جانی نے گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر اس خوش پوش جوان کی طرف جو اب انارکلی کی طرف جارہا تھا۔وہ اس آدمی کے پیچھے پچھلے ایک گھنٹے سے لگا ہوا تھا مگر تگڑا شکار ہونے کے باوجود اسے مناسب موقع ہاتھ نہیں لگا تھا۔جیسے شکار انارکلی میں داخل ہوا جانی بھی اسکے پیچھے مگر نسبتٌاقریب ہوکر بازار میں داخل ہوگیا۔ پھر وسط تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ ایک مخصوص دھکے کے ساتھ اپنا کام کرچکا تھا۔ جوان کا دیدہ زیب سا بٹوہ اس کی خفیہ جیب میں تھا۔
اس مرغی کی طرح جسے انڈہ دینے کے لیے جگہ درکا ہوتی ہے اب جانی کو بٹوے کی تلاشی کے لیے کوئی مناسب جگہ درکار تھی۔ انارکلی سے انھی پیروں واپس نکل کر اب وہ کسی سنسان گوشے کی تلاش میں تھا تاکہ اپنے گناہ کا بوجھ ہلکا کرسکے۔پھر ایک ویران سے گوشے میں چند بند دوکانوں کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے جلدی سے بٹوہ نکالا اور اس کی تلاشی لینے لگا۔
دھت تیرے کی" بےاختیار اس کے منہ سے یہ فقرہ ایک وزنی گالی کے ساتھ برآمد ہوا۔ اس بٹوے میں بھی ایک معشوق کی" تصویر، چند تعارفی کارڈوں اور ایک بیس روپے کے نوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بیوہ کی ویران مانگ کی طرح بٹوے کو خالی دیکھ کر جانی کا جی چاہا کہ اپنا سر پیٹ لے۔ یہ صبح سے تیسرا شکار تھا جس کی جیب سے اسے پچاس سے بھی کم روپے ملے تھے۔ اس سے زیادہ روپے وہ بس کے کرائے میں دے چکا تھا۔
جانی نے بٹوے کو مایوسی سے ایک طرف پھینکا اور دوبارہ کسی مرغے کی تلاش میں چل پڑا۔ اتفاق سے انارکلی سے باہر نکلتا ہواجوڑا اس کی نظر پڑ گیا جو شکل سے سفید پوش نظرآرہے تھے مگر جب ان کے درمیان بس اورٹیکسی سے گھر جانے پر جھگڑا ہونے لگا تو اس نے آدمی کی کنجوس ذہنیت بھانپ لی ۔ اب جانی ان کے پیچھے تھا۔ کچھ دیر کے بحث مباحثے کے بعد آخر بیوی کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ بس سٹاپ کی طرف چل پڑے۔ جانی بھی اچھے شکار کی امیدمیں ان کے پیچھے تھا۔ بس میں چڑھ کر جب مرد نے ٹکٹ لینے کے لیے بٹوہ نکالا تو اس میں لال رنگ کی جھلک دیکھ کر جانی کو کچھ صبر آیا۔
اسی دوران بس میں ایک نوعمر سا لڑکا چڑھ آیا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک صندوقچی تھی جس پر کسی مدرسے کا نام لکھاہوا تھا سر پر ٹوپی،چہرے پر معصومیت اور یتیمی اور آوازمیں کچھ اس قسم کا درد بسا ہوا تھا کہ لوگ بے اختیار اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہورہے تھے۔
جانی جو اس دوران شکار پر ہاتھ صاف کرنے کی نیت سے آگے بڑھ رہا تھا مایوسی سے ایک طرف کھڑا رہ گیا اس کے شکار نے بھی اپنے بٹوے سے دس کا ایک نوٹ نکال کر اس کی صندوقچی میں ڈال دیا۔جانی یہ سب دیکھ کر صرف زہر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا اس لڑکے کی وجہ سے اس کا وقت ضائع ہورہا تھا۔ آخر سمن آباد کے سٹاپ سے پیچھے ایک جگہ اس نے شکار مار لیا اور اب وہ بس سے اتر کے اپنے اڈے کی طرف پیدل چلنے لگا۔ اس دوران وہ بڑی بے پرواہی سے بٹوہ کھول کر اس کا جائزہ بھی لے رہا تھا جس میں سے اکلوتا سو کا نوٹ جھانکنے لگاتھا۔
جانی نے اپنی دن بھر کی کمائی کا حساب لگایا تو بمشکل سو روپیہ بنا باقی روپے بس کے کرائے میں نکل چکے تھے۔
"لگتا ہے آج پھر استاد سے سننا پڑیں گی"
اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا۔
اڈے کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے کانوں میں گُلّو کی چیخیں پڑنے لگیں۔ استاد کے سامنے مرغا بنا گُلّو معافی مانگ رہا تھا مگر استاد معاف کرنے کو تیار نہ تھا۔ جانی کو دیکھ کر استاد نے جوتے مارتا اپنا ہاتھ روک لیا ۔
ہاں بھئی شہزادے کیا کمائی کرکے لائے ہو" خلاف معمول استاد کا لہجہ طنزیہ تھا۔ "
جانی نے سو کا نوٹ اس کے آگے رکھ دیا تو استاد کو جیسے پتنگے لگ گئے۔ اب اسکی توپوں کا رخ جانی کی طرف تھا۔ جانی کے لمبے قد اور اپنے برابر جسامت کی وجہ سے اسے مار تو نہیں سکتا تھا اس لیے اس نے لفظوں کی مار مارنا شروع کردی۔ جانی سر جھکائے استاد کی کڑوی کسیلی سن رہا تھا۔
استاد رحیم دادا جو اپنے شاگردوں میں صرف استاد کے نام سے مشہور تھا علاقے کا نامی غنڈہ تھا۔ پولیس سے دیرینہ یاری تھی اور جوئے کے علاوہ پاکٹ مارنے کا دھندہ بھی اپنے شاگردوں سے کرواتا تھا۔
".استاد کیا کروں ۔ صبح سے چار شکار ہی کچھ کام کے ملے مگر ان سے بھی پچاس سو ہی نکلے ہیں۔ اس میں ہمارا کیا قصور ہے"
جانی نے منمناتے ہوئے مزید وضاحت کی "لوگ تو جیسے جیبوں میں کچھ لے کر ہی نہیں نکلتے۔ سارا دن خواری کے بعد یہ کچھ ہاتھ لگا ہے“۔
ابے میں کیا کروں۔ وہ تمہارا باپ تھانیدار ماہانہ مانگ رہا ہے۔ ماں کا خصم کہتا ہے جوے کا اڈہ بند رہنے دو اوپر سے سختی ہے اور تم کچھ لا کر نہیں دیتے۔ کیا تمہاری ۔۔۔۔۔ کو بیچ کر اسے ماہانہ دوں۔ اڈےکا خرچہ تم سب کا روٹی پانی کیا تمہارا باپ کرے گا آکر۔ کچھ لاؤ گے تو میں یہ سب کروں گا" ۔
رحیم دادا اس بار جیسے پھٹ پڑا تھا۔ پھر جیسے جیسے سب آتے گئے کسی کے پاس سے بھی سو سے زیادہ روپے نہں نکلے۔ اور استاد کا غصہ آسمان کو چھونےلگا۔ آخر اس نے بڑی ملائمت سے کہنے لگا۔
آج سے یہ اڈہ بند اپنا کماؤ اور اپنا کھاؤ مجھ سے تمہارا کوئی تعلق نہیں جب لا کر نہیں دیتے تو میں کیا خود کو بیچ دوں۔ ماہانہ ہے نہ میں بھگت لوں گا تم لوگ جان چھوڑو میری"۔
اب کے رحیم دادا نے اپنے مخصوص اندازاور لہجے میں کہا تھا لڑکے جانتے تھے کہ اس کا لہجہ اتنا ملائم اسی وقت ہوتا ہے جب وہ غصے کی انتہا پر ہو۔
"نہیں استاد!ایسا بھلا کیسے ہو سکتاہے۔ ہم کہاں جائیں گے اڈے کے سوا۔ تمہارے سوا ہمارا ہے ہی کون ہے دنیا میں"
تمام لڑکے اس قسم کے جملے بول کر استاد کی منتیں کرنے میں لگے تھے اور جانی کا ذہن کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ وہ صندوقچی والا لڑکا اسے بری طرح یاد آرہا تھا۔ اس لڑکے کو وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ گندی سی بستی میں رہنے والا یہ لڑکا کسی مدرسے کا طالب علم نہیں تھا بلکہ یہ اسکے پورے خاندان کاکاروبار تھا۔ اس کا باپ اور چھوٹے بڑے تمام بھائی صبح گھر سے یہ صندوقچیاں لے کر نکلتے تھے اور شام کے ہزاروں روپے کما کر گھر لوٹتے تھے۔
"استاد میری بات سنو۔" جانی کے انداز میں کچھ ایسی بات تھی کہ سب چپ ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگے استاد بھی ناراض ناراض سا اسکی طرف متوجہ تھا۔
.استاد! اگر ہم اپنا کام بدل لیں"۔ جانی نے گویا سسپنس پیداکیا
ابے کل کے لونڈے اب مجھے کام بدلنے کے مشورے دے گا۔ کیا پھول بیچا کرےگا کل سے " اپنی معشوق کے گھر کے باہر
"
استاد نے ترشی سے کہا۔
"استادبات تو پوری ہونے دو۔ " یہ کہہ کر وہ استاد کو اپنی تجویز بتانے لگا۔ سب بتانے کے بعد وہ بولا
"استاد چاندی ہو جائے گی اگر میری بات مان لو۔ نہ پولیس کا ڈر اور دین کا بھی بھلا۔ یعنی ہم خرمہ وہم ثواب" جانی نے اس مرتبہ اپنے میڑک پاس ہونے کا فائدہ اٹھایا۔
جانی کی بات سن کر استاد سوچ میں پڑ گیا پھر کئی منٹ سوچتے رہنے کے بعد اس نے اثبات میں سر ہلایا تو سارے لڑکوں نے مل کر استاد کو سر پر اٹھا لیا۔
نئے کاروبار کے سلسلے میں انتظامات کرنا اب جانی کی ذمہ داری تھی۔ اس نے اپنے ایک واقف کار جستی پیٹیاں بنانے والے کودرجن بھر صندوقچیاں بنانے کا آرڈر دے دیا۔ ساتھ ہی رسید بک اور لڑکوں کے لے کرتہ شلوار کا آرڈر بھی دے کر وہ ٹوپیاں خریدنے چل پڑا۔ لڑکے اس کے ساتھ تھے کرتا شلواروں کا ناپ دینے کے بعد وہ سب مارکیٹ میں اپنی پسند کی ٹوپیاں خریدنے لگے۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ اڈے پر واپس آئے تو استاد چارپائی پر لیٹا سوچ میں گم تھا۔
"ابے یہ جو جعلی مدرسہ چلائے گا تُو اسے اصلی مدرسہ کیوں نہ بنادیں۔ “
جانی استاد کی بات سن کر سوچ میں پڑگیا۔
"استاد اس کے لیے انتظام کیسے کروگے۔ پلاٹ کا انتظام پھر مدرسہ چلانے کے لیے مولوی بھی تو چاہیے۔"
"ابے میں کس لیے ہوں کسی مولوی کی شاگردی اختیار کیے لیتا ہوں دو چار ماہ میں کام سیکھ جاؤں گا۔ اپنا گلشن والا پلاٹ اسی دن کے لیے رکھا تھا۔ وہاں بنیادیں کھدوا دیتے ہیں اور اپنے مدرسے کا بورڈ لگوادیتے ہیں۔ اتنے عرصے میں تم لوگ کام کرو اور جمع کیے چندے سے دیواریں اٹھانا شروع کردیں گے"استاد کا مفصل جواب سن کر جانی بھی راضی ہوگیا۔پھر وہ پینٹر سے بورڈ بنوانے کے لیے روانہ ہوگیا اور لڑکے اچھل کود اور چندہ مانگے کی مشق کرنے لگے۔ استاد انھیں ڈانٹ ڈانٹ کر کہہ رہا تھا ابے ایسے نہیں چہرے پر مسکینی لا اور آواز میں درد پیداکر."۔
جب باوجود کوشش کے لڑکوں کی آواز میں درداور شکلوں پر یتیمی پیدا نہ ہوسکی تو استاد نے ان کے تھپڑ لگانے شروع کردیے۔
"اب ٹھیک ہے۔ آئندہ سے تمہاری شکلیں کام پر جاتے ایسی ہونی چاہئی اور آوازیں کم نکالنا صرف رسید بک اور صندوقچی آگے کردیا کرنا۔"۔
استادنے سب کو باری باری آئینہ دکھاتے ہوئے کہا۔
اگلے دن جانی تمام چیزیں لے آیا۔
صندوقچیاں جن پر پینٹ سے "مدرسہ رحیم القرآن" کو چندہ دینے کی اپیل کی گئ تھی۔ چھوٹی چھوٹی رسیدی کتابیں اور پلاٹ پر لگانے کے لیے بڑا سا بورڈ جس پر جلی حروف میں لکھا تھا۔
"زیر تعمیر مدرسہ رحیم القرآن ۔ یہ مدرسہ آپ کا ہے۔ اس کی تعمیر میں اینٹ،سیمنٹ،بجری اور سریے سے معاونت کیجیے"
نیچے استاد کا موبائل نمبر تھا جو اسی دن استاد اور جانی نے جاکر بازار سے لیا تھا۔
پھر اسی دن استاد کسی مولوی کی شاگردی اختیار کرنے اور لڑکے چندہ جمع کرنے نکلے۔ شام کو جب سب جمع ہوئے تو کسی کے پاس بھی پانچ سو سے کم رقم نہیں تھی اور استاد کو آخر ایک مدرسے کے مولوی صاحب نماز،قرآن اور دین کی بنیادی باتیں سکھانے پر راضی ہوگئےتھے۔
یہ چھ ماہ بعد کی بات ہے۔
اب مدرسے کی بغیر پلستر کے نچلی منزل تیار ہےجہاں سے کچھ بچوں کے قرآن پڑھنے کی آوازیں بھی آرہی ہیں۔ان میں استاد جو اب مولانا رحیم داد کے نام سے گلشن میں مشہور ہے کے کچھ پرانے شاگرد بھی شامل ہیں۔ جبکہ باقی شاگرد اب چندہ جمع کرنے کا کام کرتےہیں۔رحیم داد کی اب فٹ بھر لمبی ڈاڑہی ہے اور وہ پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے جس کی امامت بھی وہ خود کراتا ہے۔ مقتدیوں میں محلے کے کچھ لوگ بھی آکر شامل ہوجاتے ہیں۔
مولانا رحیم داد روزانہ صبح اہل محلہ سے مسجدمدرسے کی تعمیر کے لیے لاؤڈ سپیکر پر چندے کی اپیل کرتا ہے۔جس کے نتیجہ میں مدرسہ کی تعمیر زوروشور سے جاری ہے۔اب کے عید پر کھالیں بھی مولانا کی ہونگی۔ بلکہ محلے والے اب اس پر شادی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ ان کی بچیوں کی قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دور نہ جانا پڑے۔ مولانا کی بیوی بچیوں کو بخوبی پڑھا سکتی ہے۔
چناچہ اب مولانا رحیم داد اپنے لیے بیوی اور اپنے شاگردوں کے لیے ایک عالمہ فاضلہ استانی کی تلاش میں بھی ہے۔
اس مرغی کی طرح جسے انڈہ دینے کے لیے جگہ درکا ہوتی ہے اب جانی کو بٹوے کی تلاشی کے لیے کوئی مناسب جگہ درکار تھی۔ انارکلی سے انھی پیروں واپس نکل کر اب وہ کسی سنسان گوشے کی تلاش میں تھا تاکہ اپنے گناہ کا بوجھ ہلکا کرسکے۔پھر ایک ویران سے گوشے میں چند بند دوکانوں کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے جلدی سے بٹوہ نکالا اور اس کی تلاشی لینے لگا۔
دھت تیرے کی" بےاختیار اس کے منہ سے یہ فقرہ ایک وزنی گالی کے ساتھ برآمد ہوا۔ اس بٹوے میں بھی ایک معشوق کی" تصویر، چند تعارفی کارڈوں اور ایک بیس روپے کے نوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بیوہ کی ویران مانگ کی طرح بٹوے کو خالی دیکھ کر جانی کا جی چاہا کہ اپنا سر پیٹ لے۔ یہ صبح سے تیسرا شکار تھا جس کی جیب سے اسے پچاس سے بھی کم روپے ملے تھے۔ اس سے زیادہ روپے وہ بس کے کرائے میں دے چکا تھا۔
جانی نے بٹوے کو مایوسی سے ایک طرف پھینکا اور دوبارہ کسی مرغے کی تلاش میں چل پڑا۔ اتفاق سے انارکلی سے باہر نکلتا ہواجوڑا اس کی نظر پڑ گیا جو شکل سے سفید پوش نظرآرہے تھے مگر جب ان کے درمیان بس اورٹیکسی سے گھر جانے پر جھگڑا ہونے لگا تو اس نے آدمی کی کنجوس ذہنیت بھانپ لی ۔ اب جانی ان کے پیچھے تھا۔ کچھ دیر کے بحث مباحثے کے بعد آخر بیوی کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ بس سٹاپ کی طرف چل پڑے۔ جانی بھی اچھے شکار کی امیدمیں ان کے پیچھے تھا۔ بس میں چڑھ کر جب مرد نے ٹکٹ لینے کے لیے بٹوہ نکالا تو اس میں لال رنگ کی جھلک دیکھ کر جانی کو کچھ صبر آیا۔
اسی دوران بس میں ایک نوعمر سا لڑکا چڑھ آیا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک صندوقچی تھی جس پر کسی مدرسے کا نام لکھاہوا تھا سر پر ٹوپی،چہرے پر معصومیت اور یتیمی اور آوازمیں کچھ اس قسم کا درد بسا ہوا تھا کہ لوگ بے اختیار اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہورہے تھے۔
جانی جو اس دوران شکار پر ہاتھ صاف کرنے کی نیت سے آگے بڑھ رہا تھا مایوسی سے ایک طرف کھڑا رہ گیا اس کے شکار نے بھی اپنے بٹوے سے دس کا ایک نوٹ نکال کر اس کی صندوقچی میں ڈال دیا۔جانی یہ سب دیکھ کر صرف زہر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا اس لڑکے کی وجہ سے اس کا وقت ضائع ہورہا تھا۔ آخر سمن آباد کے سٹاپ سے پیچھے ایک جگہ اس نے شکار مار لیا اور اب وہ بس سے اتر کے اپنے اڈے کی طرف پیدل چلنے لگا۔ اس دوران وہ بڑی بے پرواہی سے بٹوہ کھول کر اس کا جائزہ بھی لے رہا تھا جس میں سے اکلوتا سو کا نوٹ جھانکنے لگاتھا۔
جانی نے اپنی دن بھر کی کمائی کا حساب لگایا تو بمشکل سو روپیہ بنا باقی روپے بس کے کرائے میں نکل چکے تھے۔
"لگتا ہے آج پھر استاد سے سننا پڑیں گی"
اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا۔
اڈے کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے کانوں میں گُلّو کی چیخیں پڑنے لگیں۔ استاد کے سامنے مرغا بنا گُلّو معافی مانگ رہا تھا مگر استاد معاف کرنے کو تیار نہ تھا۔ جانی کو دیکھ کر استاد نے جوتے مارتا اپنا ہاتھ روک لیا ۔
ہاں بھئی شہزادے کیا کمائی کرکے لائے ہو" خلاف معمول استاد کا لہجہ طنزیہ تھا۔ "
جانی نے سو کا نوٹ اس کے آگے رکھ دیا تو استاد کو جیسے پتنگے لگ گئے۔ اب اسکی توپوں کا رخ جانی کی طرف تھا۔ جانی کے لمبے قد اور اپنے برابر جسامت کی وجہ سے اسے مار تو نہیں سکتا تھا اس لیے اس نے لفظوں کی مار مارنا شروع کردی۔ جانی سر جھکائے استاد کی کڑوی کسیلی سن رہا تھا۔
استاد رحیم دادا جو اپنے شاگردوں میں صرف استاد کے نام سے مشہور تھا علاقے کا نامی غنڈہ تھا۔ پولیس سے دیرینہ یاری تھی اور جوئے کے علاوہ پاکٹ مارنے کا دھندہ بھی اپنے شاگردوں سے کرواتا تھا۔
".استاد کیا کروں ۔ صبح سے چار شکار ہی کچھ کام کے ملے مگر ان سے بھی پچاس سو ہی نکلے ہیں۔ اس میں ہمارا کیا قصور ہے"
جانی نے منمناتے ہوئے مزید وضاحت کی "لوگ تو جیسے جیبوں میں کچھ لے کر ہی نہیں نکلتے۔ سارا دن خواری کے بعد یہ کچھ ہاتھ لگا ہے“۔
ابے میں کیا کروں۔ وہ تمہارا باپ تھانیدار ماہانہ مانگ رہا ہے۔ ماں کا خصم کہتا ہے جوے کا اڈہ بند رہنے دو اوپر سے سختی ہے اور تم کچھ لا کر نہیں دیتے۔ کیا تمہاری ۔۔۔۔۔ کو بیچ کر اسے ماہانہ دوں۔ اڈےکا خرچہ تم سب کا روٹی پانی کیا تمہارا باپ کرے گا آکر۔ کچھ لاؤ گے تو میں یہ سب کروں گا" ۔
رحیم دادا اس بار جیسے پھٹ پڑا تھا۔ پھر جیسے جیسے سب آتے گئے کسی کے پاس سے بھی سو سے زیادہ روپے نہں نکلے۔ اور استاد کا غصہ آسمان کو چھونےلگا۔ آخر اس نے بڑی ملائمت سے کہنے لگا۔
آج سے یہ اڈہ بند اپنا کماؤ اور اپنا کھاؤ مجھ سے تمہارا کوئی تعلق نہیں جب لا کر نہیں دیتے تو میں کیا خود کو بیچ دوں۔ ماہانہ ہے نہ میں بھگت لوں گا تم لوگ جان چھوڑو میری"۔
اب کے رحیم دادا نے اپنے مخصوص اندازاور لہجے میں کہا تھا لڑکے جانتے تھے کہ اس کا لہجہ اتنا ملائم اسی وقت ہوتا ہے جب وہ غصے کی انتہا پر ہو۔
"نہیں استاد!ایسا بھلا کیسے ہو سکتاہے۔ ہم کہاں جائیں گے اڈے کے سوا۔ تمہارے سوا ہمارا ہے ہی کون ہے دنیا میں"
تمام لڑکے اس قسم کے جملے بول کر استاد کی منتیں کرنے میں لگے تھے اور جانی کا ذہن کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ وہ صندوقچی والا لڑکا اسے بری طرح یاد آرہا تھا۔ اس لڑکے کو وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ گندی سی بستی میں رہنے والا یہ لڑکا کسی مدرسے کا طالب علم نہیں تھا بلکہ یہ اسکے پورے خاندان کاکاروبار تھا۔ اس کا باپ اور چھوٹے بڑے تمام بھائی صبح گھر سے یہ صندوقچیاں لے کر نکلتے تھے اور شام کے ہزاروں روپے کما کر گھر لوٹتے تھے۔
"استاد میری بات سنو۔" جانی کے انداز میں کچھ ایسی بات تھی کہ سب چپ ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگے استاد بھی ناراض ناراض سا اسکی طرف متوجہ تھا۔
.استاد! اگر ہم اپنا کام بدل لیں"۔ جانی نے گویا سسپنس پیداکیا
ابے کل کے لونڈے اب مجھے کام بدلنے کے مشورے دے گا۔ کیا پھول بیچا کرےگا کل سے " اپنی معشوق کے گھر کے باہر
"
استاد نے ترشی سے کہا۔
"استادبات تو پوری ہونے دو۔ " یہ کہہ کر وہ استاد کو اپنی تجویز بتانے لگا۔ سب بتانے کے بعد وہ بولا
"استاد چاندی ہو جائے گی اگر میری بات مان لو۔ نہ پولیس کا ڈر اور دین کا بھی بھلا۔ یعنی ہم خرمہ وہم ثواب" جانی نے اس مرتبہ اپنے میڑک پاس ہونے کا فائدہ اٹھایا۔
جانی کی بات سن کر استاد سوچ میں پڑ گیا پھر کئی منٹ سوچتے رہنے کے بعد اس نے اثبات میں سر ہلایا تو سارے لڑکوں نے مل کر استاد کو سر پر اٹھا لیا۔
نئے کاروبار کے سلسلے میں انتظامات کرنا اب جانی کی ذمہ داری تھی۔ اس نے اپنے ایک واقف کار جستی پیٹیاں بنانے والے کودرجن بھر صندوقچیاں بنانے کا آرڈر دے دیا۔ ساتھ ہی رسید بک اور لڑکوں کے لے کرتہ شلوار کا آرڈر بھی دے کر وہ ٹوپیاں خریدنے چل پڑا۔ لڑکے اس کے ساتھ تھے کرتا شلواروں کا ناپ دینے کے بعد وہ سب مارکیٹ میں اپنی پسند کی ٹوپیاں خریدنے لگے۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ اڈے پر واپس آئے تو استاد چارپائی پر لیٹا سوچ میں گم تھا۔
"ابے یہ جو جعلی مدرسہ چلائے گا تُو اسے اصلی مدرسہ کیوں نہ بنادیں۔ “
جانی استاد کی بات سن کر سوچ میں پڑگیا۔
"استاد اس کے لیے انتظام کیسے کروگے۔ پلاٹ کا انتظام پھر مدرسہ چلانے کے لیے مولوی بھی تو چاہیے۔"
"ابے میں کس لیے ہوں کسی مولوی کی شاگردی اختیار کیے لیتا ہوں دو چار ماہ میں کام سیکھ جاؤں گا۔ اپنا گلشن والا پلاٹ اسی دن کے لیے رکھا تھا۔ وہاں بنیادیں کھدوا دیتے ہیں اور اپنے مدرسے کا بورڈ لگوادیتے ہیں۔ اتنے عرصے میں تم لوگ کام کرو اور جمع کیے چندے سے دیواریں اٹھانا شروع کردیں گے"استاد کا مفصل جواب سن کر جانی بھی راضی ہوگیا۔پھر وہ پینٹر سے بورڈ بنوانے کے لیے روانہ ہوگیا اور لڑکے اچھل کود اور چندہ مانگے کی مشق کرنے لگے۔ استاد انھیں ڈانٹ ڈانٹ کر کہہ رہا تھا ابے ایسے نہیں چہرے پر مسکینی لا اور آواز میں درد پیداکر."۔
جب باوجود کوشش کے لڑکوں کی آواز میں درداور شکلوں پر یتیمی پیدا نہ ہوسکی تو استاد نے ان کے تھپڑ لگانے شروع کردیے۔
"اب ٹھیک ہے۔ آئندہ سے تمہاری شکلیں کام پر جاتے ایسی ہونی چاہئی اور آوازیں کم نکالنا صرف رسید بک اور صندوقچی آگے کردیا کرنا۔"۔
استادنے سب کو باری باری آئینہ دکھاتے ہوئے کہا۔
اگلے دن جانی تمام چیزیں لے آیا۔
صندوقچیاں جن پر پینٹ سے "مدرسہ رحیم القرآن" کو چندہ دینے کی اپیل کی گئ تھی۔ چھوٹی چھوٹی رسیدی کتابیں اور پلاٹ پر لگانے کے لیے بڑا سا بورڈ جس پر جلی حروف میں لکھا تھا۔
"زیر تعمیر مدرسہ رحیم القرآن ۔ یہ مدرسہ آپ کا ہے۔ اس کی تعمیر میں اینٹ،سیمنٹ،بجری اور سریے سے معاونت کیجیے"
نیچے استاد کا موبائل نمبر تھا جو اسی دن استاد اور جانی نے جاکر بازار سے لیا تھا۔
پھر اسی دن استاد کسی مولوی کی شاگردی اختیار کرنے اور لڑکے چندہ جمع کرنے نکلے۔ شام کو جب سب جمع ہوئے تو کسی کے پاس بھی پانچ سو سے کم رقم نہیں تھی اور استاد کو آخر ایک مدرسے کے مولوی صاحب نماز،قرآن اور دین کی بنیادی باتیں سکھانے پر راضی ہوگئےتھے۔
یہ چھ ماہ بعد کی بات ہے۔
اب مدرسے کی بغیر پلستر کے نچلی منزل تیار ہےجہاں سے کچھ بچوں کے قرآن پڑھنے کی آوازیں بھی آرہی ہیں۔ان میں استاد جو اب مولانا رحیم داد کے نام سے گلشن میں مشہور ہے کے کچھ پرانے شاگرد بھی شامل ہیں۔ جبکہ باقی شاگرد اب چندہ جمع کرنے کا کام کرتےہیں۔رحیم داد کی اب فٹ بھر لمبی ڈاڑہی ہے اور وہ پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے جس کی امامت بھی وہ خود کراتا ہے۔ مقتدیوں میں محلے کے کچھ لوگ بھی آکر شامل ہوجاتے ہیں۔
مولانا رحیم داد روزانہ صبح اہل محلہ سے مسجدمدرسے کی تعمیر کے لیے لاؤڈ سپیکر پر چندے کی اپیل کرتا ہے۔جس کے نتیجہ میں مدرسہ کی تعمیر زوروشور سے جاری ہے۔اب کے عید پر کھالیں بھی مولانا کی ہونگی۔ بلکہ محلے والے اب اس پر شادی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ ان کی بچیوں کی قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دور نہ جانا پڑے۔ مولانا کی بیوی بچیوں کو بخوبی پڑھا سکتی ہے۔
چناچہ اب مولانا رحیم داد اپنے لیے بیوی اور اپنے شاگردوں کے لیے ایک عالمہ فاضلہ استانی کی تلاش میں بھی ہے۔
اچھا لکھا ہے
جواب دیںحذف کریںشکریہ
جواب دیںحذف کریں