منگل، 22 جنوری، 2008

اَگا دوڑ تے پچھا چوڑ

پنجابی میں ایک کہاوت ہے اگا دوڑ تے پچھا چوڑ۔ یعنی آگے دوڑتے جاؤ اور پچھلا ویسے کا ویسا ہی۔ ہماری حکومتوں کا بھی یہی حال ہے۔ مشرف حکومت نے تو ات ہی مچا ڈالی ہے۔ انھے وا آگے کی طرف دوڑ لگائی گئی ہے۔ پیچھے کیا ہورہا ہے یہ اب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

بجلی کے کنکشن 2007 تک سب دیہاتوں تک پہنچ جائیں گے سب کو بجلی دستیاب ہوگی۔ بندہ پوچھے کہ جن کے پاس پہلے یہ سہولت ہے وہ کتنے مستفید ہورہے ہیں؟ موبائل کمپنیوں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اداروں کو انھے وا لائنسنس جاری کئے گئے ہیں یہ خیال کئے بغیر کہ ان کی توانائی کی ضروریات کون پوری کرے گا۔ میرے محلے میں پہلے صرف گھروں کی بجلی جاتی تھی اب اس کے ساتھ ساتھ کیبل نیٹ کی تاریں بجلی سے چلتی ہیں، ٹی وی کیبل کو کرنٹ ملتا ہے، وائرلیس اور موبائل فون کے دو تین کھمبے لگ گئے ہیں انھیں بجلی چاہیے ہوتی ہے۔ اب بجلی کیا کرے؟ ڈیم تو وہی ہیں جو پچاس سال پہلے بن گئے اور اب آدھے رہ گئے ہیں لیکن باقی ہر چیز بڑھی ہے۔۔

گیس کو لے لیں تو اس کے کرتا دھرتا بھی ہر کام انھے وا کررہے ہیں۔ نئی بستیوں کو انھے وا گیس کی لائنیں مہیا کی جارہی ہیں۔ سی این جی سٹیشنوں کو لائسنس جاری کئے جارہے ہیں۔ صنعتوں کو گیس دینے کے معاہدے ہورہے ہیں۔ اور حال یہ ہے کہ صبح ناشتے کے وقت اور رات کے کھانے کے وقت اب گیس اتنی تھوڑی ہوجاتی ہے کہ روٹی پکانا عذاب ہوجاتا ہے۔ نتیجے میں اب گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوا کرے گی۔ سی این جی سیٹشنوں کی فرمایا گیا ہے کہ 6 گھنٹے کے لیے ہوگی ملوں کی گیس سردیوں میں بعض اوقات مستقل منقطع کردی جاتی ہے۔ ہمارے قریب نور فاطمہ ٹیکسٹائل آئے دن اس وجہ سے بند ہوتی ہے کہ گیس نہیں آرہی۔ اب نہیں تو اگلے سال یہ ہمارے گھروں تک بھی آجائے گی۔ جس طرح ہر دو گھنٹے بعد بجلی بند ہوجاتی ہے اسی طرح گیس بھی بند ہوجایا کرے گی۔

ترقی تو انھے وا ہوئی ہے۔ ہر اس شعبے میں جہاں توانائی استعمال ہوسکتی ہے۔ لیکن توانائی کی ترقی کیا ہمارے ماموں نے آکر کرنی ہے باہر سے۔ اس کا کون ذمہ دار ہے۔ ایک ڈیم جو دس سال بعد بنے گا جب توانائی کی کمی میگا واٹس سے گیگا واٹس میں چلی جائے گی شاید۔

ہم ساری گرمیاں دھوپ میں سڑ سڑ کر لُوس جاتے ہیں لیکن اس قوم کے نام نہاد والی وارثوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ اس کو ہی استعمال کرلیں۔ ہر تین ماہ بعد باں باں کرتے پھرتے ہیں کہ بجلی نہیں ہے۔ اب پانی نہیں ہے اور اب گرمی کی وجہ سے کھپت بڑھ گئی ہے۔ ارے یہ شمسی توانائی کیوں استعمال نہیں کرتے۔ کوئی انھیں مشورہ کیوں نہیں دیتا۔ جاپانی آج تیل سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ ان سے اللہ واسطے ہی ٹیکنالوجی مانگ لو۔ جس طرح موبائل ہر بندے کے ہاتھ میں دے دیا ہے ویسا کام ہی اس کے ساتھ کیوں نہیں کرتے۔ اگر ان کی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے تو شمسی توانائی کے اداروں کی کیوں نہیں۔ سڑکیں نکو نک ہوگئی ہیں لیز کی گاڑیوں سے۔ آخر یہ بینک جن کے بل پر ہمارے ٹیکنو کریٹ وزیر اعظم مع اپنے صدر باس کے آٹھ سال تک معیشت کو آسمان کی بلندیوں تک ترقی کرتا دکھاتے رہے ہیں اب ان ہی بینکوں سے شمسی توانائی کے سامان کے لیے قرضے کیوں جاری نہیں کئے جاسکتے۔۔

کیوں آخر کیوں؟

ہمیں انھے وا صارف کیوں بنایا جارہا ہے۔ آٹا باہر سے، تیل باہر سے، گیس باہر سے، دالین باہر سے، موبائل فون کمپنیاں باہر سے، ضرورت زندگی کی ہر شےء حتٰی کہ سوئی اور جوتی تک باہر سے ۔۔۔۔ بس اس وقت کا انتظار ہےجب یہ قوم ہی اٹھ کر باہر کو چل پڑے۔

چل بلھیا اوتھے چلئیے جتھے سارے انھے

جتھے نا کوئی ساڈی قدر جانے نہ کوئی سانوں منے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔