مشرف کی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف ہو لیکن ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خودمختاری دے کر اور ڈاکٹر عطاء الرحمن کو اس کا چئیر مین بنا کر اس نے اچھا کام کیا تھا۔ آٹھ سال تک اس ادارے کے بجٹ میں کٹوتی نہیں ہوئی، ہونے لگی تو مشرف نے دوسرے ذرائع سے پوری کروائی۔ لیکن اب ڈاکٹر صاحب مستعفی ہوگئے ہیں اور کوئی لغاری صاحب اس کے چئرمین بن گئے ہیں۔ اب اس ادارے کا مستقبل بھی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن جیسا ہی ہوگا۔ بجٹ میں کٹوتیاں پہلے ہی جاری ہیں جو مزید بھی جاری رہیں گی۔
اس پر کئی اعتراضات بھی تھے کہ اعلی تعلیم پر توجہ دے کر بنیادی تعلیم کو نظر انداز کردیا گیا۔ فنڈز گویا لٹائے گئے۔ لیکن یہ اپنی طرز کی ایک منفرد کوشش تھی جس میں لوگوں کو ڈاکٹریٹ اور ایم فل کے لیے زیادہ سے زیادہ متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس سکیم کے تحت ہزاروں لوگ زیر تعلیم ہیں۔
اب دیکھیے اعلی تعلیم کا مستقبل کیا ہوتا ہے۔
پڑھے لکھے آدمیوں کو سیاسی وابستگیوںکی نظر کردیا جاتا ہے اور ہر حکومت آکر پھر سے شروع کرنے کی پالیسی اپنا لیتی ہے ۔۔ اس وجہ سے آگے جانے کے بجائے پیچھے ہی جاتے جارہے ہیں۔۔ اللہ ہی حافظ ہے اب ایچ ای سی کا۔
جواب دیںحذف کریںاعلی تعلیم کا مستقبل ویسے ہی کوئی زیادہ روشن نہیں تھا۔ میرے دو کلاس فیلوز ڈاکٹریٹ کے بعد واپس آئے ہیں ایک اپریل میں دوسرا جون میں۔ لیکن نوکری یا نوکری کے چانسز؟ نشتا۔۔۔
جواب دیںحذف کریںاور تو لوگ ایسی ایسی فیلڈس میں ڈگری لے کر آئے ہیں کہ یہاں انکا کوئی مستقبل کیا حال ہی نہیں ہے اور ابھی تو پہلی کھیپ کی پوری طرح واپسی نہیں ہوئی باقی سب کا سوچنا تو بہت دور کی بات ہے؟ کبھی سوچا کہ ان سب کو اعلی تعلیم کے بعد کھپائیںگے کہاں؟ نا آپکے پاس تحقیق کے مراکز ہیں نا ہی اتنی یونیورسٹیاں۔ عطاء الرحمن نے پہلے فارن سکالرشپ ہولڈرز کے سیلکٹڈ کینڈیڈیٹس کے بیج سے خطاب میں اپنے منصوبوں پر روشنی ڈالی تھی تو میں نے جب بھی یہی سوال کیا تھا اور پوچھا تھاکیا آپ ان کو بلا کر تحقیق کی بجائے ایڈمنسٹریشن میں لگائیں گے؟ تو یہ انکی اصل جگہ نہیں ہے اور"آپ بچے ہیں آپ ابھی ہماری بات کو سمجھ نہیں سکتے، آپ تعلیم پہ توجہ دیں بس"
ماڑا شکر ہے ہم نے مزید تعلیم پہ توجہ نہیں دی۔ اور سچی بات کہوں اب تو تعلیم و تحقیق کا یہ حال کرنے والی ہے یہ حکومت کہ یہ سارے ڈاکٹر ہمیں کتے بلیوں کی طرح پھرتے نظر آئیں گے۔
انتہائی افسوس کا مقام ہے۔ ”جیالے کھپاؤ“ تحریک جانے اور کیا کیا گل کھلائے گی۔
جواب دیںحذف کریںڈاکٹر عطاءالرحٰمن کو سال دو سال سے کنارے کرنے کی کوشش ہورہی تھی۔ کوئی بندہ کام کرے اور وہ بھی اعلٰی تعلیم کے لیے؟
جواب دیںحذف کریںاندھوں کے شہر میں آئینے بانٹنے والی بات ہے۔
ایک بات اچھی ہے کہ دیارِ غیر میں کام کرتے ہمارے نابغے اب واپسی کا سوچنا چھوڑ کر دلجمعی سے پردیس ہی میں لگے رہیں گے اور یہاں دولہ شاہ کے چیلے کھُل کھیلیں گے۔
میںخود ایچ ای سی سے وظٰفیفہ لے کر آسٹریلیا آیا ہوںلیکن میں ڈفر کی بات سے اتفاق کرونگا۔
جواب دیںحذف کریںہمیںاتنی پیسے ہائر کی جگہ پرائمری، سیکنڈری اور ٹیکنکل تعلیم میںلگانے چاہیے تھے۔اربوںروپے ایچ ای سی کو دیے گئے لیکن بہتر تھا کہ پارلیمنٹاسکو منظور کرتی۔ اور ظاہر ہے پھر اس قسم کے سوالات بھی زیر بحث آتے۔ اوروں کی بات نہیںکرونگا لیکن میںتو اسلئے آ گیا کہ پاکستان میںنوکری نہیںملی۔ شائد کچھ لوگ واقعی تحقیق کی لگن لے کر آئے ہوں۔
جہاں تک عطاالرحمن صاحب کی بات ہے تو سنا ہے کہ کامسیٹس کے مالک ہیں اور رینکنک میںاسکو خاصا اونچا رکھا گیا تھا۔ یہ بھی سنا ہے کہ جو ادارہ ان وظائف کیلئے امتحان لیتا اور خاصے پیسے کماتا ہے، وہ بھی موصوف کا ہے۔ مجھے پورا پتہ نہیںلیکن اگر کوئی صاحب حیقت بتا سکیںتو بہتر ہو گا۔
جاوید لغاری صاحب لگتے تو جیالے ہیں لیکن تعلیمی ریکارڈ انکا بھی برا نہیں۔ وکیپیڈیا پر انکے متعلق دیکھا جا سکتا ہے، یہ اور بات کہ یہ شائد انھوںنے خود ہی لکھا ہو لیکن اعزازات کی فہرست بہر حال طویل ہے۔
گزشتہ شب میں نے دنیا کی بہترین 500 جامعات کو تلاش کیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پاکستان کا نام اس فہرست میں کہیں بھی نہیں خیر دل کو حوصلہ دیا اور ایشاء کی فہرست تلاش کی اور غش کھا کر ہنسی کے دورے پڑ گئے کیونکہ وہاں بھی پاکستان کہیں موجود نہیں تھا۔ عطا الرحمان ہو یا لغاری میرے لیے سب برابر ہیں میں نے عطا الرحمان کے دور میں سکرٹیری تعیلم کو بکواس کرتے اور اساتذہ و طلبہ کے خلاف بازاری زبان استعمال کرتے سنا ہے
جواب دیںحذف کریں