منگل، 29 جنوری، 2008

گلوبل سائنس کی مدد کیجیے

گلوبل سائنس پاکستان کا واحد اردو سائنسی جریدہ ہے۔ میں نے کمپیوٹر کے بارے میں اس رسالے سے سیکھا اور آج بھی میرے پاس اس کے مضامین کی فوٹو کاپیاں کہیں پڑی ہوئی ہیں۔۔۔آج اس کو مالی بحران کا سامنا ہے۔ اصل میں یہ کبھی بھی اتنا مضبوط نہیں رہا۔ پچھلے کئی سال سے اس کے آخری صفحے پر صرف ایک اشتہار ہوتا ہے وہ بھی ایک ڈبل روٹی کا۔ یہ بھی جانے کون پاگل ہیں سالے جو ایک سائنسی جریدے کو اشتہار دے دیتے ہیں۔ ورنہ آج تک اس کو کوئی اور اشتہار نہیں ملا۔ کبھی سپائیڈر پڑھا ہے آپ نے؟ تو پتا ہوگا کہ اشتہار کیا ہوتے ہیں۔۔


اس ماہ کے جریدے سے پتا چلا ہے کہ ان کا مالی بحران اتنا بڑھ گیا ہے کہ شاید رسالہ 3ماہ بھی نہ چل سکے۔۔۔آپ سے اپیل ہے کہ گلوبل سائنس کو مرنے سے بچانے کے لیے ہاتھ بٹائیے۔ یہ چندے کی اپیل نہیں ہے۔ اس رسالے کی سالانہ زروصولی 500 روپے ہے۔ خود لییجے اور اپنے دوست احباب اور نزدیکی تعلیمی اداروں کو لینے کی ترغیب دیجیے۔ بخدا یہ رسالہ پاکستان میں سائنس کے نام پر واحد بجھتا چراغ ہے۔ اگر یہ بجھ گیا تو اگلے کئی سالوں تک ہمیں اندھیرا برداشت کرنا پڑے گا۔۔۔۔مدد کیجیے اگر آپ صاحب دل اور صاحب درد ہیں۔۔۔ڈاک اور منی آرڈر کے لئے رسالے سے رجوع کریں یہ ان پتوں پر رابطہ کریں۔ رسالہ پورے پاکستان میں اچھے بک سٹالز پر مل جاتا ہے۔


monthly Global Science,
139-Sunny Plaza,
Hasrat Mohani Road, Karachi.
Voice: 021-2625545

اس قوم کی اوقات

یہ ہے اس قوم کی حقیقت۔۔۔۔



پیر، 28 جنوری، 2008

ترقی کی حقیقت

آج جب میں سوچتا ہوں تو اپنے حال پر ہنسی بھی آتی ہے اور ترس بھی۔ کراچی سٹاک مارکیٹ کی تیزی اور ہر روز انڈیکس بڑھنے کی خبریں دیکھ کر میرے دل میں بھی خیال آیا کہ کیوں نہ ہم بھی کسی کمپنی کے شئیر لے لیں۔ منافع تو ملے گا ہی۔ ایسی ہی خبر ہمارے ایک عزیز نے بھی دی۔ لیکن پھر مالی مجبوریوں کی وجہ سے یہ سب تو نہ ہوسکا۔ اور اب مجھے ہنسی آتی ہے کہ میں اس وقت انڈیکس کے بڑھنے کو ترقی سمجھتا تھا۔

کل کی اخبار میں ایک خبر آئی ہے کہ کال میٹ نامی ایک کمپنی کے حصص جو چند ماہ پہلے 65 روپے تک خرید و فروخت ہوچکے ہیں اب 20 روپے سے بھی کم میں بک رہے ہیں۔ اور جن کے پاس یہ حصص تھے ان کا سرمایہ ڈوب گیا ہے۔

میں نے غور کیا تو بہت سی چیزیں سامنے آئیں۔ پچھلے آٹھ سال میں معیشت کی 7 فیصد افزائش اسی بل پر دکھائی جاتی رہی ہے۔ بینکوں کا قرضوں کا کاروبار، ٹیلی کام کے شعبے میں سرمایہ کاری، سٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاری اور سروسز کے بزنس۔۔۔

میں نے غور کیا تو احساس ہوا کہ ان آٹھ دس سالوں میں کوئی ایسی ترقی نہیں ہوسکی جو زمین پر قائم ہو۔ یہ سب جس کو بنیاد بنا کر ترقی دکھائی جاتی رہی ہے کہ نتیجہ آج یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کار انڈسٹری لگانے کی بجائے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ لگانے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ آخر انھیں ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ انڈسٹری لگائیں سو بکھیڑے پالیں اور پھر چار پیسے کمائیں۔ بس کراچی کی سٹاک مارکیٹ کے بھیڑیوں سے رابطہ کریں حصص خریدیں، مصنوعی تیزی سے ان کی قیمتیں بڑھوائیں اور فروخت کرکے سائیڈ پر ہوجائیں۔ آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام۔۔

بینکوں نے قرضوں کا جو کاروبار شروع کیا، کریڈٹ کارڈز دئیے گئے اور لیز پر گاڑیاں دی گئی ان سب نے صرف اور صرف کنزیومر ازم کو فروغ دیا ہے۔ یہ قرضے انڈسٹری لگانے کی بجائے ان کاموں کے لیے دئیے گئے جو معاشیات کی اصطلاح میں ان پروڈکٹو مانے جاتے ہیں۔ اب لوگوں کے پاس گاڑیاں تو ہیں لیکن ان کو چلانے کے لیے پٹرول کے پیسے نہیں۔ چناچہ وہ رینٹ اے کار پر چل رہی ہیں۔ یا بینک انھیں واپس لے رہے ہیں۔ یا لوگ بینک سے بھاگ رہے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ استعمال تو کرلیا لیکن اب اس کا سود اور اصل واپس کرنے کے لیے گدھوں کی طرح لگے ہوئے ہیں۔

موبائل فون کے شعبے میں ہونےو الی سرمایہ کاری نے بہت کم مواقع پیدا کئیے ہیں۔ جبکہ صارفین اس سے ہزاروں گنا زیادہ پیدا ہوئے ہیں۔ اگر اس وقت پاکستان میں 7 کروڑ موبائل صارفین ہیں تو ان کو سروسز فراہم کرنے والا عملہ کوئی بہت لمبا چوڑا نہیں۔ ایک لاکھ یا دو لاکھ یا بڑی حد تو پانچ لاکھ کرلیں۔۔۔ موبائل فون آپریٹرز یہاں سے پیسہ کما کر دھڑا دھڑ ڈالر باہر منتقل کررہے ہیں۔ دوسری طرف موبائل سیٹس باہر سے درآمد کرنے میں ملک کا زرمبادلہ خرچ ہورہا ہے۔ میرے جیسا بھی اوکھا ہوکے 10000 والا سیٹ لے رہا ہے۔ اور پرویز مشرف بھی عوام کے ہاتھ میں چھنکنا دے کر خوش ہے کہ سات کروڑ موبائل صارفین ہوگئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے معاشی اثرات کے ساتھ ساتھ انتہائی منفی سماجی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ میں مولوی نہیں لیکن اس موبائل نے نئی نسل کو خراب کرنے کی رفتار کو سو گنا کردیا ہے۔ لیٹ نائٹ پیکجز نے گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے ٹرینڈ کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ اجالے میں سبھی حاجی اور اندھیرے میں آج کی ساری نوجوان نسل اس حمام میں ننگی ہے۔ بے مقصد باتیں، بے وقت کی کالیں اور ساری ساری رات مقصد جاگ کر گزارنے والے یہ لوگ کیا خاک ترقی کریں گے؟

متبادل توانائی کے سلسلے میں انتہائی غفلت سے کام لیا گیا ہے۔ غریب کے ہاتھ چونی کی طرح اس کا ایک نام نہاد بورڈ تو بنادیا گیا ہے لیکن اس کے پاس فنڈز اور اختیارات کے نام پر کچھ نہیں۔ وہ صرف سوچ سکتا ہے اور آئیڈیے دے سکتا ہے۔ جو میں اکیلا ان سے زیادہ دے سکتا ہوں۔ کراچی کے نزدیک ٹھٹھہ اور اس کے نواح میں چند ونڈ ملز لگانے کا منصوبہ بنا ہے اور اس سلسلے میں سینکڑوں ایکٹر زمین بھی الاٹ کی گئی ہے لیکن اس سے پیدا ہونے والی بجلی کم از کم 10 روپے یونٹ ہوگی۔ ملک میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں لیکن اس کے لیے صرف اتنا کیا گیا ہے کہ چند گنے چنے دیہاتوں کو پائلٹ پراجیکٹ کے نام پر شمسی توانائی کے منصوبے دے کر فرض ادا کردیا گیا ہے۔

گیس اور پٹرولیم کی پیداوار ایک سطح پر آکر رک گئی ہے۔ پچھے ایک سال میں گاڑیاں دھڑا دھڑ سی این جی اور ایل پی جی پر منتقل کی گئی ہیں جس کے نتیجے میں پہلے ایل پی جی کی قیمتیں 25 روپے سے 100+ پر پہنچ گئی ہیں اور اب قدرتی گیس کا بحران منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ بغیر مستقبل کی منصوبہ بندی کئے اسی پیداوار میں رہتے ہوئے نئے صنعتی یونٹوں اور سی این جی اسٹیشنوں کو لائسنس اور گیس فراہمی کے معاہدے کئے جارہے ہیں جس کا نتیجہ بجلی کی طرح گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ کی صورت میں نکلے گا۔ گیس کے تین منصوبے اس وقت زیر غور ہیں۔ پاکستان ایران، پاکستان قطر اور ایک وسطی ایشیائی ریاستوں سے بذریعہ افغانستان۔ ان میں پاک ایران منصوبہ ہی شاید اگلے ساتھ آٹھ سال میں پایہ تکمیل تک پہنچ سکے لیکن ایران کے تیور ابھی سے بتا رہے ہیں کہ وہ نرخ کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں کرے گا۔

ملک کو عارضی بنیادوں سے نکال کر یومیہ بنیادوں پر چلایا جارہا ہے۔ سرکاری ملازمین کو کنٹریکٹ کے نام پر بھرتی کرکے ان سے ساری سہولیات چھین لی جاتی ہیں پھر انھی ملازمین کے کنٹرکیٹ ہر نئی مدت پر بڑھا دئیے جاتے ہیں۔ چناچہ نہ ہی مقابلے کی فضاء پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی پرانے ملازمین کو کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ پی ٹی اسی ایل اور پاکستان سٹیل جیسے کئی ادارے بڑی بے دردی سے نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کردئیے گئے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والی رقم یا تو قرضے اور ان کا سود دینے میں صرف ہورہی ہے یا پھر بلٹ پروف گاڑیاں اور سرکار کی زیب و زینت پر خرچ ہورہی ہے۔

عام آدمی سے لے کر حکومت تک کے پا س کماڈیٹیز یومیہ بنیادوں پر ہیں۔ آج اگر ہمارا معاشی بائیکاٹ کردیا جائے تو ہم کسی قابل نہیں رہیں گے۔ ہم ہر چیز باہر سے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت درآمد کررہے ہیں۔ سوئی، موم بتیاں، جوتے، کھلونے، موٹر سائیکل اور کاریں چین سے دھڑا دھڑ آرہی ہیں۔ بڑی چیزوں پر تو ڈیوٹی لگا کر بڑے سرمایہ کاروں کو تحفظ دے دیا گیا ہے۔ موٹر سائکل جو چین سے قریبًا 20000 میں آتا ہے یہاں چالیس ہزارمیں بکتا ہے۔ لیکن جوتے، موم بتیاں اور کھلونوں جیسی چیزوں نے مقامی چھوٹی صنعتوں کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ ملک کی بنی دس روپے والی موم بتی چین سے آنے والی اسی قیمت کی موم بتی کے مقابلے میں آدھےسے بھی کم ہے۔ مقامی طور پر سوفٹی اور گھریلوں جوتے بنانے والی صنعتیں بند ہوچکی ہیں یا آخری سانس لے رہی ہیں اور یہ لوگ اب چین سے جوتوں کے درآمد کنندہ بن گئے ہیں۔

ہر چند ماہ میں کسی نہ کسی چیز کا بحران پیدا کرکے اس کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ پہلے چینی، پھر آٹا اور گھی اور اب دالیں بھی دستیاب نہیں۔ حکومت راشن کارڈ جاری کرکے اور چند ہزار یوٹیلٹی سٹورز پر راشن مہیا کرکے اپنا فرض پورا سمجھ رہی ہے۔ بڑے شہروں میں تو رُل کر کسی نہ کسی سٹور سے کچھ کھانے کو مل ہی جاتا ہے لیکن بلوچستان جیسے علاقوں میں جہاں یہ سٹور بھی نہیں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے تیل کی قیمت منجمند ہے اور امید کی جارہی ہے اب یہ تحفہ عوام کو پیش کیا جائے گا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ تیل کی قیمت شاید 70 روپے لیٹر سے بھی بڑھ جائے۔

سماجی، اقتصادی اور معاشی ہرمیدان میں ملکی بنیادی طرح طرح کے گھن کھوکھلی کرچکے ہیں۔ عوام میں بے حسی اس حد تک جا پہنچی ہے کہ اب وہ صرف اپنی اور اپنی روزی روٹی کی سوچتے ہیں۔ عزیز رشتہ داروں اور دوستوں کی بیٹھکوں میں ملک کے ٹوٹنے کا بڑے نارمل انداز میں جائزہ لے کر اعلان کیا جاتا ہے کہ بس اب پاکستان گیا۔۔۔۔۔

یااللہ ہم کہاں جارہے ہیں؟

ہفتہ، 26 جنوری، 2008

مشرف کا پاکستان زندہ باد

زندہ باد۔۔۔گیس نہیں تو کیا ہوا لکڑیاں تو ہیں نا۔۔۔

لکڑیاں بھی ختم ہوگئیں تو اُپلے آخر کہاں جائیں گے۔

ارے چھوڑو اس چکر کو اب سی این جی سٹیشنوں کے چکر کیوں لگاتے ہو۔۔ خودانحصاری سیکھو۔ گھر میں بھینس پالو اور اس کے اپلوں سے گاڑی چلاؤ۔ روٹیاں پکاؤ۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں انھی اپلوں سے ملیں بھی چلائی جاسکتی ہیں۔ ایک بار ڈیمانڈ بن جانے کے بعد بھینسوں کا فضلہ کمرشل پیمانے پر پیدا کرنے کے لیے باہر سے سرمایہ کاری کو بھی دعوت دی جاسکتی ہے۔

میں تو کہتا ہوں چھوڑو یہ گیس ویس، پٹرول اور بجلی۔۔۔۔اپلے جلاؤ مشرف کے پاکستان کو روشن اور گرم رکھو۔

مشرف کا پاکستان زندہ باد۔۔۔مشرف کے پاکستان کے عوام مردہ باد۔۔۔۔

منگل، 22 جنوری، 2008

اَگا دوڑ تے پچھا چوڑ

پنجابی میں ایک کہاوت ہے اگا دوڑ تے پچھا چوڑ۔ یعنی آگے دوڑتے جاؤ اور پچھلا ویسے کا ویسا ہی۔ ہماری حکومتوں کا بھی یہی حال ہے۔ مشرف حکومت نے تو ات ہی مچا ڈالی ہے۔ انھے وا آگے کی طرف دوڑ لگائی گئی ہے۔ پیچھے کیا ہورہا ہے یہ اب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

بجلی کے کنکشن 2007 تک سب دیہاتوں تک پہنچ جائیں گے سب کو بجلی دستیاب ہوگی۔ بندہ پوچھے کہ جن کے پاس پہلے یہ سہولت ہے وہ کتنے مستفید ہورہے ہیں؟ موبائل کمپنیوں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اداروں کو انھے وا لائنسنس جاری کئے گئے ہیں یہ خیال کئے بغیر کہ ان کی توانائی کی ضروریات کون پوری کرے گا۔ میرے محلے میں پہلے صرف گھروں کی بجلی جاتی تھی اب اس کے ساتھ ساتھ کیبل نیٹ کی تاریں بجلی سے چلتی ہیں، ٹی وی کیبل کو کرنٹ ملتا ہے، وائرلیس اور موبائل فون کے دو تین کھمبے لگ گئے ہیں انھیں بجلی چاہیے ہوتی ہے۔ اب بجلی کیا کرے؟ ڈیم تو وہی ہیں جو پچاس سال پہلے بن گئے اور اب آدھے رہ گئے ہیں لیکن باقی ہر چیز بڑھی ہے۔۔

گیس کو لے لیں تو اس کے کرتا دھرتا بھی ہر کام انھے وا کررہے ہیں۔ نئی بستیوں کو انھے وا گیس کی لائنیں مہیا کی جارہی ہیں۔ سی این جی سٹیشنوں کو لائسنس جاری کئے جارہے ہیں۔ صنعتوں کو گیس دینے کے معاہدے ہورہے ہیں۔ اور حال یہ ہے کہ صبح ناشتے کے وقت اور رات کے کھانے کے وقت اب گیس اتنی تھوڑی ہوجاتی ہے کہ روٹی پکانا عذاب ہوجاتا ہے۔ نتیجے میں اب گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوا کرے گی۔ سی این جی سیٹشنوں کی فرمایا گیا ہے کہ 6 گھنٹے کے لیے ہوگی ملوں کی گیس سردیوں میں بعض اوقات مستقل منقطع کردی جاتی ہے۔ ہمارے قریب نور فاطمہ ٹیکسٹائل آئے دن اس وجہ سے بند ہوتی ہے کہ گیس نہیں آرہی۔ اب نہیں تو اگلے سال یہ ہمارے گھروں تک بھی آجائے گی۔ جس طرح ہر دو گھنٹے بعد بجلی بند ہوجاتی ہے اسی طرح گیس بھی بند ہوجایا کرے گی۔

ترقی تو انھے وا ہوئی ہے۔ ہر اس شعبے میں جہاں توانائی استعمال ہوسکتی ہے۔ لیکن توانائی کی ترقی کیا ہمارے ماموں نے آکر کرنی ہے باہر سے۔ اس کا کون ذمہ دار ہے۔ ایک ڈیم جو دس سال بعد بنے گا جب توانائی کی کمی میگا واٹس سے گیگا واٹس میں چلی جائے گی شاید۔

ہم ساری گرمیاں دھوپ میں سڑ سڑ کر لُوس جاتے ہیں لیکن اس قوم کے نام نہاد والی وارثوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ اس کو ہی استعمال کرلیں۔ ہر تین ماہ بعد باں باں کرتے پھرتے ہیں کہ بجلی نہیں ہے۔ اب پانی نہیں ہے اور اب گرمی کی وجہ سے کھپت بڑھ گئی ہے۔ ارے یہ شمسی توانائی کیوں استعمال نہیں کرتے۔ کوئی انھیں مشورہ کیوں نہیں دیتا۔ جاپانی آج تیل سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ ان سے اللہ واسطے ہی ٹیکنالوجی مانگ لو۔ جس طرح موبائل ہر بندے کے ہاتھ میں دے دیا ہے ویسا کام ہی اس کے ساتھ کیوں نہیں کرتے۔ اگر ان کی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے تو شمسی توانائی کے اداروں کی کیوں نہیں۔ سڑکیں نکو نک ہوگئی ہیں لیز کی گاڑیوں سے۔ آخر یہ بینک جن کے بل پر ہمارے ٹیکنو کریٹ وزیر اعظم مع اپنے صدر باس کے آٹھ سال تک معیشت کو آسمان کی بلندیوں تک ترقی کرتا دکھاتے رہے ہیں اب ان ہی بینکوں سے شمسی توانائی کے سامان کے لیے قرضے کیوں جاری نہیں کئے جاسکتے۔۔

کیوں آخر کیوں؟

ہمیں انھے وا صارف کیوں بنایا جارہا ہے۔ آٹا باہر سے، تیل باہر سے، گیس باہر سے، دالین باہر سے، موبائل فون کمپنیاں باہر سے، ضرورت زندگی کی ہر شےء حتٰی کہ سوئی اور جوتی تک باہر سے ۔۔۔۔ بس اس وقت کا انتظار ہےجب یہ قوم ہی اٹھ کر باہر کو چل پڑے۔

چل بلھیا اوتھے چلئیے جتھے سارے انھے

جتھے نا کوئی ساڈی قدر جانے نہ کوئی سانوں منے

پیر، 21 جنوری، 2008

مبارکباد بدتمیز سیّاں

لو جی بدتمیز کو مبارکباد ان کی سالگرہ پر۔ ویسے تو ہمارا آج کل لکھنے کو ککھ بھی دل نہیں کررہا۔ اس بہانے ایک اور پوسٹ ہی سہی۔ اللہ تم پر اپنی رحمتیں اور برکتیں ہمیشہ رکھے۔ آمین۔

ہفتہ، 19 جنوری، 2008

الحمد اللہ کہ ورڈپریس کا اردو ورژن اب دستیاب ہے

ورڈپریس کا اردو ورژن ہم نے اردو محفل پر جاری کردیا ہے۔ اس دھاگے پر تشریف لے جائیں اور ورڈپریس کو اردو کرکے ہمیں ثواب دارین حاصل کرنے کا موقع دیں۔