پیر، 12 جنوری، 2009

ہائے گرامر

میرے احباب کا گلہ ہے کہ میں کچھ لکھتا کیوں نہیں۔  میں کیا لکھوں۔۔۔

پچھلے پندرہ دن سے میرا انٹرنیٹ بند تھا۔ بجلی بند تھی۔ موبائل فون ایک ہفتہ بند رہا۔۔ آہ آپ کو کیا بتاؤں لگتا تھا کسی ظالم نے بندش کروا دی ہے۔ خیر اس بندشوں کے موسم میں ہم کیسے جیے۔ تو سنیے


لمبی داستان ہے لیکن مختصر کیے دیتے ہیں۔ قصہ شروع ہوتا ہے گرامر سے۔ گرامر۔۔۔ ہمارے ایم ایس سی اپلائیڈ لنگوئسٹکس کے پہلے سمسٹر میں ایک یہ کورس بھی ہے۔ گرامر اور وہ بھی انگریزی کی۔ وہ زبان جو میرے لیے آج بھی اجنبی ہے۔ تو صاحبو ان تمام دنوں میں ہم یہ مصرع گنگناتے رہے۔


ہم ہیں اور گرامر کے غم ہیں دوستو


مرحوم شاعر یا غیر مرحوم شاعر سے معذرت کے ساتھ۔ ہم نے مصرعے میں گرامر ٹانک کر اسے حسب حال کرلیا۔ پندرہ دن کہنے کو تو چھٹیوں کے تھے۔ لیکن ہمیں چھٹیوں کا کام دے کر بھیجا گیا تھا۔ کام اتنا سا تھا کہ 234 عدد مشقیں کرنا تھیں۔ جی گرامر کی ہی۔ بڑی مشہور اور پرانی انگریزی کی گرامر ہے ہائی سکول انگلش گرامر اس کی اڑھائی سو مشقیں۔ آہ۔۔۔ نام تو اس کمبخت کا ہائی سکول ہے لیکن اس نے یونیورسٹی کے طلباء کو سکول یاد کروا دیا۔


ہم و ہمارے ہم جماعت اب بھی اس صدمے کے زیر اثر ہیں۔ رات کو خوابوں میں ایک عرصے سے گرامر آتی ہے۔ گرامر نہ آئے تو انگریزی کے فقرے دھمال ڈالتے ہیں۔ آ ہمارا تجزیہ کر۔ تجزیہ؟ نہیں سمجھے۔۔ میں سمجھاتا ہوں۔ تجزیہ یعنی اینالسس بطور لسانیات کے طالب علم ہونے کے ہمیں آنا چاہیے۔ چونکہ زبان فرنگ زبان تعلیم بھی ہے اس لیے اسی کی گرامر سکھائی جاتی ہے۔ اور اسی کے فقروں کا تجزیہ بھی سکھایا جاتا ہے مقصد اتنا ہے کہ ہم آگے اسے اچھی طرح پڑھانے کے قابل ہوجائیں۔ ان اڑھائی سو مشقوں کا مقصد بھی ہماری مومیائی نکالنا اور ہمیں انگریزی گرامر کی مبادیات سے آگاہ کرنا تھا تاکہ ہم تجزیہ بہتر انداز میں کرسکیں۔ تجزیہ جو ہمارے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ فقرہ لکھا ہے۔


چاچے پھجے نے مامے تاج دین کو کیوں مارا۔


ماسی کرشیداں کے وڈے منڈے کے چھوٹے صاحب زادے کو بخار کس وجہ سے چڑھا۔


یہ لوکل ورژن ہے جی انگریزی کے فقرے بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ ایک فقرہ کسی مرے ہوئے شاعر کے دیوان سے دوسرا کسی ڈرامے سے اور تیسرا خود سے بنایا ہوا۔ ہر فقرہ جلیبی کی طرح سیدھا۔ پہلے کلاز clause نکالو پھر اس کے اندر فاعل، فعل ، مفعول بتاؤ۔ پھرمزید آگے جاکر ان کے اندر موجود الفاظ کا زمرہ بتاؤ۔ صفت ہے، نام ہے، فعل ہے ۔۔۔۔آہ یہ گرامر ہے کہ جیل ہے۔۔ بس صاحبو کیا بتائیں ہمارے تو گوڈوں میں گرامر ایسی بیٹھی کہ ساری چھٹیاں اسی میں گزر گئیں۔ اور ابھی ڈیڑھ ماہ باقی ہے۔ تین مارچ کو پرچے ہیں اور تب تک ہم نے گرامر کی مزید تین اسائنمنٹ کرنی ہیں۔ کچھ اسی طرح  کی جیسی ان چھٹیوں میں کی۔ مجھے تو شک ہے کہ اس سمسٹر کے بعد ہم انسان بھی رہیں گے یا چیر پھاڑ سپیشلسٹ بن جائیں گے۔ اس گرامر کے صدقے اچھے بھلے شعر کی معنی آفرینی اور ندرت خیال کی بجائے ہمیں اس میں فاعل فعل مفعول نظر آتے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر کو بندہ نہیں پھیپھڑوں، جگر اور دل گردے کا مجموعہ انسان کی شکل میں نظر آتا ہے۔


اتنی بک بک بہت ہے امید ہے میرے احباب کا گلہ دور ہوگیا ہوگا۔ اگر بور ہوگئے ہیں تو معذرت نہیں کروں گا۔


اتنا ہی کہوں گا کہ ہور چوپو۔۔۔ تہانوں کیا کنھیں سی کے ایس پوسٹ نوں پڑھو۔

5 تبصرے:

  1. بھائی یہ کون سی زبان لکھی ہے :P

    جواب دیںحذف کریں
  2. مجھے یاد کرتے حضور میں‌ کر دیتا، گُڑ‌البتہ ڈالنا پڑتا ہی ہی ہی۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. مومیائی کتنی جمع کرلی ہے۔ فالتو ہو تو میری طرف بھجوا دینا شیدے پہلوان ہڈی جوڑ والے کو چاہیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. گرامر نہیں، یہ تو گراں مر ہو گیا۔ بہرحال آدھا گھنٹہ نکال ہی لیا کریں بلاگ کیلیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. آپ کی تحریر نے آٹھویں جماعت کے ہمارے اُستاز نذیر احمد قریشی صاحب [اللہ جنت نصیب کرے] یاد کرا دیئے جنہوں نے ہمیں انگریزی کے ساتھ انگریزی کی گرامر پڑھائی تھی ۔ شکر ہے کہ کسی نے آپ کو ماسٹرز میں ہی گرامر پڑھا دی ورنہ آجکل کے جوانوں کی لکھی ہوئی انگریزی پڑھتے ہوئے سر چکرا جاتا ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ موصوف کہنا کیا چاہ رہے ہیں ۔ ہِز فادر اِز ڈائڈ تو عام سننے میں آتا ۔ ویسے انگریزی ایسے بول رہے ہوتے ہیں کہ جیسے گھر کی لونڈی ہو ۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔