بدھ، 6 فروری، 2008

ایک بھاگا ہوا بچہ

پانچویں جماعت پاس کی تو والدین نے بڑے دلار سے مدرسے میں داخل کروا دیا کہ بچہ قرآن حفظ کرلے تو سات پشتیں بخشی جائیں گی۔ بچہ بھی بہت خوش تھا کہ قرآن حفظ کرنا ہے۔ بڑے اہتمام سے موٹی مشین سے ٹنڈ کروائی اور خوشی خوشی مدرسے کو گیا۔ قاری جس کے بارے میں مشہور تھا کہ بہت مارتا ہے نے اپنے مخصوص انداز میں کچھ باتیں کرنے کے بعد داخل کرلیا۔ وقت دھیرے دھیرے گذرنے لگا۔

کوئی اڑھائی ماہ میں نورانی قاعدہ تجوید کے ساتھ پڑھ لیا۔ قاعدے کی گردان ہوئی۔ ایک نگران نے سنا اور اسے پاس کرکے اگلے درجے میں بھیج دیا گیا۔ اس کو سو روپے لانے کو کہا گیا جن کے عوض اسے آخر پانچ سپاروں کا سیٹ دے دیا گیا جو اکٹھے جلد کئے ہوئے تھے۔ آخری سپارہ حفظ کیا گیا۔ اس کی ترتیب ذرا مختلف تھی تاکہ نیا بچہ آسانی سے حفظ کرسکے۔ چناچہ آسان سے مشکل کی طرف والی اس ترتیب کو قرآن کی ترتیب کے مطابق کیا گیا۔۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ کوئی ایک سات آٹھ ماہ میں دو سپارے ختم ہوچکے تھے جب اسے پہلا دورہ پڑا۔ میں نے پڑھنے نہیں جانا۔ ایک دن گھر واپسی پر وہ اڑ گیا۔ مدرسے کی ٹائمنگ صبح فجر سے رات عشاء تک تھی۔ آٹھ بجے ناشتے کی چھٹی آدھ گھنٹا۔ دوپہر ساڑھے بارہ سے ظہر اور شام عصر سے مغرب تک کی رخصت ملا کرتی تھی۔ لیکن بچے کو لگتا تھا جیسے اسے قید کردیا گیا ہے۔ سارا سارا دن دونواز بیٹھ کر قرآن کو رٹنا اوررات کو آکر سوجانا۔۔۔اس اڑی کا قاری کو پتا چلا تو اس نے پہلے کرسی لگوایا۔ پھر ٹانگیں اوپر کروا کر تشریف کی مزاج پرسی کی۔ بچے کو فورًا یاد آگیا کہ یہ سب شیطان کی کارستانی تھی ورنہ وہ تو اب بھی پڑھنے کو تیار ہے۔۔

بچہ سیدھا ہوگیا اور پڑھائی پھر سے چلنے لگی۔ کچھ مزید عرصہ گزر گیا۔ ایک بار پھر وہی بخار چڑھا تو قاری نے جمعرات اور جمعے کی اکلوتی ہفتہ وار چھٹی بند کردی۔ دو ہفتے چھٹی بند رہی تو بچہ پھر راہ راست پر آگیا۔ اس دوران قاری نے اپنا مدرسہ بنانے کے لیے زمین خرید لی اور پہلا مدرسہ جہاں وہ تنخواہ دار تھا چھوڑ دیا۔ اکثر طلباء اس کے ساتھ نئے مدرسے چلے گئے کچھ پرانے مدرسے میں رہ گئے۔ کچھ عرصہ پھر سکون سے گزرا اور پھر بچے کو دورہ پڑا۔ اب کے یہ بہت شدید تھا جمعے کے دن بچہ ریل پر بیٹھ کر اپنی نانی کے پاس پہنچ گیا۔ آخر گھر والے اسے سمجھا بجھا کر واپس لے آئے لیکن سکون عارضی ثابت ہوا۔ نیا مدرسہ عارضی سی عمارت تھی۔ چناچہ بچہ پھر سے دیوار پھلانگ کر بھاگ گیا۔ بھاگ کر سیدھا اسٹیشن پہنچ گیا لیکن گھر والوں کو پتا چل گیا اور اسٹیشن سے اسے پکڑ لیا گیا۔ گھر تک اس کی ٹھکائی ہوتی رہی۔ آخر گھر والوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور اسے مدرسے سے ہٹا لیا گیا۔ بچے کی رٹ تھی کہ اور جگہ داخل کروا دیں یہاں نہیں پڑھوں گا۔۔۔آخر اسے ایک اور شہر میں اقامتی درسگاہ میں داخل کروادیا گیا۔ لیکن دو گھنٹے بعد ہی وہاں سے بھاگ کر پھر گھر آگیا۔ اب اس کی رٹ تھی کہ میں نے قرآن حفظ ہی نہیں کرنا۔ گھر والوں نے بہتیرا سمجھایا لیکن اس کے بھیجے میں بات نہ آسکی۔۔چناچہ اسے چھٹی میں داخل کروا دیا گیا۔ ذہین تھا آدھا سال ضائع ہونے کے باوجود دوسرے بچوں سے آگے نکل گیا۔۔۔

وہ بچہ آج بی کام ہے، لسانیات میں بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ اس کی محبوبائیں ہیں۔۔۔ وہ بچہ یعنی منکہ مسمی شاکر عزیز آپ کے سامنے اپنی زندگی کا ایک تلخ پہلو کھول رہا ہے۔ شاید کتھارسس کے لیے یا پھر اپنے آپ کو یاد کروانے کے لیے کہ اس کی اوقات کیا ہے۔۔ زندگی کا وہ ڈیڑھ سال میری شخصیت سازی میں بہت حصہ رکھتا ہے۔ اس وقت کا احساس اب تک میرے ذہن سے نہیں مٹتا کہ خادم القرآن کہلوانے والے اتنے سخت دل کیوں ہوتے ہیں۔ عجیب عجیب سزائیں کیوں دی جاتی ہیں۔ شاکر شاید آج حافظ شاکر ہوتا اگر وہ قاری اتنا مارنے والا نہ ہوتا، یا وہ شیڈیول اتنا ٹف نا ہوتا جو پڑھائی کی بجائے قید لگتا تھا۔۔یا شاید اس کی نیت ہی خراب تھی۔۔۔لیکن وہ ڈیڑھ سال اگر ضائع نہ ہوتا میں کہیں اور ہوتا۔۔۔۔وہ ڈیڑھ سال بس ایسے ہی ماضی کا وہ ورق بن گیا جسے الٹتے ہوئے بہت سی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔۔۔اور احساس ہوتا ہے کہ میں کتنی بڑی نعمت سے محروم رہ گیا۔۔۔قرآن جسے میرے سینے میں نقش ہونا تھا نہ ہوسکا۔۔۔جو چند سپارے یاد تھے وہ بھی آہستہ آہستہ محو یادداشت ہوگئے۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قرآن یاد کرنے کو تم ایسے پاؤ گے جیسے اونٹ ہے جس کے گلے میں رسی ڈالی گئی ہو اور وہ اپنی گردن چھڑانے کی کوشش کرے۔۔ قرآن یاد کرنا اور اس کو یاد رکھنا بہت مشکل کام ہے اور میرے جیسے کے نصیب میں تھا ہی نہیں شاید۔۔آج جب مجھے یاد آتا ہے کہ میں نے ایک نہیں کئی خطائیں کی تھیں۔۔۔اللہ کی کتاب کو یاد نہ کرسکا جو یاد تھی اسے بھلا ڈالا تو میری زبان پر استغر اللہ الذی لا الہ الا ہوا الحی القیوم و اتوب الیہ کا ورد جاری ہوجاتا ہے۔ میرا مالک مجھے معاف کرے میں بہت گناہگار ہوں۔۔

یہاں لکھنا ٹھیک ہے یا نہیں۔۔۔میں نہیں جانتا۔۔۔ لیکن میں نے لکھ ڈالا، اس امید کے ساتھ کہ آپ اس سے سبق حاصل کریں گے اور اپنی دعاؤں میں مجھے بھی یاد رکھیں گے۔

وسلام

17 تبصرے:

  1. آپ نے میری دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ میری درد بھری کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔۔۔۔ چار/ پانچ سال تک مدرسے کی تعلیم۔۔۔ اور اس کے بعد چھٹی جماعت سے اسکول کی پڑھائی کا آغاز۔
    بس۔۔۔ مجھ میں کبھی مدرسے سے بھاگنے کی ہمت نہیں ہوئی کیونکہ میری عمر کم تھی۔۔۔۔۔۔ اب آپ نے لکھا ہے تو شاید میں بھی اس پر کچھ لکھ سکوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. شاید آپ کو یاد ہو کہ میرا بھائی عازب بھی ماشاءاللہ حافظ‌قرآن ہے۔ یہ ایک بہت ذمہ داری کا اور بہت مشکل کام ہے جو اکثر ماں‌ باپ بچوں‌ کے سر منڈھ دیتے ہیں۔ انہیں‌ اس بات کا اندازہ نہیں‌ ہوتا کہ وہ خود یا ان کا بچہ مستقبل میں‌ اس ذمہ داری کو اور تعلیم کو صحیح طرح‌ استعمال کرسکے گا یا نہیں۔ بس مدرسے سے نکلنے کی دیر تھی پھر عازب نے بال بڑھائے، گٹار تھاما، لیکن وہ پھر بھی کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح‌ وہ توازن بنائے رکھے۔ لیکن اس کی جینز، ٹی شرٹ اور موسیقی سے اس کی رغبت اس کی شخصیت کا اصل پہلو ہیں‌ اس میں‌ حافظ قرآن ہونا ایک ایسی ذمہ داری ہے جو اگر اسے موقع دیا جاتا تو وہ کبھی قبول نہیں‌ کرتا۔ یہ اس کے لئے ایک بہت مشکل کام ہے۔ میں‌ کوشش کرونگا کہ عازب اس بارے میں‌ کچھ لکھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ایک تلخ حقیقت جس کا ہم ‌بھی شکار ہوتے رہتے ہیںں وہ ہے مذہب کی تمام شرائط پوری کرنا۔ یعنی پانچ وقت کی نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، ذکوۃ دینا۔ یہ آسان کام نہیں‌ہے اور اس کیلیے دل کو مضبوط کرنا پڑتا ہے۔ موسیقی، تفریح، انٹرنیٹ وغیرہ دل لگی کے سامان ہیں‌اور ان میں‌لذت بھی ہے۔
    اسی لیے اقبال نے کہا ہے
    فرشتے سے بہتر ہے انسان ہونا
    مگر اس میں‌ پڑتی ہے محنت زیادہ

    جواب دیںحذف کریں
  4. شاکر مجھے سب سے زیادہ جس چیز کی خوشی ہے کہ آپ اسلام کے خلاف نہیں ہو گٕے۔ ورنہ گھر والوں اور مولوی کی مار سے بچہ اسلام کے خلاف ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ عقل سے پیدل ہوتے ہیں۔
    ویسے یہ گھر والوں کی لا علمی ہوتی ہے۔ ہمارے ایک استاد کے بیٹے نے جب کہا کہ اس نے حفظ کرنا ہے تو انہوں‌ نے کتنا عرصہ پوچھ پوچھ کر ایسا مدرسہ ڈھونڈا جہاں مارا نہیں جاتا تھا۔
    میرے دو دوست حافظ تھے اور ان کے کرتوت بس اللہ معاف کرے۔ کچھ لوگ طوطے کی طرح ہوتے ہیں ان کو قران رٹا تو دیا جاتا ہے لیکن ان کو علم نہیں‌ ہوتا کہ کیا ہے۔
    یہ حدیث درست ہے؟ میں نے تو پڑھا ہے کہ یہ یاد کرنا سب سے زیادہ ؔسان ہے۔ اگر قاری صاحب نے سنائی تھی تو اس کو تبدیل کر لو

    جواب دیںحذف کریں
  5. اور ہم غریب جو کہ سرکاری سکولوں میں انگریریزی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دھکیل دئے گئے تھے۔،تو ہمارا حال بھی کچھ اس سے کم نہیں ہے۔ مجھ غریب کو اور میرے جیسے ناجانے کتنے غریبوں کو صرف اس وجہ سے سکول کے ٹیچرز کی طرف سے سزائیں ملتی تھی کہ ہم لوگ ٹیوشن فیس کے متحمل نہییں ہو سکتے تھے۔
    ہر رات کو اگلے دن سکول جانے کے خوف سے دھلتے تھے۔صبح ناشتہ کرنے کے بعد متلی ہوکر قہہ ہوجاتی تھی۔۔
    اب آپ لوگ بتائیں کہ ایسا کیوں ہے۔ ؟
    یہاں آپ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ استاتذہ کی فیس کم ہے ۔
    وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہی بات تو مدرسہ کے قاری صاحب کے بارے میں بہت صادق اترتی ہے۔
    میرے یارو!
    اسلام سلامتی ہے۔ ہم سب کے دل کی گہرائیوں تک میں اپنے دین کی محبت ،اپنے اللہ جی ،اپنے قرآن ،اپنے پیارے کریم نبی جی کی محبت بسی ہوئی ہے۔ (اگرچہ کوئلہ کی راکھ کی وجہ سے شعلہ نظر نہیں آتا)۔ اصل میں ہم نے یہاں جو اپنے جذبات لکھے ہیں وہ بھی بس اسی لاشعوری محبت میں لکھے ہیں کہ کاش ہمارا نظام درست طریقے پر چل پڑے۔
    موجودہ نظام کا اسلام پر کوئی دوش نہیں ہے۔ کیا آپ کو اس غلام (حضرت انس رضی اللہ عنہ)کا کہا بھول گیا ہے کہ پیارے نبی جی نے دس سال میں بھی کبھی مجھے سخت الفاظ نہیں کہیے۔
    اور یاد نہیں اپنے بزرگوں کے علم حاصل کرنے کے واقعات کہ کتنا لامبے لامبے سفر کرتے تھے۔ ایک ایک بات کی جستجو میں ۔۔
    پیارے صاحبو!
    جنہوں محنت کی انہوں نے پالیا۔ اور جو غلط نظام کے ہتھے چڑھ گئے انہیں‌ یہ خلش ساری زندگی چین نہیں نہیں لینے دے گی۔۔
    کاش کوئی تربیت کرنے والے ہوں کو بتانے والے ہوں کہ کہ نرم کلامی ،دل سے کسی کی محبت میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔"کہ پھر تپتی دھوپ،گرم ریت پر ننگے جسم سے گھسٹنا بھی "احد ،احد" نہیں چھڑاسکتا۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. حافظ کی یاداشت اچھی ہوتی ہے!! یہ کمال قرآن کو حفط کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے!! یہ رٹے کی بار بار کی مشق کی وجہ ایسا ہوتا ہے!!
    اس میں ندامت والی کوئی بات نہیں کہ آپ حافظ نہیں بنے!!!
    قرآن کاری بنا و حافظ بنا ایک سعادت ہے مگر دین کو سمجھ لینا بھی کم قابل فخر بات نہیں!! اگر ہم دین کو سمجھ لیں تو کیا بات ہے!!

    جواب دیںحذف کریں
  7. السلام علیکم
    حفظِ قرآن یقیناً بہت بڑی سعادت ہے اور اس کا مقصد صرف الفاظ کو یادداشت میں محفوظ کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ جس کے لئے دلچسپی اور رجحان بنیادی چیزیں ہیں۔۔ہمارے یہاں والدین صرف بچے کا رجحان جانے بغیر اس کو اس طرف ڈال دیتے ہیں۔۔نتیجتاً وہی ہوتا ہے جو 'بدتمیز' اور 'نعمان' نے لکھا۔۔۔ اور اگر بچے کا رجحان ہو بھی تو اساتذہ کی غیرضروری سخت گیری اور تشدد اس کو بددل کر دیتے ہیں جیسا کہ آپ کے ساتھ ہوا۔ آپ قرآن حفظ نہیں کر سکے۔۔یہ قسمت کی بات ہے لیکن اگر انسان اپنی زندگی کو بنیادی اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھال لے اور مقدور بھر کوشش کرے سیدھی راہ پر چلنے کی تو اللہ کے نزدیک وہ لوگ زیادہ محبوب ہیں بہ نسبت ان کے جو قرآن کو صرف 'الفاظ' کی حد تک جانتے ہیں۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. ایک بچے کو اسطرح‌کی سخت سزائیں لوگ کیسے دے لیتے ہیں؟‌ قران خوانی اور قران کو اوڑھنا بچھونا بنائے لوگ کیوں کر اتنے سنگ دل ہوسکتے ہیں؟‌ میری سمجھ میں‌تو یہ باتیں‌ نہیں‌ آتیں۔۔ لیکن آپ کی داستان سن کرکچھ نہ کچھ اپنی زندگی بھی یاد آجاتی ہے۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. سینہ کے اندرھر عربی اتار لینے والا حافظ ہو جاتا ہے؟؟
    جی نہیں۔

    حافظ وہ ہوتا ہے جو نیزے پر بھی قرآن کی تلاوت کرے۔ نا کہ وہ جو صرف کچھ سال لگا کر وہ عربی پڑھے جس کا اس کو مطلب بھی نہیں معلوم۔ اور پھر عوام الناس کو چھری پھیرنی شروع کردے۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. مدارس کی تعلیم کا سب سے افسوسناک پہلو یہی ہے، البتہ میرا تجربہ بہت اچھا رہا ہے۔ ایک اور مسئلہ شاید یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے والدین اپنی ان خواہشات کو بچے کے ذریعے پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں جن کو وہ اپنی زندگی میں مکمل نہ کر سکے۔ دوسری جانب اسکول میں پڑھانے کے لیے تو بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ بہتر سے بہتر اسکول میں داخلہ ملے جبکہ دینی تعلیم کے سلسلے میں محلے کی مسجد پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ ویسے مدارس میں جو کچھ ہوتا ہے میں اس سے انکاری نہیں لیکن کم از کم میرا تجربہ اس حوالے سے ویسا نہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. [...] نے اپنے بلاگ پر ایک بھاگے ہوئے بچے کی سرگزشت بیان کی ہے۔ اس بچے کی کہانی یہ تھی کہ گھر والے اسے حافظ [...]

    جواب دیںحذف کریں
  12. [...] شاکرعزیز نے مدرسوں کے بارے میں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں اظہار خیال کیا اور اس کے بعد نعمان نے بھی اپنے بھائی کے تجربات اور ذاتی مشاہدے کی بنا پر مدرسوں کی صورتحال پر بات آگے بڑھائی۔ [...]

    جواب دیںحذف کریں
  13. کچھ ایسا ہی میرے ساتھ ہوا تھا جب والدہ ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں اور میں‌کچھ اور بننا چاہتا تھا اور آخر کار دونوں‌ہی نہ بن سکا۔ لیکن خیر اللہ تعالی کے ہر کام میں‌خیر ہوتی ہے، بس یہ دعا کرتے رہا کریں‌کہ اللہ میاں‌آپکو اس کام کو پورا کرنے کی توفیق دے جسکے لیے اس نے آپکو پیدا کیا ہے، باقی ساری باتیں‌چھوٹی باتیں ہیں۔ بقول میرے ایک بہت ہی قابلِ احٹرام بزرگ اور دوست کے، وہ کام بھی لیگا جس نے پیدا کیا ہے، ہم پریشان کیوں‌ہوں۔ بس ایمان پختہ ہونا چاہیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  14. اصل مسئلہ ہمارے معاشرہ کا ہے ۔ دینی مدرسوں کے غیرتربیت اساتذہ کا ذکر ہوتا رہتا ہے لیکن دنیاوی علوم کے مدرسوں ۔ جنہیں ہم سکول کہتے ہیں ۔ جن میں سرکاری مدرسے بھی شامل ہیں ان میں کیا ہوتا ہے اس پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جیسا کہ اُوپر طلحہ صاحب نے بھی لکھا ہے ۔ میں نے ان سکولوں میں طلباء کو بُری طرح سے پٹتے دیکھا ہے ۔ تھپڑ ۔ ٹھوکریں اور پھر ڈنڈے ۔ گھنٹوں مرغا بنائے رکھنا اور وقفے وقفے سے دو چار جڑتے رہنا ۔ دینی مدرسوں میں اس سے زیادہ کیا ہوتا ہو گا ۔

    جواب دیںحذف کریں
  15. Dear Shakir AoA. First of all, I apologize for not using Urdu script. Your posts are very interesting and specifically the one about stylistics and hadith.I have some clues about some other people working in the same field.Is it possible that you let me know your e-mail address and I would be happy to discuss with you about the issue. Truly, Abid Masood

    جواب دیںحذف کریں
  16. تبصرے کا شکریہ بھائی جی۔۔۔
    جس پوسٹ کی آپ بات کررہے ہیں وہ سمجھ لیں بس ایک آئیڈیا تھا میرے ذہن میں۔۔۔ سٹائلسٹکس کے سلسلے میں ابھی میں طفل مکتب ہوں۔۔۔اس پر شاید کبھی خود نہ کرسکوں کام اس کے لیے عربی کی واقفیت بہت ضروری ہے اور ساتھ علم حدیث سے بھی واقفیت ہونی چاہیے۔ میں نے تو یونہی بات سے بات نکال دی تھی۔۔
    خیر میرا ای میل ایڈریس true.friend2004 جی میل پر ہے۔
    وسلام

    جواب دیںحذف کریں
  17. [...] شاکر کے بلاگ پر ایک بھاگا ہوا بچہ [...]

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔