:تمہید
موضوع چھیڑ بیٹھا ہوںمیر ےلیے بھی لکھنا ایسا ہی ایک عمل ہے جب میں پڑھ پڑھ کر لبا لب بھر جاتا ہوں تو میرے اندر کھد بد سی ہونے لگتی ہے۔ کوئی ٹہوکے دیتا ہے کہ کچھ لکھ۔ پھر میں جلے پیر کی بلی کی طرح یہاں وہاں،اوپر نیچے، لیٹتے اٹھتے سوچتا ہوں اورجب تک کچھ لکھ نہ لوں مجھے چین نہیں آتا۔ آپ شاید میری میں میں سے جان گئے ہونگے کہ میرے اندر کسی اور چیز کی خواہش ہو یا نہ ہو یہ میں میں تھی جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا۔ اسی میں میں سے مجبورہو کر میں لکھنے بیٹھا ہوں۔
مگر قلم اور ذہن ساتھ نہیں دے رہے۔ مجھے بھی انوکھی سوجھا کرتی ہیں۔ ایک ایسا موضوع جس پر پہنچ کر بڑے بڑوں کے پر جل جاتے ہیں اور قوت پرواز دم توڑ جاتی ہےکو لکھنے لگا ہوں۔ مگر میں بھی مجبور ہوں ۔ میرے اندر ہر طرف میں میں ہو رہی ہے ۔ اور میری نظر میں اس کا حل یہ ہی ہے کہ کچھ لکھوں ۔ کیا لکھوں؟ تو میں نے سوچا کیوں نہ اپنے سائیں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کچھ لکھوں ۔ میں کیااور میری اوقات کیا۔ گندی نالی کا کیڑا۔ مگر میں بھی مجبور ہوں۔ شاید آپ اکتا گئے ہوں کہ یہ بندہ کس وجہ سے مجبور ہے۔ اس لیے کہ میں بہت سارا پڑھ چکا ہوں جب میں بہت سارا پڑھ چکوں تو میرا لکھنے کو دل کرتاہے۔ میری مثال اس ٹنکی کی طرح ہے جو پانی سے بھر جاتی ہے تو پانی رسنے لگتاہے۔ اگر ٹونٹی نا کھولی جائے تو پانی رستا
ہی جاتا ہے۔ اس لیے میں لکھنے پر مجبورہوں
میں کی بات چلی ہے تو اس کا سبب نفس بھی دیکھ لیں ۔ نفس بھی عجیب چیز ہےاللہ نے انسان میں رکھ دیا۔ سنا کرتے ہیں کہ نفس کوتو ہزاروں سال جہنم کی آگ میں جلایا گیا پھر جب رب کریم نے اس سے پوچھا بتا میں کون ہوں تو بولا تُو تُو ہے اور میں میں ہوں ۔ آگئی نہ بات میں کی۔ میرے اندر یہ ہی میں میں ادھم مچائے رکھتی ہے۔ کچھ لوگ اسے اپنے اندر دبا لیتے
.ہیں اور کچھ میرے جیسے سرِ بازار اپنی میں کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں
اب میں نے بہت میں میں کر لی ہے۔ چلا کیا لکھنے تھا اور لکھ کیا رہا ہوں۔ مگر کیا کروں میرے جیسے جاہل اور منافق سے اور امید ہی کیا کی جاسکتی ہے۔
:تیری تعریف کروں میری اتنی کہاں اڑان
یہاں تو بڑے بڑے عالم فاضل موجود ہیں۔ جنھوں نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھا ۔ اور خوب لکھا۔ کسی نے ایک مخصوص پہلو پر لکھا اور کسی نے پورے کردار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ۔ فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیے گئے ۔ سنا کرتے ہیں کہ کئی بزرگوں نے تو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بغیر نقطے تک کے کتابیں لکھیں ۔ ان علمی سورجوں کے سامنے میری حیثیت ہی کیا ہے ۔ مگر سچ بتائیے دل تو ہر کسی میں ہوتا ہے ناں ۔ میرے اندر بھی دل ہے۔
میرا بھی جی کرتا ہے کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ لکھوں۔ اگر چہ میرے پر جلنے لگے ہیں۔ میرا قلم رک رک کر چلتا ہے۔ میرے اندر ہمت نہیں مگر میں کچھ نہ کچھ لکھوں گا ضرور۔ شاید میرا اس تحریر کے صدقے ان کے عشاق میں نام آجائے۔
میں اس کی تعریف کیا کروں جسکی تعریف رب کائنات کرتا ہے۔ فخر موجودات،سرور دوعالم، رحمتہ اللعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم۔
میرے خیال میں تو اس سے جامع تعریف ہو ہی نہیں سکتی
"اللہ اور اس کے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام بھیجتے ہیں سو اے ایمان والوں تم بھی ان پر درودو سلام بھیجو۔"
اس سے آگے تو تعریف کے الفاظ ہی ختم ہو جاتے ہیں ۔ جب اللہ کہتا ہے کے ان پر درود بھیجو۔ پھر کیسی تعریف ۔
جس کا مقام وہاں کہ جبریل کے پر جلتے ہیں جس کا مقام وہاں کی میرے جیسے گندی نالی کے کیڑے بھی اس کے امتی ہونے اور اس کی شفاعت کے امید وار ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں اسکی اور کیا تعریف کی جائے ۔ یا شاید یہ سمجھ لیجیے میرا قلم جواب دے گیا ہے مجھے اس عظیم ہستی کی تعریف اس کی عظمت اور بزرگی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے میں تو عامی ہوں عام سی باتیں کرنے والا شاید اپنی بساط سے بڑا بوجھ اٹھانے چلا ہوں۔ اس بات کا بھرم رکھنے کے لیے کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔
:عام سی باتیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوٰی سب کرتے ہیں ۔ داڑھی والے جن کے سر پر بڑے بڑے جبے اور دستاریں ہوتی ہیں اور شلواریں ٹخنوں سے اونچی ۔ محبت کا دعوٰی مجھ جیسے منافق بھی کرتےہیں جن کی نا ظاہری ہیت ان سے میل کھاتی ہے اور نہ ہی باطنی ہیت مگر پھر بھی ان کے امتی ہونے پر اس طرح اکڑتے پھرتے ہیں جیسے مرغ مرغی کو فتح کرنے کے بعد سینہ پھلائے پھر تا ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی عجیب چیز ہے۔
اللہ کو کوئی برا کہے تو ہمیں برا نہیں لگتا۔ مگر جب کوئی ان صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے تو اندر آگ سی لگ جاتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں غازی علم دین شہید جیسے کئی کردار نظر آتے ہیں جو بظاہر عام سے مسلمان ہیں مگر ناموس رسول پر اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔عجیب جذبہ رکھ دیا ہے اللہ نے ہمارے اندر اسے کوئی کچھ کہے تو خود ہی کہتا ہے کہ رہنے دو انھیں کچھ نہ کہو اور اگر اس کے نبی کو کوئی کچھ کہے تو سننے والے کے اندر باہر آگ سی لگ جاتی ہے۔
یہ عام سی باتیں ہیں۔ مرزائیوں کا پیشوا ہو،یا سلمان رشدی جیسا شاتم رسول جب ان کے نام سامنے آتے ہیں تو بے اختیار لبوں پر جو پہلا لفظ آتا ہے وہ کلاسیکل قسم کی گالی ہوتاہے۔ یا اگر کوئی بہت ہی مہذب ہوگا تو گالی کے بغیر بات کر لے گا۔
حب رسول بھی عجیب چیز ہے اور ہم بھی عجیب تر ۔ دعوٰی تو محبت کا ہے مگر کام ۔۔۔۔۔
کام نہ پوچھیں۔ عجب لوگ ہیں ہم بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوٰی ہے تو اسے نبھانے کی کوشش بھی کیجیے جتناہوسکے۔
محبت سے یاد آیا محبت کرنے کے کچھ آداب ہواکرتےہیں۔آپ میں سب ہی جانتے ہیں کہ جب ہم کسی کا ذکر محبت سے کرتے ہیں تو وہ بھی ہمارا ذکر محبت سے کرتا ہے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاصل کر نی ہے تو ان کا ذکر کیا کیجیے۔
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا مگر ہم اپنی سی کوشش تو کر سکتے ہیں ۔ ہمیں اللہ کی طرف سے حکم بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کریں۔ تو صاحبو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرود پڑھتے رہا کرو۔ اس پر کونسا پیسے خرچ ہوتے ہیں ۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اگر یہ کام کرتے رہیں تو یہ فطرت بن جائے گی۔ درود کا جاری ہونا بھی قرب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانی ہے۔ اس لیے اگر ان کے قریب ہونا لہے تو ان کا ذکر کیا کیجیے ۔
لکھنے کیا بیٹھا تھا اور لکھا کیا۔ اسی لیے کہا تھا کہ ابھی میری اڑان اتنی نہیں ۔ مگر پاپی دل مان کر نہیں دیتا تھا۔ اب اسے سکون ہے۔ مجھے اتنی دیر برداشت کیا میری میَں میَں برداشت کی آپ کا شکریہ۔
اللہ ہمیں حب رسول صلی اللہ علیہ سلم نصیب فرما دے۔آمین
(نوٹ: ایک دوست نے میری تحریر بارے استفسار کیا تھا کوئی بھی اپنے بلاگ پر میری تحریر شائع کر سکتا ہے۔ تبصرے کے ذیل میں)مجھے مطلع کر دیجیےگا)
ماشاء اللہ ۔ داد دیتا ہوں آپ کی ہمت کو ۔ اپنے پیارے نبی عالی شان ﷺکے متعلق سوچتے ہوئے بھی میرا جسم کانپنے اور ہاتھ لرزنے لگتے ہیں اور آنکھیں شرابوُر ہو جاتی ہیں ۔ میں بس اِسی میں گُم ہو جاتا ہوں ۔
جواب دیںحذف کریں