آج جب میں سوچتا ہوں تو اپنے حال پر ہنسی بھی آتی ہے اور ترس بھی۔ کراچی سٹاک مارکیٹ کی تیزی اور ہر روز انڈیکس بڑھنے کی خبریں دیکھ کر میرے دل میں بھی خیال آیا کہ کیوں نہ ہم بھی کسی کمپنی کے شئیر لے لیں۔ منافع تو ملے گا ہی۔ ایسی ہی خبر ہمارے ایک عزیز نے بھی دی۔ لیکن پھر مالی مجبوریوں کی وجہ سے یہ سب تو نہ ہوسکا۔ اور اب مجھے ہنسی آتی ہے کہ میں اس وقت انڈیکس کے بڑھنے کو ترقی سمجھتا تھا۔
کل کی اخبار میں ایک خبر آئی ہے کہ کال میٹ نامی ایک کمپنی کے حصص جو چند ماہ پہلے 65 روپے تک خرید و فروخت ہوچکے ہیں اب 20 روپے سے بھی کم میں بک رہے ہیں۔ اور جن کے پاس یہ حصص تھے ان کا سرمایہ ڈوب گیا ہے۔
میں نے غور کیا تو بہت سی چیزیں سامنے آئیں۔ پچھلے آٹھ سال میں معیشت کی 7 فیصد افزائش اسی بل پر دکھائی جاتی رہی ہے۔ بینکوں کا قرضوں کا کاروبار، ٹیلی کام کے شعبے میں سرمایہ کاری، سٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاری اور سروسز کے بزنس۔۔۔
میں نے غور کیا تو احساس ہوا کہ ان آٹھ دس سالوں میں کوئی ایسی ترقی نہیں ہوسکی جو زمین پر قائم ہو۔ یہ سب جس کو بنیاد بنا کر ترقی دکھائی جاتی رہی ہے کہ نتیجہ آج یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کار انڈسٹری لگانے کی بجائے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ لگانے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ آخر انھیں ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ انڈسٹری لگائیں سو بکھیڑے پالیں اور پھر چار پیسے کمائیں۔ بس کراچی کی سٹاک مارکیٹ کے بھیڑیوں سے رابطہ کریں حصص خریدیں، مصنوعی تیزی سے ان کی قیمتیں بڑھوائیں اور فروخت کرکے سائیڈ پر ہوجائیں۔ آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام۔۔
بینکوں نے قرضوں کا جو کاروبار شروع کیا، کریڈٹ کارڈز دئیے گئے اور لیز پر گاڑیاں دی گئی ان سب نے صرف اور صرف کنزیومر ازم کو فروغ دیا ہے۔ یہ قرضے انڈسٹری لگانے کی بجائے ان کاموں کے لیے دئیے گئے جو معاشیات کی اصطلاح میں ان پروڈکٹو مانے جاتے ہیں۔ اب لوگوں کے پاس گاڑیاں تو ہیں لیکن ان کو چلانے کے لیے پٹرول کے پیسے نہیں۔ چناچہ وہ رینٹ اے کار پر چل رہی ہیں۔ یا بینک انھیں واپس لے رہے ہیں۔ یا لوگ بینک سے بھاگ رہے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ استعمال تو کرلیا لیکن اب اس کا سود اور اصل واپس کرنے کے لیے گدھوں کی طرح لگے ہوئے ہیں۔
موبائل فون کے شعبے میں ہونےو الی سرمایہ کاری نے بہت کم مواقع پیدا کئیے ہیں۔ جبکہ صارفین اس سے ہزاروں گنا زیادہ پیدا ہوئے ہیں۔ اگر اس وقت پاکستان میں 7 کروڑ موبائل صارفین ہیں تو ان کو سروسز فراہم کرنے والا عملہ کوئی بہت لمبا چوڑا نہیں۔ ایک لاکھ یا دو لاکھ یا بڑی حد تو پانچ لاکھ کرلیں۔۔۔ موبائل فون آپریٹرز یہاں سے پیسہ کما کر دھڑا دھڑ ڈالر باہر منتقل کررہے ہیں۔ دوسری طرف موبائل سیٹس باہر سے درآمد کرنے میں ملک کا زرمبادلہ خرچ ہورہا ہے۔ میرے جیسا بھی اوکھا ہوکے 10000 والا سیٹ لے رہا ہے۔ اور پرویز مشرف بھی عوام کے ہاتھ میں چھنکنا دے کر خوش ہے کہ سات کروڑ موبائل صارفین ہوگئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے معاشی اثرات کے ساتھ ساتھ انتہائی منفی سماجی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ میں مولوی نہیں لیکن اس موبائل نے نئی نسل کو خراب کرنے کی رفتار کو سو گنا کردیا ہے۔ لیٹ نائٹ پیکجز نے گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے ٹرینڈ کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ اجالے میں سبھی حاجی اور اندھیرے میں آج کی ساری نوجوان نسل اس حمام میں ننگی ہے۔ بے مقصد باتیں، بے وقت کی کالیں اور ساری ساری رات مقصد جاگ کر گزارنے والے یہ لوگ کیا خاک ترقی کریں گے؟
متبادل توانائی کے سلسلے میں انتہائی غفلت سے کام لیا گیا ہے۔ غریب کے ہاتھ چونی کی طرح اس کا ایک نام نہاد بورڈ تو بنادیا گیا ہے لیکن اس کے پاس فنڈز اور اختیارات کے نام پر کچھ نہیں۔ وہ صرف سوچ سکتا ہے اور آئیڈیے دے سکتا ہے۔ جو میں اکیلا ان سے زیادہ دے سکتا ہوں۔ کراچی کے نزدیک ٹھٹھہ اور اس کے نواح میں چند ونڈ ملز لگانے کا منصوبہ بنا ہے اور اس سلسلے میں سینکڑوں ایکٹر زمین بھی الاٹ کی گئی ہے لیکن اس سے پیدا ہونے والی بجلی کم از کم 10 روپے یونٹ ہوگی۔ ملک میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں لیکن اس کے لیے صرف اتنا کیا گیا ہے کہ چند گنے چنے دیہاتوں کو پائلٹ پراجیکٹ کے نام پر شمسی توانائی کے منصوبے دے کر فرض ادا کردیا گیا ہے۔
گیس اور پٹرولیم کی پیداوار ایک سطح پر آکر رک گئی ہے۔ پچھے ایک سال میں گاڑیاں دھڑا دھڑ سی این جی اور ایل پی جی پر منتقل کی گئی ہیں جس کے نتیجے میں پہلے ایل پی جی کی قیمتیں 25 روپے سے 100+ پر پہنچ گئی ہیں اور اب قدرتی گیس کا بحران منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ بغیر مستقبل کی منصوبہ بندی کئے اسی پیداوار میں رہتے ہوئے نئے صنعتی یونٹوں اور سی این جی اسٹیشنوں کو لائسنس اور گیس فراہمی کے معاہدے کئے جارہے ہیں جس کا نتیجہ بجلی کی طرح گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ کی صورت میں نکلے گا۔ گیس کے تین منصوبے اس وقت زیر غور ہیں۔ پاکستان ایران، پاکستان قطر اور ایک وسطی ایشیائی ریاستوں سے بذریعہ افغانستان۔ ان میں پاک ایران منصوبہ ہی شاید اگلے ساتھ آٹھ سال میں پایہ تکمیل تک پہنچ سکے لیکن ایران کے تیور ابھی سے بتا رہے ہیں کہ وہ نرخ کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں کرے گا۔
ملک کو عارضی بنیادوں سے نکال کر یومیہ بنیادوں پر چلایا جارہا ہے۔ سرکاری ملازمین کو کنٹریکٹ کے نام پر بھرتی کرکے ان سے ساری سہولیات چھین لی جاتی ہیں پھر انھی ملازمین کے کنٹرکیٹ ہر نئی مدت پر بڑھا دئیے جاتے ہیں۔ چناچہ نہ ہی مقابلے کی فضاء پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی پرانے ملازمین کو کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ پی ٹی اسی ایل اور پاکستان سٹیل جیسے کئی ادارے بڑی بے دردی سے نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کردئیے گئے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والی رقم یا تو قرضے اور ان کا سود دینے میں صرف ہورہی ہے یا پھر بلٹ پروف گاڑیاں اور سرکار کی زیب و زینت پر خرچ ہورہی ہے۔
عام آدمی سے لے کر حکومت تک کے پا س کماڈیٹیز یومیہ بنیادوں پر ہیں۔ آج اگر ہمارا معاشی بائیکاٹ کردیا جائے تو ہم کسی قابل نہیں رہیں گے۔ ہم ہر چیز باہر سے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت درآمد کررہے ہیں۔ سوئی، موم بتیاں، جوتے، کھلونے، موٹر سائیکل اور کاریں چین سے دھڑا دھڑ آرہی ہیں۔ بڑی چیزوں پر تو ڈیوٹی لگا کر بڑے سرمایہ کاروں کو تحفظ دے دیا گیا ہے۔ موٹر سائکل جو چین سے قریبًا 20000 میں آتا ہے یہاں چالیس ہزارمیں بکتا ہے۔ لیکن جوتے، موم بتیاں اور کھلونوں جیسی چیزوں نے مقامی چھوٹی صنعتوں کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ ملک کی بنی دس روپے والی موم بتی چین سے آنے والی اسی قیمت کی موم بتی کے مقابلے میں آدھےسے بھی کم ہے۔ مقامی طور پر سوفٹی اور گھریلوں جوتے بنانے والی صنعتیں بند ہوچکی ہیں یا آخری سانس لے رہی ہیں اور یہ لوگ اب چین سے جوتوں کے درآمد کنندہ بن گئے ہیں۔
ہر چند ماہ میں کسی نہ کسی چیز کا بحران پیدا کرکے اس کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ پہلے چینی، پھر آٹا اور گھی اور اب دالیں بھی دستیاب نہیں۔ حکومت راشن کارڈ جاری کرکے اور چند ہزار یوٹیلٹی سٹورز پر راشن مہیا کرکے اپنا فرض پورا سمجھ رہی ہے۔ بڑے شہروں میں تو رُل کر کسی نہ کسی سٹور سے کچھ کھانے کو مل ہی جاتا ہے لیکن بلوچستان جیسے علاقوں میں جہاں یہ سٹور بھی نہیں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے تیل کی قیمت منجمند ہے اور امید کی جارہی ہے اب یہ تحفہ عوام کو پیش کیا جائے گا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ تیل کی قیمت شاید 70 روپے لیٹر سے بھی بڑھ جائے۔
سماجی، اقتصادی اور معاشی ہرمیدان میں ملکی بنیادی طرح طرح کے گھن کھوکھلی کرچکے ہیں۔ عوام میں بے حسی اس حد تک جا پہنچی ہے کہ اب وہ صرف اپنی اور اپنی روزی روٹی کی سوچتے ہیں۔ عزیز رشتہ داروں اور دوستوں کی بیٹھکوں میں ملک کے ٹوٹنے کا بڑے نارمل انداز میں جائزہ لے کر اعلان کیا جاتا ہے کہ بس اب پاکستان گیا۔۔۔۔۔
یااللہ ہم کہاں جارہے ہیں؟
آپ تو تجرجہ کار ماہر معاشیات نکلے۔ کیا شاندار تجزیہ کیا ہے۔ حقیقت کھول کر رکہ دی ہے آپ نے۔
جواب دیںحذف کریںبہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ لیکن میں آپ کے استدلال کی اس بنیادی رائے سے متفق نہیں ہوں کہ پاکستان کی ترقی ہوائی تھی۔ پاکستان نے پچھلے عشرے میں جو ترقی کی ہے وہ کافی مضبوط ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا باوجود اس کے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، مہنگائی سے پریشان ہیں، توانائی کے شدید بحران کا شکار ہیں، سیاسی عدم استحکام سے خوفزدہ ہیں۔
جواب دیںحذف کریںنعمان جی اس ملک نے ہر اس شعبے میں ترقی کی ہے جہاں صارف کا پیسہ بلا مقصد خرچ ہوسکتا ہو۔ چاہے وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے یا موبائل فون یا پھر کریڈٹ کارڈ کلچر۔۔۔
جواب دیںحذف کریںانٹرنیٹ اگر عام ہوگیا ہے تو اس کا عام آدمی کو کیا فائدہ ہے۔ یہ کہ وہ سیکس سائٹس کو دیکھ لیتا ہے؟ یا چیٹ میں یا اورکٹ جیسی ویب سائٹس پر اپنا وقت برباد کرتا ہے؟
انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی تو عام کردی ہے لیکن روٹی چھین لی ہے۔ جو کچھ ان آٹھ سالوں میں ترقی کے نام پر ہوا ہے اس کی بجائے اگر انڈسٹری اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جاتی تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔۔۔
ذلالت کی انتہا یہ ہے کہ ملک کو زرعی ڈیکلئیر کرکے اس کے عوام کو بھوکوں مروایا جاتا ہے۔ ہر وہ چیز باہر برآمد کردی جاتی ہے جس میں فائدہ نظر آتا ہے اور اس کے بعد عوام پورا سال خوار ہوتی ہے۔ گندم برآمد کردی گئی اور اب مہنگے داموں درآمد کی جارہی ہے۔ ہر ٹن کے پیچھے دو سے تین سو ڈالر زیادہ بھرے جارہے ہیں۔ چاول پچھلے دو سال میں پندرہ روپے کلو سے پینتیس روپے کلو تک پہنچ گیا ہے یہ لو کوالٹی کی بات کررہا ہوں۔ اور اس کے تاجر اب بھی وزیر اعظم سے شکوہ کررہے ہیں کہ ہمیں برآمد کیوں نہیں کرنے دیتے۔۔شیخوپورہ اور اس کے نواح میں چند سال پہلے تک اچھے خاصے چاول کاشت کئے جاتے تھے۔ لیکن اب لوگوں نے پانی کی کمی کی وجہ سے اپنی ضرورت کے لیے بھی چاول کاشت کرنا بند کردئیے ہیں۔ یہی حال گنّے کا ہے۔ یہ ایسی فصل ہے جس کو پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے شاید گنا کاشت کرنا بھی محال ہوجائے۔۔۔یہ سب آخر کس چیز کا نتیجہ ہے؟ یہ ملک کو یومیہ بنیادوں پر چلانے کا نتیجہ ہے۔۔۔
ایک فوجی جرنیل ایک بندے کو پسند کرتا ہے اور پھر اسے وزیر اعظم بھی بنوا دیتا ہے۔ وہ بندہ آٹھ سال تک اس ملک کے خزانے کے برے بھلے استعمال پر قادر رہتا ہے اور لمبی لمبی خوش خبریاں چھوڑتا ہے اور آخر میں پتا چلتا ہے کہ ہوا سب کچھ ہے لیکن الٹ۔۔
کشکول توڑنے کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک عالمی ادارے کو چھوڑ کر اب دوسرے اداروں کے آگے ہاتھ پھیلائے جارہے ہیں۔ ٹریژری بلز اور اسلامک بانڈز کے نام پر عالمی مارکیٹ میں بانڈز فروخت کرکے مہنگے شرح سود پر قرضے حاصل کئے جارہے ہیں۔
ملک میں نظام تعلیم کا بیڑہ غرق کردیا گیا ہے۔ سرکاری سطح پر بنیادی تعلیم ایسے اساتذہ دیتے ہیں جو کنٹریکٹ پر ہیں۔ تعلیمی اداروں کے بڑے افسر آفیشل میٹنگز میںخود امدادی کتب کی مشہوری کرتے نظر آتے ہیں۔ اور ہائر ایجوکیشن کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے پھٹے چک دئیے ہیں۔ ایسی پالیسیاں بنائی جاتی اور دعوے کئے جاتے ہیں جیسے اب ہر یونیورسٹی ہاورڑ اور آکسفورڈ ہوگی۔ جب بیج ہی بیمار ہے تو درخت کیسے صحت مند پیدا ہوگا؟ بنیادی تعلیم کا بیڑہ غرق اور اعلٰی تعلیمی اداروں پر لاتعداد نوازشیں لیکن نتیجہ صفر۔۔
میٹرک تک تعلیم اور کتابیں مفت دینے کے جتنے پلان تھے اور اعلٰی تعلیم میں جتنے وظائف دئیے جارہے ہیں وہ سب بیرونی امداد ہیں۔ اگر آج پاکستان پھوں پھاں کرے تو پہلے یہ سول امداد بندی ہوگی۔ فوجی امداد نہیں۔۔۔ایمرجنسی لگی تھی تو سب کو پسوڑی پے گئی تھی کہ اب ہماری سکالرشپس تو گئیں۔۔یہ ہے ترقی کی حقیقت۔
ہر شعبے میں کشکول پکڑے پاکستان۔۔۔پرامید نظروں سے دیکھتا ہوا کہ "سخی" کچھ دے جائے۔
ترقی کے دعوے واقعتا کھوکھلے ہیں۔۔ جس ملک سے اسکی بنیادی خوراک یعنی گندم ایکسپورٹ کرنے کی اجازت مل جائے اور بعد میں عام آدمی ایک ایک بوری آٹے کے لیے دکھے کھاتا پھرے وہاں کیسی ترقی کونسی ترقی۔ آپ نے درست تجزیہ کیا ہے کراچی اسٹاک مارکیٹ ایک مارکیٹ سے زیادہ جوا خانہ معلوم ہوتی ہے جہاں چھوٹے سرمایہ کار کے پاس سوائے پیسے لٹانے کے اور کوئی کام نہیں۔
جواب دیںحذف کریںبہت ہی اچھا اور حسبِحال لکھا ہے۔ موبائل کی لعنت سے متلعق آپکا تجزیہ بالکل درست ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب پھٹے پرانے کپڑوںمیںملبوس لوگ نت نئے موبائل تھامے نظر آتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںابھی کل ہی میں اس بنک میںمنیجر کے پاس بیٹھا تھا جسمیںمیں پہلے ملازمت کرتا تھا۔ منیجر مختلف لوگوںکو فون کر کر کے اپنی گاڑیوںکی اقساط جمع کرانے کو کہہ رہا تھا اور مجھے اس پر اور ان لوگوں پر افسوس ہو رہا تھا۔
گئے دنوںکی بات ہے حکیم محمد سعید صاحبکو پڑھا تھا کہ قوم کو چائے پینا اور گھی کھانا کم کرنا چاہیے کہ زرِمبادلہ بچایا جا سکے۔ نہ جانے وہ آج پیسے کو یوںگاڑیوں، موبائل فون اور دیگر اشیائے صرف پر لٹتا دیکھ کر کیا سوچتے۔
اعلی تعلیم سے متعلق آپکا تجزیہ بہت خوب ہے۔ اس چکر میںوہ لوگ بھی اب بیرون ملک پی ایچ ڈی کر رہے ہیںجنکو ریسرچ پروپوزل لکھنا بھی نہیں آتا تھا اور خود اپنی آنکھوںسے دیکھ آیا ہوںکہ وہ اب بھی کورے کے کورے ہی ہیں۔ کاش یہ سارا پیسہ پرائمری تعلیم عام کرنے پر لگتا تو حالات بہت بہتر ہوتے۔
اسٹاک ایکسچینج تو جوا ہی ہے اور میںاس میںکسی بھی انوسٹمنٹکو حلال نہیںسمجھتا۔ ایسا کوئی بھی کاروبار جو آپکی محنت کی بجائے افواہوں پر چلے، کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔
نہ جانے نعمان بھائی کونسی ترقی کی بات کر رہے ہیں۔ اگر کوئی معاشی ترقی کے انڈیکیٹرز دے سکیںتو ہم سب ممنون ہوںگے، تھوڑی بہت اکنامکس تو ہم نے بھی پڑھی ہے۔
فیصل بھائی اعلٰٰی تعلیم ہونی چاہیے۔ لیکن بنیادی تعلیم کو نظر انداز کرنا بھی درست نہیں۔ بس یہ عرض ہے کہ جتنے فنڈز ایچ ای سی کو دئیے گئے ہیں اتنے ہی بنیادی سطح پر بھی لگائے جائیں۔
جواب دیںحذف کریں