اتوار، 29 جنوری، 2006

ایم کیوایم کیا؟کیوں؟کیسے؟

میں‌نے یہ تحریر کیوں‌لکھی:
ایم کیو ایم سے مجھےکوئی ذاتی بیر نہیں‌مگر پچھلے کچھ عرصے سے یہ نام کچھ اس طرح‌میرے سامنے آیا ہے کہ مجھے مجبورًا اس کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ حکومت میں ایم کیو ایم کی شمولیت۔ میرے شہر فیصل آباد میں‌ایم کیوایم کے دفتر کے قیام کی خبر۔ پھر زلزلے کی حوالے سے ایم کوایم کی سرگرمیاں‌ اور اس کے بعد اردو ویب آرگ پر ایم کیوایم کےبارے میں‌بحث۔
اس بحث کی وجہ سے میں‌مجبور ہوا کہ ایم کیوایم کے بارے میں‌جانوں‌اور اس کے بارے میں‌کچھ لکھوں‌، میرے جیسے کئی ہونگے جو اس کے بارے میں‌نہیں‌جانتے ہونگےاورجاننے کے خواہش مند ہونگے اسی لیے میں‌یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ اس کو لکھنے کے لیے جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے ان میں‌ایک تو الطاف حسین جو ایم کیوایم کاقائد بھی ہے کی آپ بیتی “سفر زندگی “ (جنگ پبلشرز)اور دوسری کتاب “ایم‌کیو ایم“از منیر احمد ہے(نگارشات لاہور) ۔مَیں‌کوشش کروں‌گا کہ اس تحریر میں‌جذبات سے بالاتر ہوکر صرف حقائق بیان‌ کرنے کی کوشش کروں‌۔
ایم کیو ایم کے قیام کی وجوہات:
الطاف حسین 17 ستمبر 1953میں کراچی میں‌پیداہوا۔ 1969 میں‌بوائز سکینڈری سکول جیل روڈ سے میٹرک کرنے کے بعد سٹی کالج سے انٹر سائنس کے ساتھ کیا۔ اس کے بعد 1972 میں‌اسلامیہ کالج سے بی ایس سی کی۔اسی دوران کچھ ایسے واقعات و حالات پیش آئے جس سے آئندہ ایم کیوایم کے قیام کے حالات پیدا ہوئے۔
1970میں ‌نیشنل کیڈٹ سروس کے تحت الطاف حسین نے بھی فوجی تربیت حاصل کی۔ خود الطاف حسین کا بیان ہے کہ وطن کی حفاظت کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ جی کرتا اڑکر سرحدوں‌پر پہنچ جائیں۔ اس دوران کچھ ایسے واقعات پیش آئے جنھوں‌نے الطاف کا دل فوج سے کھٹا کر دیا حالانکہ اس کی بچپن سے خواہش تھی کہ فوج میں‌بھرتی ہوکر وطن کی خدمت کرے۔ دوران تربیت امتیازات کا ایسا ایسا مظاہرہ ہوا کہ وہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ شاید کراچی والے اچھوت ہیں۔ انھیں‌کمزور اور شہری ہونے کے طعنے دیے جاتے دوران تربیت اور مشقوں‌میں‌بھی انھیں‌ایسا کام دیا جاتا جو نسبتًامشکل ہوتا۔ اس سب سے گھبرا کر اور اکتا کر اطاف حسین نے فوج چھوڑ دی۔
بی ایس سی کے بعد بی فارمیسی میں داخلہ لیا۔ یہ کیسے ملا یہ بھی ایک الگ داستان ہے۔ ان کا نتیجہ دیر سے آیا اور یونیورسٹی نے داخلے دینے سے انکار کردیا۔ آخر نوماہ کے طویل احتجاج کے بعد داخلہ ملا۔ بی فارمیسی میں‌ داخلے کے بعد جب الطاف حسین یونیورسٹی(جامعہ کراچی) میں‌داخل ہوا تو اس کی وطن پرستانہ سوچ پر ایک اور ضرب اس وقت پڑی جب اس نے جگہ جگہ پنجابی سٹوڈنٹ فیڈریشن،پختون سٹوڈنٹ‌فیڈریشن،گلگتی سٹوڈنٹ فیڈریشن،بلوچ سٹوڈنٹ فیڈریشن اور اسی طرح‌کے دوسرے قوم پرستانہ ناموں‌پر مشتمل طلبہ یونینوں‌ کے بینر دیکھے۔ الطاف حسین کو یہ پتا چلا کہ بڑی یونینیں‌جیسے جمعیت اور پروگریسوسٹوڈنٹ وغیرہ ان علاقائی ناموں پر مشتمل تنظیموں‌سے دوران انتخابات اتحاد کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سب اور پھر مہاجر طلبہ سے امتیازات دیکھ کر الطاف حسین نے اے پی ای ایس او قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
الطاف حسین نے تحریک نظام مصطفٰی میں بھی بطور کارکن کام کیا۔ سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی میں اہم عہدے پر رہا۔ مگر یہاں بھی تلخ تجربات ہوئے سازش کے ذریعے عہدے سے سبکدوش کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں الطاف حسین کے ذہن میں مہاجر قومیت کا تصور مزید مضبوط ہوا۔
آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کا قیام 11جون 1978 کو عمل میں‌آیا۔ اس سے پہلے دوسال تک صرف خفیہ میٹینگز ہوئیں‌تھیں۔‌‌‌قیام کے وقت الیکشن کے ذریعے الطاف حسین کو چئیرمین اورعظیم طارق (بعد میں ایم کیوایم کا چئیر مین بھی بنا پھر کراچی کے فسادات میں ‌قتل ہوا) کو جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔
اے پی ایم ایس او اصل میں‌طبل جنگ تھا۔ اس نے آگے ایم کیوایم کے قیام کی راہیں‌ہموار کیں۔ اے پی ایم ایس او کے قیام کے بعد الطاف حسین کو جن مشکلات اور صدموں‌سے گزرنا پڑا انھوں نے آگے چل کر ایم کیوایم کے قیام کی راہ ہموار کی۔جعیت جو جماعت اسلام کی ذیلی تنظیم ہے سے الطاف حسین کے اختلافات اسی دور میں شروع ہوئے آج بھی جماعت اسلامی اور ایم کیوایم میں‌ایسا بیر موجود ہے جس کی مثالیں‌دی جاسکتی ہیں۔
الطاف حسین نے اپنی تحریک کے فروغ کے لیے بہت جدوجہد کی۔ سائیکل پر کام کیا۔ چندہ جمع کرکے تنظیم کے اخراجات پورے کیے۔ ٹیویشن پڑھا کر اپنے تعلیمی اور تنظیمی اخراجات میں‌چندہ دیا۔ اس دوران اتنی تکالیف برداشت کرنا پڑیں‌کہ تنطیم کے اراکین جو قیام کے وقت ڈیڑھ سو تھے پینتیس چالیس رہ گئے۔الطاف حسین کو اسی دوران سرمایہ داروں نے چندہ کے سلسلے میں‌بہت مایوس کیا حالانکہ وہ سب بھی مہاجر تھے۔ تنظیم پر سب سے زیادہ سختیاں‌جمعیت نے کیں‌۔ تھنڈر سکواڈ سے اراکین کو ہراساں‌کیا گیا۔ جھگڑے ہوئے ہر حد پارکر دی گئی۔
پہلے الیکشن میں‌تنظیم کو خاص کامیابی نہ ملی ۔ دوسرے الیکشن میں نو سو ووٹ، تین کونسلر اور ایک فیکلٹی کا نمائندہ کامیاب ہوا۔ اس دوران داخلہ مہم میں‌طلبہ نے تنظیم پر اپنے اعتماد کا بے پناہ اظہار کیا۔ اسی دوران مہاجرسٹوڈنٹ فیڈریشن کا شوشہ بھی چھوڑا گیا جو کامیاب نہ ہوا۔ داخلہ مہم میں ‌جمعیت نے کھلی چھیڑ چھاڑ کی حتٰی کہ الطاف حسین پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کی ایف آئی آر بھی درج نہ کروائی جاسکی۔
ایم کیوایم کا قیام:
اے پی ایم ایس او کی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ارباب اختیار اور دوسری حریف تنظیموں‌نے ایسے اقدامات کیے کہ اسے تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا۔ جامعہ کراچی اور دوسرے تعلیمی اداروں میں‌تنظیم کے اراکین پر بے پناہ سختی کی گئی۔ تنظیم کے تعلیمی اداروں‌سے اخراج کے بعد الطاف حسین اور ساتھیوں‌کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اب انھوں نے اپنی تنظیم کو گلی کوچوں کی سطح پر منظم کرنے کا کام شروع کردیا۔عوامی سطح‌پر اے پی ایم ایس او کے منشور کی مقبولیت کے بعد 18 ماچ 1984 میں‌ ایم کیو ایم یعنی مہاجر قومی موومنٹ کا قیام عمل میں‌آیا۔
اپنے قیام کے دوسال تک اس پارٹی نے خاموشی سے کام کیا۔ الطاف حسین اور ساتھیوں نے جماعت کی تنظیم سازی ،آئین،اس کا علاقائی ڈھانچہ تیار کرنے میں‌یہ دو سال گزارے۔ تنظیم نے اپنے اخراجات چلانے کے لیے آزمودہ طریقہ کار یعنی چندے کا سہارہ لیا۔ پاکستان کی تاریخ میں‌ایم کیو ایم شاید واحد جماعت ہے جو عوامی چندے پر چلی اور چلتی ہے۔ 1986 میں‌کراچی میں‌سیاسی سرگرمیوں‌کا آغاز ہوا تو ایم کیو ایم کے کارکنان نے بھی نشتر پارک کراچی میں جلسہ کرنے کی خواہش کی۔ یہاں‌سے ایم کیوایم نے اپنے سیاسی کیرئیر کا باقاعدہ آغاز کیا اور معاصرین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ لاکھوں‌افراد کے اس اجتماع نے کراچی کے عوام میں‌جماعت کی مقبولیت ثابت کردی۔جلسے کے انتظامات کے سلسلے میں رقم چندے سے جمع کی گئی تھی۔
اس کے بعد حیدر آباد کے کارکنان نے بھی اسی قسم کاجلسہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہاں‌تک تو شاید سب ٹھیک تھا۔ مگر یہ وہ نقطہ ہے جہاں‌سے ایم کیو ایم کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا گیا۔ 31 اکتوبر 1986 کو جماعت کے لوگوں‌ کے حیدر آباد جلسے میں‌جاتے ہوئے سہراب گوٹھ کے قریب فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ بقول الطاف حسین یہ ڈرگ مافیا کی ایجنسیوں‌کے اشارے پر کاروائی تھی تاکہ مہاجروں اور پختونوں‌کو لڑایا جاسکے۔ یاد رہے اس علاقے میں‌ پختونوں‌کی اکثریت آباد ہے۔(بعد میں اسی طرح کے اور کئی واقعات ہوئے جن میں‌پنجابیوں‌،سندھیوں‌ اور دوسری قوموں‌کو ایم کیوایم کے خلاف کرنے کی کوشش کی گئی۔ الطاف حسین ان سب کو ایم کیوایم کے خلاف سازش سے تعبیر کرتاہے۔ حقیقت تو خدا جانتا ہے تاہم ان واقعات اور پریس کی مہربانیوں‌سے ایم کیوایم کے خلاف پنجاب اور سرحد میں‌بالخصوص اور پورے ملک میں‌بالعموم نفرت پھیلی۔) کئی لوگ مارے گئے کئی زخمی ہوئے مگر حیدر آبادکا جلسہ ناکام نہ کرایا جاسکا۔ اس روز واپسی پر گھگھر پھاٹک کے قریب الطاف حسین کو گرفتار کر لیا گیا جب وہ مقتولین سہراب گوٹھ کے جنازے میں شرکت کرنے کراچی جارہا تھا۔
14 اور 15 دسمبر1986 کا دن شایداہل کراچی کبھی نہ بھلا سکیں‌جب علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں‌بدترین قتل عام کیا گیا۔مخالف رائے دستیاب نہیں مگر الطاف حسین کے بقول مساجد کے سپیکروں‌سے دہشت گردوں کو گائیڈ کیا جاتا رہا۔ بچے بوڑھے اور جوان کی تخصیص کے بغیر قتل عام کیا گیا۔یہ سب ڈرگ مافیا کے ذریعے کیا گیا۔ حتٰی کہ ایک جگہ ایک خاتون کے جنازے پر بھی حملہ ہوا۔
ان تمام مشکلات کے باوجود ایم کیوایم نے بلدیاتی انتخابات میں بے مثال کامیابی حاصل کی۔جو کراچی اور حیدرآبادکے لوگوں کی الطاف حسین سے والہانہ محبت کا ثبوت تھا۔اس کے بعد ایم کیو ایم کے کونسلروں کو کام سے روکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جو کہ ہماری سیاست کی ریت بھی ہے۔
جب روشنیوں‌کا شہر کراچی جلا:
ایم کیو ایم کی مقبولیت روکنے کے لیے ہر دور حکومت میں‌کام ہوا۔ بے نظیر کے دور حکومت میں‌خصوصًا ایم کیوایم پر بے پناہ ظلم و ستم کیا گیا1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر کی حکومت بنی اس حکومت میں ایم کیوایم بھی معاہدہ کراچی کے تحت شامل تھی۔(ایم کیو ایم کے سیاسی معاہدے آگے ایک اور سرخی کے ذیل میں‌تفصیلًا بیان کیے جائیں گے)۔ بے نظیر نے ہمیشہ ایم کیو ایم کو اپنے لیے خطرہ سمجھا اور بہانے بہانے سے ایم کیوایم کے خلاف آپریشن کیا۔
بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں جب حکومت کے مظالم حدسے بڑھ گئے تو الطاف حسین نے بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا۔ مگر حکومتی یقین دہانیوں‌کے باعث ختم کردی۔ مگر پھر بھی مطالبات تسلیم نہ کیے گئے۔ بے نظیر کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس سے پہلے ہی الطاف حسین اس کے رویےسے مایوس ہوکر نواز شریف سے معاہدہ کرچکا تھا۔نواز شریف کے دور حکومت میں‌1990 سے1992 تک ایم کیوایم اقتدار میں شامل رہی۔
جون 1992 میں‌نواز شریف کے دور حکومت میں ایم کیوایم کے خلاف خوفناک آپریشن شروع ہوا۔فوج کے جنرل آصف نواز نے ایم کیو ایم کے خلاف پوری طاقت استعمال کی نواز شریف کے بقول اس بات سے اسے لاعلم رکھا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن ہے۔
اسی آپریشن اورماضی کی زیادتیوں‌سے مجبورہو کر ایم کیو ایم نے تشدد کا راستہ اپنایا۔ اگرچہ الطاف حسین تنظیم کے کسی عسکری ونگ کی موجودگی سے ہمیشہ انکاری رہا ہے تاہم یہ عسکری ونگ کی موجودگی بعیداز حقیقت نہیں‌۔
اس سے پہلے نواز شریف بطور وزیر اعظم الطاف حسین سے مل کر ایم کیو ایم کے جرائم جن میں‌غنڈہ ٹیکس اور ماردھاڑ ،عقوبت خانے وغیرہ شامل تھے کی نشاندہی کرچکا تھا۔ الطاف حسین کے علم میں‌کچھ جرائم تھے بھی تاہم اس کے چہرے کا رنگ ایک بار ضرور بدلا تھا۔اسی دور میں‌ایم کیو ایم سے کچھ لوگوں‌کو اس الزام کے تحت الگ کیا گیا کہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں‌میں‌ملوث‌ہیں۔اسی دوران راء کے دہشت گرد ایم کیوایم میں گھس آئے اور انھوں‌نے تنظیم کے لیڈروں‌کی قربت حاصل کرلی۔ حتٰی کہ بعض لیڈر بھی ان کی موجودگی جدوجہد اور تنظیم کے لیے ضروری قراردینے لگے۔
فوج اگرچہ پہلے ایم کیو ایم کی حامی تھی ضیاءالحق کے دور میں ایم کیوایم کی پرورش اینٹی پیپلز پارٹی کے طور پر کی گئی تاہم بعد میں‌کچھ وجوہات کی بنا پر فوج اس کے خلاف ہوگئی ۔ انھی وجوہات میں‌ کراچی سیکٹر کے ایک میجر کلیم کا ایم کیوایم کے کارکنوں‌کے ہاتھوں‌اغواء بھی بتایا جاتاہے۔ان باتوں سے تنگ آکر جنرل آصف نواز نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا۔
فوج کے آپریشن اور ایم کیو ایم میں‌جرائم پیشہ لوگوں‌کی شمولیت کا اگر کسی کو کچھ نقصان ہوا تو وہ کراچی کے معصوم عوام تھے۔ان پر زندگی دوبھر کردی گئی۔ ایک طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے دوسری طرف دہشت گرد چکی کے دوپاٹوں میں‌عوام گندم کی طرح‌پس کر رہ گئی۔
فوج اور ایجنسیوںنے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی جاسوسی شروع کردی۔ اسی دوران جناح‌پورکی سازش منظر عام پر آئی جو بقول حکومت علیحدہ ملک بنانے کی سازش تھی اور الطاف حسین اسے ایجنسیوں کی چال قرار دیتا ہے۔اس دوران الطاف حسین علاج کی غرض‌سے لندن جاچکا تھا جس کےبعد وہ وہیں‌کا ہوکر رہ گیا۔
فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز نے برملا اس بات کہ اظہار کیا کہ اگر مسلم لیگ میں دھڑے بندیاں‌ہو سکتی ہیں‌تو ایم کیو ایم میں‌کیوں‌نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ایم کیوایم حقیقی کے نام سے عامر اور آفاق جنھیں‌الطاف حسین نے پارٹی سے جرائم پیشہ سرگرمیوں کی بناء بر نکال دیا تھا(بقول ایم کیو ایم ذرائع) ایک پارٹی کھڑی کر لی۔ اس کے بعد آگ اور خون کا جو کھیل شروع ہوا اس سے سب ہی واقف ہیں۔ یوں‌حالات پیدا ہوگئے جیسے ایم کیو ایم (جسے حکومتی ادارے الطاف گروپ کہتے تھے) اور حقیقی کے مابین گینگ وار شروع ہوگئی ہو۔ نواز شریف کے دور میں‌تو کچھ بچت رہی۔تاہم بے نظیر نے اس کا خوب استعمال کیا۔
اسی دوران آصف نواز کا انتقال ہو گیا اور نئے فوجی سربراہ جنرل وحید نے فوج کو واپس بلانے کا عندیہ دیا۔ اسے ایم کیوایم سے کوئی دلچسپی نہیں‌ تھی مزید جنرل وحید کو احساس تھا کہ فوج کے وقار کو آپریشن نے نقصان پہنچایا ہے۔ نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ اور غلام اسحاق خان کے دور صدارت کا خاتمہ ایم کیو ایم کے لیے بدترین سانحے لے کر آیا۔
بے نظیر نے 1993حکومتیں‌اور اتحاد قائم کرنے کےبعد جو کام کیا وہ ایم کیو ایم کےخلاف آپریشن تھا۔ اس بار اسے جنرل(ر)نصیر اللہ بابر کا بطور وزیر داخلہ تعاون حاصل تھا۔ پیپلز پارٹی کا صدر ہونے کی وجہ سے فاروق لغاری نے بھی غفلت برتی جس کا خمیازہ غریب عوام نے بھگتا۔
ایم کیوایم اور حقیقی کے مابین ہونے والی گینگ وار میں‌ نہ صرف ان کے کارکن مارے جاتے رہے بلکہ عوام بھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ہر حربہ اختیار کیا جو کوئی مہذب ذہن سوچ بھی نہیں سکتا۔عامر اور آفاق اس دوران سرکاری سرپرستی حاصل کرنے میں‌کامیاب ہوچکے تھے۔ فوج اوررینجرز کے ٹرکوں‌پر بیٹھ کر یہ لوگ ایم کیو ایم کے دفاتر پر حملہ آور ہوتے اور ان پر قبضہ کر لیتے۔ کارکنوں‌کو مارتے اور سامان لوٹتے۔ ایم کیو ایم کے ذرائع کا بیان ہے کہ اس دوران کروڑوں‌روپے کا سامان بھی ایم کیو ایم کے دفاتر سے لوٹا گیا۔
بے گناہ بچیوں‌کی عزتوں‌سے کھیلا گیا انھیں‌اغوا کیا گیا۔ ہر وہ ناجائز حربہ اختیار کیاگیا جو سوچا جاسکتاہے۔ اس دوران کراچی کے عوام تنگ آچکے تھے۔ آئے دن کے محاصرے،فائرنگ اور حملے۔ کراچی کے کچھ ضلعے خصوصًا وسطی،غربی کا پچاس فیصد اور شرقی کا قریبًا پینتیس فیصد علاقہ دہشت گردوں‌کی لپیٹ میں‌تھا۔ ملیر کے کچھ علاقے بھی اس میں‌شامل ہیں۔
یوں‌لگتا تھا جیسے ایم کیوایم والوں‌کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو ان دونوں دھڑوں‌‌کے کارکنوں‌کو نشانہ بنا رہا ہے۔ الطاف حسین نے ہمیشہ اسے ڈرگ مافیا اورایجنسیوں‌کی کارستانی قرار دیا۔ تاہم یہ بات قرین قیاس ہے کہ اس میں‌بیرونی ہاتھ ضرور ملوث تھا جس نے بہتی گنگا میں‌ہاتھ دھونا اپنا فرض‌سمجھا۔
جنرل نصیر اللہ بابر نے اپنے انٹرویوز اور تقاریر میں‌ایم کیوایم کو علیحدگی پسند تنظیم قرار دیا۔ اور اس بات کا برملا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم کو بھارت سے امداد ملتی ہے۔ اس نے یہ دعوٰ ی بھی کیا تھا کہ ایجنسیوں‌نے اس بات کا سراغ لگایا ہے کہ بھارت ان کے پچاس پچاس لوگوں‌کے ٹولوں‌کے دریائے گومتی کے کنارے ٹریننگ دیتا ہے۔
بات کوئی بھی ہو اس کا نتیجہ عوام کے حق میں‌برا نکلا۔ بے پناہ قتل و غارت گری آئے دن فائرنگ کے واقعات جیسے معمول بن گئے تھے۔ ایدھی کے مطابق ان دنوں میں‌حیدر آباد اور کراچی سے چار سو مسخ‌شدہ لاشیں‌برآمد ہوئیں۔ بوریوں‌میں‌بند لاشیں‌ملنا معمول کی بات تھی۔
بقول وزیر داخلہ انھی دنوں‌کھجی گراونڈ‌کو آزاد کروایا گیا۔ گلبہار اور گولی مار کے علاقے میں‌تنگ مکانات اور گلیوں‌کے پیچھے یہ گراؤنڈ دھشت گردوں‌کا گڑھ بن چکی تھی۔ پولوں‌سے زنجیریں‌باندھ کر اور سڑکوں‌میں‌گڑھے ڈال کر کاروں‌اور گاڑیوں‌کی آمدو رفت کو روکا گیا تھا۔ ہر وقت اس جگہ 60سے70دہشت گرد موجود رہتے تھے۔پولیس اور رینجرز نے کاروائی کرکے اس علاقے کودہشت گردوں‌سے پاک کیا ۔ بعد میں‌بی بی سی کے نامہ نگار کو کچھ مقامیوں‌نے بتایا کہ وہ اکثر لوگوں‌کے چیخنے کی آوازیں‌یہاں‌سے سنا کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے اس جگہ لوگوں‌پر نشانہ بازی کی مشق کیجاتی تھی کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں‌یہ “قائد“ کے غدار لوگ ہوتے تھے۔ بعد میں‌عقوبت خانے اور اسلحہ وغیرہ میڈیا کو دکھایا گیا۔
ٹی وی پر گرفتار دہشت گردوں کو دکھایا جاتا اسی دوران عظیم طارق چئیرمیںن ایم کیوایم کے قتل کی منصوبہ بندی کا بھی انکشاف ہوا۔
اکتوبر 1993 سے لے کر نومبر 1994 تک فوج کی موجودگی میں‌مارے جانے والے لوگوں‌کی تعداد 701 اور زخمی ہونے والوں‌کی تعداد 1056 ہے۔ اس میں‌غالب تعداد عام شہریوں‌کی ہے تاہم آرمی اور دیگر اداروں اور دوسری جماعتوں‌ کے لوگ بھی شامل تھے۔
فوج کے جانے کے بعد 30 نومبر 1994 سے لے کر 30ستمبر 1995 تک ہلاک ہونے والوں‌کی تعداد پہلے سے دوگنی سے بھی زیادہ 1759 اور زخمی ہونے والے چارگنا4128 تھے۔ اس میں‌غالب تعداد(1103و2500) ایم کیوایم کے لوگوں‌کی ہے جو ہلاک اور زخمی ہوئے اس طرح بے نظیر حکومت کی بدنیتی اور ظلم سامنے آجاتا ہے۔
الطاف حسین کے سیاستدانوں سے معاہدے:
الطاف حسین کو ہمیشہ سیاستدانوں‌نے دھوکا دیا۔ سیاست کے میدان میں‌اناڑی ہونے کی وجہ سے سب نے اس کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنا الوسیدھا کیا اور چل دیے۔الطاف حسین ایک طاقتور آدمی تھا بے شک ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سیاستدان اس سے ملاقات کرنے کے لیے وقت مانگا کرتے تھے۔مگر وہ اپنی سیاسی طاقت کو صحیح‌طرح‌استعمال نہیں‌کر سکا۔
ایم کیوایم کا پہلا معاہدہ بے نظیر سے ہوا۔ 1988 کے انتخابات کے بعد مسلسل بارہ روز کے مذاکرات کے بعد یہ 59 شقوں پر مشتمل معاہدہ طے پایا۔ جس پر عمل کبھی بھی نہ ہوسکا۔ اس معاہدے میں‌بھی بقول ایک سیاستدان ایم کیو ایم کی ناتجربہ کاری کے باعث ان کا بنیادی مطالبہ یعنی مہاجر قومیت کو تسلیم کرنا بھی معاہدے سے متفقہ طور پر نکال دیا گیا۔ ان 59 مطالبات یا شقوں‌میں‌تمام کی تمام فروعی توعیت کی تھیں‌جو 6یا7 بنیادی نوعیت کے مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد پوری ہوجاتیں‌۔ تاہم بے نظیر نے اس کا بھی فائدہ اٹھایا اور ہر بار جب ایم کیو ایم نے احتجاج کی دھمکی دی بے نظیر نے اس معاہدے پر عمل کرنے کا اعلان کرکے اپنا مطلب نکال لیا۔
بے نظیر سے مایوسی کے بعد اسلام جمہوری اتحاد سے الطاف حسین کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کو کچھ عرصہ خفیہ رکھنے کے بعد منظر عام پر لایا گیا۔ اس معاہدے کے تحت ایم کیوایم نواز شریف کے ساتھ حکومت میں‌شامل بھی ہوئی۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ الطاف حسین کا معاہدہ بے نظیر کے دور حکومت میں‌ہی ہوگیا تھا۔ کیونکہ الطاف حسین بے نظیر سے مایوس ہوچکا تھا۔ نواز شریف نے ایم کیوایم کے بل بوتے پر کراچی اور حیدر آباد میں‌بڑے بڑے جلسے کیے۔ انتخابی ایڈجسٹمنٹ میں‌ کچھ گڑبڑ اس وقت ہوئی جب جماعت اسلامی نے کراچی میں‌اپنی نشستین‌ہارے بغیر چھوڑنے سے انکار کردیا۔ نواز شریف نے ایم کیو ایم سے ہر ممکن تعاون کیا حتٰی کہ جب اس کے سامنے ایم کیوایم کے جرائم کے ثبوت اور عقوبت خانوں‌کے بارے میں‌رپورٹین رکھی گئیں‌تو بطور وزیر اعظم الطاف حسین نے ملاقات کرکے اس بارے میں‌مطلع کیا۔ الطاف حسین نے تعاون کا یقین دلایا اور اس نے ایسا کیابھی تنظیم سے کئی ایسے عناصر کو نکالا بھی گیا۔
مگر شاید دیر ہوچکی تھی۔ فوج اور اسٹیبلیشمنٹ ایم کیوایم کے خلاف ہوچکی تھی۔ بعد میں‌نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد حالات مزید ابتر ہوگئے کراچی میں‌خون کی ہولی کھیلی گئی جس کے شریک تمام لوگ کچھ نہ کچھ قصور وار تھے
ایم کیو ایم کے1993 کے انتخابات میں‌چند نشستوں پر امید وار کھڑے کرنے کی اجازت ملی تھی(فوج اور اسٹیبلیشمنٹ کی طرف سے) جس کے بعد انھوں‌نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ مگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں‌ شرکت سے اس لیے نہ روکا گیا کیونکہ مقتدر قوتوں‌کو احساس ہوچکا تھا۔جیتنے والے امید وار لاکھوں‌کے حلقے سے چند ہزار ووٹ لے کر جیتے تھے جو لوگوں‌کی ایم کیو ایم سے محبت کا ثبوت تھا چناچہ ایم کیو ایم نے 24 گھنٹے کے نوٹس پر تیاری کر کے سندھ اسمبلی کے لیے شہری علاقوں سے میدان مار لیا۔
ایم کیو ایم بطور پارٹی:
ایم کیو ایم کی تنظیم سازی میں‌مرکز کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اصل میں‌یہ تمام پارٹی الطاف حسین کے گرد گھومتی ہے۔پارٹی کے کارکنوں‌کے ذہنوں‌میں‌قائد کی محبت اور اطاعت راسخ ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ پاکستان میں‌اگر کوئی تنظیم اس قدر منظم ہے تو وہ ایم کیوایم ہی ہے۔
ایم کیوایم کے حلف نامے میں‌واضح طور پر اللہ اور ماں‌کی قسم کھا کر پارٹی اور الطاف حسین سے وفاداری کا عہد کیا گیاہے۔ جس سے واضع ہوجاتاہے کہ الطاف حسین ایم کیوایم کے لیے کیا ہے۔کسی بھی قسم کی اطلاع جو پارٹی کے مفاد میں‌ ہو یا اس کے خلاف کوئی سازش فوری طور پر اس کی اطلاع مرکز یا قائد کو پہنچانے کی ہدایت ہے۔
الطاف حسین کے اس قدر اثر کی ہی وجہ سے شاید ایم کیوایم کے کارکن قائد کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں‌ کرتے۔
ایم کیو ایم کی ایک اور خاص بات اور جس پر انھیں سب سے زیادہ فخر بھی ہے ان کی مڈل کلاس قیادت ہے۔ یہ بات بالکل قابل تعریف ہے کہ ایم کیوایم کی قیادت مڈل کلاس سے اٹھی اور مقبولیت حاصل کی۔ اب کا حال تو خدا جانتا ہے کیونکہ تازہ ترین دستیاب مواد بھی دس سال پرانا ہے اب شاید کچھ اور صورت حال ہو۔
ایم کیو ایم کا منشور:
بنیادی طور پر ایم کیوایم مہاجروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے وجود میں‌آئی۔الطاف حسین اور اس جیسے کئی دوسرے بانیانِ پارٹی جو معاشرے کے ڈسے ہوئے تھے نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی ٹھانی ۔ اسی لیے اس کا منشور بھی مہاجر قومیت کو درپیش مسائل اور اکثر سندھ کی طرف سے مطالبات پر مشتمل ہے۔
مقامی غیر مقامی کی ایک مخصوص تعریف،کراچی کی ترقی کے لیے مطالبات،سندھ اور مرکز میں‌مہاجروں کی نمائندگی کے لیے حلقہ بندیاں‌اور دوسرے اقدامات،اندورن سندھ کے تعلیمی اداروں‌میں‌مہاجر طلبہ کا داخلہ،سرکاری ملازمتوں میں‌مہاجروں اور شہری سندھ کا کوٹہ،فوج میں سندھ کے لوگوں کی بھرتی کے لیے الگ معیارات،تعلیم کا بجٹ میں زیادہ حصہ اور اہم عہدوں‌پر مہاجروں‌کے تقرر بارے مطالبات اس کے منشور کا حصہ ہیں‌۔
ایم کیو ایم اب مہاجر قومی موومنٹ‌کی بجائے متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ نام کی تبدیلی اور ملکی سطح‌پر سیاست میں‌آنے کا فیصلہ 14 اگست 1992 میں‌ہونا تھا مگر جنرل آصف نواز کے آپریشن کی وجہ سے (شاید) موخرکردیاگیا۔(اس سلسلے میں زیادہ تفصیل ان کتابوں‌میں‌موجود نہیں‌کیونکہ یہ 1995 تک کے حالات کا حاطہ کرتی ہیں)ایم کیو ایم کے کچھ مطالبات جو میرے علم کے مطابق پورے کیے جاچکے ہیں۔
فوج میں‌سندھ کے لوگوں‌کے لیے قدکا معیار کم کر دیا گیا ہے چونکہ سندھی عام طور پر پست قامت ہوتے ہیں۔
سندھ میں‌اس وقت ڈاکٹر عشرت العباد گورنر ہے جو مہاجر اور ایم کیوایم والوں میں‌سے ہے۔‌
تعلیم کے اخراجات ہر سال بجٹ میں‌بتدریج بڑھائے جارہے ہیں۔
ایم کیو ایم اچھی یا بری:
ایم کیو ایم پاکستان کی تاریخ‌کی انتہائی متنازعہ جماعت ہے ۔اس کے حامی حد سے زیادہ حامی اور مخالف بھی حد سے گزر جانے والے ہیں‌۔ الطاف حسین کے بقول ایم کیوایم کے بارے میں‌رائے عامہ بگاڑنے میں‌ایجنسیوں‌اور فوج کا ہاتھ رہا ہے۔ شاید یہ بات ٹھیک بھی ہو۔ تاہم ایم کیوایم سے خود بھی غلطیاں‌ہوئی ہیں۔دوسرے ایم کیو ایم نے کا پیغام عام آدمی تک صحیح‌طرح‌سے پہنچ نہیں‌سکا یعنی ایم کیوایم کا پروپیگنڈا یونٹ خاصا کمزور ہے۔ کراچی اور حیدر آباد کی بات اور ہے تاہم اگر ایم کیوایم نے ملکی سطح پر مقام پیدا کرنا ہے تو پورے ملک کو اس بارے آگاہی ہونی چاہیے۔
اردو ویب آرگ پر دوران بحث ایم کیو ایم کے کارکن کی طرف سے بدزبانی نے مجھے مہمیز کیا کے اس بارے جانوں‌گو میرا جذبہ بھی منفی تھا کہ اس کی برائیوں‌بارے جانوں‌تاہم عام آدمی جب اس حد سے زیادہ تنگ نظری کو دیکھے گا تو وہ اس بارے کچھ اچھی رائے قائم نہیں‌کرے گا اور صاف سی بات ہے کہ ایم کیو ایم کے نام سے ہی دور بھاگے گا۔
ایم کیو ایم اب متحدہ قومی موومنٹ ہے۔ اسے اپنے منشور میں‌وہ مسائل بھی شامل کرنے چاہیں‌ جو پاکستان کے دوسرے علاقوں‌کےعوام کو درپیش ہیں۔
بلاشبہ ایم کیو ایم کا یہ نعرہ کہ وہ وڈیروں جاگیر داروں کے مخالف ہیں غریب کے لیے کشش کا باعث ہے مگر بات عمل کی ہے۔
ایم کیو ایم غریب قیادت کا نعرہ تو لگاتی ہے مگر مشرف حکومت میں وزارتیں‌لے کر سکون سے بیٹھی ہے اور غریب ختم ہورہے ہیں‌۔ صرف کالا باغ اور بلوچستان کے مسائل پر ہمیں‌پتا چلا کہ ایم کیوایم بھی ہے ورنہ ان لوگوں‌نے چپ سادھی ہوئی ہے۔ شاید اب ان کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔
بات کہاں‌سے چلی اور کہاں‌پہنچی۔ خلاصہ یہ کہ ایم کیوایم کی تاریخ‌آپکے سامنے ہے۔ میں نے حتٰی لامکان حقائق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کے ماضی اور حال کو دیکھ کر آپ بہتر فیصلہ کر سکیں‌گے کہ کیا صحیح‌اور کیا غلط ہے۔
اللہ ہمیں‌صرف اور صرف پاکستان کو سامنے رکھ کر سوچنے اورعمل کرنے کی توفیق دے۔آمین۔‌‌

منگل، 17 جنوری، 2006

کاروبار

جانی نے گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر اس خوش پوش جوان کی طرف جو اب انارکلی کی طرف جارہا تھا۔وہ اس آدمی کے پیچھے پچھلے ایک گھنٹے سے لگا ہوا تھا مگر تگڑا شکار ہونے کے باوجود اسے مناسب موقع ہاتھ نہیں لگا تھا۔جیسے شکار انارکلی میں داخل ہوا جانی بھی اسکے پیچھے مگر نسبتٌاقریب ہوکر بازار میں داخل ہوگیا۔ پھر وسط تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ ایک مخصوص دھکے کے ساتھ اپنا کام کرچکا تھا۔ جوان کا دیدہ زیب سا بٹوہ اس کی خفیہ جیب میں تھا۔
اس مرغی کی طرح جسے انڈہ دینے کے لیے جگہ درکا ہوتی ہے اب جانی کو بٹوے کی تلاشی کے لیے کوئی مناسب جگہ درکار تھی۔ انارکلی سے انھی پیروں واپس نکل کر اب وہ کسی سنسان گوشے کی تلاش میں تھا تاکہ اپنے گناہ کا بوجھ ہلکا کرسکے۔پھر ایک ویران سے گوشے میں چند بند دوکانوں کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے جلدی سے بٹوہ نکالا اور اس کی تلاشی لینے لگا۔
دھت تیرے کی" بےاختیار اس کے منہ سے یہ فقرہ ایک وزنی گالی کے ساتھ برآمد ہوا۔ اس بٹوے میں بھی ایک معشوق کی" تصویر، چند تعارفی کارڈوں اور ایک بیس روپے کے نوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بیوہ کی ویران مانگ کی طرح بٹوے کو خالی دیکھ کر جانی کا جی چاہا کہ اپنا سر پیٹ لے۔ یہ صبح سے تیسرا شکار تھا جس کی جیب سے اسے پچاس سے بھی کم روپے ملے تھے۔ اس سے زیادہ روپے وہ بس کے کرائے میں دے چکا تھا۔
جانی نے بٹوے کو مایوسی سے ایک طرف پھینکا اور دوبارہ کسی مرغے کی تلاش میں چل پڑا۔ اتفاق سے انارکلی سے باہر نکلتا ہواجوڑا اس کی نظر پڑ گیا جو شکل سے سفید پوش نظرآرہے تھے مگر جب ان کے درمیان بس اورٹیکسی سے گھر جانے پر جھگڑا ہونے لگا تو اس نے آدمی کی کنجوس ذہنیت بھانپ لی ۔ اب جانی ان کے پیچھے تھا۔ کچھ دیر کے بحث مباحثے کے بعد آخر بیوی کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ بس سٹاپ کی طرف چل پڑے۔ جانی بھی اچھے شکار کی امیدمیں ان کے پیچھے تھا۔ بس میں چڑھ کر جب مرد نے ٹکٹ لینے کے لیے بٹوہ نکالا تو اس میں لال رنگ کی جھلک دیکھ کر جانی کو کچھ صبر آیا۔
اسی دوران بس میں ایک نوعمر سا لڑکا چڑھ آیا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک صندوقچی تھی جس پر کسی مدرسے کا نام لکھاہوا تھا سر پر ٹوپی،چہرے پر معصومیت اور یتیمی اور آوازمیں کچھ اس قسم کا درد بسا ہوا تھا کہ لوگ بے اختیار اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہورہے تھے۔
جانی جو اس دوران شکار پر ہاتھ صاف کرنے کی نیت سے آگے بڑھ رہا تھا مایوسی سے ایک طرف کھڑا رہ گیا اس کے شکار نے بھی اپنے بٹوے سے دس کا ایک نوٹ نکال کر اس کی صندوقچی میں ڈال دیا۔جانی یہ سب دیکھ کر صرف زہر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا اس لڑکے کی وجہ سے اس کا وقت ضائع ہورہا تھا۔ آخر سمن آباد کے سٹاپ سے پیچھے ایک جگہ اس نے شکار مار لیا اور اب وہ بس سے اتر کے اپنے اڈے کی طرف پیدل چلنے لگا۔ اس دوران وہ بڑی بے پرواہی سے بٹوہ کھول کر اس کا جائزہ بھی لے رہا تھا جس میں سے اکلوتا سو کا نوٹ جھانکنے لگاتھا۔
جانی نے اپنی دن بھر کی کمائی کا حساب لگایا تو بمشکل سو روپیہ بنا باقی روپے بس کے کرائے میں نکل چکے تھے۔
"لگتا ہے آج پھر استاد سے سننا پڑیں گی"
اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا۔
اڈے کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے کانوں میں گُلّو کی چیخیں پڑنے لگیں۔ استاد کے سامنے مرغا بنا گُلّو معافی مانگ رہا تھا مگر استاد معاف کرنے کو تیار نہ تھا۔ جانی کو دیکھ کر استاد نے جوتے مارتا اپنا ہاتھ روک لیا ۔
ہاں بھئی شہزادے کیا کمائی کرکے لائے ہو" خلاف معمول استاد کا لہجہ طنزیہ تھا۔ "
جانی نے سو کا نوٹ اس کے آگے رکھ دیا تو استاد کو جیسے پتنگے لگ گئے۔ اب اسکی توپوں کا رخ جانی کی طرف تھا۔ جانی کے لمبے قد اور اپنے برابر جسامت کی وجہ سے اسے مار تو نہیں سکتا تھا اس لیے اس نے لفظوں کی مار مارنا شروع کردی۔ جانی سر جھکائے استاد کی کڑوی کسیلی سن رہا تھا۔
استاد رحیم دادا جو اپنے شاگردوں میں صرف استاد کے نام سے مشہور تھا علاقے کا نامی غنڈہ تھا۔ پولیس سے دیرینہ یاری تھی اور جوئے کے علاوہ پاکٹ مارنے کا دھندہ بھی اپنے شاگردوں سے کرواتا تھا۔
".استاد کیا کروں ۔ صبح سے چار شکار ہی کچھ کام کے ملے مگر ان سے بھی پچاس سو ہی نکلے ہیں۔ اس میں ہمارا کیا قصور ہے"
جانی نے منمناتے ہوئے مزید وضاحت کی "لوگ تو جیسے جیبوں میں کچھ لے کر ہی نہیں نکلتے۔ سارا دن خواری کے بعد یہ کچھ ہاتھ لگا ہے“۔
ابے میں کیا کروں۔ وہ تمہارا باپ تھانیدار ماہانہ مانگ رہا ہے۔ ماں کا خصم کہتا ہے جوے کا اڈہ بند رہنے دو اوپر سے سختی ہے اور تم کچھ لا کر نہیں دیتے۔ کیا تمہاری ۔۔۔۔۔ کو بیچ کر اسے ماہانہ دوں۔ اڈےکا خرچہ تم سب کا روٹی پانی کیا تمہارا باپ کرے گا آکر۔ کچھ لاؤ گے تو میں یہ سب کروں گا" ۔
رحیم دادا اس بار جیسے پھٹ پڑا تھا۔ پھر جیسے جیسے سب آتے گئے کسی کے پاس سے بھی سو سے زیادہ روپے نہں نکلے۔ اور استاد کا غصہ آسمان کو چھونےلگا۔ آخر اس نے بڑی ملائمت سے کہنے لگا۔
آج سے یہ اڈہ بند اپنا کماؤ اور اپنا کھاؤ مجھ سے تمہارا کوئی تعلق نہیں جب لا کر نہیں دیتے تو میں کیا خود کو بیچ دوں۔ ماہانہ ہے نہ میں بھگت لوں گا تم لوگ جان چھوڑو میری"۔
اب کے رحیم دادا نے اپنے مخصوص اندازاور لہجے میں کہا تھا لڑکے جانتے تھے کہ اس کا لہجہ اتنا ملائم اسی وقت ہوتا ہے جب وہ غصے کی انتہا پر ہو۔
"نہیں استاد!ایسا بھلا کیسے ہو سکتاہے۔ ہم کہاں جائیں گے اڈے کے سوا۔ تمہارے سوا ہمارا ہے ہی کون ہے دنیا میں"
تمام لڑکے اس قسم کے جملے بول کر استاد کی منتیں کرنے میں لگے تھے اور جانی کا ذہن کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ وہ صندوقچی والا لڑکا اسے بری طرح یاد آرہا تھا۔ اس لڑکے کو وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ گندی سی بستی میں رہنے والا یہ لڑکا کسی مدرسے کا طالب علم نہیں تھا بلکہ یہ اسکے پورے خاندان کاکاروبار تھا۔ اس کا باپ اور چھوٹے بڑے تمام بھائی صبح گھر سے یہ صندوقچیاں لے کر نکلتے تھے اور شام کے ہزاروں روپے کما کر گھر لوٹتے تھے۔
"استاد میری بات سنو۔" جانی کے انداز میں کچھ ایسی بات تھی کہ سب چپ ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگے استاد بھی ناراض ناراض سا اسکی طرف متوجہ تھا۔
.استاد! اگر ہم اپنا کام بدل لیں"۔ جانی نے گویا سسپنس پیداکیا
ابے کل کے لونڈے اب مجھے کام بدلنے کے مشورے دے گا۔ کیا پھول بیچا کرےگا کل سے " اپنی معشوق کے گھر کے باہر
"
استاد نے ترشی سے کہا۔
"استادبات تو پوری ہونے دو۔ " یہ کہہ کر وہ استاد کو اپنی تجویز بتانے لگا۔ سب بتانے کے بعد وہ بولا
"استاد چاندی ہو جائے گی اگر میری بات مان لو۔ نہ پولیس کا ڈر اور دین کا بھی بھلا۔ یعنی ہم خرمہ وہم ثواب" جانی نے اس مرتبہ اپنے میڑک پاس ہونے کا فائدہ اٹھایا۔
جانی کی بات سن کر استاد سوچ میں پڑ گیا پھر کئی منٹ سوچتے رہنے کے بعد اس نے اثبات میں سر ہلایا تو سارے لڑکوں نے مل کر استاد کو سر پر اٹھا لیا۔
نئے کاروبار کے سلسلے میں انتظامات کرنا اب جانی کی ذمہ داری تھی۔ اس نے اپنے ایک واقف کار جستی پیٹیاں بنانے والے کودرجن بھر صندوقچیاں بنانے کا آرڈر دے دیا۔ ساتھ ہی رسید بک اور لڑکوں کے لے کرتہ شلوار کا آرڈر بھی دے کر وہ ٹوپیاں خریدنے چل پڑا۔ لڑکے اس کے ساتھ تھے کرتا شلواروں کا ناپ دینے کے بعد وہ سب مارکیٹ میں اپنی پسند کی ٹوپیاں خریدنے لگے۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ اڈے پر واپس آئے تو استاد چارپائی پر لیٹا سوچ میں گم تھا۔
"ابے یہ جو جعلی مدرسہ چلائے گا تُو اسے اصلی مدرسہ کیوں نہ بنادیں۔ “
جانی استاد کی بات سن کر سوچ میں پڑگیا۔
"استاد اس کے لیے انتظام کیسے کروگے۔ پلاٹ کا انتظام پھر مدرسہ چلانے کے لیے مولوی بھی تو چاہیے۔"
"ابے میں کس لیے ہوں کسی مولوی کی شاگردی اختیار کیے لیتا ہوں دو چار ماہ میں کام سیکھ جاؤں گا۔ اپنا گلشن والا پلاٹ اسی دن کے لیے رکھا تھا۔ وہاں بنیادیں کھدوا دیتے ہیں اور اپنے مدرسے کا بورڈ لگوادیتے ہیں۔ اتنے عرصے میں تم لوگ کام کرو اور جمع کیے چندے سے دیواریں اٹھانا شروع کردیں گے"استاد کا مفصل جواب سن کر جانی بھی راضی ہوگیا۔پھر وہ پینٹر سے بورڈ بنوانے کے لیے روانہ ہوگیا اور لڑکے اچھل کود اور چندہ مانگے کی مشق کرنے لگے۔ استاد انھیں ڈانٹ ڈانٹ کر کہہ رہا تھا ابے ایسے نہیں چہرے پر مسکینی لا اور آواز میں درد پیداکر."۔
جب باوجود کوشش کے لڑکوں کی آواز میں درداور شکلوں پر یتیمی پیدا نہ ہوسکی تو استاد نے ان کے تھپڑ لگانے شروع کردیے۔
"اب ٹھیک ہے۔ آئندہ سے تمہاری شکلیں کام پر جاتے ایسی ہونی چاہئی اور آوازیں کم نکالنا صرف رسید بک اور صندوقچی آگے کردیا کرنا۔"۔
استادنے سب کو باری باری آئینہ دکھاتے ہوئے کہا۔
اگلے دن جانی تمام چیزیں لے آیا۔
صندوقچیاں جن پر پینٹ سے "مدرسہ رحیم القرآن" کو چندہ دینے کی اپیل کی گئ تھی۔ چھوٹی چھوٹی رسیدی کتابیں اور پلاٹ پر لگانے کے لیے بڑا سا بورڈ جس پر جلی حروف میں لکھا تھا۔
"زیر تعمیر مدرسہ رحیم القرآن ۔ یہ مدرسہ آپ کا ہے۔ اس کی تعمیر میں اینٹ،سیمنٹ،بجری اور سریے سے معاونت کیجیے"
نیچے استاد کا موبائل نمبر تھا جو اسی دن استاد اور جانی نے جاکر بازار سے لیا تھا۔
پھر اسی دن استاد کسی مولوی کی شاگردی اختیار کرنے اور لڑکے چندہ جمع کرنے نکلے۔ شام کو جب سب جمع ہوئے تو کسی کے پاس بھی پانچ سو سے کم رقم نہیں تھی اور استاد کو آخر ایک مدرسے کے مولوی صاحب نماز،قرآن اور دین کی بنیادی باتیں سکھانے پر راضی ہوگئےتھے۔
یہ چھ ماہ بعد کی بات ہے۔
اب مدرسے کی بغیر پلستر کے نچلی منزل تیار ہےجہاں سے کچھ بچوں کے قرآن پڑھنے کی آوازیں بھی آرہی ہیں۔ان میں استاد جو اب مولانا رحیم داد کے نام سے گلشن میں مشہور ہے کے کچھ پرانے شاگرد بھی شامل ہیں۔ جبکہ باقی شاگرد اب چندہ جمع کرنے کا کام کرتےہیں۔رحیم داد کی اب فٹ بھر لمبی ڈاڑہی ہے اور وہ پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے جس کی امامت بھی وہ خود کراتا ہے۔ مقتدیوں میں محلے کے کچھ لوگ بھی آکر شامل ہوجاتے ہیں۔
مولانا رحیم داد روزانہ صبح اہل محلہ سے مسجدمدرسے کی تعمیر کے لیے لاؤڈ سپیکر پر چندے کی اپیل کرتا ہے۔جس کے نتیجہ میں‌ مدرسہ کی تعمیر زوروشور سے جاری ہے۔اب کے عید پر کھالیں بھی مولانا کی ہونگی۔ بلکہ محلے والے اب اس پر شادی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ ان کی بچیوں کی قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دور نہ جانا پڑے۔ مولانا کی بیوی بچیوں کو بخوبی پڑھا سکتی ہے۔
چناچہ اب مولانا رحیم داد اپنے لیے بیوی اور اپنے شاگردوں کے لیے ایک عالمہ فاضلہ استانی کی تلاش میں بھی ہے۔

اتوار، 15 جنوری، 2006

میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم


:تمہید
موضوع چھیڑ بیٹھا ہوںمیر ےلیے بھی لکھنا ایسا ہی ایک عمل ہے جب میں پڑھ پڑھ کر لبا لب بھر جاتا ہوں تو میرے اندر کھد بد سی ہونے لگتی ہے۔ کوئی ٹہوکے دیتا ہے کہ کچھ لکھ۔ پھر میں جلے پیر کی بلی کی طرح یہاں وہاں،اوپر نیچے، لیٹتے اٹھتے سوچتا ہوں اورجب تک کچھ لکھ نہ لوں مجھے چین نہیں آتا۔ آپ شاید میری میں میں سے جان گئے ہونگے کہ میرے اندر کسی اور چیز کی خواہش ہو یا نہ ہو یہ میں میں تھی جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا۔ اسی میں میں سے مجبورہو کر میں لکھنے بیٹھا ہوں۔
مگر قلم اور ذہن ساتھ نہیں دے رہے۔ مجھے بھی انوکھی سوجھا کرتی ہیں۔ ایک ایسا موضوع جس پر پہنچ کر بڑے بڑوں کے پر جل جاتے ہیں اور قوت پرواز دم توڑ جاتی ہےکو لکھنے لگا ہوں۔ مگر میں بھی مجبور ہوں ۔ میرے اندر ہر طرف میں میں ہو رہی ہے ۔ اور میری نظر میں اس کا حل یہ ہی ہے کہ کچھ لکھوں ۔ کیا لکھوں؟ تو میں نے سوچا کیوں نہ اپنے سائیں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کچھ لکھوں ۔ میں کیااور میری اوقات کیا۔ گندی نالی کا کیڑا۔ مگر میں بھی مجبور ہوں۔ شاید آپ اکتا گئے ہوں کہ یہ بندہ کس وجہ سے مجبور ہے۔ اس لیے کہ میں بہت سارا پڑھ چکا ہوں جب میں بہت سارا پڑھ چکوں تو میرا لکھنے کو دل کرتاہے۔ میری مثال اس ٹنکی کی طرح ہے جو پانی سے بھر جاتی ہے تو پانی رسنے لگتاہے۔ اگر ٹونٹی نا کھولی جائے تو پانی رستا
ہی جاتا ہے۔ اس لیے میں لکھنے پر مجبورہوں
میں کی بات چلی ہے تو اس کا سبب نفس بھی دیکھ لیں ۔ نفس بھی عجیب چیز ہےاللہ نے انسان میں رکھ دیا۔ سنا کرتے ہیں کہ نفس کوتو ہزاروں سال جہنم کی آگ میں جلایا گیا پھر جب رب کریم نے اس سے پوچھا بتا میں کون ہوں تو بولا تُو تُو ہے اور میں میں ہوں ۔ آگئی نہ بات میں کی۔ میرے اندر یہ ہی میں میں ادھم مچائے رکھتی ہے۔ کچھ لوگ اسے اپنے اندر دبا لیتے
.ہیں اور کچھ میرے جیسے سرِ بازار اپنی میں کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں
اب میں نے بہت میں میں کر لی ہے۔ چلا کیا لکھنے تھا اور لکھ کیا رہا ہوں۔ مگر کیا کروں میرے جیسے جاہل اور منافق سے اور امید ہی کیا کی جاسکتی ہے۔
:تیری تعریف کروں میری اتنی کہاں اڑان
یہاں تو بڑے بڑے عالم فاضل موجود ہیں۔ جنھوں نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھا ۔ اور خوب لکھا۔ کسی نے ایک مخصوص پہلو پر لکھا اور کسی نے پورے کردار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ۔ فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیے گئے ۔ سنا کرتے ہیں کہ کئی بزرگوں نے تو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بغیر نقطے تک کے کتابیں لکھیں ۔ ان علمی سورجوں کے سامنے میری حیثیت ہی کیا ہے ۔ مگر سچ بتائیے دل تو ہر کسی میں ہوتا ہے ناں ۔ میرے اندر بھی دل ہے۔
میرا بھی جی کرتا ہے کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ لکھوں۔ اگر چہ میرے پر جلنے لگے ہیں۔ میرا قلم رک رک کر چلتا ہے۔ میرے اندر ہمت نہیں مگر میں کچھ نہ کچھ لکھوں گا ضرور۔ شاید میرا اس تحریر کے صدقے ان کے عشاق میں نام آجائے۔
میں اس کی تعریف کیا کروں جسکی تعریف رب کائنات کرتا ہے۔ فخر موجودات،سرور دوعالم، رحمتہ اللعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم۔
میرے خیال میں تو اس سے جامع تعریف ہو ہی نہیں سکتی
"اللہ اور اس کے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام بھیجتے ہیں سو اے ایمان والوں تم بھی ان پر درودو سلام بھیجو۔"
اس سے آگے تو تعریف کے الفاظ ہی ختم ہو جاتے ہیں ۔ جب اللہ کہتا ہے کے ان پر درود بھیجو۔ پھر کیسی تعریف ۔
جس کا مقام وہاں کہ جبریل کے پر جلتے ہیں جس کا مقام وہاں کی میرے جیسے گندی نالی کے کیڑے بھی اس کے امتی ہونے اور اس کی شفاعت کے امید وار ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں اسکی اور کیا تعریف کی جائے ۔ یا شاید یہ سمجھ لیجیے میرا قلم جواب دے گیا ہے مجھے اس عظیم ہستی کی تعریف اس کی عظمت اور بزرگی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے میں تو عامی ہوں عام سی باتیں کرنے والا شاید اپنی بساط سے بڑا بوجھ اٹھانے چلا ہوں۔ اس بات کا بھرم رکھنے کے لیے کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔
:عام سی باتیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوٰی سب کرتے ہیں ۔ داڑھی والے جن کے سر پر بڑے بڑے جبے اور دستاریں ہوتی ہیں اور شلواریں ٹخنوں سے اونچی ۔ محبت کا دعوٰی مجھ جیسے منافق بھی کرتےہیں جن کی نا ظاہری ہیت ان سے میل کھاتی ہے اور نہ ہی باطنی ہیت مگر پھر بھی ان کے امتی ہونے پر اس طرح اکڑتے پھرتے ہیں جیسے مرغ مرغی کو فتح کرنے کے بعد سینہ پھلائے پھر تا ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی عجیب چیز ہے۔
اللہ کو کوئی برا کہے تو ہمیں برا نہیں لگتا۔ مگر جب کوئی ان صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے تو اندر آگ سی لگ جاتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں غازی علم دین شہید جیسے کئی کردار نظر آتے ہیں جو بظاہر عام سے مسلمان ہیں مگر ناموس رسول پر اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔عجیب جذبہ رکھ دیا ہے اللہ نے ہمارے اندر اسے کوئی کچھ کہے تو خود ہی کہتا ہے کہ رہنے دو انھیں کچھ نہ کہو اور اگر اس کے نبی کو کوئی کچھ کہے تو سننے والے کے اندر باہر آگ سی لگ جاتی ہے۔
یہ عام سی باتیں ہیں۔ مرزائیوں کا پیشوا ہو،یا سلمان رشدی جیسا شاتم رسول جب ان کے نام سامنے آتے ہیں تو بے اختیار لبوں پر جو پہلا لفظ آتا ہے وہ کلاسیکل قسم کی گالی ہوتاہے۔ یا اگر کوئی بہت ہی مہذب ہوگا تو گالی کے بغیر بات کر لے گا۔
حب رسول بھی عجیب چیز ہے اور ہم بھی عجیب تر ۔ دعوٰی تو محبت کا ہے مگر کام ۔۔۔۔۔
کام نہ پوچھیں۔ عجب لوگ ہیں ہم بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوٰی ہے تو اسے نبھانے کی کوشش بھی کیجیے جتناہوسکے۔
محبت سے یاد آیا محبت کرنے کے کچھ آداب ہواکرتےہیں۔آپ میں سب ہی جانتے ہیں کہ جب ہم کسی کا ذکر محبت سے کرتے ہیں تو وہ بھی ہمارا ذکر محبت سے کرتا ہے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاصل کر نی ہے تو ان کا ذکر کیا کیجیے۔
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا مگر ہم اپنی سی کوشش تو کر سکتے ہیں ۔ ہمیں اللہ کی طرف سے حکم بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کریں۔ تو صاحبو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرود پڑھتے رہا کرو۔ اس پر کونسا پیسے خرچ ہوتے ہیں ۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اگر یہ کام کرتے رہیں تو یہ فطرت بن جائے گی۔ درود کا جاری ہونا بھی قرب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانی ہے۔ اس لیے اگر ان کے قریب ہونا لہے تو ان کا ذکر کیا کیجیے ۔
لکھنے کیا بیٹھا تھا اور لکھا کیا۔ اسی لیے کہا تھا کہ ابھی میری اڑان اتنی نہیں ۔ مگر پاپی دل مان کر نہیں دیتا تھا۔ اب اسے سکون ہے۔ مجھے اتنی دیر برداشت کیا میری میَں میَں برداشت کی آپ کا شکریہ۔
اللہ ہمیں حب رسول صلی اللہ علیہ سلم نصیب فرما دے۔آمین
(نوٹ: ایک دوست نے میری تحریر بارے استفسار کیا تھا کوئی بھی اپنے بلاگ پر میری تحریر شائع کر سکتا ہے۔ تبصرے کے ذیل میں)‌مجھے مطلع کر دیجیےگا)

ہفتہ، 14 جنوری، 2006

میرا پاکستان


مجھےپاکستان سے کبھی اتنی الفت محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔ آپ کو اس کا پس منظر بتاتا ہوں۔
زیادہ پرانی بات نہیں۔ یہی گزرے رمضان کی بات ہے۔ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا:شاکر مجھے ممتاز مفتی کی کتاب تلاش خریدنا ہے اپنے لائبریرین سے کہہ کر منگوا دو میں عید پر گھر آیا تو لے جاؤں گا۔ میں نے حسب وعدہ کتاب وقت مقرر سے پہلے منگوا کر رکھ لی۔ میں ازلی کتابوں کا بھوکا۔ ایک کتاب سامنے پڑی ہو اور اسے پڑہوں نا چناچہ میں نے ایک یا دو نشستوں میں وہ ساری کتاب چاٹ ڈالی۔ اس سے پہلے میں نے ممتاز مفتی کو کبھی نہیں پڑھا تھا۔ کبھی کبھار رسالوں میں ڈائجسٹوں میں اس کی تحریروں سے اقتباسات چھپتے رہتے تھے. میں اسے صوفی ٹائپ بندہ سمجھتاتھا۔ یہ کتاب پڑھی تو پتا لگا یہ بندہ تو مولویوں کے خلاف ہے۔ مولویوں کی مخالفت ہر نوجوان کی طرح میرا پسندیدہ موضوع ہے۔
کچھ اقتباسات اپنے الفاظ میں آپ کو سناتا ہوں۔
اللہ کو حلق کے نچلے پردوں سے اس طرح نکالتے ہیں کہ اللہ ہا بن جاتا ہے۔ جیسے ان کا اللہ ہمارے اللہ سے مختلف ہو جیسے اس نے سر پر بھاری ":
"سا جبہ دستار اور یہ بڑی بڑی داڑھی رکھی ہوئی ہو
میں بہت ہنسا تھا اس کے اللہ کو اللہ ہا کہنے پر ۔ پہلے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا اس بات پر مولاناؤں کی محافل میں بیٹھتا تھا یہ سب سنتا بھی تھا مگر کسی نے اتنی جرأت کبھی نہیں دکھائی تھی۔ میں نے سوچا بندہ یہ اپنی برادری کا لگتا ہے اسے پڑھنا چاہیے۔
میں نے اگلے دن ہی اپنے لائبریرین سے ممتاز مفتی کی کتابوں کی فرمائش کر دی۔ ایک دوافسانوں کے مجموعے پڑھے،اچھا لکھا تھا نفسیات موضوعِ بحث ہوتی تھی مگر وہ چیز نہیں جو میں چاہتا تھا۔ میں تو اس بات کہ تلاش میں تھا کہ یہ بابوں ،مولویوں اور اسلام کی بات چھیڑے۔ پھر میرے لائبریرین نے مجھے علی پور کا ایلی پڑھنے کے لیے دی۔ اس میں بابوں کا کچھ ذکر تھا۔ پڑھ تو میں نے لی مگر اس نے میرے کئی طبق روشن کردیے۔خصوصٌٌا عورتوں کے بارے میں مفتی کے مشاہدات اور ارشادات۔ یہ سب بھی پہلی بار سنا تھا۔
خیر اسی ناول میں پہلی بار میں نے شعوری طور پر نصاب سے ہٹ کر تاریخ پاکستان کا مطالعہ کیا۔ اس بارے میں مفتی کے مشاہدات جانے :اورپھر جیسے جیسے ان پر سوچا یقین کیجیے مجھے ان سے ایک فیصد بھی اختلاف محسوس نہ ہوا۔ مفتی کہتا ہے
ہندو بڑی شائستہ قوم ہیں۔ میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں۔ اچھے انسان ہیں اور کاروباری تو بہت ہی اچھے ہیں ۔مگران کو جب بھی موقع ملے یہ مسلمانوں کو نقصان پہچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کی اس خوبی کا میں معترف ہوں کہ انتقام کو ہماری طرح ایک ہی بار ظاہر نہیں کر دیتے اسے دل میں چھپا کر رکھتے ہیں سینت سینت کر پھر جب موقع ملتا ہے تو مسلمانوں پر کاری وار کرتے ہیں۔ ہندوؤں نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔آل انڈیا کانگرس کی کمیٹی کی قرار داد کے وہ الفاظ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں
:یہ کہا گیا ہے کہ
انڈیا جیسا ہے جہاں ہے ہمیشہ ویسا ہی رہے گا اور اس کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ ہمارا فرض ہے کہ اسے اسکی اصل کی طرف لوٹائیں۔
پھر مفتی چھرا بازی کے واقعات بارے سناتا ہے جو اس جیسے برائے نام مسلمان کے اندر کو بھی جنجھوڑ دیتے ہیں اور اسےیہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ بھی مسلمان ہے۔
اسی طرح ناول میں کچھ بابوں کا بھی ذکر ہے۔ دلی کے حاجی صاحب اور پاگ بابا۔ اور پھر بڈھا جو مفتی کا انتظار کر رہا ہے۔جس کے بارے میں پاگ بابا اسے بتاتا ہے۔
اس کے بعد مفتی کی آپ بیتی کا دوسرا حصہ الکھ نگری پڑھی اور یہاں سے پاکستان کے بارے میں میری سوچ میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔ الکھ نگری تھوڑی سی مفتی نامہ اور باقی پاکستان نامہ اور پاکستان کے حوالے سے بابے نامہ اور شہاب نامہ ہے۔
مفتی الکھ نگری میں پاکستان اور قدرت اللہ شہاب کے گرد ناچتا ہے دیوانہ وار ناچتا ہے لوگوں کو بتاتا ہے دیکھو یہ جو پاکستان نظر آرہا ہے یہ ایسے ہی نہیں ہو گیا اس کے پیچھے بڑے بڑے لوگوں کا ہاتھ ہے۔
مفتی کو بڈھا مل جاتا ہے۔جسے وہ مرشد تو نہیں بناتا مگر اس کااحترام ضرور کرنے لگتا ہے۔ مفتی جیسا اڑیل احترام بھی ڈنڈے کھا کر کرتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ بابا اس پر رونا مسلط کر دیتا ہے۔ یوں ہی بیٹھے بیٹھے چلتے پھرتے مفتی بھوں بھوں کر کے رونا شروع کردیتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی دن چلتا ہے۔ اور یہ سب ایک ایسے بندے کے ہاتھوں وقوع پذیر ہو رہا ہے جو اس دنیا میں موجود نہیں آخر مفتی ہار مان لیتا ہےاور بابے کےحلقے میں شامل ہوجاتاہے۔
پھر مفتی کو پاکستان بارے کئی باتوں کا پتا چلتاہے۔ جیسے بھائی جان جو کہ بڈھے کے مرید خاص ہیں اسے بتاتے ہیں کہ پاکستان کے منصوبے کے روحانی طور پر چیف کوآرڈینیٹر بابا جی تھے۔ انھوں نے ریاست دکن کے نواب کو پیغام بھیجا تھا کہ آؤ تمہیں ایک اسلام ریاست کا وزیراعظم بنا دیں۔ پھر یہ پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے منصوبے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی اجازت سے زیر عمل لایا گیا۔
مفتی ایک دن بیٹھے بیٹھے بھائی جان سے پوچھ لیتا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا تو اسے بتایا جاتاہے کہ وہ پاکستان کی فکر کرنا چھوڑ دے اس کی فکر کرنے والی بڑی بڑی اونچی ہستیاں ہیں۔ وہ بس یہ خیال رکھے کہ کوئی کام ایسا تو نہیں کر رہا جس سے پاکستان کو نقصان پہچنے کا احتمال ہے۔
یہاں سے مجھے پتا چلا کہ پاکستان کی فکر کرنے والی بڑی بڑی اونچی ہستیاں ہیں ۔ پھر میں بھی مفتی کی طرح پاکستان کی محبت میں مبتلا ہوگیا۔ مجھے اس سے محبت تو پہلے سے ہی تھی مگر اب کچھ اور قسم کی ہے۔ کیونکہ میرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس سے محبت ہے اس لیے مجھے بھی اس سے محبت ہے۔ میں جب یہ سوچتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے پاکستان کو بنانے کا اذن ملا تھا تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے جسے وہاں سے اجازت مل جائے اسے کیا چاہیے۔
خیر ذکر مفتی کا ہو رہا تھا تو اسی طرح چلتے چلتے مفتی شہاب کو داستان میں گھسیٹ لیتا ہے۔ بڈھا،بھائی جان اور بڑی بڑی ہستیاں قدرت اللہ شہاب کا ذکر احترام سے کرتی ہیں۔اور پھر مفتی قدرت اللہ شہاب کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔پاکستان سے تو اسے محبت تھی ہی اور یہ محبت شہاب کے توسط سے دوہری ہوجاتی ہے۔ پھر اسی دوران اس پر کئ انکشافات ہوتے ہیں ۔پاکستان کی ترقی بارے،پاکستان کی عظمت بارے اور وہ اپنی تحریروں میں جابجا پاکستان کا ذکر اس طرح کرتا ہے جیسےپاکستان کوئی بزرگ ہے۔
صاحبو سچ پوچھو تو مفتی کی ان ہی تحریروں نے میرے گوڈوں میں پاکستان کا عشق اس طرح بٹھا دیا ہے جس طرح گھٹیا کے مریضوں میں درد بیٹھ جاتے ہیں۔ مفتی جابجا اس طرح پاکستان کی عظمت کی کلیاں ٹانکتاہے اور اس کی آنے والی شان کے بارے میں راگ الاپتا جاتا ہے کہ میں مسحور ہو تا جاتا ہوں اور اب میرا یہ حال ہے کہ کوئی پاکستان کے بارے میں خدشے کا اظہار کرتا ہے تو مجھے وہ بچہ محسوس ہوتاہے میرا جی کرتاہے کہ چیخ چیخ کر اسے بتاؤں فکر نہ کرو اس کی فکر کرنے والی ہستیاں ہیں تم بس اپنے آپ کو ٹھیک کرلو۔
مفتی شہاب کے ساتھ فیصل آباد کے ایک قصبے میں ایک بزرگ سے ملنے جاتا ہے تو وہ برزگ دو ڈھائی سو لوگوں کے مجمع میں کہتے ہیں لوگو ایک دن ایسا آئے گا جب یواین کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے پاکستان سے پوچھے گا تم وہ دن دیکھوگے ہاں ہم نہیں ہونگے اگر ایسا نہ ہوا تو تم میری قبر پر آکر تھوکنا
مفتی کا ایک دوست ڈاکٹریٹ کے سلسلے میں ہالینڈ جاتا ہے وہاں ایک اسلامی نایاب کتب کی لائبریری میں دوران ریسرچ اس پر کھلتا ہے کہ حضرت بری امام رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ہمارے قدموں میں ایک عظیم اسلامی مملکت کا شہر آباد ہوگا۔بری امام کا مزار تو آپ جانتے ہیں نا اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں جس کی طرف جانے والی سڑک سی ڈی اےوالوں نے توڑ دی تھی اور وہاں جانے والے ٹانگوں کا اسلام آباد سے گزرنا منع ہے۔
مفتی حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر بھی کرتا ہے جب انھیں انگریز جنگ آزادی کی ناکامی پر گرفتار کر لیتے ہیں اور ان کی وہ ریاست جو انھوں نے پنجاب میں قائم کی تھی ختم ہوجاتی ہے تو بوقت گرفتاری مجمع سے ایک مجذوب باہر آکر انھیں تسلی دیتا ہے کہ نوے سال بعد اسی سرزمین پر ایک عظیم اسلامی مملکت قائم ہوگی۔
پھر پینسٹھ کی جنگ جس میں پاکستانی فوجیوں کے ساتھ چھوٹے قد والے سرخ اور سفید لباس والے اور سفید گھوڑوں والے اور برق پاش تلواروں والے بھی لڑے۔
پاکستان کی ایک خاتون جو کہ عرصے سے مدینہ میں روضہ رسول کے قریب مقیم تھیں دیکھتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح روضہ مبارک سے باہر آۓہیں کہ ان کی زلفیں پریشان ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے پاکستان جہاد کے لیے جارہے ہیں۔
مفتی اس طرح کی کئی باتیں کرتا ہے۔
پھر ایک شاہ صاحب کا تذکرہ جو صاحب کشف ہیں بتانے ہیں کہ انڈیا پاکستان میں ایک بڑی جنگ ہوگی لاکھوں لوگ مارے جائیں گے پھر پاکستان کو عروج حاصل ہوگا۔
سبز آنکھوں والا ایک حکمران جو شاید افریقہ یا یورپ سے ہے آۓ گاا ور سب کو سیدھا کر دے گا پھر پاکستان اسلامی دنیا کو لیڈ کرےگا۔
اس قسم کی بے شمار حکائتیں۔جو ممتاز مفتی بیان کرتاچلا جاتا ہےاور میرے جیسا بندہ جو پاکستان کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنس چکا ہےپڑھ پڑھ کر خوش ہوتا ہے۔
یہ سب آپ سے شئیرکرنے کامقصد کیا ہے؟
یہ کہ آپ لوگ نراش نہ ہوں۔ ہمت نہ چھوڑیں ۔ اس ملک کی فکر کرنے والے موجود ہیں ہمیں بس یہ کرناہے کہ اسکی ترقی کے لیے کام کریں ثمر اللہ دے گا۔ بس بیج ڈالنے کی ضرورت ہے پھل تو آنے کو بے تاب کھڑا ہے۔ ہمارے اس ملک نے آگے چل کر ایک ذمہ داری اٹھانی ہےایک ععظیم مقصد پورا کرنا ہے اور وہ ہے اسلامی دنیا کی قیادت۔ جانےیہ عظمت اسے کس کے طفیل ملے گی مگر ساتھ ہم جیسوں کی بھی چاند ہوجائے گی۔ اس لیے مایوسی نہیں بس کام کرنا ہے پاکستان کے لیے اس کی ترقی کے لیے۔
ے کو عظمت ملےگی انشأءاللہ ضرور ملے گی جانے کس کی برکت ترقی اب بھی تو کم نہیں۔ پاکستان جس کا ایک نام ہے۔ باوجود بے شمار اندورنی بیرونی خطرات کےباوجود یہ پھلتا جارہا ہے پھولتا جارہا ہے۔ اسکے دشمنوں کے اندر جل رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے یہ پاکستان ترقی کر ہا ہے۔ وہ یہ برداشت نہیں کرسکتے اس لیےکبھی وہ ہمیں اندر سے بلوچستان اور اس جیسے کئی دوسرے طریقوں سے تنگ کرتے ہیں تو کھبی براہ راست وار کرتے ہیں
مگر دشمنوں کے واویلے کے باوجود کیا پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بنا۔ کتنے عرصے سے یہ لوگ اسلامی بم اسلامی بم چِلا رہے تھے اب اسلامی بم ان کےسروں پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے اور وہ صرف پیچ وتاب کھا سکتے ہیں۔ میزائل ٹیکنولوجی میں بے مثال ترقی، کروز میزائلوں کی طرف قدم اور خلا کی تسخیر کے منصوبے۔
اس مملکت کی عظمت کے گواہ ہیں۔ کام صرف اتنا ہےکہ انفرادی سطح پر اپنے آپ کو درست کر لیں پھر جب اللہ کا کرم ہوگا تو دنیا دیکھے گی کرم تو اس کا اب بھی ہےمگر ہماری کوتاہیاں اس کا اثر موڑ دیتی ہیں اسکی رحمت کو ناراض کردیتی ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پاکستان سے محبت نہیں عشق کرنے کی توفیق دے۔ اتنا عشق کہ ہمیں ہر طرف پاکستان ہی نظر آئے۔ ہم سب سے پہلے پاکستان سوچیں باقی سب بعد میں ۔ ہم میں جذبہ نہیں قدرت اللہ شہاب کے بقول جنون پیدا ہوجائے اپنےملک کے لیے تعصب پیدا ہوجائے فخر پیدا ہوجائے پھر انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں ۔ جب دنیا دیکھے گی کہ پاکستان ہے ہاں عظیم پاکستان ہے۔
اللہ کریم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم پر اور ہمارے ملک پر اپنا رحم و کرم نازل کرے اور کرتا رہے آمین یا رب العٰلمین۔


جمعرات، 12 جنوری، 2006

غم

اک دن میں نے اس سے پوچھا
کیوں اجڑے اجڑے رہتے ہو
کیوں بکھرے بکھرے رہتے ہو
دل کا یہ غم
کسی سے کیوں نہیں کہتے ہو
تب وہ دھیرے سے بولا
کیا کیا سنو گے
کیا کیا سناؤں
چلتے چلتے یونہی اک دن
اک شخص ملا تھا
روٹھا روٹھا رویا رویا
اس دنیا سے
زندگی سے اسے گِلا تھا
اسے صرف غم ملا تھا
کانچ سا وہ شخص
اسے ٹکڑاٹکڑا میں نے جوڑا
زندگی سے اس کا ناتہ جوڑا
اسے پھر سے جینا سکھایا
پھر جانے کیسے یہ سب ہوا
پھولوں سا وہ شخص
آنکھوں میں اتر گیا
دل میں گھر کر گیا
پھر چپکے چپکے دھیرے دھیرے
سیپ کی طرح غم کے موتی اگل کر
وہ بندہوتا گیا
مجھ سے دور ہوتا گیا
دکھ میں بگھوتا گیا
میری محبت، میرا پیار سب بھول گیا
جیسے اجنبی ہوگیا
اور
پھراک دن چپکے سے میرے آشیاںسےاڑگیا
اتنا کہہ کر وہ مجھ سے بولا
شاکر یہ غم بھی عجب ہوتا ہے ناں
نفس کو نفس کا محتاج کردیتا ہے
اک دوجے کا گدا کر دیتاہے
اس کا ستم بھی عجب ہوتا ہے
جاتے جاتے بھی باز نہیں آتا
بے وفا کر دیتا ہے
سنومری اک بات مانو
کبھیکسیکےغمخواربنوتو
اتنے قریب نہ جانا
کہ اسکے غم سے دامن جلا بیٹھو
کوئی روگ لگا بیٹھو
اس کے غم کا سمندر پاٹتےپاٹتے
اپنی متاع لُٹا بیٹھو

منگل، 10 جنوری، 2006

عید،خوشی۔ایثار اور قربانی

عید بھی آہی گئی۔ آپ سب دوستوں‌اور قارئین کو عید مبارک۔ عید کی خوشیوں ‌میں‌اس کا سبق مت بھولیے گا۔ قربانی اور ایثار کا سبق ۔سردی سے مرتے،ٹھٹھرتے وجود آپ کے ایثار سے زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ قربانی کی کھالیں‌محلے کے مولوی صاحب کو اس بار نہ بھی ملیں‌تو کوئی فرق نہیں‌پڑے گا اس لیے کھالیں ، عطیات اوراگر ہوسکے تو اپنی قربانی ہی ان لوگوں‌کے نام کر دیجیے گا جو آپ کی امداد کے منتظر ہیں۔
اللہ ہمارا حامی ناصر ہو اور ہم سب کی قربانی اور حج قبول ہو۔ ایک بات اور جن کی اس بار استطاعت نہیں تھی ان کے لیے اگلی بار توفیق اور وسائل کی دعا بھی فرما دیجیے گا۔
وسلام

اتوار، 8 جنوری، 2006

اردولنک مسنجر

اردو لنک مسنجر آخر کار سات ماہ کے طویل انتظار کے بعد منظر عام پر آہی گیا۔ اعجاز راجہ کہ ویب سائٹ سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں‌نے اس مقصد کے لیے کیا کیا قربانی دی۔ قابل تحسین ہیں یہ سرپھرے جو اردو کی ترقی کے لیے مصروف عمل ہیں۔ اردو لنک کے علاوہ بھی اردو سافٹ وئیر موجود ہیں ۔
جیسے پہچان ڈاٹ کام والوں‌کا پہچان اردو مسنجر جسے www.pehchaan.com سے حاصل کر سکتے ہیں۔
میرا اردو مسنجر جو www.meraurdumessenger.comسے حاصل کیاجاسکتا ہے۔ یہ قیمتًا دستیاب ہے۔
تاہم اردو لنک ایک تو مفت ہے دوسرے اس کے پیکج میں‌کئی اور چیزیں بھی شامل ہیں۔
کٹ اینڈ پیسٹ چھوٹی سی اپیلیکیشن ایسی کسی زمانے میں اردو ورڈ پیڈ کے نام سے دستیاب تھی جس میں اردو لکھ کر انٹر دبانےسے وہ نیچے ورڈ پیڈ کی کھلی ہوئی فائل میں‌چلی جاتی تھی اس طرح‌اردو عبارتی فائل بنائی جاتی تھی۔ تاہم اسی کی تبدیل شدہ شکل جو کہ کثیرلمقاصد بھی ہے۔ آپ اسے ایم ایس این میں‌چیٹ کرتے ہوئے استعمال کرسکے ہیں‌کھلی چیٹ ونڈو کے اوپر اسے رکھیں‌اور اردو چیٹ کا مزہ لیں۔
یاہو مسنجر میں‌اب یونی کوڈ کی سپورٹ موجود ہے وہاں‌بھی یہی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں‌تاہم اگر ونڈوز ایکس پی ہو تو بہتر رہے گا 98پر یاہو میں‌ڈبے آتے ہیں‌۔
اوپن آفس میں‌یونی کوڈ کی بڑی اچھی سپورٹ موجودہے کٹ پیسٹ استعمال کرکے اوپن آفس میں‌اردو کی عبارتی فائل بنا سکتے ہیں۔
اردو لنک ای میل جو کہ ساتھ میں‌اردو ورڈ پروسیسر کاکام بھی کر سکتی ہے گرچہ اس میں‌کچھ خامیاں‌ہیں‌مگر امید ہے دور کر دی جائی‌گی۔ ایمیل تصویری اردو کی شکل میں‌جاتی ہے مگر اگلی اپڈیٹ میں‌ جی میل سے کنکٹ کر کے یونی کوڈ ای میل کی سہولت بھی فراہم کر دی جائے گی۔
اردو لنک مسنجر جو ایم ایس این سے کنکٹ ہو کر اردو چیٹ کی سہولت ایم ایس این کے صارفین کو فراہم کرتا ہے اسکا تو کوئی بدل ہی نہیں‌ اگر چہ ایم‌ایس‌این کی بات ہی اور ہے مگر اردو کےلیے یہ پروگرام لاجواب ہے۔
کی بورڈ سیٹنگ ایک نئی چیز ہے اس بار جس سے آپ کی بورڈ کو اپنی مرضی کا بنا سکتے ہیں۔اگرچہ یہ بھی ابھی بہتری کے قابل ہے تاہم کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
اور اب جس چیز کے لیے سات ماہ کا جانگسل انتظار کرنا پڑا وہ اردو لنک چیٹ تھی۔ ایم‌ایس‌این چیٹ بند ہوجانے کے بعد پاکستانیوں‌کے لیے کوئی قابل ذکر پلیٹ فارم نہیں‌رہ گیا تھا۔ اسی وجہ سے دوستوں‌جن میں‌ناچیز بھی شامل ہے کے اصرار پر اردولنک چیٹ سافٹ وئیر بنایا گیا۔ایک مکمل اردو چیٹ سافٹ وئیر جو یونی کوڈ بیسڈ بھی ہے۔ اردو کی بلکہ شاید فارسی،عربی،پشتو،سندھی کی تاریخ میں‌پہلا سافٹ وئیر ہے۔
جی ہاں اردو لنک کے تمام سافٹ وئیرز میں‌اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں‌کی مکمل سپورٹ موجودہے۔ اسے استعمال کیجیے اور اپنوں‌کو اسے استعمال کرنےکی ترغیب دیجیے۔یہ مستقبل کاایم آئی‌آرسی ہوگا پاکستانیوں‌ اور اردو کے چاہنے والوں‌کے لیے۔
سافٹ ویر بن گیا ہے اب اسکی تشہیر ہماری ذمہ داری ہے کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں‌اس لیے اسے ضرور ضرور استعمال کریں‌اور دوستوں‌کو بھی بتائیں‌۔
اللہ ہماری کاوشیں‌قبول‌اور بارآورکرے۔
www.urdulink.comاردو لنک کا پتہ

میں باغی ہوں!!!!

rمیں باغی ہوں!!!!
ہاں میں باغی ہوں۔ اس رسم و رواج سے ۔ اس اندھی تقلید سے۔ اس رویے سے جس نے ہمیں مجبور کر رکھا ہے کہ ان سڑی ہوئی اور سوکھی ہوئی شاخوں کو پکڑے رکھیں اور اصل درخت جو آج بھی ہرا بھرا ہے کو بھول جائیں ۔
مگر ٹھہریں آپ کیا جانیں میری بغاوت کے کیا اسباب ہیں۔
میں بتاتاہوں۔
زیادہ پرانی بات نہیں اردو ویب آرگ پر ایک فورم میں دورانِ بحث مجھے ایک خبر ملی ۔
خبر یہ تھی کہ بھارت میں ایک خاتون کے سسر نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے اور اس پر وہاں کے دارلعلوم دیوبند نے وہ عورت اس کے خاوند پر حرام قرار دے دی ہے۔
میں نے پہلے اس پر دھیان نہیں دیا مگر پھر یونہی پھرتے پھراتے میں ایک اور فورم پر جا پہنچا جہاں پر اسی مسئلہ پر بحث ہورہی تھی۔ میں جیسے جیسے وہ بحث پڑھتا گیا میرا خدا گواہ ہے میرے دل میں آگ لگ گئی مجھے مسئلے کی سنگینی کا تب جا کر احساس ہوا۔
میرے تن بدن میں جیسے کسی نے انگارے بھر دیے، مظلوم کی بجائے داد رسی کی جاتی اس کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی اور کتنی آسانی سے مذہب کی آڑ لے لی گئی۔
چلیں میری بات چھوڑیں آپ ذرا ایک لمحہ غور کریں کیا آپ کا دل یہ مانتا ہے کہ مظلوم کے ساتھ مزید ظلم کیا جائے یعنی ایک تو اس کی عزت گئی ساتھ میں اس کے سر کا سائیں بھی چھینا جا رہا ہے۔
میری بات پوچھیں نا۔
تو میرے اندر سے جیسے کوئی چِلایا تھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے نہیں ہوسکتا۔
کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ میرے پیارے اللہ میاں کا دین اور میرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کا خطاب رحمتہ للعٰلمین ہے کا دین ایسا کبھی کہہ ہی نہیں سکتا ۔
میرے اندر اس تحریر کے لکھنے تک کوئی بین کرتا رہا ہے، میرے اندر کوئی روتا کرلاتا اور سسکتا رہا ہے میں مجبور کر دیا گیا ہوں کہ یہ سب لکھوں ورنہ شاید مجھے کچھ ہوجاتا۔
کیسے ہوسکتا ہے یہ ۔ میرے اندر اب بھی چیخیں ابھر رہی ہیں اسلام اتنا بے حس اور سفاک کیسے ہو سکتا ہے۔ نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے یہ الزام ہے بہتان ہے میرے نبی سائیں صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔
اس لیے میں نے شروع میں کہا تھا میں باغی ہوں ۔ ہاں میں باغی ہوں ۔ ان علماء سے جو دینکے خدا بنے بیٹھے ہیں ۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عقل کل ہیں یا ان سے اگلے جن کے اقوال یہ نقل کرتے ہیں اور جن کے استدلال یہ نقل کرتے ہیں وہ عقل کل تھے۔
کیا ایسا کبھی ہوا ہے آپ خود سوچیے انسان سے کیا غلطی نہیں ہوسکتی۔ اور یہ لوگ بجائے کہ قرآن سے یہ سب ثابت کرے حدیث سے یہ ثابت کرتے ان کے اقوال نقل کرتے پھرتے ہیں۔
میں پڑھ چکا ہوں جس آیت کا یہ حوالہ دے رہے ہیں سورہ نساء کی آیت نمبر باییس۔ وہاں صرف سوتیلی ماں کے نکاح کے لیے حرام ہونے کا ذکر ہے اور بس۔ اس سے یہ کیسے نتیجہ نکلتا ہے کہ زنا با لجبر کی صورت میں بھی یہی کچھ ہوگا۔
میں باغی ہوں ہاں میں باغی ہوں ان لوگوں سے جن کی عقلوں پر رب نے قفل ڈالے ہوئے ہیں جو اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر راستہ تلاش کرتے پھرتے ہیں حالانکہ انھیں بصیرت کی بینائی دی گئی ہے۔ پھر بھی یہ ان سڑی ہوئی شاخوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اصل دین کو بھلائے بیٹھے ہیں۔
کیوں نہیں کرسکتے یہ لوگ ۔ کیا انکے پاس عقل نہیں جو یہ انکی جنکی اب ہڈیا بھی نابود ہوگئی ہیں جان نہیں چھوڑتے۔ کیا ان کے درمیان کتاب اللہ اور حدیث رسول موجود نہیں پھر یہ اس سے اخذ کی گئ کتابوں کے حوالے کیوں دیتے ہیں اپنے خود ساختہ فیصلوں میں۔
یہ کتابیں آدھی سے زیادہ قیاسات ہیں جنھیں یہ لوگ فقہہ کا نام دیتے ہیں۔ قرآن میں صرف ڈیڑھ سو آیات ہیں جن میں معاشرتی احکام بیان کیے گئے ۔ پھر ان تھوڑی سے آیات سے ان لوگوں نے اتنی لا شمار کتابیں کس طرح تخلیق کر لیں اس طرح کہ ایک اینٹ تبرک کے لیے قرآن اور حدیث کی اور اسکے بعد اس کے بل پر قیاسا ت اور استدلال کی بڑی بڑی عمارات۔
ایک کتاب میں پڑھا تھا اسلام دریا ہے اور فرقے نہریں ۔پھر ان نہروں سے بھی مزید چھوٹی نہریں اور پھر ان نہروں سے کھالے ۔ کہاں دریا اور کہاں یہ کھالے۔ یہ لوگ ان کھالوں کی جان نہیں چھوڑتے جہاں اسلام کا پانی آتے آتے اتنا گندہ ہو جاتا ہے کہ اس کی شکل ہی مسخ ہوجاتی ہے۔ اسکی ساری شفافیت ان لوگوں کے خیالات اور خود ساختہ نتائج میں دب جاتی ہے۔
میں جانتا ہوں مجھ پر کفر کا فتوٰی بھی لگ سکتا ہے۔ لگا دیں پہلے کونسا یہ کسی کو بخشتے ہیں انھوں نے تو گویا دین کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔ اللہ انھی کا ہے نا ہمارا تو کچھ بھی نہیں اور اسلام بھی انھی کا اور اللہ کا رسول بھی انھی کا ہم تو بس تماشائی ہیں۔
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
کے مصداق ہم تو بس یہ ہی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں مگر اب نہیں اب بس۔ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں یہ لوگ تو دین میں تحقیق کرنا گوارا نہیں کرتے دنیاوی اور سائنسی تحقیق کیا خاک کریں گے۔ اللہ اور اللہ کے رسول کے احکامات کو سمجھنے کی خود کوشش نہیں جو آج سے صدیوں پہلے کے لوگوں نے کہہ دیا پتھر پر لکیر ہے اب ان کاکام ہے انکے فتووں کو رٹیں اور ان کی بنیاد پر فیصلے سناتے جائیں ۔
پتہ نہیں یہ مہریں کب ٹوٹیں گی ٹوٹیں گی بھی یا نہیں۔ میرے جیسا دین کے معاملے میں جاہل بھی ایک سیدھا سا فیصلہ دے سکتا ہے کہ یہ ایسے نہیں ایسے ہے متعلقہ آیت میں صرف نکاح کے بارے میں یہ حکم ہے کہ باپ کی منکوحہ سابقہ یا موجودہ بیٹے پر حرام ہے پتہ نہیں اس سے انھوں نے زنا بالجبر کس طرح جوڑ لیا ہے۔ انتہائی واضح اور غیر مبہم طور پر وہاں جب بتا دیا گیا ہے پھر یہ ہچر مچر پتا نہیں کیوں ۔ فلانے کا فتوٰ ی یہ تھا فلانے کا یہ تھا ہوگا۔ ان کی اپنی عقل انھوں نے جو صحیح سمجھا کہہ دیا اب اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنی عقل استعمال ہی نہیں کرنی ۔ اوپر سے اسے ہی اسلام کہلانے پر مصر۔ عجیب لوگ ہیں ۔ دین کو اتنا مشکل بنا دیا ہے ان لوگوں نے کہ وحشت ہوتی ہے۔
پھر میرے جیسے جب سر اٹھاتے ہیں تو آوازیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں نئی نسل اپنی مرضی کا اسلام چاہتی ہے۔