ہفتہ، 9 مئی، 2009

اب؟

وہی جس کا ڈر تھا۔ میرے جیسے جو امن کی امید کررہے تھے، بتدریج تبدیلی کی امید کررہے تھے اور نفاذ شریعت کی راہ ہموار ہونے کی امید کررہے تھے۔ اس سب کو فضل اللہ اینڈ کمپنی نے اپنی جلد بازی، ناعاقبت اندیشی اور وحشی پنے سے مٹی میں ملا دیا۔ یوں لگتا ہے جیسے انھیں پورے پاکستان پر قبضہ کرنے کی بہت جلدی تھی یا یہ باہر سے ان کی ڈوریاں ہلائی جارہی ہیں۔
خیر جو بھی ہورہا ہے۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ بندوق ہی مسئلے کا حل ہے۔ جس سے بچنے کی کوشش کرنے کا مشورہ ہم دیتے آئے ہیں۔ اس سارے قضیے یا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان سینتالیس کے بعد اپنی تاریخ کے سب سے بڑے انسانی بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگ متاثرہ علاقوں سے ہجرت کرچکے ہیں اور کررہے ہیں۔ اس ہجرت کے اثرات کیا ہونگے؟ سینتالیس کو ذہن میں رکھ لیں سب کچھ سامنے آجائے گا۔ مہاجرین کو تو مسائل پیش آئیں گے ہی ان کے میزبان شہروں میں بھی گھٹن کی سی فضا پروان چڑھے گی۔ کاروبار کے مسائل، امن عامہ کے مسائل کئی قسم کی مصیبتیں کھڑی ہونگی۔
اب سلسلہ یہ ہے کہ زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی کام کیا جائے۔ حکومت سے تو باجوڑ اور فاٹا کی دوسری ایجنسیوں کے مہاجر سنبھالے نہیں گئے پچھلے ڈیڑھ سال سے ان لاکھوں لوگوں کو کہاں سنبھال سکے گی۔ اس سلسلے میں عوام کو آگے آنا ہوگا۔ اس وقت آٹھ اکتوبر 2005 والے جذبے کی ضرورت ہے۔ اور فراخ دلی کی بھی۔ مہمان نوازی اور پناہ کی فراخ دلی۔ اللہ ہم کو اس آزمائش سے گزرنے کی توفیق دے۔

7 تبصرے:

  1. بہت خوب جناب ، اچھا لگا آپ کا مراسلہ ، اور یہ اظہاریہ بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے ، میری جانب سے مبارکباد قبول کیجے ،امید ہے گفتگو کا سلسلہ دراز رہے گا، سدا خوش رہیں جناب۔ والسلام

    ناطقہ
    http://naatiqa.blogspot.com/

    جواب دیںحذف کریں
  2. قوم تو صرف بحث مباحثے میں مصروف ہے جب فارغ ہو گی تو اس کے متعلق سوچے گی

    جواب دیںحذف کریں
  3. ایک لفظ میں ساری صورتحال کو بیان کیا جائے تو وہ ہے
    کنفیوژن
    کسی کو کچھ پتہ نہی
    کہ کیا ہورہاہے
    اور کون کررہاہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. ہمارے ایبٹ آباد میں تو مہمان نوازی ایسے ہوئی ہے کہ پہلے جو گھر ۱۰ ہزار میں کرائے پر رہنے کے لئے ملتا تھا، اب اٹھارہ ہزار میں ملتا ہے۔


    واہ رے اخوت۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. گرچہ کراچی کے عوام کو اس سلسلے میں لعنت ملامت کی گئی ہے۔ مگر ہمارے شہر کے دروازے ابھی بھی مہاجرین کے لئے کھلے ہیں۔ بلکہ کل ہی میری ملاقات سوات سے آئے ہوئے ایک نوجوان سے ہوئی ہے جو اپنے گھر والوں کو لیکر کراچی آیا ہے اور محنت مزدوری کررہا ہے۔

    الخدمت اس سلسلے میں کافی کام کررہی ہے۔ انہوں نے کیمپس اور خوارک کے لئے مالی تعاون کی اپیل کررکھی ہے۔ معلوم نہیں اپ کے شہر میں ان کے دفاتر ہیں یا نہیں مگر کراچی میں یہ لوگ کافی چندہ جمع کررہے ہیں۔ مگر انہیں اسطرح چندہ نہیں مل رہا جیسے زلزلے کے دوران ملا تھا۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. یہ فرمائیے کہ کون سے ادارے ایسے ہیں جن کے ساتھ تعاون کرنے کا فائدہ براہ راست متاثرہ لوگوں کو پہنچ سکتا ہے؟ یا مقامی سطح پر مدد کے لیے کوئی سلسہ منظم کیا گیا ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
  7. م م مغل صاحب: نوازش مہربانی
    جعفر: آپ کی بات بالکل بجا ہے ہمیں پتا ہی نہیں کہ کیا ہورہا ہے بلکہ پرواہ ہی نہیں۔
    منیر عباسی: یہ ہماری بے حسی کی انتہا ہے۔
    نعمان: کراچی بڑا شہر ہے اور لوگ کراچی جانا پسند بھی کرتے ہیں۔ کراچی کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔ پنجاب کے وسطی شہروں جیسے کہ میرے شہر میں شاید اس طرح لوگ نہ آئیں۔
    راشد کامران: یہاں جماعت الدعوہ کا نیٹ ورک بہت اچھا تھا۔ 2005 کے زلزلے میں بھی انھوں نے بہت کام کیا تھا۔ کسی اور کا مجھے اندازہ نہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔