میری پہلی باضابطہ نظم۔ اگرچہ آزاد لیکن محترم وارث صاحب اور جناب اعجاز اختر کی تصدیق کے ساتھ کہ یہ وزن میں ہے۔
---
تم آؤ تو
یوں کہ جیسے
صدیوں بعد
تپتے تھر میں
بارش برسے
تم آؤ تو
یوں کہ جیسے
بنجر تن میں
خوشیاں اتریں
تم آؤ تو
یوں کہ جیسے
ویراں من میں
نغمے بکھریں
تم آؤ تو
یوں کہ جیسے
ٹکڑے جاں کے
پھر جڑ جائیں
تم آؤ تو
یوں کہ جیسے
سارے دُکھ یہ
پھُر اڑ جائیں
تم آؤ تو
یوں کہ جیسے
کالی شب میں
چندا اترے
تم آؤ تو
یوں کہ جیسے
سوہنے رب کی
رحمت اترے
تم آؤ تو
یوں کہ جیسے
امّیدوں کا
سورج نکلے
تم آؤ تو
یوں کہ جیسے
کلیاں باغوں
میں مسکائیں
تم آؤ تو
یوں کہ جیسے
تپتے تھر میں
بارش برسے
----
یہ ایم اے انگریزی والوں کو اردو شاعری کا بھوت کیوں سوار ہوجاتاہے؟ میں نے جتنے بھی ایم اے انگریزی کے احباب دیکھے ہیں انہیں اردو میں شاعری کرتے پایا؟؟؟؟ آخر کیوں؟
جواب دیںحذف کریںواہ آپ تو اچھے اور خاصے شاعر نکلے۔ اچھی نظم ہے۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی نظم اچھی ہے۔ آخری بند کی سمجھ نہیں آئی۔قرآں اترنے کی وضاحت کر سکیں تو مہربانی ہو گی۔
جواب دیںحذف کریںNice poem , (:
جواب دیںحذف کریںنوازش۔۔
جواب دیںحذف کریںآخری بند میں قرآن سے تشبیہہ صرف تقدس کے معنوں میں دی گئی ہے۔ اس سے اور کوئی مراد نہیں۔
بہت خوب، لا جواب
جواب دیںحذف کریںلاجواب شاکر بھائی
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
جواب دیںحذف کریںمجھے یہ قرآن سے تشبیہ دینا کچھ گستاخانہ سا معلوم ہوتا ہے۔ اگر اس حصے کو نکال دیں یا بدل دیں تو بہتر ہوگا۔
باقی نظم اچھی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بجلی کے لیے لکھی گئی ہو۔ :D
واہ! کمال کردیا۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
جواب دیںحذف کریںبہت مہربانی۔
جواب دیںحذف کریںاسد میں نے وہ بند ہی نکال دیا ہے۔
ویسے بجلی پر واقعی فٹ ہوسکتی ہے یہ۔:D
آپ نے اچھا لکھا ہے ۔ اسے پڑھ کر مجھے ایک بہت ہی پُرانا شعر یاد آ گیا
جواب دیںحذف کریںتم آؤ تو
حاصل مجھے
ہر شے ہو جائے
ایسا نہ ہو کہ
تم آنے سے
پرہیز کرو
میں کھاؤں سویّاں
تو وہیں
قے ہو جائے
ہاہاہاہاہا
جواب دیںحذف کریںیار تمہارے تبصرے ہر بار ردی میں چلے جاتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںاور دوسرے یہ کہ میں ایم اے انگریزی نہیں ایم ایس سی لسانیات کررہا ہوں۔ اطلاقی لسانیات۔۔ اور لسانیات میں ہم زبان کا مطالعہ کرتے ہیں انگریزی ہی دنیا میں زبان نہیں اور زبانیں بھی ہیں۔ اس فیلڈ میں آنے کا مقصد اپنی زبانوں پر تحقیق کرنا تھا۔
آزاد ہو اور وزن میں ہو
جواب دیںحذف کریںکچھ انہونی بات ہے
بہرحال نظم کے لیے ہم ایسا کہہ سکتے ہیں
ورنہ
بھائی جی آزاد نظم قافیے ردیف کی پابندیوں سے آزاد ہوتی ہے۔ لیکن بحر کی پابندی سے آزاد نہیں ہوتی۔ مجھے بھی وارث صاحب نے بتایا ہے۔ میں بھی پہلے یہی سمجھتا تھا کہ آزاد نظم کا مطلب ہے کہ ایک پیرا گراف کو اینٹر مار مار کر ٹوٹے کردئیے جائیں تو حاصل ہونے والی شے آزاد نظم ہوگی۔ اسے نثری نظم کہتے ہیں۔ اور نثری نظم کو اکثر شعرا نظم ہی نہیں مانتے۔
جواب دیںحذف کریںشعرا بھی درست سمھجتے ہیں کیوں کہ یار لوگوں نے آزاد نظم کو اتنا آزاد کردیا تھا کہ اسے واپس جامے میں ڈالنا بھی مشکل امر تھا
جواب دیںحذف کریںآپ نے اینٹر والی بات بھی خوب کی
کبھی میں بھی اس ترکیب کو آزماوں گا
مجھے آپ کی حوصلہ افزائی درکار ہے
اگر مناسب سمجھیں تو بلاگ رول میں مجھے بھی شامل کردیں
مگر میرے خیال میں تو آپ نے بلاگ رول کا درد سر ہی ختم کردیا ہے
بہرحال اگر ٹائم ہو تو تبصرہ بھی چلے گا۔
شکریہ