پچھلے دو دن سے میڈیا پر جو طوفان اٹھا ہوا ہے اور جو اب طوفان بدتمیزی میں بدلتا جارہا ہے، پہلے ہمارا خیال تھا کہ جان دیو کیا لکھنا وہی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرو اس کو بھی پی جاؤ۔ لیکن اجمل صاحب کی اس پوسٹ اور اس کے علاوہ کچھ دوسرے بلاگرز کی متواتر تحاریر نے مجبور کردیا کہ کچھ لکھا جائے۔ لیکن کیا لکھا جائے؟ اتنے سارے پر کیا کہا جاسکتا ہے۔ میں جو ایک عام شہری ہوں۔ جس کے سامنے بے شمار امکانات ہیں کہ یہ ویڈیو جعلی بھی ہوسکتی ہے، بیرونی سازش بھی ہوسکتی ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں یہ اصلی ہے۔ اور میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ کل اگر اس بچی کے ساتھ یہ ہوا تو میری بہن کے ساتھ بھی کوئی دین کا ماما یہ کرسکتا ہے۔ لیکن اگر یہ اصل بھی ہے تو اس کی وجوہات کیا تھیں؟ ہمیں یہ سب کچھ دیکھنا پڑے گا۔
پچھلے پانچ سال سے ہماری حکومت کی رِٹ کہا جارہی ہے؟ کبھی سوچا ہے آپ نے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ ہمارے حکمران شمالی علاقوں پر اپنی گرفت کھو رہے ہیں۔
ہماری حکومت روشن خیالی اور جمہوریت کی آڑ میں لوگوں کے ذہنوں میں ایک ایسی آگ بڑھکا رہی ہے جو خانہ جنگی کی طرف ہی لے کر جاسکتی ہے۔ اور لے جا بھی رہی ہے۔
میں آپ کو اپنا حال بتاتا ہوں۔ ایک طرف یہ خود کش حملے ہیں، بم دھماکے ہیں اور دوسری طرف جب مین فحش ناچ گانا اور اپنے شہر فیصل آباد کے تھیٹروں میں ہونے والے ڈرامے اور ان میں ناچنے والی رنڈیوں کے ننگے پوسٹر دیکھتا ہوں تو میرا دل کیا کرے گا۔ کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے؟
جب میں اپنے معاشرے کی اخلاقی تنزلی دیکھوں گا، جھوٹ، ، رشوت اور ناانصافی کو پنپتا دیکھوں گا تو پھر میں کیا سوچوں گا؟
جناب پھر میرے ذہن میں یہی جواب آتا ہے کہ اگر آج سوات میں یہ کچھ ہورہا ہے تو کل فیصل آباد کی باری ہے۔ پھر پاکستان کی باری ہے۔
یہ حقیقت ہے جناب کہ ہم اس وقت دو انتہاؤں کی طرف تیزی سے جارہے ہیں۔ یہ دو انتہائیں اس قدر شدید ہیں کہ شاید یہ قومیتی اور صوبائی اختلافات کو بھی اپنے اندر سمیٹ لیں۔ اور تقسیم ایسی ہوجائے کہ کچھ صوبے یا نسلی گروہ بنیادہ پرست ہوجائیں اور کچھ مادر پدر آزادی کو ترجیح دیں۔
یہ ساری تقسیم پاکستان کو برباد کردے گی جناب اگر آپ نے میں نے یہ نا سوچا کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔
اگر طالبان اٹھ رہے ہیں تو اس کی وجوہات ہیں جناب۔
اس کی وجوہات مرد مومن مرد ناحق کی وہ کوڑھ کی کاشت ہے جس نے اس ملک کا بیڑہ غرق کردیا۔
اس کی وجوہات وہ یو ٹرن ہے جو 2001 میں لیا گیا جناب جس نے ایسا ردعمل پیدا کیا جو آج شدید تر ہوتا جارہا ہے۔
اس کی وجوہات میں طاقت کا وحشیانہ استعمال بھی شامل ہے جناب جو پچھلے پانچ سال میں شمالی علاقوں میں امریکی آشیرواد پر اندھا دھند استعمال کی گئی۔
اس کی وجوہات میں طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا بھی شامل ہے جناب۔
اس کی وجوہات میں سوات پر پچھلے دو سال میں ہونے والا آپریشن بھی ہے جناب۔
اس کی وجوہات میں عام آبادی پر توپوں سے گولہ باری اور ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ بھی شامل ہے جناب۔
اس کی وجوہات میں ان زمینی حقائق سے مجرمانہ غفلت اور انٹیلی جنس سسٹم کی ناکامی بھی شامل ہے جناب۔
یہ بات نوٹ کرلیجیے جناب کہ اگر آج بھی ڈائیلاگ کی بات نہ کی گئی، طاقت کو ہی آخری حل سمجھا گیا اور حاکموں کا محاسبہ نہ کیا گیا تو اس ملک کا کچھ نہیں بچے گا جناب۔ اس ملک کے روشن خیال جمہوریت پسند حکمران اسلام آباد میں بیٹھے چھنکنے بجاتے رہ جائیں گے جیسے حامد کرزئی کابل میں بیٹھا چھنکنے بجاتا اور بیان جاری کرتا رہتا ہے۔
جناب یہ صورت حال اس سے زیادہ پیچیدہ ہے جتنی نظر آرہی ہے۔ اور اس کا حل اتنا سادہ نہیں جتنا سادہ بیان کیا جاتا ہے۔ کہ طاقت کے استعمال سے ظالمان کو نیست و نابود کردیا جائے۔ جناب یہ وہ کینسر ہے جو آپ کے جسم کے ان ان حصوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے جس کا آپ کو احساس بھی نہیں۔ اور اس کینسر کے خلاف ہونے والے آپریشن نے اس ملک کو ٹھیک کرنے کی بجائے مفلوج کرڈالا ہے۔
ہمیں اعتدال کی ضرورت ہے جناب اور ٹھنڈی طبیعت سے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جناب۔
اس ملک میں رہنے والوں کو اپنے حقوق و فرائض اور اس ملک کا مستقبل پھر سے مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا جناب۔ ورنہ کسی خونی انقلاب کی چاپیں بہت قریب آگئی ہیں جناب۔ شاید خونی انقلاب نہیں خانہ جنگی۔
یہی رونا ہم عرصے سے رو رہے ہیں مگر ہماری مخالفت میں طالبان کیساتھ مذاکرات نہ کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔
جواب دیںحذف کریںہمارا بھی یہی خیال ہے کہ مذاکرات سے اگر آئرلینڈ کی جنگ ختم ہوسکتی ہے تو پھر شمالی علاقوں کی کیوں نہیں۔
انتہا پسندی ہمیں کہیںکا نہیں چھوڑے گی۔۔۔ طالبان کو تو اس کا الزام دیا ہی جاتا ہے لیکن یہ نام نہاد لبرل، طالبان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ مُلاّ ایک ذہنیت کا نام ہے جس کو بیان کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ
جواب دیںحذف کریںہمچوما دیگرے نیست۔۔۔
اور میری رائے میں طالبان مُلاّ سے زیادہ خطرناک، لبرل مُلاّ ہے ۔
سنو سب کی لیکن مانو دل کی
جواب دیںحذف کریں