جانے والے چلے جاتے ہیں اور یادیں رہ جاتی ہیں۔ ابھی ہنستا کھیلتا لڑتا جھگڑتا آتا جاتا وجود، ابھی وہی وجود بے جان ہو کر سامنے پڑ اہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وقت بہت بڑا استاد ہے۔ پر موت بھی بہت بڑ ا استاد ہے جی۔ ایسے ایسے سبق پڑھا جاتی ہے کہ ساری عمر نہیں بھولتے۔ پیچھے پچھتاوے، سوچیں اور رونے رہ جاتے ہیں۔ جب کوئی اپنا آنکھوں کے سامنے جان دے دے، ہاتھوں میں سانس کی ڈور منقطع کر ڈالے، جب زندگی بھرا وجود پل بھر میں کھگھا بن جائے۔ تب کی وہی جانتاہے جس پر یہ بیتتی ہے۔
باقر فوت ہو گیا، کئی احباب نے فون کیے، کئی نے میسج، فیس بک، ای میل، ذاتی ملاقات میں تعزیت کی۔ سب کی بڑی مہربانی، انہوں نے یاد رکھا۔ اللہ اس بچے کی مغفرت کرے۔ اس کے جانے کے بعد احساس ہوا کہ وہ کتنا اجنبی تھا۔ ایک گھر میں اٹھارہ سال ساتھ رہنے کے بعد، اچانک چلا گیا۔ اس کے جانے پر کونسی آنکھ ہے جو اشک بار نہیں تھی۔ عجیب بات ہے کہ میرے سامنے اس کی ڈیڈ باڈی پڑی تھی اور میں ہاتھ میں موبائل پکڑے کبھی کسی کو فون کروں کبھی کسی کو۔ خالہ کو بتایا، فلاں کو بتایا۔ ہر کسی نے رو لیا لیکن میں نہ رو سکا۔ بے حسی تھی، صبر تھا یا میں نے اسے اپنے ہاتھوں میں مرتے نہیں دیکھا۔ میرے اندر اب بھی بس کبھی ابال سا اٹھ جاتا ہے لیکن اب تک میری آنکھوں سے آنسو نہیں گر سکے۔ دل کرتا ہے کہ کچھ لکھوں۔ لیکن کیا لکھوں۔ اس کے جانے پر اب کیا لکھوں۔ اب بھی یہ چند سطریں اس لیے گھسیٹ رہا ہوں کہ کراچی سے اردو بلاگر انیقہ ناز کی وفات کی خبر آ گئی۔ ان کے برادرِ نسبتی کے فیس بک اسٹیٹس سے ایکسیڈنٹ کے ذریعے موت کا پتا چلا۔ پیر کو وہ انتقال کر گئیں۔
اردو بلاگنگ میں ان لوگوں میں سے تھیں جن کا میں دلی احترام کرتا تھا۔ سارے بلاگر قابل احترام ہیں، لیکن کچھ لوگوں کا باقاعدہ قاری تھا۔ ان بلاگ بھی ان میں سے ایک تھا۔ اب اردو بلاگنگ میں ننھی پری کی چھوٹی چھوٹی باتیں کوئی نہیں لکھے گا۔ مختلف اور ترقی پسند (یا سیکولر قسم) کی تحاریر کوئی نہیں لکھے گا۔ متبادل نقطہ نظر، اور جسے پڑھ کر اکثر بلاگروں کو آگ لگ جاتی تھی، اس کا ایک ذریعہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ اللہ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ موت بہت بڑا دکھ ہے جی، پر جوان موت اس سے بھی بڑا دکھ۔ اگلوں پچھلوں کو توڑ کر مٹی کر دیتی ہے۔ جس کے سامنے کوئی اپنا بھری جوانی میں رخصت ہوا ہو یہ اسی کو پتا ہوتا ہے کہ جوان موت کا غم کیا ہوتا ہے۔ بیٹا، بھائی، باپ، ماں، بہن ان میں سے کوئی بھری جوانی میں چلا جائے تو پیچھے رہ جانے والے ساری عمر اس کے شاک سے نہیں نکل سکتے۔ اللہ ان کی بچی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ مرحومہ کے والدین اور خاوند کو حوصلہ اور صبر جمیل عطا کرے۔ پتا نہیں ان کی بچی ٹھیک ہے یا نہیں، اللہ اس کو دنیا کی تتی ہواؤں سے بچائے۔
بہت بڑا غم ہے۔۔۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
بدھ، 24 اکتوبر، 2012
جمعرات، 13 ستمبر، 2012
غلط کو غلط نہ کہنے کی روش
آج کے اخبارات، اور کل کے آنلائن شماروں میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی کہ امریکی معلون پادری ٹیری جونز نے توہین آمیز ویڈیو تیار کی ہے۔ جس کے نتیجے میں لیبیا میں بلوائیوں کے ایک گروہ نے امریکی سفیر کو ہلاک کر ڈالا۔
بات شروع ہوتی ہے فیس بک سے، جہاں ایک صاحب تصویر شئیر کر رہے ہیں۔ نیچے لکھے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ شامی انجینئر پوچھ رہے ہیں لیبیا والوں نے تو یہ سب کر کے اپنی محبت کا ثبوت دے دیا، پاکستانی کہاں ہیں؟ ان سطور کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ پاکستانی بھی اٹھیں اور ملک میں غیر ملکیوں پر حملے شروع کر دیں، ان کے سفیروں کو ہلاک کر ڈالیں۔ ایک ایسے جرم کے لیے جو انہوں نے نہیں کیا، ایک ایسی صورتحال میں جب وہ نہ ہمارے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں، اور نہ ہتھیار بند ہو کر مقابلے پر اترے ہوئے ہیں، اور کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھوں جو اپنے آپ کو اعلی درجے کے مسلمان اور عاشق رسول سمجھتے ہیں، اور بزعم خود قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز ہو کر،آن دی اسپاٹ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان کو مار ڈالتے ہیں۔
میں نے فیس بک پر یہ سوال کیا کہ ایک غیر ملکی سفیر جو اسلامی ملک میں ذمی کی حیثیت رکھتا ہے، اسکی جان و مال کی حفاظت اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، اس کا قتل کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ اور اس پر ایک دوسرے کو شہہ کیسے دی جا سکتی ہے کہ دیکھو فلاں نے کر دیا اور تم پیچھے رہ گئے۔ مجھے جواب دیا گیا کہ غیر ملکی سفیر ذمی نہیں ہوتے۔ میں نے مان لیا، لیکن پھر سوال اٹھ آیا کہ ایک غیر ملکی سفیر جو ویزے پر اسلامی ریاست میں داخل ہوا، ایک معاہدہ جو اس کے اور ریاست کے مابین ہے کہ ہماری حدود میں داخلے پر تمہاری جان و مال کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ ایک معاہدہ یعنی وعدہ جس کے لیے محمد الرسول اللہ ﷺ تین دن تک ایک جگہ کھڑے رہتے ہیں، آج ان کے نام لیواؤں کے نزدیک ردی کے ٹکڑے کی اہمیت بھی نہیں رکھتا۔
مجھے جواب دیا جاتا ہے کہ امریکی مسلمانوں کے ساتھ پوری دنیا میں یہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کو بنا کسی عدالت کے ایسے ہی موت کے گھاٹ اتارا۔ طالبان پر بنا کسی عدالت کے ایسے ہی حملہ کیا، عراق اور افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا۔ ان کے ساتھ کوئی سفیر کا معاہدہ نہیں۔ ان کا قتل جائز ہے۔ میرا سوال بس یہ کہ کیا اسلامی ریاستوں نے امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا؟ کیا وہاں سے اپنے سفیر واپس بلا لیے؟ ان کے سفیروں کو وارننگ دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا؟ ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا گیا؟ آگے سے پھر وہی جواب آئے کہ یہ عین جائز ہے چونکہ امریکہ ۔۔۔۔اگلا حصہ آپ جانتے ہیں اس لیے اسکپ کر رہا ہوں۔
ابھی میں اپنے بنیادی سوال کی طرف نہیں آیا۔ آئیں ایک صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک واقعے میں عیسائی ریاستوں میں سے ایک میں ایک مسلمان خاتون کو شہید کر دیا جاتا ہے، اس کا جرم کیا ہے کہ وہ حجاب پہنتی ہے اور مسلمان ہے۔ مسلمان اس پر چراغ پا ہو جاتے ہیں، ان کے نظام انصاف کو صلواتیں سناتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں، اسے نا انصافی کہتے ہیں۔ دوسرے واقعے میں ایک اسلامی ریاست میں جنونیوں کا ایک گروہ ایک شخص کو اس لیے ہلاک کر دیتا ہے چونکہ وہ اسی ملک سے تعلق رکھتا ہے جہاں سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص کو یہ مجرم سمجھتے ہیں۔ اس پر سب واہ واہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کو ہلا شیری دیتے ہیں اور شرم دلاتے ہیں کہ دیکھو فلاں آگے بڑھ گیا۔ درج بالا دونوں واقعات میں دو چیزیں مشترک ہیں۔ نمبر ایک مرنے والے دونوں افراد حالت جنگ میں نہیں تھے، ایک غیر ملک میں تھے، ان کا قصور اتنا تھا کہ وہ گروہِ مخالف سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ انہیں مارنے والے بھی ایسے لوگ تھے جو ریاست (اولی الامر) کی نمائندگی نہیں کرتے، کچھ ایسے جنونی جنہوں نے بزعم خود اپنے آپ کو جج کے عہدے پر متمکن کر لیا اور ان کے قتل کا فیصلہ صادر کر کے اپنے تئیں انصاف کے تقاضے پورے کر دئیے۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر آپ اول الذکر واقعے کو غلط سمجھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ دوسرے کو بھی غلط سمجھا جائے؟ یا دوسرے کو صرف اس لیے غلط نہیں سمجھا جائے گا کہ مرنے والا ایک غیر مسلم تھا، اور چونکہ غیر مسلموں کا خون نیلا ہوتا ہے، اور (نعوذ باللہ) قرآن کا حکم (ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے) اصل میں "ایک مسلمان کا قتل کا ساری انسانیت کا قتل ہے"۔ کیا مسلمان ہونا یہ گارنٹی ہے کہ ہم ہر اس انسان کو اڑا سکتے ہیں جو ہم سے کمزور ہے، جس پر ہمارا بس چلتا ہے، جو ہمارے سامنے فی الوقت کمزور پڑ جاتا ہے۔ کیا ایسا اس لیے ہے کہ مسلمان اللہ کی چنی ہوئی امت ہیں، امت آخر، نبی اکرم ﷺ کے ماننے والوں کی امت، اسلیے ان کے نام پر اس امت کے لیے ہر جرم معاف ہے؟ کیا یہی سوچ یہودیوں کی نہیں تھی اور ہے؟ کیا یہی سوچ اس بھیڑئیے کی نہیں تھی جس نے میمنے کو اس جرم میں پکڑ لیا کہ اس کے آباء میں سے کوئی اسی ندی پر پانی پیتا رہا تھا جس ندی پر آج بھیڑیا پانی پی رہا ہے۔ سوال ہے کہ ہماری انصاف کی چھری 'ہم' اور 'وہ' کی تخصیص کیوں کرے۔ جب محمد الرسول اللہ ﷺ نے کبھی انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ فرق روا نہ رکھا تو مسلمان ایسا کیوں کریں؟
مجھے یہ منطق دی گئی کہ حرمت رسول ﷺ پر جان بھی قربان ہے۔ جب حرمت رسول ﷺ کی بات آ گئی تو سارے معاہدے باطل، اور گستاخِ رسول ﷺ کی سزا موت۔ میں نے بصد احترام عرض کیا کہ اس سفیر کا کیا قصور تھا کیا وہ گستاخِ رسول ﷺ تھا؟ کیا اس پر اس الزام کے سلسلے میں باقاعدہ مقدمہ چلایا گیا اور یہ جرم اس پر ثابت ہو گیا؟ (اس نظام کے تحت جو رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور قرآن حکیم کے تحت اسلام میں صدیوں سے نافذ چلا آ رہا ہے۔) چلیں مقدمہ نہ چلانے کی بات مان لیتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے ہمیں ایک واقعہ ملتا ہے کہ مدینہ میں ایک مخالف گروہ (شاید یہودیوں) سے ایک آدمی (اغلباً ایک شاعر) نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی۔ آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ کون ہے جو جا کر مجھے اس کا سر لا دے یعنی اس جرم میں قتل کر دے۔ تو ایک صحابیؓ گئے اور اس کا سر کاٹ لائے یا اسے قتل کر دیا۔ بظاہر یہاں کوئی مقدمہ ملوث نہیں ہے۔ اسلامی ریاست کے سربراہ (جو اس واقعے میں خود رسول اللہ ﷺ ہیں) نے ایک غیر ریاست کے شہری (یاد رہے اسلام کے ابتدائی دور میں ریاستِ مدینہ کئی گروہوں میں بٹی ہوئی تھی اور پورے مدینہ پر مسلمانوں کا ایسا کنٹرول نہیں تھا جیسا آج ایک عمومی حکومت کے لیے نارمل خیال کیا جاتا ہے) کے قتل کا حکم دیا اور اس پر عمل درآمد ہو گیا۔ یہاں سے یہ استدلال سامنے آتا ہے کہ توہین رسالت ﷺ کے مجرم کو فوراﷺ سزائے موت دی جائے چاہے وہ غیر ملک یا غیر قوم کا شہری/ رکن ہی ہو۔ لیکن ایک باریکی جو یہاں ڈاکٹر حمید اللہ نے دریافت کی، قابل بیان ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسلامی قانون بین الممالک (انٹرنیشنل لاء) کے ماہر تھے، فرماتے ہیں کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ میثاقِ مدینہ یعنی مخالف فریقین کے مابین ایک معاہدہ ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی جانب سے یہ حکم کیسے دیا جا سکتا ہے۔ پھر فرماتے ہیں میں نے باقاعدہ تحقیق کی، اور یہ بات سامنے آئی کہ میثاق مدینہ (جسے آج ہم اسے ایک معاہدے کے طور پر جانتے ہیں) اصل میں معاہدوں کے ایک مجموعے کا نام ہے جو وقتاً فوقتاً مدینہ کے مختلف گروہوں اور مسلمانوں کے مابین وجود میں آتے رہے۔ اور مذکورہ بالا واقعے کے وقت مسلمانوں اور متعلقہ گروہ کے مابین یہ معاہدہ ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس ساری بحث کا لب لباب یہ نکلتا ہے کہ عہدِِ رسالت ﷺ میں میں گستاخِ رسول کی سزائے موت اس وقت عمل میں آئی جب کوئی باقاعدہ معاہدہ موجود نہیں تھا ورنہ صورتحال شاید مختلف ہوتی۔ اگر ہم اس ساری بحث کو نظر انداز بھی کر دیں تو بنیادی سوال "کیا غیر ملکی سفیر گستاخِ رسول ﷺ تھا؟" کا جواب نہیں میں نکلتا ہے۔ گستاخی واضح طور پر ٹیری جونز نامی معلون شخص کی شرارت ہے، اور اس کا سزاوار بھی وہی ہے، نا کہ اس کے ملک سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی دوسرا شخص۔ ایسی صورتحال میں اسلامی اور انسانی نقطہ نگاہ سے ایک غیر ملکی سفیر، جو اسلام کی نظر میں بے گناہ ہے اور بے گناہ انسان کا قتل اللہ کے نزدیک پوری انسانیت کا قتل ہے، نرم سے نرم الفاظ میں بھی بربریت ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے اس جرم میں شریک۔
تحریر کے اختتام پر پھر اپنا موقف دوہرانا چاہوں گا کہ ایک غلط عمل کے جواب میں کیا جانے والا غلط عمل موخر الذکر کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے چاہے جتنی بھی ناانصافی کی ہو، نہتّوں پر بم برسائے ہوں، قتل عام کیے ہوں، اسامہ بن لادن اینڈ کمپنی کو قتل کیا ہو لیکن یہ تمام افعال اس بات کا اجازت نامہ نہیں کہ آپ ان ممالک کے نہتے شہریوں پر انفرادی حیثیت میں حملے کر کے، مقدمہ چلائے بغیر، ایک ایسے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔ اگر بدلہ لینے کا شوق ہے تو مردوں کی طرح ان کے خلاف اعلانِ جنگ کریں، سفارتی رابطے منقطع کریں، ملعون گستاخِ رسول ﷺ کی حوالگی کا مطالبہ کریں اگر وہ نہیں کرتے تو دعوتِ مبازرت دیں۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا چونکہ حکومتیں کرپٹ ہیں، کوئی بھی ریاست سچی اسلامی ریاست نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت ان ممالک میں بسلسلہ روزگار وغیرہ موجود ہے اور وہاں سے نوٹوں کے تھبنٹو واپس بھیجتی ہے، کاروباری مفادات وابستہ ہیں اس لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔ اگر ایسا اجتماعی یعنی ریاستی سطح پر ممکن نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اور ان کے مابین ایک معاہدہ موجود ہے، معاہدہ امن (یاد رہے کہ عراق، افغانستان وغیرہ میں بھی حکومت کے ساتھ یہی نام نہاد معاہدہ امن موجود ہے جو انفرادی سطح پر کسی بربری فعل کی اجازت نہیں دے گا جب تک ریاست اعلان جنگ نہ کر دے) یعنی آپ ان کے شہریوں کو امان دیں گے، اور وہ آپ کے شہریوں کو امان دیں گے۔ لیکن اگر آپ ایسا نہیں کرتے، ایسا نہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اپنے شہریوں، ہم مذہبوں کے ساتھ ان ممالک میں یہی سلوک ہونے پر واویلا کریں۔ اگر آج پاکستان، لیبیا یا کسی بھی اسلام ملک کے سفیر کے ساتھ بھارت، فرانس یا امریکہ میں یہی سلوک ہوتا ہے تو وہ غلط ہے (وجہ کوئی بھی ہو سکتی ہے، رمشا مسیح کا تقریباً جھوٹا ثابت ہو چکا مقدمہ لے لیں، اس پر کوئی جنونی گروہ پاکستانی سفارتخانے پر اٹھ کر حملہ آور ہو سکتا ہے، جنونیوں کو تو بہانہ چاہئیے ہوتا ہے نا)، اسی طرح ان کے سفارتخانے پر ہمارے ہاں ہونے والا حملہ بھی غلط ہے۔ انصاف کا معیار دوہرا نہیں ہوتا، انصاف میرے لیے ہاں تمہارے لیے ناں نہیں ہوتا۔ ہم اس شخصیت ﷺ کے پیروکار ہیں جس نے جنگ میں جانے سے قبل بھی لشکریوں سے کہا تھا سنو عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو قتل نہ کرنا۔ درخت، نہ کاٹنا، فصلیں نہ اجاڑنا، لاشوں کا مثلہ نہ کرنا، جو ہتھیار نہ اٹھائے اس پر حملہ نہ کرنا۔ لیکن ہم انہیں ﷺ سے محبت کے نام پر انہیں کی تعلیمات کو فراموش کر رہے ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ کسی کا غلط طرزِ عمل اس بات کی اجازت نہیں کہ ہم بھی انصاف کے تقاضے چھوڑنے کے لیے آزاد ہو گئے ہیں، ہم مسلمان ہیں اور ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات موجود ہیں، ورنہ ہم میں اور جنگلی جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔ ہم میں اور اس بھیڑئیے میں کوئی فرق نہیں جس نے میمنے پر اس لیے حملہ کر دیا کہ اس کے آباء میں سے کسی نے پانی پینے کا جرم کر ڈالا تھا۔ عذر تراشیاں کسی غلط طرزِ عمل کے ٹھیک ہونے کا ثبوت نہیں، ہمیں عذر تراشیاں ترک کر کے غلط کو غلط کہنا ہو گا، ان کے غلط کو تو غلط کہنا ہی ہے اپنی غلطی کو بھی تسلیم کرنا ہو گا، اور ایسے کسی بھی رویے کی حوصلہ افزائی ترک کرنا ہو گی۔
اَشہَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدَا عَبدُہُ وَ رَسُوُلُہُ و خاتم النبین
میرے لیے ٹیری جونز کی حیثیت اس کتے سے بھی بدتر ہے جو میرے محلے میں ہر صبح بلا وجہ بھونکنا شروع کر دینے والوں میں ہوتا ہے۔ اور میں ایسے کتوں کو پتھر مارنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، مجھے کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے ان ﷺ سے کتنی محبت ہے، اور نہ کسی کو میرے ایمان پر سوال اٹھانے کا حق ہے کہ یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے۔ لیکن جو غلط ہے میں اسے غلط کہوں گا۔ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ غلط ہوا، اسامہ بن لادن کو مقدمے کے بغیر قتل کرنا انصاف کا قتل تھا، عراق، افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک پر امریکہ اور اس کے حواریوں کے حملے غلط تھے، مغربی ممالک میں مسلمان شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینے والے قوانین اور رویے غلط ہیں۔ لیکن ان سب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اپنے ہم مذہبوں کے ہاتھوں بے گناہوں کے قتل کو جائز قرار دینے لگوں۔ یہ غلط ہے اور میں غلط کو غلط کہوں گا۔ کاش میری قوم بھی یہ بات سمجھ جائے۔
برادرم کاشف نصیر کی اس پوسٹ کو ٹیگ کرنا ضروری ہے، جس سے مجھے آج کی یہ تحریر لکھنے کی انسپائریشن ملی۔
وما علینا الا البلاغ
بات شروع ہوتی ہے فیس بک سے، جہاں ایک صاحب تصویر شئیر کر رہے ہیں۔ نیچے لکھے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ شامی انجینئر پوچھ رہے ہیں لیبیا والوں نے تو یہ سب کر کے اپنی محبت کا ثبوت دے دیا، پاکستانی کہاں ہیں؟ ان سطور کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ پاکستانی بھی اٹھیں اور ملک میں غیر ملکیوں پر حملے شروع کر دیں، ان کے سفیروں کو ہلاک کر ڈالیں۔ ایک ایسے جرم کے لیے جو انہوں نے نہیں کیا، ایک ایسی صورتحال میں جب وہ نہ ہمارے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں، اور نہ ہتھیار بند ہو کر مقابلے پر اترے ہوئے ہیں، اور کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھوں جو اپنے آپ کو اعلی درجے کے مسلمان اور عاشق رسول سمجھتے ہیں، اور بزعم خود قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز ہو کر،آن دی اسپاٹ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان کو مار ڈالتے ہیں۔
میں نے فیس بک پر یہ سوال کیا کہ ایک غیر ملکی سفیر جو اسلامی ملک میں ذمی کی حیثیت رکھتا ہے، اسکی جان و مال کی حفاظت اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، اس کا قتل کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ اور اس پر ایک دوسرے کو شہہ کیسے دی جا سکتی ہے کہ دیکھو فلاں نے کر دیا اور تم پیچھے رہ گئے۔ مجھے جواب دیا گیا کہ غیر ملکی سفیر ذمی نہیں ہوتے۔ میں نے مان لیا، لیکن پھر سوال اٹھ آیا کہ ایک غیر ملکی سفیر جو ویزے پر اسلامی ریاست میں داخل ہوا، ایک معاہدہ جو اس کے اور ریاست کے مابین ہے کہ ہماری حدود میں داخلے پر تمہاری جان و مال کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ ایک معاہدہ یعنی وعدہ جس کے لیے محمد الرسول اللہ ﷺ تین دن تک ایک جگہ کھڑے رہتے ہیں، آج ان کے نام لیواؤں کے نزدیک ردی کے ٹکڑے کی اہمیت بھی نہیں رکھتا۔
مجھے جواب دیا جاتا ہے کہ امریکی مسلمانوں کے ساتھ پوری دنیا میں یہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسامہ بن لادن کو بنا کسی عدالت کے ایسے ہی موت کے گھاٹ اتارا۔ طالبان پر بنا کسی عدالت کے ایسے ہی حملہ کیا، عراق اور افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا۔ ان کے ساتھ کوئی سفیر کا معاہدہ نہیں۔ ان کا قتل جائز ہے۔ میرا سوال بس یہ کہ کیا اسلامی ریاستوں نے امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا؟ کیا وہاں سے اپنے سفیر واپس بلا لیے؟ ان کے سفیروں کو وارننگ دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا؟ ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا گیا؟ آگے سے پھر وہی جواب آئے کہ یہ عین جائز ہے چونکہ امریکہ ۔۔۔۔اگلا حصہ آپ جانتے ہیں اس لیے اسکپ کر رہا ہوں۔
ابھی میں اپنے بنیادی سوال کی طرف نہیں آیا۔ آئیں ایک صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک واقعے میں عیسائی ریاستوں میں سے ایک میں ایک مسلمان خاتون کو شہید کر دیا جاتا ہے، اس کا جرم کیا ہے کہ وہ حجاب پہنتی ہے اور مسلمان ہے۔ مسلمان اس پر چراغ پا ہو جاتے ہیں، ان کے نظام انصاف کو صلواتیں سناتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں، اسے نا انصافی کہتے ہیں۔ دوسرے واقعے میں ایک اسلامی ریاست میں جنونیوں کا ایک گروہ ایک شخص کو اس لیے ہلاک کر دیتا ہے چونکہ وہ اسی ملک سے تعلق رکھتا ہے جہاں سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص کو یہ مجرم سمجھتے ہیں۔ اس پر سب واہ واہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کو ہلا شیری دیتے ہیں اور شرم دلاتے ہیں کہ دیکھو فلاں آگے بڑھ گیا۔ درج بالا دونوں واقعات میں دو چیزیں مشترک ہیں۔ نمبر ایک مرنے والے دونوں افراد حالت جنگ میں نہیں تھے، ایک غیر ملک میں تھے، ان کا قصور اتنا تھا کہ وہ گروہِ مخالف سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ انہیں مارنے والے بھی ایسے لوگ تھے جو ریاست (اولی الامر) کی نمائندگی نہیں کرتے، کچھ ایسے جنونی جنہوں نے بزعم خود اپنے آپ کو جج کے عہدے پر متمکن کر لیا اور ان کے قتل کا فیصلہ صادر کر کے اپنے تئیں انصاف کے تقاضے پورے کر دئیے۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر آپ اول الذکر واقعے کو غلط سمجھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ دوسرے کو بھی غلط سمجھا جائے؟ یا دوسرے کو صرف اس لیے غلط نہیں سمجھا جائے گا کہ مرنے والا ایک غیر مسلم تھا، اور چونکہ غیر مسلموں کا خون نیلا ہوتا ہے، اور (نعوذ باللہ) قرآن کا حکم (ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے) اصل میں "ایک مسلمان کا قتل کا ساری انسانیت کا قتل ہے"۔ کیا مسلمان ہونا یہ گارنٹی ہے کہ ہم ہر اس انسان کو اڑا سکتے ہیں جو ہم سے کمزور ہے، جس پر ہمارا بس چلتا ہے، جو ہمارے سامنے فی الوقت کمزور پڑ جاتا ہے۔ کیا ایسا اس لیے ہے کہ مسلمان اللہ کی چنی ہوئی امت ہیں، امت آخر، نبی اکرم ﷺ کے ماننے والوں کی امت، اسلیے ان کے نام پر اس امت کے لیے ہر جرم معاف ہے؟ کیا یہی سوچ یہودیوں کی نہیں تھی اور ہے؟ کیا یہی سوچ اس بھیڑئیے کی نہیں تھی جس نے میمنے کو اس جرم میں پکڑ لیا کہ اس کے آباء میں سے کوئی اسی ندی پر پانی پیتا رہا تھا جس ندی پر آج بھیڑیا پانی پی رہا ہے۔ سوال ہے کہ ہماری انصاف کی چھری 'ہم' اور 'وہ' کی تخصیص کیوں کرے۔ جب محمد الرسول اللہ ﷺ نے کبھی انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ فرق روا نہ رکھا تو مسلمان ایسا کیوں کریں؟
مجھے یہ منطق دی گئی کہ حرمت رسول ﷺ پر جان بھی قربان ہے۔ جب حرمت رسول ﷺ کی بات آ گئی تو سارے معاہدے باطل، اور گستاخِ رسول ﷺ کی سزا موت۔ میں نے بصد احترام عرض کیا کہ اس سفیر کا کیا قصور تھا کیا وہ گستاخِ رسول ﷺ تھا؟ کیا اس پر اس الزام کے سلسلے میں باقاعدہ مقدمہ چلایا گیا اور یہ جرم اس پر ثابت ہو گیا؟ (اس نظام کے تحت جو رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور قرآن حکیم کے تحت اسلام میں صدیوں سے نافذ چلا آ رہا ہے۔) چلیں مقدمہ نہ چلانے کی بات مان لیتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے ہمیں ایک واقعہ ملتا ہے کہ مدینہ میں ایک مخالف گروہ (شاید یہودیوں) سے ایک آدمی (اغلباً ایک شاعر) نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی۔ آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ کون ہے جو جا کر مجھے اس کا سر لا دے یعنی اس جرم میں قتل کر دے۔ تو ایک صحابیؓ گئے اور اس کا سر کاٹ لائے یا اسے قتل کر دیا۔ بظاہر یہاں کوئی مقدمہ ملوث نہیں ہے۔ اسلامی ریاست کے سربراہ (جو اس واقعے میں خود رسول اللہ ﷺ ہیں) نے ایک غیر ریاست کے شہری (یاد رہے اسلام کے ابتدائی دور میں ریاستِ مدینہ کئی گروہوں میں بٹی ہوئی تھی اور پورے مدینہ پر مسلمانوں کا ایسا کنٹرول نہیں تھا جیسا آج ایک عمومی حکومت کے لیے نارمل خیال کیا جاتا ہے) کے قتل کا حکم دیا اور اس پر عمل درآمد ہو گیا۔ یہاں سے یہ استدلال سامنے آتا ہے کہ توہین رسالت ﷺ کے مجرم کو فوراﷺ سزائے موت دی جائے چاہے وہ غیر ملک یا غیر قوم کا شہری/ رکن ہی ہو۔ لیکن ایک باریکی جو یہاں ڈاکٹر حمید اللہ نے دریافت کی، قابل بیان ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسلامی قانون بین الممالک (انٹرنیشنل لاء) کے ماہر تھے، فرماتے ہیں کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ میثاقِ مدینہ یعنی مخالف فریقین کے مابین ایک معاہدہ ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی جانب سے یہ حکم کیسے دیا جا سکتا ہے۔ پھر فرماتے ہیں میں نے باقاعدہ تحقیق کی، اور یہ بات سامنے آئی کہ میثاق مدینہ (جسے آج ہم اسے ایک معاہدے کے طور پر جانتے ہیں) اصل میں معاہدوں کے ایک مجموعے کا نام ہے جو وقتاً فوقتاً مدینہ کے مختلف گروہوں اور مسلمانوں کے مابین وجود میں آتے رہے۔ اور مذکورہ بالا واقعے کے وقت مسلمانوں اور متعلقہ گروہ کے مابین یہ معاہدہ ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس ساری بحث کا لب لباب یہ نکلتا ہے کہ عہدِِ رسالت ﷺ میں میں گستاخِ رسول کی سزائے موت اس وقت عمل میں آئی جب کوئی باقاعدہ معاہدہ موجود نہیں تھا ورنہ صورتحال شاید مختلف ہوتی۔ اگر ہم اس ساری بحث کو نظر انداز بھی کر دیں تو بنیادی سوال "کیا غیر ملکی سفیر گستاخِ رسول ﷺ تھا؟" کا جواب نہیں میں نکلتا ہے۔ گستاخی واضح طور پر ٹیری جونز نامی معلون شخص کی شرارت ہے، اور اس کا سزاوار بھی وہی ہے، نا کہ اس کے ملک سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی دوسرا شخص۔ ایسی صورتحال میں اسلامی اور انسانی نقطہ نگاہ سے ایک غیر ملکی سفیر، جو اسلام کی نظر میں بے گناہ ہے اور بے گناہ انسان کا قتل اللہ کے نزدیک پوری انسانیت کا قتل ہے، نرم سے نرم الفاظ میں بھی بربریت ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے اس جرم میں شریک۔
تحریر کے اختتام پر پھر اپنا موقف دوہرانا چاہوں گا کہ ایک غلط عمل کے جواب میں کیا جانے والا غلط عمل موخر الذکر کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے چاہے جتنی بھی ناانصافی کی ہو، نہتّوں پر بم برسائے ہوں، قتل عام کیے ہوں، اسامہ بن لادن اینڈ کمپنی کو قتل کیا ہو لیکن یہ تمام افعال اس بات کا اجازت نامہ نہیں کہ آپ ان ممالک کے نہتے شہریوں پر انفرادی حیثیت میں حملے کر کے، مقدمہ چلائے بغیر، ایک ایسے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔ اگر بدلہ لینے کا شوق ہے تو مردوں کی طرح ان کے خلاف اعلانِ جنگ کریں، سفارتی رابطے منقطع کریں، ملعون گستاخِ رسول ﷺ کی حوالگی کا مطالبہ کریں اگر وہ نہیں کرتے تو دعوتِ مبازرت دیں۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا چونکہ حکومتیں کرپٹ ہیں، کوئی بھی ریاست سچی اسلامی ریاست نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت ان ممالک میں بسلسلہ روزگار وغیرہ موجود ہے اور وہاں سے نوٹوں کے تھبنٹو واپس بھیجتی ہے، کاروباری مفادات وابستہ ہیں اس لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔ اگر ایسا اجتماعی یعنی ریاستی سطح پر ممکن نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اور ان کے مابین ایک معاہدہ موجود ہے، معاہدہ امن (یاد رہے کہ عراق، افغانستان وغیرہ میں بھی حکومت کے ساتھ یہی نام نہاد معاہدہ امن موجود ہے جو انفرادی سطح پر کسی بربری فعل کی اجازت نہیں دے گا جب تک ریاست اعلان جنگ نہ کر دے) یعنی آپ ان کے شہریوں کو امان دیں گے، اور وہ آپ کے شہریوں کو امان دیں گے۔ لیکن اگر آپ ایسا نہیں کرتے، ایسا نہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اپنے شہریوں، ہم مذہبوں کے ساتھ ان ممالک میں یہی سلوک ہونے پر واویلا کریں۔ اگر آج پاکستان، لیبیا یا کسی بھی اسلام ملک کے سفیر کے ساتھ بھارت، فرانس یا امریکہ میں یہی سلوک ہوتا ہے تو وہ غلط ہے (وجہ کوئی بھی ہو سکتی ہے، رمشا مسیح کا تقریباً جھوٹا ثابت ہو چکا مقدمہ لے لیں، اس پر کوئی جنونی گروہ پاکستانی سفارتخانے پر اٹھ کر حملہ آور ہو سکتا ہے، جنونیوں کو تو بہانہ چاہئیے ہوتا ہے نا)، اسی طرح ان کے سفارتخانے پر ہمارے ہاں ہونے والا حملہ بھی غلط ہے۔ انصاف کا معیار دوہرا نہیں ہوتا، انصاف میرے لیے ہاں تمہارے لیے ناں نہیں ہوتا۔ ہم اس شخصیت ﷺ کے پیروکار ہیں جس نے جنگ میں جانے سے قبل بھی لشکریوں سے کہا تھا سنو عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو قتل نہ کرنا۔ درخت، نہ کاٹنا، فصلیں نہ اجاڑنا، لاشوں کا مثلہ نہ کرنا، جو ہتھیار نہ اٹھائے اس پر حملہ نہ کرنا۔ لیکن ہم انہیں ﷺ سے محبت کے نام پر انہیں کی تعلیمات کو فراموش کر رہے ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ کسی کا غلط طرزِ عمل اس بات کی اجازت نہیں کہ ہم بھی انصاف کے تقاضے چھوڑنے کے لیے آزاد ہو گئے ہیں، ہم مسلمان ہیں اور ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات موجود ہیں، ورنہ ہم میں اور جنگلی جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔ ہم میں اور اس بھیڑئیے میں کوئی فرق نہیں جس نے میمنے پر اس لیے حملہ کر دیا کہ اس کے آباء میں سے کسی نے پانی پینے کا جرم کر ڈالا تھا۔ عذر تراشیاں کسی غلط طرزِ عمل کے ٹھیک ہونے کا ثبوت نہیں، ہمیں عذر تراشیاں ترک کر کے غلط کو غلط کہنا ہو گا، ان کے غلط کو تو غلط کہنا ہی ہے اپنی غلطی کو بھی تسلیم کرنا ہو گا، اور ایسے کسی بھی رویے کی حوصلہ افزائی ترک کرنا ہو گی۔
اَشہَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدَا عَبدُہُ وَ رَسُوُلُہُ و خاتم النبین
میرے لیے ٹیری جونز کی حیثیت اس کتے سے بھی بدتر ہے جو میرے محلے میں ہر صبح بلا وجہ بھونکنا شروع کر دینے والوں میں ہوتا ہے۔ اور میں ایسے کتوں کو پتھر مارنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، مجھے کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے ان ﷺ سے کتنی محبت ہے، اور نہ کسی کو میرے ایمان پر سوال اٹھانے کا حق ہے کہ یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے۔ لیکن جو غلط ہے میں اسے غلط کہوں گا۔ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ غلط ہوا، اسامہ بن لادن کو مقدمے کے بغیر قتل کرنا انصاف کا قتل تھا، عراق، افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک پر امریکہ اور اس کے حواریوں کے حملے غلط تھے، مغربی ممالک میں مسلمان شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دینے والے قوانین اور رویے غلط ہیں۔ لیکن ان سب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اپنے ہم مذہبوں کے ہاتھوں بے گناہوں کے قتل کو جائز قرار دینے لگوں۔ یہ غلط ہے اور میں غلط کو غلط کہوں گا۔ کاش میری قوم بھی یہ بات سمجھ جائے۔
برادرم کاشف نصیر کی اس پوسٹ کو ٹیگ کرنا ضروری ہے، جس سے مجھے آج کی یہ تحریر لکھنے کی انسپائریشن ملی۔
وما علینا الا البلاغ
جمعہ، 7 ستمبر، 2012
حجاب، نقاب ہم اور ہمارے رویے
ایک عرصہ ہو گیا میں 'موسمی' موضوعات پر لکھنا چھوڑ چکا ہوں۔ جب سارے اردو بلاگر ایک موضوع کو لے کر اس کی مٹی پلید کر رہے ہوتے ہیں اس وقت میری خواہش ہوتی ہے کہ کچھ مختلف لکھا جائے۔ خیر لکھنے والی بات بھی نوے فیصد جھوٹ ہی ہے کہ میں اکثر ایک نام نہاد قسم کا بلاگر ہوں جو مہینوں بعد کچھ لکھتا ہے۔ لیکن بلاگر ہونا شرط ہے، لکھا تو کبھی بھی جا سکتا ہے۔ آج کل کا اِن موضوع حجاب،نقاب وغیرہ ہے۔ ایک طرف یار لوگوں نے عالمی حجاب ڈے وغیرہ کی ڈفلی اٹھائی ہوئی ہے، دوسری طرف سے زبردستی مسلمان کروانے وغیرہ کے راگ الاپے جا رہے ہیں۔ اور اس دوران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار قسم کے تبصرہ نگار ایسی بلاگ پوسٹوں پر طنزیہ لہجے میں براہ راست ہتک آمیز تبصرے بھی کر رہے ہیں۔
خیر یہ تو ہماری قومی عادت ہے کہ برداشت نہیں کرنا، تصویر کا ایک ہی رخ لے سامنے رکھ کر چلائے چلے جانا اور "میں نا مانوں" کا نمونہ اکمل بنے رہنا۔ میں نے سوچا موضوع اِن ہے تو ہم بھی اڑتے کیچڑ میں دو چار پتھر پھینک لیں۔ کروانے تو کپڑے ہی گندے ہیں، ویسے بھی برسات ہے تو چلن دیو۔
میرے حساب سے حجاب نقاب جس کی آج بات کی جا رہی ہے اس کے دو حصے ہیں۔ اول جو اس پیرے میں زیر بحث آئے گا، وہ ہے یورپی ممالک میں مسلمان خواتین پر ہونے والی سختیاں (بسلسلہ حجاب) جن میں حکومتی اقدامات سے لے کر نسلی امتیاز تک ہر چیز شامل ہے۔ دیکھیں جی ہر کسی کو اس کے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے۔ اور یورپی مسلمانوں کو یہ اجازت نہ دے کر انتہا پسندی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ میرا اس سلسلے میں مزید کوئی خیال نہیں، بس اتنا خیال ہے کہ اوکھے دن ہیں لنگھ جائیں گے۔ حجاب کے متعلق آگاہی پھیل رہی ہے، اس کے حامی بھی ظاہر ہے یورپیوں میں ہوں گے، کرنا یہ ہے کہ اپنی آواز پر امن انداز میں شانتی اور سکون سے بلند کی جائے۔ اور اللہ کی مہربانی سے وہ وقت بھی آئے گا جب انسانی حقوق کے یہ بزعم خود علمبردار حجاب کی اجازت دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ہاں جب تک وہ سختی کرتے ہیں تو اللہ تو دیکھ رہا ہے نا جی، اسے پتا ہے کہ مسلمان بے بس ہیں تو اس کی ذات معاف کرنے والی ہے۔ کوشش کرنا ہمارا فرض اور باقی اللہ سائیں راہیں سیدھی کرنے والا۔ چناچہ لگے رہو بھائیو حجاب ڈے مناؤ، اور اپنا موقف ان کے کانوں تک پہینچاتے رہو۔۔۔۔
لیکن تہاڈی مہربانی ہے مسلمانوں کو مسلمان نہ کرو۔ خدا کا واسطہ ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں کس حجاب کے نفاذ کا زور و شور سے مطالبہ ہو رہا ہے۔ پچھلے پانچ سو برس سے یہ علاقہ، اور اس کے باشندے جو مسلمان ہیں، اور ان کی روایات اور ثقافت اسلام اور مقامیت کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں پردہ تب سے رائج ہے جب سے اسلام یہاں ہے۔ میری والدہ، نانی اور خالہ ایک اڑھائی گز کی چادر سر پر لیا کرتی تھیں۔ اور آج بھی میں نے انہیں وہی چادر لیے دیکھا ہے۔ نانی اور خالہ کو زمینوں پر کھانا دینے جانا ہوتا تھا، اور وہ اسی چادر میں جاتی تھیں۔ جسے اوڑھنی کہتے ہیں۔ اب مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اور کیا چاہیئے کیا زمین میں گڑھا کھود کر دبا دیں عورتوں کو؟ سر تا ییر برقعہ اوڑھا کر کام کیسے کرواؤ گے بھائی؟ ہمارے بہادر تو یہ چاہتے ہیں کہ عورت کے ہاتھوں پر بھی دستانے ہوں۔ صدقے جاؤں ایسے اسلام کے اسی نے بیڑے غرق کیے ہیں۔ رونا روتے ہیں یورپیوں کی انتہا پسندی کا خود ان کے استاد ہیں اس معاملے میں۔ برداشت کا ایک ذرہ بھی نہیں ہیں، مار دو، کاٹ دو، قتل کر دو، جو'اہل ایمان' نہیں اسے اڑا دو۔ اور اہل ایمان کی اپنی تعریف ہر کسی کی۔ اللہ جماعت اسلامی کو ہمیشہ اقتدار سے دور رکھے، آمین۔ ضیاء الحق کے رفقاء میں شامل رہنے والے یہ لوگ نان ایشوز کی سیاست بڑے ول انداز میں کرتے ہیں۔ پاسپورٹ پر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو، پارلیمان کی ویب سائٹ پر تصویر میں کلمہ نظر نہ آ رہا ہو یہ سب سے آگے اور اب حجاب کو آئین میں لازم قرار دیا جائے۔ پہلے مجھے کوئی یہ بتائے گا کہ کونسا حجاب؟ میری والدہ، ان کی ماں، ان کی ماں کی ماں اور ان کی دس نسلوں سے جو اوڑھنی چلی آ رہی ہے، یا شٹل کاک برقع جو افغانستان سے درآمد ہوا ہے، یا عربی اسٹائل حجاب، یا سعودی اسٹائل فل سائز برقعے۔ کونسا حجاب سائیں؟ یہ کدھر کو چل پڑے ہیں، ہر چیز کو مسلمان بنانے پر تلے ہیں۔ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر گرا نہ سکتے تھے اس لیے کلمہ لکھ کر مسلمان کر لیا۔ عمارتیں، نشانات، آثار یا تو مٹا دئیے یا 'مسلمان' کر لیے۔ یہی کام مسلمانوں کے ساتھ کیا۔ یا تو مسلمان کر لیے، جو'رافضی'، 'کافر' وغیرہ بچے انیہں زندگی کی قید سے آزاد کر دیا۔ واہ بھئی، صدقے اس اسلام کے۔ صدقے۔
آخری بات عرض کرتا چلوں، کہ آج نوجوان لڑکیاں چادر یا اوڑھنی والا نقاب نہیں برقعے والا نقاب کرتی ہیں۔ اس کی وجہ اسلام ہائپ تو ہے ہی، معاشرتی عدم تحفظ بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔ اسلام اسلام کرنے سے اوپر اوپر تو ملمع چڑھ گیا ہے، اندر کی بےغیرتی نہیں گئی۔ جب تک یہ بے غیرتی نہیں جائے گی حجاب چھوڑ کر نماز پڑھنے کا آرڈیننس بھی جاری کروا دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔
خیر یہ تو ہماری قومی عادت ہے کہ برداشت نہیں کرنا، تصویر کا ایک ہی رخ لے سامنے رکھ کر چلائے چلے جانا اور "میں نا مانوں" کا نمونہ اکمل بنے رہنا۔ میں نے سوچا موضوع اِن ہے تو ہم بھی اڑتے کیچڑ میں دو چار پتھر پھینک لیں۔ کروانے تو کپڑے ہی گندے ہیں، ویسے بھی برسات ہے تو چلن دیو۔
میرے حساب سے حجاب نقاب جس کی آج بات کی جا رہی ہے اس کے دو حصے ہیں۔ اول جو اس پیرے میں زیر بحث آئے گا، وہ ہے یورپی ممالک میں مسلمان خواتین پر ہونے والی سختیاں (بسلسلہ حجاب) جن میں حکومتی اقدامات سے لے کر نسلی امتیاز تک ہر چیز شامل ہے۔ دیکھیں جی ہر کسی کو اس کے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے۔ اور یورپی مسلمانوں کو یہ اجازت نہ دے کر انتہا پسندی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ میرا اس سلسلے میں مزید کوئی خیال نہیں، بس اتنا خیال ہے کہ اوکھے دن ہیں لنگھ جائیں گے۔ حجاب کے متعلق آگاہی پھیل رہی ہے، اس کے حامی بھی ظاہر ہے یورپیوں میں ہوں گے، کرنا یہ ہے کہ اپنی آواز پر امن انداز میں شانتی اور سکون سے بلند کی جائے۔ اور اللہ کی مہربانی سے وہ وقت بھی آئے گا جب انسانی حقوق کے یہ بزعم خود علمبردار حجاب کی اجازت دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ہاں جب تک وہ سختی کرتے ہیں تو اللہ تو دیکھ رہا ہے نا جی، اسے پتا ہے کہ مسلمان بے بس ہیں تو اس کی ذات معاف کرنے والی ہے۔ کوشش کرنا ہمارا فرض اور باقی اللہ سائیں راہیں سیدھی کرنے والا۔ چناچہ لگے رہو بھائیو حجاب ڈے مناؤ، اور اپنا موقف ان کے کانوں تک پہینچاتے رہو۔۔۔۔
لیکن تہاڈی مہربانی ہے مسلمانوں کو مسلمان نہ کرو۔ خدا کا واسطہ ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں کس حجاب کے نفاذ کا زور و شور سے مطالبہ ہو رہا ہے۔ پچھلے پانچ سو برس سے یہ علاقہ، اور اس کے باشندے جو مسلمان ہیں، اور ان کی روایات اور ثقافت اسلام اور مقامیت کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں پردہ تب سے رائج ہے جب سے اسلام یہاں ہے۔ میری والدہ، نانی اور خالہ ایک اڑھائی گز کی چادر سر پر لیا کرتی تھیں۔ اور آج بھی میں نے انہیں وہی چادر لیے دیکھا ہے۔ نانی اور خالہ کو زمینوں پر کھانا دینے جانا ہوتا تھا، اور وہ اسی چادر میں جاتی تھیں۔ جسے اوڑھنی کہتے ہیں۔ اب مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اور کیا چاہیئے کیا زمین میں گڑھا کھود کر دبا دیں عورتوں کو؟ سر تا ییر برقعہ اوڑھا کر کام کیسے کرواؤ گے بھائی؟ ہمارے بہادر تو یہ چاہتے ہیں کہ عورت کے ہاتھوں پر بھی دستانے ہوں۔ صدقے جاؤں ایسے اسلام کے اسی نے بیڑے غرق کیے ہیں۔ رونا روتے ہیں یورپیوں کی انتہا پسندی کا خود ان کے استاد ہیں اس معاملے میں۔ برداشت کا ایک ذرہ بھی نہیں ہیں، مار دو، کاٹ دو، قتل کر دو، جو'اہل ایمان' نہیں اسے اڑا دو۔ اور اہل ایمان کی اپنی تعریف ہر کسی کی۔ اللہ جماعت اسلامی کو ہمیشہ اقتدار سے دور رکھے، آمین۔ ضیاء الحق کے رفقاء میں شامل رہنے والے یہ لوگ نان ایشوز کی سیاست بڑے ول انداز میں کرتے ہیں۔ پاسپورٹ پر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو، پارلیمان کی ویب سائٹ پر تصویر میں کلمہ نظر نہ آ رہا ہو یہ سب سے آگے اور اب حجاب کو آئین میں لازم قرار دیا جائے۔ پہلے مجھے کوئی یہ بتائے گا کہ کونسا حجاب؟ میری والدہ، ان کی ماں، ان کی ماں کی ماں اور ان کی دس نسلوں سے جو اوڑھنی چلی آ رہی ہے، یا شٹل کاک برقع جو افغانستان سے درآمد ہوا ہے، یا عربی اسٹائل حجاب، یا سعودی اسٹائل فل سائز برقعے۔ کونسا حجاب سائیں؟ یہ کدھر کو چل پڑے ہیں، ہر چیز کو مسلمان بنانے پر تلے ہیں۔ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر گرا نہ سکتے تھے اس لیے کلمہ لکھ کر مسلمان کر لیا۔ عمارتیں، نشانات، آثار یا تو مٹا دئیے یا 'مسلمان' کر لیے۔ یہی کام مسلمانوں کے ساتھ کیا۔ یا تو مسلمان کر لیے، جو'رافضی'، 'کافر' وغیرہ بچے انیہں زندگی کی قید سے آزاد کر دیا۔ واہ بھئی، صدقے اس اسلام کے۔ صدقے۔
آخری بات عرض کرتا چلوں، کہ آج نوجوان لڑکیاں چادر یا اوڑھنی والا نقاب نہیں برقعے والا نقاب کرتی ہیں۔ اس کی وجہ اسلام ہائپ تو ہے ہی، معاشرتی عدم تحفظ بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔ اسلام اسلام کرنے سے اوپر اوپر تو ملمع چڑھ گیا ہے، اندر کی بےغیرتی نہیں گئی۔ جب تک یہ بے غیرتی نہیں جائے گی حجاب چھوڑ کر نماز پڑھنے کا آرڈیننس بھی جاری کروا دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔
منگل، 17 اپریل، 2012
بجلیاں
اس قوم کے گھروں میں بجلی نہیں آ رہی لیکن اسے بجلیاں چڑھی ہوئی ہیں۔ کہیں سے صدا اٹھتی ہے کہ ایران مفتو مفت ہی بجلی دینے کو تیار ہے،کہیں سے میسج آتا ہے کہ چین 300 روپے مہینہ میں بجلی مہیا کرنے کو بس تیار ہی بیٹھا ہے ہاں کرنے کی دیر ہے۔ اور فیس بُک پر تصویریں رُلتی پھرتی ہیں کہ ڈاکٹر قدیر نے 90 دنوں میں بجلی بنانے کا دعوی کر دیا بس 3 سال پرانے اس دعوے کو قبول کرنا باقی ہے جو کہ حکومت نہیں کر رہی۔
پاکستانی قوم ایک ایسی افسانوی دنیا میں رہنے کی عادی ہے جس سے باہر نکلنا اسے پسند نہیں۔ منطق سے بات کرو تو کھوپڑی میں اترتی نہیں۔ اگر اوپر کیے گئےدعوؤں کو کوئی چیلنج کر دے تو مامے خاں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے ساتھ آپ کی ماں بہن بھی ایک کر ڈالتے ہیں۔ ثبوت مانگو تو آگے سے طعنوں تشنوں کی ڈبل بیرل بندوق چل پڑتی ہے۔
میں معاشیات کا کوئی ماما نہیں ہوں، عام سا قاری ہوں بس روزانہ اخبار پڑھنے کی عادت ہے۔ اور ایک اور گندی عادت ہر بات پر سوال اٹھانے کی ہے۔ جب سے میری کھوپڑی میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ یہاں فیس بک، میسج اور منہ زبانی گردش کرنے والا ہر ایک "فلاحی پیغام" ایک منظم پروپیگنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد اس قوم کو سلائے رکھنا ہے۔ کاکا سُتے رہو، منزل بس دو ہاتھ رہ گئی ہے، بس اتنی سی کسر رہ گئی ہے۔ بس ایران سے بجلی آ گئی، بس چین کو کنٹرول دو بجلی کا، بس ڈاکٹر قدیر خان کے ہاتھ میں روپیہ دو اور دیکھو۔ ارے پاکستان تو جنت میں ہے بس اس جنت کا پیکج ایکٹیویٹ کرانے کی ضرورت ہے۔
بڑی گندی عادت ہے جی ہر چیز پر سوال اٹھانے کی۔ مثلاً یہی لے لیں کہ کئی دنوں سے یہ سوال کھوپڑی میں ناچ رہے ہیں۔
آخر چین ہمارا اتنا ماما کہاں سے ہو گیا کہ دس ڈالر ماہانہ میں ہمیں بجلی مہیا کر دے؟ اگر فرض کیا مہیا کرتا بھی ہے تو قراقرم کے پہاڑوں میں سے بجلی کی تاریں بچھائے گا یا وائرلیس کے ذریعے بجلی آیا کرے گی؟ سوال تو یہ بھی ہے نا کہ تیل کہ چین جو خود تیل کا سب سے بڑا خریدار، کوئلے کا ویری اور ہر رکازی ایندھن کا دشمن ہے کہ اسے اپنی صنعت کا پہیہ چلانا ہے سوا ارب لوگوں کے پیٹ کا جہنم بھرنا ہے وہ اتنا ماما کیسے ہو گیا ہمارا کہ صرف 300 روپے میں بجلی مہیا کرنا شروع کر دے؟ جبکہ آپ کے اپنے ملک میں پن بجلی بھی پیدا ہونے لگے تو اس کی قیمت بھی تین سو نہ ہو۔ آپ کی کرنسی کی مت ہی اتنی وج چکی ہے سرکاراں۔
ایران کے بڑے ہیج چڑھے ہوئے ہیں لوگوں کو۔ ایران گیس دے گا، ایران بجلی دے گا، یہ کوئی نہیں سوچتا ایران کیا لے گا؟ ایران نے گیس دیتے وقت اس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کے ساتھ منسلک کرنے کی شرط رکھی تھی۔ اس سے سستی گیس ترکمانستان دے سکتا ہے۔ اگر کبھی دے سکا تو۔ ایران کے ساتھ تجارت کا مطلب ہے کہ آپ کے بینک امریکہ میں بین۔ اس مطلب ہے کہ ایران سے تجارت صرف بارٹر سسٹم کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی؟ نہیں ہے بس باتیں ہیں۔ اور ہاں اگر پیسے بھی دینے پڑے تو ڈالروں میں جائیں گے اور آپ کے پاس اپنے نوٹوں کے (ردی کے) ڈھیر ہی ہیں، ڈالر جو آتے ہیں وہ فارن بل ادا کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ڈاکٹر قدیر صاحب کو ہر مرض کی دوا سمجھ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سیاست میں آئیں۔ ڈاکٹر صاحب بجلی بنائیں۔ ڈاکٹر صاحب یہ ڈاکٹر صاحب وہ۔ تابکاری کی وجہ سے کینسر کا شکار ایک بوڑھا شخص، اس بے چارے کو ہر جگہ گھسیٹ لیتی ہے یہ قوم۔ ارے ڈاکٹر قدیر ہے لکڑ ہضم پتھر ہضم پھکی نہیں ہے جو سر درد، آنکھوں کی کمزوری اور معدے کی کمزوری سے لے کر گنٹھیا تک کے علاج میں استعمال ہو جاتی ہے (اور آرام پھر نہیں آتا)۔ ڈاکٹر صاحب نے بیرون ملک سے ایٹمی ٹیکنالوجی چرائی تھی، اپنا کیرئیر برباد کیا اور آپ کے ملک کو ایٹم بم بنا کر دے دیا۔ اب بس کرو جناب ان کا کام پورا ہو گیا اس بے چارے بوڑھے کو اب تو سکون سے جی لینے دو۔ عجیب چائنہ کٹ قسم کے ہیروہوتے ہیں ہمارے ہر کام کر لیتے ہیں۔ 90 دنوں میں بجلی کا بحران بھی ختم کر دیتے ہیں۔
یہ 90 دن میں بجلی کا بحران ختم کرنے والی بھی خوب رہی۔ کل فیس بک پر ایک صاحب اچھے خاصے جذباتی ہو گئے کہ اگر ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو ایٹمی بجلی گھر بنانا تو خالہ جی کا واڑہ ہے۔ میں نے کہا بھائی صرف یہ بتا دو کہ ایک ایٹمی بجلی گھر تیار ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے، کسی حوالے کے ساتھ تو میں مان جاؤں گا۔ تو فرمانے لگے آپ ثابت کر میں کیوں کراں؟ بڑی گل کیتی اے وئی۔ پتا نہیں ہماری موٹی کھوپڑی میں یہ بات کب آئے گی کہ چوری کا ڈیزائن لے کر ایٹم بم بنا لینے میں تیس سال لگ گئے تھے، اگر اسی طرز پر ایٹمی بجلی گھر بھی بنانے لگے تو پانچ سال تو انتظار کرو میرے بھائی۔ کراچی کا ایک تھکڑ سا ایٹمی بجلی گھر جو جتنی بجلی بناتا ہے اس سے آدھی خود پی جاتا ہے۔ اور چشمہ کے دو ایٹمی ری ایکٹر جو جھونگے جتنی بجلی مہیا کرتے ہیں۔ چھ سو میگا واٹ اور کہاں پانچ ہزار میگا واٹ کا شارٹ فال۔ یہ چشمہ بھی چین کا سر چشمہ ہے ورنہ آپ کے گوڈوں میں اتنا پانی نہیں ہے کہ ایٹمی بجلی گھر تیار کر سکیں۔ ارے پیسے ہی نہیں ہیں ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے کے لیے اور کیا کرنا ہے۔
ہاں پیسوں کی بھی خوب رہی۔ بجلی کے بحران کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس قوم کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں۔ پر ہیں۔ پیسے ہیں۔ ماہانہ کروڑوں یا شاید اربوں کے نئے نوٹ چھپتے ہیں، چناچہ اگر اس ملک میں کسی چیز کی پیداوار روز افزوں ترقی پر ہے تو وہ نوٹ ہیں۔ نوٹ چھپتے ہیں تو پھر نوٹ زیادہ اور پیداوار کم، نتیجہ یہ کہ سبزی مہنگی نوٹ سستے، بجلی مہنگی نوٹ سستے، پٹرول مہنگا نوٹ سستے، آٹا مہنگا نوٹ سستے۔ حکومت تو اپنا کام کیے جا رہی ہے ہمارے پچھواڑے میں ڈانگ دئیے جا رہی ہے۔ نہ آمدن ہو نہ سرکلر ڈیٹ کا منحوس چکر ختم ہو اور نہ بجلی بنانیوالے پوری پیداوار دیں۔ مجھے تو ڈر اس وقت سے ہے کہ پاکستانی سرکار پاکستانی بینکوں کے سامنے ڈیفالٹر ہو جائے، دیوالیہ۔ جتنے قرضے یہ بینکوں سے لے رہے ہیں، اپنے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کے لیے، اپنے حلقوں کو خوش کرنے کے لیے ترقیاتی کام کرانے کے لیے، مجھے ڈر ہے کہ یہ سرکار دیوالیہ ہو جائے گی۔ اور یونان والا حال ہوگا اس ملک کا۔ یقین نہیں آتا تو اسٹیٹ بینک کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لو، ہر رپورٹ میں یہی رنڈی رونا ہوتا ہے کہ حکومت بہت زیادہ قرضہ لے رہی ہے۔
اور جاتے جاتے پانی کا حال بھی سنتے جائیں۔ یہ گلیشئیر اگلے تیس سال نکال گئے تو معجزہ ہو گا۔ جہاں سیاچن اور بالتورو کے ڈھیر ہیں وہاں صفا چٹ پتھر ہوں گے چند دہائیوں میں اور میٹھے پانی کا ذریعہ ٹھُٹھو۔ نہ پانی ہو گا، نہ ڈیم ہوں گے، نہ پانی محفوظ ہوگا نہ پینے کو ملے گا نہ بجلی بنانے کو ملے گا۔ اور آپ کے دریا تو پہلے ہی انڈیا لیے جا رہا ہے۔ بس تھوڑا سا اور صبر کرلو فیر ویکھو دما دم مست قلدر۔
ہاں حفظ ماتقدم کے طور پر کوئی اور پرانا ہیرو جو ادھر ادھر پڑا ہو جھاڑ پونچھ کر دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے تاکہ عوام کا مورال بلند رہے، اسے نشے کا ٹیکا لگا رہے اور سُتی رہے۔ ستے خیراں، رہے نام اللہ کا جس نے جھوٹوں کے لیے بھی ان کا عمل اتنا خوشگوار بنا دیا کہ وہ اسے ہی سچ سمجھتے ہیں۔
پاکستانی قوم ایک ایسی افسانوی دنیا میں رہنے کی عادی ہے جس سے باہر نکلنا اسے پسند نہیں۔ منطق سے بات کرو تو کھوپڑی میں اترتی نہیں۔ اگر اوپر کیے گئےدعوؤں کو کوئی چیلنج کر دے تو مامے خاں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے ساتھ آپ کی ماں بہن بھی ایک کر ڈالتے ہیں۔ ثبوت مانگو تو آگے سے طعنوں تشنوں کی ڈبل بیرل بندوق چل پڑتی ہے۔
میں معاشیات کا کوئی ماما نہیں ہوں، عام سا قاری ہوں بس روزانہ اخبار پڑھنے کی عادت ہے۔ اور ایک اور گندی عادت ہر بات پر سوال اٹھانے کی ہے۔ جب سے میری کھوپڑی میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ یہاں فیس بک، میسج اور منہ زبانی گردش کرنے والا ہر ایک "فلاحی پیغام" ایک منظم پروپیگنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد اس قوم کو سلائے رکھنا ہے۔ کاکا سُتے رہو، منزل بس دو ہاتھ رہ گئی ہے، بس اتنی سی کسر رہ گئی ہے۔ بس ایران سے بجلی آ گئی، بس چین کو کنٹرول دو بجلی کا، بس ڈاکٹر قدیر خان کے ہاتھ میں روپیہ دو اور دیکھو۔ ارے پاکستان تو جنت میں ہے بس اس جنت کا پیکج ایکٹیویٹ کرانے کی ضرورت ہے۔
بڑی گندی عادت ہے جی ہر چیز پر سوال اٹھانے کی۔ مثلاً یہی لے لیں کہ کئی دنوں سے یہ سوال کھوپڑی میں ناچ رہے ہیں۔
آخر چین ہمارا اتنا ماما کہاں سے ہو گیا کہ دس ڈالر ماہانہ میں ہمیں بجلی مہیا کر دے؟ اگر فرض کیا مہیا کرتا بھی ہے تو قراقرم کے پہاڑوں میں سے بجلی کی تاریں بچھائے گا یا وائرلیس کے ذریعے بجلی آیا کرے گی؟ سوال تو یہ بھی ہے نا کہ تیل کہ چین جو خود تیل کا سب سے بڑا خریدار، کوئلے کا ویری اور ہر رکازی ایندھن کا دشمن ہے کہ اسے اپنی صنعت کا پہیہ چلانا ہے سوا ارب لوگوں کے پیٹ کا جہنم بھرنا ہے وہ اتنا ماما کیسے ہو گیا ہمارا کہ صرف 300 روپے میں بجلی مہیا کرنا شروع کر دے؟ جبکہ آپ کے اپنے ملک میں پن بجلی بھی پیدا ہونے لگے تو اس کی قیمت بھی تین سو نہ ہو۔ آپ کی کرنسی کی مت ہی اتنی وج چکی ہے سرکاراں۔
ایران کے بڑے ہیج چڑھے ہوئے ہیں لوگوں کو۔ ایران گیس دے گا، ایران بجلی دے گا، یہ کوئی نہیں سوچتا ایران کیا لے گا؟ ایران نے گیس دیتے وقت اس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کے ساتھ منسلک کرنے کی شرط رکھی تھی۔ اس سے سستی گیس ترکمانستان دے سکتا ہے۔ اگر کبھی دے سکا تو۔ ایران کے ساتھ تجارت کا مطلب ہے کہ آپ کے بینک امریکہ میں بین۔ اس مطلب ہے کہ ایران سے تجارت صرف بارٹر سسٹم کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی؟ نہیں ہے بس باتیں ہیں۔ اور ہاں اگر پیسے بھی دینے پڑے تو ڈالروں میں جائیں گے اور آپ کے پاس اپنے نوٹوں کے (ردی کے) ڈھیر ہی ہیں، ڈالر جو آتے ہیں وہ فارن بل ادا کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ڈاکٹر قدیر صاحب کو ہر مرض کی دوا سمجھ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سیاست میں آئیں۔ ڈاکٹر صاحب بجلی بنائیں۔ ڈاکٹر صاحب یہ ڈاکٹر صاحب وہ۔ تابکاری کی وجہ سے کینسر کا شکار ایک بوڑھا شخص، اس بے چارے کو ہر جگہ گھسیٹ لیتی ہے یہ قوم۔ ارے ڈاکٹر قدیر ہے لکڑ ہضم پتھر ہضم پھکی نہیں ہے جو سر درد، آنکھوں کی کمزوری اور معدے کی کمزوری سے لے کر گنٹھیا تک کے علاج میں استعمال ہو جاتی ہے (اور آرام پھر نہیں آتا)۔ ڈاکٹر صاحب نے بیرون ملک سے ایٹمی ٹیکنالوجی چرائی تھی، اپنا کیرئیر برباد کیا اور آپ کے ملک کو ایٹم بم بنا کر دے دیا۔ اب بس کرو جناب ان کا کام پورا ہو گیا اس بے چارے بوڑھے کو اب تو سکون سے جی لینے دو۔ عجیب چائنہ کٹ قسم کے ہیروہوتے ہیں ہمارے ہر کام کر لیتے ہیں۔ 90 دنوں میں بجلی کا بحران بھی ختم کر دیتے ہیں۔
یہ 90 دن میں بجلی کا بحران ختم کرنے والی بھی خوب رہی۔ کل فیس بک پر ایک صاحب اچھے خاصے جذباتی ہو گئے کہ اگر ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو ایٹمی بجلی گھر بنانا تو خالہ جی کا واڑہ ہے۔ میں نے کہا بھائی صرف یہ بتا دو کہ ایک ایٹمی بجلی گھر تیار ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے، کسی حوالے کے ساتھ تو میں مان جاؤں گا۔ تو فرمانے لگے آپ ثابت کر میں کیوں کراں؟ بڑی گل کیتی اے وئی۔ پتا نہیں ہماری موٹی کھوپڑی میں یہ بات کب آئے گی کہ چوری کا ڈیزائن لے کر ایٹم بم بنا لینے میں تیس سال لگ گئے تھے، اگر اسی طرز پر ایٹمی بجلی گھر بھی بنانے لگے تو پانچ سال تو انتظار کرو میرے بھائی۔ کراچی کا ایک تھکڑ سا ایٹمی بجلی گھر جو جتنی بجلی بناتا ہے اس سے آدھی خود پی جاتا ہے۔ اور چشمہ کے دو ایٹمی ری ایکٹر جو جھونگے جتنی بجلی مہیا کرتے ہیں۔ چھ سو میگا واٹ اور کہاں پانچ ہزار میگا واٹ کا شارٹ فال۔ یہ چشمہ بھی چین کا سر چشمہ ہے ورنہ آپ کے گوڈوں میں اتنا پانی نہیں ہے کہ ایٹمی بجلی گھر تیار کر سکیں۔ ارے پیسے ہی نہیں ہیں ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے کے لیے اور کیا کرنا ہے۔
ہاں پیسوں کی بھی خوب رہی۔ بجلی کے بحران کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس قوم کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں۔ پر ہیں۔ پیسے ہیں۔ ماہانہ کروڑوں یا شاید اربوں کے نئے نوٹ چھپتے ہیں، چناچہ اگر اس ملک میں کسی چیز کی پیداوار روز افزوں ترقی پر ہے تو وہ نوٹ ہیں۔ نوٹ چھپتے ہیں تو پھر نوٹ زیادہ اور پیداوار کم، نتیجہ یہ کہ سبزی مہنگی نوٹ سستے، بجلی مہنگی نوٹ سستے، پٹرول مہنگا نوٹ سستے، آٹا مہنگا نوٹ سستے۔ حکومت تو اپنا کام کیے جا رہی ہے ہمارے پچھواڑے میں ڈانگ دئیے جا رہی ہے۔ نہ آمدن ہو نہ سرکلر ڈیٹ کا منحوس چکر ختم ہو اور نہ بجلی بنانیوالے پوری پیداوار دیں۔ مجھے تو ڈر اس وقت سے ہے کہ پاکستانی سرکار پاکستانی بینکوں کے سامنے ڈیفالٹر ہو جائے، دیوالیہ۔ جتنے قرضے یہ بینکوں سے لے رہے ہیں، اپنے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کے لیے، اپنے حلقوں کو خوش کرنے کے لیے ترقیاتی کام کرانے کے لیے، مجھے ڈر ہے کہ یہ سرکار دیوالیہ ہو جائے گی۔ اور یونان والا حال ہوگا اس ملک کا۔ یقین نہیں آتا تو اسٹیٹ بینک کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لو، ہر رپورٹ میں یہی رنڈی رونا ہوتا ہے کہ حکومت بہت زیادہ قرضہ لے رہی ہے۔
اور جاتے جاتے پانی کا حال بھی سنتے جائیں۔ یہ گلیشئیر اگلے تیس سال نکال گئے تو معجزہ ہو گا۔ جہاں سیاچن اور بالتورو کے ڈھیر ہیں وہاں صفا چٹ پتھر ہوں گے چند دہائیوں میں اور میٹھے پانی کا ذریعہ ٹھُٹھو۔ نہ پانی ہو گا، نہ ڈیم ہوں گے، نہ پانی محفوظ ہوگا نہ پینے کو ملے گا نہ بجلی بنانے کو ملے گا۔ اور آپ کے دریا تو پہلے ہی انڈیا لیے جا رہا ہے۔ بس تھوڑا سا اور صبر کرلو فیر ویکھو دما دم مست قلدر۔
ہاں حفظ ماتقدم کے طور پر کوئی اور پرانا ہیرو جو ادھر ادھر پڑا ہو جھاڑ پونچھ کر دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے تاکہ عوام کا مورال بلند رہے، اسے نشے کا ٹیکا لگا رہے اور سُتی رہے۔ ستے خیراں، رہے نام اللہ کا جس نے جھوٹوں کے لیے بھی ان کا عمل اتنا خوشگوار بنا دیا کہ وہ اسے ہی سچ سمجھتے ہیں۔
ہفتہ، 11 فروری، 2012
یااللہ تیرا شکر ہے
الحمد اللہ، ثم الحمد اللہ، ثم ثم الحمد اللہ۔
آج ہم آفیشلی گولڈ میڈل یافتہ ہو گئے ہیں۔ بہت دنوں کے بعد ایک اچھی خبر ملی ہے۔ اللہ سائیں کا کرم ہوا، ورنہ اپنے پلے کیا تھا کہ یہ نصیب ہوتا۔
یااللہ تیرا شکر ہے۔
آج ہم آفیشلی گولڈ میڈل یافتہ ہو گئے ہیں۔ بہت دنوں کے بعد ایک اچھی خبر ملی ہے۔ اللہ سائیں کا کرم ہوا، ورنہ اپنے پلے کیا تھا کہ یہ نصیب ہوتا۔
یااللہ تیرا شکر ہے۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)