بچپن میں آٹا فریج میں پڑا خمیرہ ہو جاتا یا والد صاحب کی ناشتے کی ریڑھی سے روٹیاں اور سالن بچ کر آیا ہوتا تو والدہ یا والد صاحب ہی ایسے آٹے کی روٹیاں یا ایسا کھانا کھایا کرتے تھے۔ میں ہر بار نخرہ کر جاتا تھا۔ باسی ہونے کی ہمک مجھے پہلے نوالے سے محسوس ہو جاتی اور کھانا چھوڑ کر اٹھ جاتا۔
آج تربوز کو ایک طرف سے گرنے کی وجہ سے دب لگی دیکھی تو کاٹ کر پھینکنے کی بجائے چکھتے ہوئے والدہ کی بات یاد آ گئی جو وہ میرے منہ بنانے پر کہا کرتیں۔ شاکر تیرا نک ای بڑا اُچا اے۔ اور پھر چکھ کر کہتیں، بڑا سوووہنا ذایقہ اے۔ کچھ ایسی ہی بات والد صاحب کے منہ سے ایسا کھانا کھاتے وقت نکلا کرتی تھی۔ آج مجھے بھی ذایقہ بڑا سوووہنا لگا، اس لیے بظاہر خراب نظر آنے والا تربوز بھی کافی سارا کاٹ کر کھانے کے لیے برتن میں ڈال لیا۔ آج مجھے باسی پن کی ہمک نہ آئی۔ رب جانے کیوں!
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
کچھ باتیں دیر سے سہی لیکن وقت سمجھا دیتا اور ان کی قدر بھی سیکھا دیتا ہے بس ہم سمجھنے ، سیکھنے اور قدر کرنے والے ، سرجھکانے والے ، شکرکرنے والے بنیں
جواب دیںحذف کریںمختصر لیکن بڑی پُراثربات لکھ دیں بھائی آپ نے - سر پہ چھاؤں ہو گھنیرے درخت ہوں تو نخرے بھی ہوتے ہیں ضدیں بھی - رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا