جمعہ، 19 جون، 2009

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد

رنگے برنگے آنچل، ہنستے ہوئے چہرے، چہرے پر دبی دبی سی مسکراہٹیں لیے جوڑے، یہ جی سی یو ایف ہے۔ فیصل آباد کی دوسری پبلک سیکٹر یونیورسٹی۔ یہاں جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے بعد سب سے زیادہ داخلے کی درخواستیں آتی ہیں۔

جی سی یو ایف ان جامعات میں سے ہے جنھیں ڈاکٹر عطاء الرحمن کی بدولت کالج سے یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ 2001 میں بننے والی یہ جامعہ ابھی تک اپنی تشکیل کے عمل میں لگتی ہے۔ اساتذہ کا انداز فکر، انتظامیہ کے رویے، طلباء کا انداز سب کچھ ایسے لگتا ہے جیسے ابھی بالغ ہوتے ہوتے دس سال اور لے جائے گا۔

جامعہ کے پاس ذرائع کی کمی ہے۔ پچھلے وائس چانسلر صاحب کے جانے کی ایک وجہ بدعنوانی کے الزامات بھی تھے۔ غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق پندرہ کروڑ روپے کا چونا یونیورسٹی کو لگایا جاچکا ہے۔ لیفٹیننٹ ریٹائر خالد محمود نے اس جامعہ کا پرانا طالب علم ہونے کا حق ادا کیا اور جب تک ان کی گورنرشپ رہی جامعہ کو کبھی فنڈز کی کمی نہ پیش آئی۔ بلکہ مشرف دور تک ایچ ای سی ہر جامعہ پر پیسے لٹاتا رہا۔ سیاسی حکومت کے آتے ہی ایچ ای سی خود دیوالیہ ہوگیا اس نے جامعات کو کیا دینا تھا۔ ہمارے زیر تعمیر بلاکس رک گئے اور یونیورسٹی کو خرچہ پورا کرنے کے لیے ایک غیر رسمی سمسٹر شروع کرنا پڑا۔ خیر فنڈز کا کچھ مسئلہ تو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے آنے سے حل ہوا ہے اور اب تعمیر کے رکے ہوئے کام پر سے جاری ہیں۔ لیکن جامعہ کے مالی حالات اب بھی دگرگوں ہیں۔

اورسونے پر سہاگہ: آپ کی جامعہ میں اخلاقی اور مذہبی حدود کو پامال کیا جارہا ہے۔ آپ کو وارننگ دی جاتی ہے اس کو کنٹرول کریں۔ منجانب طالبان پنجاب۔


کوئی دو ماہ پہلے یہ خط وی سی کو ارسال کیا گیا اور تب سے جامعہ کی سیکیورٹی انتظامیہ کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ جامعہ کے چھ گیٹس ہیں جن میں سے چار فوری طور پر بند کروا دئیے گئے۔ گیٹ نمبر ایک پیدل کے لیے اور نمبر دو گاڑیوں کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ پارکنگ عمارات کے ساتھ سے ختم کردی گئی۔ طلباء جن کے جامعہ کے کارڈ ابھی تک نہیں بنے تھے انھیں عارضی کارڈز بنا کر دئیے گئے۔ بقول ہمارے وی سی ہمیں تین قسم کی کرپشن کا سامنا ہے۔ اخلاقی، مالی اور تدریسی۔ اس سارے کا نتیجہ یہ کہ ہم پر اخلاقیات ٹھونسی جارہی ہیں۔ طلباء کلاسز کے بعد ایک گھنٹے سے زیادہ بیٹھ نہیں سکتے۔ جہاں کہیں کوئی جوڑا بیٹھا ہوگا اس کو سیکیورٹی کے جوان یا ڈسپلن کمیٹی کے ممبر اساتذہ رپورٹ کریں گے۔
میں جامعہ کا طالب علم ہوں۔ بطور طالب علم اس ساری صورت حال میں بہت ان ایزی محسوس ہوتا ہے۔ آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کہیں بیٹھ نہیں سکتے۔ لائبریریز ہماری الا ماشاءاللہ ہیں کہ دو میز ہیں اور اٹھارہ کلاسز ہیں تو وہاں کیا بیٹھیں۔ ہمارے پاس کمروں کی کمی ہے چناچہ بی اے آنرز کی کلاسیں ماسٹرز کی کلاسوں کے ساتھ ملا کر پڑھائی جاتی ہیں۔ صبح نو سے دوپہر تین تین بجے تک انھیں صرف چار کلاسیں پڑھنے کے لیے رکنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں ان سے یہ مطالبہ کہ لان میں نہ بیٹھو، کاریڈور میں نہ بیٹھو اور مکسنگ نہ کرو۔۔۔۔۔ طلباء چکی کے دو پاٹوں میں آئے ہوئے ہیں جیسے۔
پتا نہیں شاید یہی اخلاقیات ہے کہ لڑکا لڑکی ساتھ نہ بیٹھیں چاہے وہ ہم جماعت ہی کیوں نہ ہوں، یا وہ ایک دوسرے سے ہنس کر بات نہ کریں، یہ ایک دوسرے کے ساتھ آتے جاتے نظر نہ آئیں۔ شاید یہی اخلاقیات ہیں لیکن بطور طلباء ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ایسا ہونا روک بھی دیا جائے تب بھی ایسی "گنجائشیں" ختم نہیں ہوجاتیں۔ ساتھ بیٹھنے پر پابندی کے باوجود لوگ ساتھ بیٹھتے ہیں اور گھنٹوں بیٹھتے ہیں۔ لوگ لائبریری میں بیٹھ کر دل پشوری کرلیتے ہیں۔ اور بدنام پوری کمیونٹی ہورہی ہے۔ ہم کلاس روم سے متعلقہ گفتگو بھی ساتھ بیٹھ کر نہیں کرسکتے۔ عجیب حالات ہیں آج کل۔
میرے خیالات اس موضوع پر بڑے کنفیوژ سے ہیں۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہاں سے شروع کروں اور کہاں پر ختم کروں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کل بطور طلباء ہم اچھی خاصی ٹینشن میں ہیں۔ ہماری جامعہ کے مالی اور انتظامی حالات، اب سیکیورٹی حالات ان سب نے مل کر ایسا تاثر پیدا کردیا ہے کہ ہم کسی سکول کے طلباء ہیں جامعہ کے نہیں۔ ہماری جامعہ میں انتظامی رسہ کشی، عہدوں پر اجارہ داریاں، سفارشیں، ناجائز اور ڈھٹائی کی حد تک پہنچی ہوئی تقرریاں (ایم اے پاس ٹیچر رئیس شعبہ ہیں اور ان کے نیچے تین پی ایچ ڈی ہیں۔ خود سوچ لیں کہ کون حقدار ہے ڈاکٹر یا ایم اے؟ یہ ایک مثال ہے صرف)، پاکستان کی طرح کے غریب حالات، شعبہ جات کے مابین رسہ کشی، وسائل کی عدم دستیابی۔۔۔ اس سب نے مل کر عجیب سماں باندھ رکھا ہے۔ اور ہم اس سماں میں بیٹھ کر پڑھتے ہیں، دبی دبی سی ہنسی بھی ہنس لیتے ہیں، چوری چوری کنٹین پر بھی چلے جاتے ہیں، سیکیورٹی والوں کے ڈر کے باوجود کہیں بیٹھ کر اکٹھے کھانا بھی کھا لیتے ہیں اور پڑھائی پر گفتگو بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن ڈرتے ڈرتے۔۔۔۔۔۔

پیر، 15 جون، 2009

حساب برابر

سپریم کوڑت کے حکم پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں ہونے والی کمی کس خوبصورتی سے واپس لی گئی ہے۔ سبحان اللہ اس فنکاری پر۔
اسلام آباد۔ وزیر اعظم کے مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ کاربن سر چارج کی مد سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو 1کھرب34 ارب روپے کے محصو لات حاصل ہونے کی توقع ہے ۔ یہاں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایل کی جگہ ماحول دوست پالیسی کو فروغ دیتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات پر 3سے 14روپے فی لیٹر کا ربن سر چارج لگایا گیا ہے ۔ کاربن سرچارج کی مد میں ھائی سپیڈ ڈیزل آئل پر 8روپے فی لیٹر ، موٹر سپرٹ پر 10 روپے فی لیٹر ، ایس کے ایس او پر 6 روپے فی لیٹر ، لائٹ ڈیزل پر 3 روپے ، ایچ او بی سی پر 14 روپے اور سی این جی پر 6 روپے فی لیٹر کے حساب سے وصول کیا جائے گا

اتوار، 14 جون، 2009

بجٹ بیتیاں

لو جی بجٹ تشریف لاچکا ہے۔ سنا ہے ٹیکس فری ہے۔ لیکن حقیقت آپ میں سب ہی جانتے ہیں کہ ٹیکس فری کہاں تک ہے اور ٹیکس کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ دوسروں کی کیا کہیے صاحب ہمیں تو اپنا اتنا پتا ہے کہ پہلے یوفون کے 500 ایس ایم ایس والے پیکج سے مہینہ گزر جاتا تھا۔ اب اس پر فی میسج 20 پیسے ایس ایم ایس سے یہ رقم ساٹھ سے ایک سو ساٹھ ہوجائے گی۔ سادہ میسج آن نیٹ ستر پیسے کے قریب کا تھا جو اب نوے کا ہوجائے گا اور آف نیٹ سوا روپے کے قریب کا تھا اب ڈیڑھ کا ہوجائے گا۔ ہاں اس سے اتنا فائدہ ہوگا کہ یار لوگ کھانسی کی اطلاع بھی میسج پر دینے لگے تھے اس سے باز آجائیں گے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟

ہفتہ، 13 جون، 2009

اردو لسانیات

آج کل ہم اردو کے بارے میں بڑی سنجیدگی سے غور و فکر فرما رہے ہیں۔ اگرچہ اپنا تھیسز ہم انگریزی پر ہی کریں گے لیکن اردو پر اس کے علاوہ تحقیق کا ارادہ ہے۔ لسانیات میں ہمارا میدان کارپس ہے۔ ڈیٹا کو ٹیکسٹ فائلوں میں اکٹھا کرو اور اس کے بعد اس پر جو چاہے عمل کاری کرو۔
اردو کے سلسلے میں وسائل ابھی بہت محدود ہیں۔ ہمارے پاس اردو کا کوئی مناسب کارپس ہی موجود نہیں۔ کرلپ والے ایک کارپس مہیا کررہے ہیں جو شاید بیس ہزار الفاظ کے قریب ہے۔ لیکن یہ کارپس انگریزی سے ترجمہ کیا ہوا لگتا ہے۔ انگریزی اردو نیبالی متوازی کارپس منصوبے کا حصہ یہ کارپس ہمارے ذاتی خیال میں اردو کے اہل زبان سے حاصل کردہ ڈیٹا کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس کے مترجمین دس بارہ بھی ہوں تو بھی اردو کے فورمز یا بلاگز سے ڈیٹا حاصل کرنے کی صورت میں ہمارے پاس بہت زیادہ ورائٹی ہوگی۔ پچاس یا اس سے بھی زیادہ کی آبادی سے ڈیٹا حاصل کرنے سے بہت سی ایسی چیزیں سامنے آئیں گی جو اس کارپس پر تحقیق سے نہیں آسکتیں۔ مثلًا ہم انگریزی الفاظ کا بالکل بھی خیال نہیں رکھتے۔ اور اردو کے ساتھ انجانے میں رج کے کھلواڑ کرتے ہیں۔ اس سب کو سٹڈی کرنا بڑا دلچسپ کام ہے۔
کارپس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ٹیکسٹ اکٹھا کرکے رکھ لیں۔ اس کے بعد ہمیں اس کو کچھ مزید مراحل سے بھی گزارنا پڑتا ہے۔ اس کو اینوٹیشن Annotation کہا جاتا ہے۔ یعنی ہم کارپس کو مختلف انداز سے ٹیگ کرتے ہیں۔ جیسے ایچ ٹی ایم ایل کے ٹیگز ہوتے ہیں۔ اردو کا ٹیگ شدہ کارپس آپ کرلپ کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ گرامر کے لحاظ سے ٹیگ شدہ ہے جس میں ہر لفظ کے ساتھ لگا ٹیگ یہ بتاتا ہے کہ اس کا گرامر کے لحاظ سے کونسا زمرہ ہے، اسم، فعل، حرف جار وغیرہ وغیرہ۔
کرلپ کا کا کارپس ہاتھ سے ٹیگ شدہ ہے۔ جسے دو ماہرین لسانیات نے گھنٹوں کی محنت سے ٹیگ کیا۔ یہ طریقہ کار محدود مقاصد کے لیے تو بہترین ہے اور اس میں درستگی کی شرح بھی سو فیصد ہے لیکن ہر بار یہی کام کرنا بہت دشوار ہے۔ یہ بہت زیادہ وقت طلب کام ہے۔ میں اگر ایک لاکھ الفاظ کا کارپس بنانے کی سوچ رہا ہوں تو اس کو ٹیگ کرنا بہت بڑا مسئلہ ہوجائے گا جبکہ میرے پاس وقت کی بھی کمی ہے اور مالی وسائل کی بھی کہ دوسروں کو معاوضے پر اس کام کے لیے مہیا کرسکوں۔ ایسی صورت میں ہم مشین ٹیگنگ کی بات کرتے ہیں۔ انگریزی اور دنیا کی دوسری زبانوں میں اس سلسلے میں بہت ترقی کی ہے۔ انگریزی کے لیے ہمارے پاس درجن بھر ٹیگرز دستیاب ہیں۔ جبکہ اردو کے لیے ابھی تک صرف ایک ٹیگر دستیاب ہے۔ اس ٹیگر کی صلاحیت بھی محدود ہے۔ دس ہزار الفاظ کے ایک کارپس پر اسے ٹیسٹ کیا گیا جہاں اس نے ستانوے فیصد درستگی دکھائی۔ یہ کرلپ کے ہی ایک طالب علم کا ایم ایس کا پروجیکٹ تھا۔ 2007 میں مکمل ہونے والا یہ سافٹویر مزید اپڈیٹ نہیں کیا گیا۔ اس کارپس کو مزید ڈیٹا پر ٹریننگ کی ضرورت ہے اور اس کی ڈیٹابیس کو مزید بڑا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ عمومی مقاصد تحقیق کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوسکے۔
اس سلسلے میں ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو ڈیٹا کی کلیکشن، اس کے ذریعے اردو ٹیگر کو ٹریننگ دینا۔ اس کی خامیاں اور نقائص دور کرنا وغیرہ۔ بہت سارے کام ہیں جو میں اکیلا نہیں کرسکتا۔ وقت کی کمی اور میری پروگرامنگ صلاحیتوں کا محدود ہونا اس کی بڑی وجہ ہیں۔
متعلقہ روابط اوپر تحریر میں موجود ہیں۔ احباب اگر اس سلسلے میں کوئی مدد کرسکتے ہوں تو کیا ہی بات ہے۔ اس سلسلے میں ڈیٹا کیلکشن کی ذمہ دار میں لے سکتا ہوں۔ اردو فورمز، بلاگز، نیوز سائٹس اور اخبارات کی ویب سائٹس سے ڈیٹا اکٹھا کرکے اس کی کانٹ چھانٹ کرنا میرا کام ہے۔ لیکن اس کے بعد ٹیگر کے پروگرامنگ مسائل کے حل کے لیے مجھے راجہ نعیم اور محترم نبیل حسن نقوی جیسے احباب کا تعاون درکار ہوگا۔ اس پروگرام کے سورس کوڈ کے لیے بھی ڈاکٹر سرمد سے درخواست کروں گا امید ہے وہ مہیا کردیں گے۔ اگر اس کو ڈویلپ کرنے والے صاحب سے رابطہ ہوجائے تو موج ہی ہوجائے۔

پیر، 1 جون، 2009

تیرا ککھ نہ رہوے

اردو محفل پر جنرل موٹرز کے دیوالیہ کی خبر تھی۔ ایک دوست نے وہاں بدعا دی ہوئی تھی اللہ کرے جنرل موٹر دیوالیہ ہو ہی جائے۔
یہ اور ایسی اور جنرل سی بددعائیں دینا آج کل پاکستانیوں کا شیوہ ہے۔ بدعائیں چلتے پھرے، بددعائیں اٹھتے بیٹھتے اور بددعائیں نماز کے بعد۔ مولا یہ کردے مولا وہ کردے مولا ان کا ککھ نہ رہے۔
اتنی ساری بدعاؤں کے بعد مجھے لگنے لگا ہے کہ ہم مرد نہیں زنخے ہوچلے ہیں یا ہوگئے ہیں۔ جو ہر بات پر تالی بجا کر اور کولہے مٹکا کر اتنا ہی کہہ سکتے ہیں۔
وے تہاڈا ککھ نہ رہوے۔ ٹُٹ پینیوں۔۔گھر ماں بہن نہیں اے