گرین زون ہالی ووڈ کی ایک نئی فلم ہے جو اسی ماہ جاری ہوئی ہے اور اس کا موضوع عراق پر امریکی حملہ ہے۔ فلم کی کہانی 2003 میں امریکی بمباری سے شروع ہوتی ہے۔ مارچ میں امریکی حملہ ہورہا ہے اور اس کے چار ہفتے بعد امریکہ بغداد پر قابض ہے۔ اس کےبعد بغداد کے گرین زون کا منظر دکھایا جاتا ہے جہاں فوجی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش کے لیے بریفنگ میں شریک ہیں، اور ایسی کاروائیاں کر بھی رہے ہیں۔ لیکن انھیں ملتا کچھ نہیں۔ پھر رائے ملر جو فلم کا ہیرو بھی ہے اسے اس سب پر اعتراض ہے کہ یہ ہتھیار مل کیوں نہیں رہے، وہ میٹنگ میں اعتراض بھی کرتا ہے لیکن اس کا منہ بند کروا دیا جاتا ہے۔ اس دوران ایک کاروائی میں اسے ایک مقامی عراقی ملتا ہے جو اسے بعث پارٹی کے افسران کی میٹنگ کے بارے میں بتاتا ہے۔ ملر ہتھیاروں کے لیے ایک پلاٹ کی کھدوائی کروا رہا ہے، سب چھوڑ کر اس طرف چل پڑتا ہے۔ وہاں سے ان کا سرغنہ جنرل الراوی تو نکل جاتا ہے لیکن دو ایک چھوٹے مرغے پکڑے جاتے ہیں ساتھ ایک نوٹ بک ہاتھ لگتی ہے جس میں الراوی کے ٹھکانوں کی تفصیل ہے۔ ابھی یہ لوگ واپس ہی آئے ہیں کہ ہیلی کاپٹر پر ایک اور پارٹی ریڈ کردیتی ہے اور ان سے گرفتار شدگان کو چھین کر لے جاتی ہے۔ یہاں سے ملر اپنی حکومت سے متنفر ہوجاتا ہے۔ اور سی آئی اے کے ایک آفیشل کے ساتھ مل کر، جو پہلے ہی اس جنگ کے خلاف ہے، اصل حقائق کو سامنے لانے پر کام کرتا ہے۔ ایک صحافی جسے واشنگٹن کے ایک اعلی عہدیدار کی طرف سے خودساختہ انٹیلی جنس اطلاعات ملتی ہیں کہ عراق میں ایسے ہتھیار موجود ہیں، ان میں شامل ہے جو امریکہ کی جنگجو حکومت کو عراق پر حملے کے لیے پریس کی مدد فراہم کرنے میں پیش پیش تھے۔ اس کو بھی اس کا احساس ہوتا ہے کہ کچھ غلط ہورہا ہے۔ اس دوران ملر اور سی آئی اے کا افسر اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ الراوی کو مار کر حقائق چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے چونکہ الراوی ہی وہ ذریعہ ہے جس پر مشتمل خودساختہ رپورٹس اس صحافی کو فراہم کی گئی تھیں۔ ملر الراوی سے ملنے کا پیغام دیتا ہے اور اسکا پتا پینٹاگان کے اس افسر کو چل جاتا ہےجو اس سارے کھیل کے پیچھے ہے۔ وہ پہلے ہی ملر کو ٹرانسفر کروا چکا ہے اور اور سی آئی اے کے افسر سے وہ نوٹ بک واپس لے چکا ہے، جو ملر اسے دے دیتا ہے بعد میں، جنگجو اور بش کا بھائی یہ افسر اسی فوجی افسر کو بھیجتا ہے کہ الراوی کو اڑا دیا جائے۔ اسی دوران یہ افسر ایک اعلان میں عراق کی ساری فوج، انٹیلی جنس اور حکومتی اداروں کی تحلیل کا اعلان کردیتا ہے۔ جبکہ وہاں جنرل کو احساس ہوگیا ہے کہ میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے، اور نئے عراقی سیٹ اپ میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اب۔ وہ ملر کو پکڑ لیتا ہے لیکن ملر اسے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے تاہم ایسا نہیں ہوپاتا۔ کچھ آنکھ مچولی چلتی ہے ملر اسے اپنے مخلاف فوجی افسر سے تو بچا لیتا ہے لیکن ملر کا وہ مقامی مخبر اسے اڑا دیتا ہے۔ اس کے بعد پیناگان کا جنگ پسند افسر بڑے فخر سے عراقی پارٹیوں کے لیڈران کو اکٹھا کرتا ہے۔ ملر اس سے مل کر جھگڑتا ہے، اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے اور جب وہ افسر واپس آتا ہے تو کمرہ اجلاس مچھلی منڈی بنا ہوا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو گالیاں دے رہا ہے۔ ملر اپنی رپورٹ بڑے پریس اداروں کو بھی بھیج دیتا ہے جن میں وہ ہتھیاروں کی رپورٹ شائع کرنے والی یہ صحافی بھی شامل ہے۔ اور تماشا ختم ہوجاتا ہے۔
یہ کہانی ان حالات کی عکاس ہے جن کے تحت امریکی حکومت نے عراق پر حملہ کیا اور فتح کے شادیانے بجائے۔ وہاں کے مقامی سیٹ اپ کو تباہ کردیا، آرمی کو ختم کردیا اور پرانی لیڈر شپ کو دبا و قتل کردیا۔ جس کے نتیجے میں ایسی خانہ جنگی بھڑکی کہ آج بھی اس کی گونج ختم نہیں ہوئی۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تو نہ ملے البتہ وسیع پیمانے پر عراق ضرور تباہ ہوگیا۔ سی آئی آے کے افسر کو حاجی دکھایا گیا ہے جو دعوی کرتا ہے کہ چھ ماہ میں خانہ جنگی بھڑک اٹھے گی، تاہم میرے خیال سے سی آئی اے کا ہی سارا رپھڑ تھا اس میں، ان کی غلط رپورٹس نے یہ جنگ بھڑکائی۔ خیر دیکھیے گا ضرور، اچھی اور فکر انگیز فلم ہے۔
ہفتہ، 27 فروری، 2010
ذرا ہٹ کے
سی ڈی اے لسانیات کی ایک شاخ ہے جس کا مقصد کمیونیکیشن کی زبان و الفاظ کے پیچھے چھپے پوشیدہ معانی کو سامنے لانا ہے۔ کمیونیکیشن کسی بھی طرح ہوسکتی ہے، الفاظ استعمال کرکے، کوئی جسمانی حرکت کرکے یا صرف کسی چیز کی اجازت دے کر۔
کل رات میرے محلے کی گلیوں میں چراغاں ہورہا تھا، مولویوں نے سپیکروں پر رولا ڈالا ہوا تھا اور بجلی بار بار بند ہوکر جارہی تھی۔ میں نے اس سب کو ذرا اور طرح سے دیکھنے کی کوشش کی۔
اس سال پچھلے سالوں سے زیادہ کمرشلائزیشن
دکھاوا، نمود و نمائش، سجاوٹ اور نعرے بازی
سرکاری تعطیل
اس سارے ڈسکورس کو اگر دیکھیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
ملک کے شمال میں دیوبندی انتہا پسند سرگرم ہیں جن کے زور کو توڑنے کے لیے حکومت کو ایک مذہبی ہتھیار کی ضرورت ہے۔ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی ہستی ہے جس کا نام آجائے تو محبت رسول کے نام پر جذبا ت کے فوارے ہمارے اندر سے پھوٹنے لگتے ہیں۔ چناچہ عید میلاد النبی کو پروموٹ کرنے کا مقصد دیوبندی انتہا پسندوں کے مقابل بریلوی اعتدال پسندوں کو کھڑا کرنا ہے۔ جیسا کہ آپ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ بریلوی مسلک کے علماء نے ہمیشہ طالبان کی مخالفت کی ہے
مزید یہ کہ حکومت کو اس کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی دینا ہے کہ پاکستان ایک کٹڑ اسلامی ملک ہے۔ چناچہ عید میلاد النبی کو پروموٹ کیا جارہا ہے۔
میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا کہ عید میلاد النبی بدعت ہے یا نہیں، اور صرف تیس سال پہلے تک یہ کمرشلائزیشن موجود نہیں تھی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میں نے اس ڈسکورس کا ایک تجزیہ آپ کےسامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
کل رات میرے محلے کی گلیوں میں چراغاں ہورہا تھا، مولویوں نے سپیکروں پر رولا ڈالا ہوا تھا اور بجلی بار بار بند ہوکر جارہی تھی۔ میں نے اس سب کو ذرا اور طرح سے دیکھنے کی کوشش کی۔
اس سال پچھلے سالوں سے زیادہ کمرشلائزیشن
دکھاوا، نمود و نمائش، سجاوٹ اور نعرے بازی
سرکاری تعطیل
اس سارے ڈسکورس کو اگر دیکھیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
ملک کے شمال میں دیوبندی انتہا پسند سرگرم ہیں جن کے زور کو توڑنے کے لیے حکومت کو ایک مذہبی ہتھیار کی ضرورت ہے۔ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی ہستی ہے جس کا نام آجائے تو محبت رسول کے نام پر جذبا ت کے فوارے ہمارے اندر سے پھوٹنے لگتے ہیں۔ چناچہ عید میلاد النبی کو پروموٹ کرنے کا مقصد دیوبندی انتہا پسندوں کے مقابل بریلوی اعتدال پسندوں کو کھڑا کرنا ہے۔ جیسا کہ آپ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ بریلوی مسلک کے علماء نے ہمیشہ طالبان کی مخالفت کی ہے
مزید یہ کہ حکومت کو اس کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی دینا ہے کہ پاکستان ایک کٹڑ اسلامی ملک ہے۔ چناچہ عید میلاد النبی کو پروموٹ کیا جارہا ہے۔
میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا کہ عید میلاد النبی بدعت ہے یا نہیں، اور صرف تیس سال پہلے تک یہ کمرشلائزیشن موجود نہیں تھی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میں نے اس ڈسکورس کا ایک تجزیہ آپ کےسامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اتوار، 17 جنوری، 2010
لینکس جابز
انٹرنیٹ پر آج کل ہمارا کام جاب کی تلاش ہوتا ہے. اور جس طرح چیل کو اپنے مطلب کی چیز میل کے فاصلے سے نظر آجاتی ہے ویسے ہی ہم ہر اس چیز کی لپکتے ہیں جس میں جاب کا لفظ آجائے. ایسے ہی ایک لپکنے چھپکنے میں ہمارے ہاتھ یہ ربط لگا. اگرچہ یہ میرے جیسوں کے لیے کوئی ایسی کام کی چیز بھی نہیں لیکن لینکس کی آنلائن جابز کے لیے اچھا آغاز ثابت ہوسکتی ہے.
جمعہ، 8 جنوری، 2010
فلمیں شلمیں
پچھلے سے پچھلے ماہ اور پچھلے ماہ کے پہلے پندرھواڑے تک بجلی وافر مقدار میں ملتی رہی اور ہمیں مفت کا ایک وائرلیس نیٹ ورک بھی ملتا رہا تو اہم نے اسے رج کے استعمال کیا اور ڈھیر ساری فلمیں اتاریں۔ ان فلموں میں سے دو فلمیں جو یاد رہ گئیں وہ ان کی آپسی مماثلت ہے۔ سروگیٹس میں ایک سائنسدان ایسے روبوٹس ایجاد کرتا ہے جو انسانوں کے دوسرے جسم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ خود سارا دن ایک تابوت میں لیٹے رہیں اور آپ کا روبوٹ اوتار آپ کی جگہ کام کرے گا چونکہ اصل میں وہ بھی آپ ہی ہیں، وہی محسوسات اور ویسا ہی بلکہ طاقتور جسم۔ اس فلم کے آخر میں یہ سارا نظام اس کے خالق کے ہاتھوں ہی تباہ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس فلم کا گنجا سا ہیرو پتا نہیں اس کا نام کیا ہے سارے انسانوں کو بچا لیتا ہے اور روبوٹ نظام قیں ہوجاتا ہے۔
دوسری فلم جو ہمیں بڑی پسند آئی وہ اوتار ہے۔ کہانی کی بنیاد وہی ہے ایک عدد ہیرو اور ایک عدد ولن۔ ایک ہیروئن اور اس کے گھر والے جن کو آخر میں ہیرو بچا لیتا ہے۔ اور ہاں ہیرو کی ٹریننگ بھی۔ لیکن جو چیز اس کی بہت اچھی تھی وہ ایک نئی دنیا تھی۔ آج کل کارٹون والے اور فلموں والے ایسی کہانیوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں جن میں غیر ارضی مخلوق کو دکھایا گیا ہو۔ آپس کی بات ہے یہ اچھی بھی بہت لگتی ہے۔ بہت دلچسپ، ہماری بھی اندر سے خواہش ہے کہ ایسی دنیاؤں کے بارے میں جانیں جو ارضی نہ ہوں۔ اس فلم میں اینی میشن اور حقیقی عکس بندی کو کچھ اس طرح ملایا گیا ہے کہ ایک شاندار منظرنگاری پر مشتمل فلم وجود میں آئی۔ ارے ہاں اس کی سروگیٹس سے مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ معذور ہیرو ان انسان نماؤں میں ایسے ہی شامل ہوتا ہے جیسے سروگیٹس میں لوگ روبوٹس کو بطور متبادل جسم استعمال کرتے ہیں۔ ہیرو صاحب ایک تابوت نما چیز میں لیٹ جاتے ہیں پھر اللہ تیری یاری ہیروئن کے ساتھ چھلانگیں لگاتے پھرتے ہیں۔ اگرچہ ہیروئن کوئی اتنی "خوبصورت" نہیں تھی لیکن ہیروئن تو تھی نا۔ بہرحال فلم پسند آئی اور بہت ہی پسند آئی۔ بلکہ مجھے تو اتنی پسند آئی کہ میرا دل کیا کہ یہاں تبلیغ کرنے پہنچ جاؤں۔ الو کے پٹھے پتا نہیں کس کی عبادت کررہے ہیں اللہ میاں کی عبادت کریں۔ ہاں ان کے ہاں کعبے کا مسئلہ ہوتا لیکن وہ تو حل ہوجاتا جن محددات یعنی جتنے ارض بلد اور طولبلد پر کعبہ یہاں واقع ہے ایسا ہی وہاں بنا لیتے۔ کرنی تو عبادت ہے نا جی۔ ہائے ہمارا کتنا دل کرتا ہے ساری دنیا بلکہ ساری کائنات کو مسلمان کرلیں۔ اور خود آپس کے سیاپے ہی ختم نہ کر پائیں۔
خیر تُسیں چھڈو۔ یہ خبر پڑھو۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی فلم بن جائے گی، سہ جہتی ہے نا اس لیے اس کا ٹکٹ بھی مہنگا بکتا ہے۔ چلو جی سانوں کی، ہمیں تو مفت مل جاتی ہے دیکھنےکو۔ اصل سواد تو دوسری تیسری قسط کا ہے۔ سنا ہے ہدائیتکار صاحب کہانی ہٹ ہوگئی دیکھ کر اب دوسری تیسری قسط کے لیے چھری کانٹا تیز کررہے ہیں۔
دوسری فلم جو ہمیں بڑی پسند آئی وہ اوتار ہے۔ کہانی کی بنیاد وہی ہے ایک عدد ہیرو اور ایک عدد ولن۔ ایک ہیروئن اور اس کے گھر والے جن کو آخر میں ہیرو بچا لیتا ہے۔ اور ہاں ہیرو کی ٹریننگ بھی۔ لیکن جو چیز اس کی بہت اچھی تھی وہ ایک نئی دنیا تھی۔ آج کل کارٹون والے اور فلموں والے ایسی کہانیوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں جن میں غیر ارضی مخلوق کو دکھایا گیا ہو۔ آپس کی بات ہے یہ اچھی بھی بہت لگتی ہے۔ بہت دلچسپ، ہماری بھی اندر سے خواہش ہے کہ ایسی دنیاؤں کے بارے میں جانیں جو ارضی نہ ہوں۔ اس فلم میں اینی میشن اور حقیقی عکس بندی کو کچھ اس طرح ملایا گیا ہے کہ ایک شاندار منظرنگاری پر مشتمل فلم وجود میں آئی۔ ارے ہاں اس کی سروگیٹس سے مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ معذور ہیرو ان انسان نماؤں میں ایسے ہی شامل ہوتا ہے جیسے سروگیٹس میں لوگ روبوٹس کو بطور متبادل جسم استعمال کرتے ہیں۔ ہیرو صاحب ایک تابوت نما چیز میں لیٹ جاتے ہیں پھر اللہ تیری یاری ہیروئن کے ساتھ چھلانگیں لگاتے پھرتے ہیں۔ اگرچہ ہیروئن کوئی اتنی "خوبصورت" نہیں تھی لیکن ہیروئن تو تھی نا۔ بہرحال فلم پسند آئی اور بہت ہی پسند آئی۔ بلکہ مجھے تو اتنی پسند آئی کہ میرا دل کیا کہ یہاں تبلیغ کرنے پہنچ جاؤں۔ الو کے پٹھے پتا نہیں کس کی عبادت کررہے ہیں اللہ میاں کی عبادت کریں۔ ہاں ان کے ہاں کعبے کا مسئلہ ہوتا لیکن وہ تو حل ہوجاتا جن محددات یعنی جتنے ارض بلد اور طولبلد پر کعبہ یہاں واقع ہے ایسا ہی وہاں بنا لیتے۔ کرنی تو عبادت ہے نا جی۔ ہائے ہمارا کتنا دل کرتا ہے ساری دنیا بلکہ ساری کائنات کو مسلمان کرلیں۔ اور خود آپس کے سیاپے ہی ختم نہ کر پائیں۔
خیر تُسیں چھڈو۔ یہ خبر پڑھو۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی فلم بن جائے گی، سہ جہتی ہے نا اس لیے اس کا ٹکٹ بھی مہنگا بکتا ہے۔ چلو جی سانوں کی، ہمیں تو مفت مل جاتی ہے دیکھنےکو۔ اصل سواد تو دوسری تیسری قسط کا ہے۔ سنا ہے ہدائیتکار صاحب کہانی ہٹ ہوگئی دیکھ کر اب دوسری تیسری قسط کے لیے چھری کانٹا تیز کررہے ہیں۔
اتوار، 3 جنوری، 2010
لوڈ شیڈنگ
پاکستان میں دسمبر کے آخری اور جنوری کے شروع کے ہفتے پچھلے تین سال سے لوڈ شیڈنگ کے عروج کے دن ہوتے ہیں۔ دن میں بیس گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اس کی وجوہات کو پچھلے تین سالوں سے حل نہیں کیا جاسکا بلکہ یہ مسئلہ شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔
سردیوںمیںہمارےپاس ایندھن کی کمی ہوتی ہے۔ ہماری گیس گھروں میں ہی اتنی لگ جاتی ہے کہ فیکٹریاں بند ہوجاتی ہیں۔ سی این جی سٹیشنز کو گیس کی دو دن فی ہفتہ بندش اسی وجہ سے ہے۔ پاور سٹیشنز کو بھی گیس نہیں ملتی اور کام پورا ہوجاتا ہے۔ پچھلے چار پانچ سالوں سے ہمارے ڈیم بھر ہی نہیں رہے، جیسے ہی سرما میں ڈیم بند کیے جاتے ہیں سارا پاور سسٹم ختم ہوجاتا ہے۔ پیچھے ستر سے نوے فیصد تک بجلی کی کمی ہوجاتی ہے۔ یاد رہے سردیوں میں چار ہزار میگا واٹ کی کمی گرمیوں کی چار ہزار میگا واٹس کی کمی سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ گرمیوں میں پیداوار پندرہ ہزار کے اریب قریب اور کھپت بیس ہزار کے اریب قریب ہوتی ہے۔ سردیوں میں کھپت دس ہزار میگاواٹ سے بہت کم ہوتی ہے اور میں سے چار ہزار میگا واٹ کی کمی کا مطلب ہے فیصد میں ستر سے نوے فیصد تک بجلی کی کمی۔ پچھلے تین سال سے دسمبر کے آخری دو ہفتے اور جنوری کے پہلے دو ایک ہفتے اتنہائی بدترین لوڈ شیڈنگ کے ہوتے ہیں۔ اس سال سے تو گیس بھی کم آنے لگی ہے۔ بجلی بند ہوتے ہی گیس بھی کم ہوجاتی ہے، چولہا جلائیں تو گیس بلب نہیں جلتا وہ جلائیں تو چولہے پر روٹی بھی نہیں پکتی۔ ہماری گیس زیادہ سے زیادہ اگلے آٹھ سال تک کے لیے ہے وہ بھی تب جب نئے کنکشن نہ دئیے جائیں اور سی این جی سٹیشن نہ لگائے جائیں۔ گیس کہاں سے آئے گی کا خیال کیے بغیر گاڑیوں کو بلامنصوبہ بندی سی این جی پر کیا گیا اور آج گھروں میں روٹی پکانے کے لیے بھی گیس نہیں ہوتی سردیوں میں۔ قصبوں اور دیہوں میں سیاسی بنیادوں پر گیس کنکشن دئیے گئے اور گنجان آباد شہروں کے رہنے والے جہاں کوئی اور ایندھن بھی دستیاب نہیں آئے دن گیس کی بندش کے خلاف مظاہرے کر رہے ہوتے ہیں۔ عجیب سسٹم ہے ہمارا۔ ڈنگ ٹپاؤ۔ کھاتے جاؤ۔ جب ختم ہوگا دیکھی جائے گی۔
ہمارے پاس ابھی تک متبادل ذرائع توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے کوئی جامع منصوبہ، پالیسی یا ادارہ موجود نہیں ہے۔ متبادل توانائی بورڈ کے ملتے جلتے نام سے ایک حکومتی ادارہ مشرف دور میں کچھ سرگرم رہا ہے۔ ان لوگوں نے ٹھٹھہ بدین وغیرہ میں غیرملکی کمپنیوں کو پوَن چکیاں لگانے کے لیے زمین بھی الاٹ کی۔ لیکن ابھی تک ایک آدھ پوَن چکی ہی آپریشنل ہوسکی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی بجلی بھی دس روپے سے زیادہ فی یونٹ لاگت کی حامل ہے۔ شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کے لیے کبھی بھی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اسلام آباد کے قریب ایک ماڈل دیہہ جو شمسی توانائی پر چلتا ہے پچھلے کئی سال سے موجود ہے، پنجاب میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر کرنے کی بڑھک پچھلے دنوں خادم اعلی کی جانب سے سنائی دی۔ اب اس پر عمل کتنا ہوگا رب جانے اور خادم اعلی جانیں۔
ہمارے پانی کے ذخائر تیزی سے انحطاط کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بھارت ہمارے دریاؤں پر پچھلے پانچ سال میں کئی بڑے اور بیسیوں چھوٹے ڈیم بنا چکا ہے جس کی وجہ سے آج راوی گندہ نالا ہے اور اس وقت چلتا ہے جب سیلاب آنا ہو۔ جہلم آدھا خشک ہوچکا ہے اور ستلج کو تو سندھ طاس معاہدہ کھا گیا۔ بھارت کے وولر بیراج اور بگلیہار ڈیم پر عالمی عدالت انصاف میں جانے کے لیے نہ مشرف دور میں کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ موجودہ حکومت پچھلے ڈیڑھ سال سے کچھ کرسکی ہے۔ جماعت علی شاہ، ہمارا نام نہاد واٹر کمشنر پتا نہیں کیا کرتا پھر رہا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اس عہدے پر موجود یہ شخص کن کا ایجنٹ ہے اور اسے پانی کی کمی نظر کیوں نہیں آتی۔ ہمارا بارشوں کا نظام تیزی سے نارمل سے ہٹ رہا ہے۔ بلوچستان جیسے علاقوں میں غیرموسمی بارشوں سے قریبًا ہرسال سیلاب آجاتا ہے اور ماضی کے بارانی علاقے اب آسمان کو بادلوں سے عاری دیکھ دیکھ کر ترس جاتے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں کے تحت پانی سٹور کرنے کے لیے ہماری پالیسی میں کوئی بھی تبدیلی یا جدت نہیں لائی گئی۔صرف ایک دیامر بھاشا ڈیم جس پر کام اگلے دس سال میں مکمل ہوگا اسے شروع کیا گیا ہے۔
ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہماری کوئی پالیسی نہیں۔ اور ہماری حکومت یہ ہے کہ ہماری کوئی حکومت نہیں۔ اور ہماری قوم یہ ہے کہ یہ کوئی قوم نہیں ہجوم ہے۔
سردیوںمیںہمارےپاس ایندھن کی کمی ہوتی ہے۔ ہماری گیس گھروں میں ہی اتنی لگ جاتی ہے کہ فیکٹریاں بند ہوجاتی ہیں۔ سی این جی سٹیشنز کو گیس کی دو دن فی ہفتہ بندش اسی وجہ سے ہے۔ پاور سٹیشنز کو بھی گیس نہیں ملتی اور کام پورا ہوجاتا ہے۔ پچھلے چار پانچ سالوں سے ہمارے ڈیم بھر ہی نہیں رہے، جیسے ہی سرما میں ڈیم بند کیے جاتے ہیں سارا پاور سسٹم ختم ہوجاتا ہے۔ پیچھے ستر سے نوے فیصد تک بجلی کی کمی ہوجاتی ہے۔ یاد رہے سردیوں میں چار ہزار میگا واٹ کی کمی گرمیوں کی چار ہزار میگا واٹس کی کمی سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ گرمیوں میں پیداوار پندرہ ہزار کے اریب قریب اور کھپت بیس ہزار کے اریب قریب ہوتی ہے۔ سردیوں میں کھپت دس ہزار میگاواٹ سے بہت کم ہوتی ہے اور میں سے چار ہزار میگا واٹ کی کمی کا مطلب ہے فیصد میں ستر سے نوے فیصد تک بجلی کی کمی۔ پچھلے تین سال سے دسمبر کے آخری دو ہفتے اور جنوری کے پہلے دو ایک ہفتے اتنہائی بدترین لوڈ شیڈنگ کے ہوتے ہیں۔ اس سال سے تو گیس بھی کم آنے لگی ہے۔ بجلی بند ہوتے ہی گیس بھی کم ہوجاتی ہے، چولہا جلائیں تو گیس بلب نہیں جلتا وہ جلائیں تو چولہے پر روٹی بھی نہیں پکتی۔ ہماری گیس زیادہ سے زیادہ اگلے آٹھ سال تک کے لیے ہے وہ بھی تب جب نئے کنکشن نہ دئیے جائیں اور سی این جی سٹیشن نہ لگائے جائیں۔ گیس کہاں سے آئے گی کا خیال کیے بغیر گاڑیوں کو بلامنصوبہ بندی سی این جی پر کیا گیا اور آج گھروں میں روٹی پکانے کے لیے بھی گیس نہیں ہوتی سردیوں میں۔ قصبوں اور دیہوں میں سیاسی بنیادوں پر گیس کنکشن دئیے گئے اور گنجان آباد شہروں کے رہنے والے جہاں کوئی اور ایندھن بھی دستیاب نہیں آئے دن گیس کی بندش کے خلاف مظاہرے کر رہے ہوتے ہیں۔ عجیب سسٹم ہے ہمارا۔ ڈنگ ٹپاؤ۔ کھاتے جاؤ۔ جب ختم ہوگا دیکھی جائے گی۔
ہمارے پاس ابھی تک متبادل ذرائع توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے کوئی جامع منصوبہ، پالیسی یا ادارہ موجود نہیں ہے۔ متبادل توانائی بورڈ کے ملتے جلتے نام سے ایک حکومتی ادارہ مشرف دور میں کچھ سرگرم رہا ہے۔ ان لوگوں نے ٹھٹھہ بدین وغیرہ میں غیرملکی کمپنیوں کو پوَن چکیاں لگانے کے لیے زمین بھی الاٹ کی۔ لیکن ابھی تک ایک آدھ پوَن چکی ہی آپریشنل ہوسکی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی بجلی بھی دس روپے سے زیادہ فی یونٹ لاگت کی حامل ہے۔ شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کے لیے کبھی بھی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اسلام آباد کے قریب ایک ماڈل دیہہ جو شمسی توانائی پر چلتا ہے پچھلے کئی سال سے موجود ہے، پنجاب میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر کرنے کی بڑھک پچھلے دنوں خادم اعلی کی جانب سے سنائی دی۔ اب اس پر عمل کتنا ہوگا رب جانے اور خادم اعلی جانیں۔
ہمارے پانی کے ذخائر تیزی سے انحطاط کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بھارت ہمارے دریاؤں پر پچھلے پانچ سال میں کئی بڑے اور بیسیوں چھوٹے ڈیم بنا چکا ہے جس کی وجہ سے آج راوی گندہ نالا ہے اور اس وقت چلتا ہے جب سیلاب آنا ہو۔ جہلم آدھا خشک ہوچکا ہے اور ستلج کو تو سندھ طاس معاہدہ کھا گیا۔ بھارت کے وولر بیراج اور بگلیہار ڈیم پر عالمی عدالت انصاف میں جانے کے لیے نہ مشرف دور میں کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ موجودہ حکومت پچھلے ڈیڑھ سال سے کچھ کرسکی ہے۔ جماعت علی شاہ، ہمارا نام نہاد واٹر کمشنر پتا نہیں کیا کرتا پھر رہا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اس عہدے پر موجود یہ شخص کن کا ایجنٹ ہے اور اسے پانی کی کمی نظر کیوں نہیں آتی۔ ہمارا بارشوں کا نظام تیزی سے نارمل سے ہٹ رہا ہے۔ بلوچستان جیسے علاقوں میں غیرموسمی بارشوں سے قریبًا ہرسال سیلاب آجاتا ہے اور ماضی کے بارانی علاقے اب آسمان کو بادلوں سے عاری دیکھ دیکھ کر ترس جاتے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں کے تحت پانی سٹور کرنے کے لیے ہماری پالیسی میں کوئی بھی تبدیلی یا جدت نہیں لائی گئی۔صرف ایک دیامر بھاشا ڈیم جس پر کام اگلے دس سال میں مکمل ہوگا اسے شروع کیا گیا ہے۔
ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہماری کوئی پالیسی نہیں۔ اور ہماری حکومت یہ ہے کہ ہماری کوئی حکومت نہیں۔ اور ہماری قوم یہ ہے کہ یہ کوئی قوم نہیں ہجوم ہے۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)