بسنت کا موسم آگیا ہے۔ عید کے گزرنے کے ساتھ ہی پہلا کام جو ہمارے بچوں کے ہاتھ لگا ہے وہ پتنگیں ہیں۔ جس طرف دیکھیں پتنگیں اڑتی نظر آرہی ہیں اور بچے ہاتھ میں چھاپے پکڑے انھیں لوٹنے کے لیے بھاگتے پھررہے ہیں۔
پتنگیں تو اڑ رہی ہیں لیکن ہمیں ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی دھجیاں اڑتی نظر آرہی ہیں جس میں پتنگ بازی پر پابندی لگائی گئی تھی۔
چونکہ پاکستان ہے اور یہاں کون کسی کو پوچھتا ہے اس لیے اس کو بھی کوئی نہیں پوچھ رہا۔
پتنگ والے خوش ہیں کہ پھر سے روزی روٹی چل پڑی۔ بچے خوش ہیں کہ ایک کھیل ہاتھ آگیا اور قانون نافذ کرنے والے خوش ہیں کہ کچھ ہاتھ آنے کی سبیل بنی۔
ابھی تک کچھ نہیں ہوا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اتنا فرشتہ تو یہاں کوئی بھی نہیں جو تَندی اور دھات سے بنی ڈور سے پتنگ نہ اڑائے بلکہ ان دونوں سے زیادہ خطرناک پلاسٹک سے بنی ڈور ہے جسے یہ لوگ کیمیکل کہتے ہیں۔ یہ ڈور کھینچنے پر گوشت میں اترتی چلی جاتی ہے بجائے کہ ٹوٹ جائے۔
اب اس ڈور کی وجہ سے جانے کتنے گھروں کے معصوم چراغ اٹھ جائیں گے، کتنی اولادیں یتیم ہوجائیں گی۔ پھر سپریم کورٹ اٹھے گی اورایک بار پھر اسے پتنگ بازی پر پابندی لگ جائے گی۔
سڑکوں سے چھوٹے بڑے بال بچے پکڑ کر پتنگ بازی کے الزام میں عدالتوں میں پچھلی بار کی طرح گھسیٹے جائیں گے اور بات ختم۔ لیکن ان گھروں کی روشنی کا کیا ہوگا جو بجھ جائے گی؟
اس روپے کا کیا ہوگا جو ہوا میں اڑ جائے گا؟
اور ان روپوں کا کیا ہوگا جو ان پتنگ بازوں کی وجہ سے واپڈا کو بجلی کے نقصان کی صورت میں پھونکنے پڑیں گے؟
لیکن سنتا کون ہے۔ ہر ایک اپنی مستی میں مست ہے۔جب پانی سر سے اونچا ہوگا تب دیکھی جائے گی۔
تو صاحب آپ بھی کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں جائیے جاکر پتنگ اڑائیے۔۔روشن خیال بنئیے اور خوش رہیے۔یہ سب تو چلتا ہی رہے گا۔
میں هوں شرفو شاھ ـ میرے بچے هوتے هیں امریکه میں ـ یعنی محفوظ هاتھوں میں ـ
جواب دیںحذف کریںمیری طرف سے سارا پاکستان مر جائے میرے ـ ـ ـ کو بهی پروانہیں هے ـ
میں نے دے دیا ہے ایٹم بم بهی محفوظ هاتھوں میں ـ
میں هوں ٹُن ـ
جوکرنا هے کر لو ـ میرے بچے هیں محفوظ ہاتھوں میں ـ پاکستان کے ایٹم بم کی طرح ـ
شرفو پہلوان پٹھا امریکه پہلوان عرف ڈالر تے ڈنڈے والی سرکار
بہت جلے ہوئے لگتے ہو مش سے دوست۔
جواب دیںحذف کریںيہ شرفو شاہ نے بھلی کہی ۔ بہت پريشان لگتے ہيں اپنے ملکی حالات سے ۔ بات سوچنے کی يہ ہے کہ جس ملک کا طاقتِ کُل صدر خود پتنگ بازی ميں حصہ ليتا ہو وہاں آپ اور کيا توقع رکھتے ہيں ؟ کيا خوب کہا تھا سيدّ عدنان کاکا خيل نے پچھلے سال يوتھ کنوينشن ميں صدر جنرل پرويز مشرف کے سامنے ۔
جواب دیںحذف کریںجس ملک کے عوام کا پيٹ خالی ہو وہ کيا سوچے گا کہ ميں بھوکا مر رہا ہوں اور ميرا صدر پتنگ بازی کر رہا ہے ۔
تين سال قبل ميں لاہور ميں تھا جب بسنت منائی گئی ۔ لاؤڈ سپيکروں پر گانے اور نعروں کی وجہ سے ميں ساری رات سو نہ سکا ۔ ديگر ميری حيرانی کی کوئی انتہاء نہ رہی جب پتہ چلا کہ ايک پتنگ کی قيمت 500 سے 1000 روپے تک ہے ۔ ميں نے پتنگ زندگی ميں صرف ايک دفعہ اُڑائی جب ميں 9 سال کا تھا ليکن ميں جب کالج ميں بھی پڑتا تھا تو سب سے بڑی پتنگ 5 روپے کی تھی ۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔یہ تو واقعی جلے ہوئے لگتے ہیں۔ خدا ان بسنتوں سے دُور ہی رکھے۔ نہ منائی اور نہ منانے کا شوق۔۔۔پتنگ بازی سے مجھے سخت نفرت ہے۔ پتہ نہیں لوگوں کو کیا مزہ ملتا ہے اسمیں۔اللہ ہدایت دے اُن لوگوں کو جو پتنگوں کو اپنی دنیا سمجھتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںجناب بس ایسے ہی لُٹ پڑی ہوئی ہے۔ بالکل یہی طوفان بدتمیزی ہوتا ہے بسنت والے دن۔ بسوں کے ہارن چھتوں پر رکھ کر چلائے جاتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںگانے تو عام سی بات ہے۔
اللہ معاف کرے ذلالت کی انتہا ہے۔
اسلام وعلیکم،
جواب دیںحذف کریںیہ مسلمانوں کی پستگی ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے مسلمانوں کی حالت زار پر تبصرے ہوتے ہیں۔
جو کچھ ہے سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت
شکوہ نہ زمانے سے نہ قسمت سے گلا ہے
دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت
سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے
کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی۔
جواب دیںحذف کریںاوئے بے وفا!
جواب دیںحذف کریںمیرے بلاگ کا لنک دیتے ہوئے تمہیں ۔۔۔۔ آتی تھی؟
سر جی اب دئیے دیتا ہوں۔
جواب دیںحذف کریںناراضکاہے کو ہوتے ہیں۔
اگلی بار آئیں تو اپنے بلاگ کا ربط پائیں گے یہاں۔
اب خوش
وسلام