے آخری نبی ﷺ کو یہ دن دیکھنے سے پہلے اپنے پاس بلا لیا، بڑھاپے کی لاچاری سے محفوظ رکھا۔ لیکن جو بوڑھے ہو جاتے ہیں وہ اپنی جان تو نہیں لے سکتے۔ انہیں تو لکھی ہوئی زندگی گزارنا ہے۔ یہ زندگی کیسے گزرے گی، ترس ترس اور سسک سسک کر یا کچھ آسانی کے ساتھ، آج حضرتِ انسان کو ٹیکنالوجی اور ایجادات نے جو سہولیات مہیا کر دی ہیں ان کے استعمال سے یا چارپائی پر پڑے اولاد یا سرکار کی طرف دیکھتے ہوئے، معذوری کی حالت میں۔ چند دن قبل ایک خبر نظر سے گزری کہ جرمن آمر ہٹلر کے پراپیگنڈہ وزیر گوئبلز کی سیکرٹری 106 برس کی عمر میں انتقال کر گئی۔ یہ مائی اتنا عرصہ جی، سوال اٹھا کہ کیا ایسے ہی جی ہو گی جیسے میرے وطن میں بزرگ جیتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ جرمنی اور جاپان جیسے ممالک میں بزرگوں کو یقیناً ایسی سہولیات حاصل ہیں کہ ان کی آخری عمر ہر ممکن حد تک آرام دہ گزرتی ہے۔ لیکن میرا ملک تو جوان اور بچوں کی صحت کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے، کُجا بزرگ۔ کوئی گلہ شکوہ شکایت نہیں ہے، کوئی تجویز مشورہ حل بھی نہیں ہے۔ بس ایک خواہش ہے، کاش کہ رب اتنی توفیق دے دے، کہ ان بزرگوں کی بہتری کے لیے کچھ کیا جا سکے۔ کاش کوئی ایسا سلسلہ بن جائے کہ ان کی زندگیوں کو آرام دہ بنایا جا سکے۔ بس ایک خواہش ہے۔
میاں جیتے رہو تم نے تو آنکھیں دھندلادیں ، مجھے اکثر لوگوں سے یہ بحث کرنی پڑتی ہے بوڑھے لوگوں کو غذا اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی ان کو نہیں دی جاتی ذائقے چسکے نہ سہی ایک متواز غذا تو ان کا حق ہے -
جواب دیںحذف کریںبہت کمال تحریر ہے، پڑھ کر سوچ کی نئے دریچے کھلے ہیں۔
جواب دیںحذف کریں