ابھی دو دن قبل یہ خبر پڑھی ہے۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔
مظفر آباد ۔ بھارتی آبی جارحیت پر پاکستان و آزاد کشمیر کے حکمران ، سیاست دان اور ادارے مکمل خاموش ، دریائے جہلم نالہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جنوری فروری میں مکمل سوکھنے کا خدشہ ، پنجاب ، سندھ اور میرپور ڈویژن کی ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین بنجر ہونے کے علاوہ آزاد خطہ میں ماحولیاتی تبدیلیاں بھی متوقع ۔ دریائے جہلم و نیلم کے پانیوں سے بھارتی مشرقی پنجاب اور ہریانہ کی زمینیں سیراب کرنے کی منصوبہ بندی حتمی مراحل میں داخل ۔ حریت قائدین سید علی شاہ گیلانی ، بھارت نواز فاروق عبد اللہ اور محبوبہ مفتی پاکستان کو پانیوں سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی پر متفکر ، آزاد خطہ کے سیاست دان مطمئن و مسرور ۔ تفصیلات کے مطابق بھارت ، اسرائیل ، فرانس کے تعاون اور ان کی ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان و آزاد خطہ کو پانیوں سے محروم کرنے کے لیے 62 منصوبوں پر کام کا آغاز کر چکا ہے۔ 12 منصوبے تکمیل کے قریب ہیں ان منصوبوں کے ذریعے دریائے جہلم و نیلم میں ایک قطرہ بھی آزاد کشمیر میں داخل نہیں ہو سکے گا بھارت سرنگ کے ذریعے دونوں دریاؤں کا پانی جموں ، گورداسپور اور مشرقی پنجاب ، ہریانہ پہنچانے کے لیے دن رات کوشاں ہے وولر بیراج کے فنکشنل ہونے سے دریائے جہلم کا پانی معمول سے کئی گنا کم ہو گیا ہے ۔ گرمیں کے موسم دریائے جہلم میں سطح آب سردیوں کے موسم سے بھی کئی گنا کم ہے ۔ آمدہ سردیوں میں دریائے جہلم کا خشک ہونا تقریبا ً طے ہے ۔ وادی جہلم کے ہزاروں افراد اس صورت حال پر پریشان ہیں ۔ دریائے نیلم کا پانی کشن گنگا کے ذریعے منتقل کیا جارہا ہے ان دونوں دریاؤں کے خشک ہونے سے پاکستان و آزاد کشمیر میں شدید غدائی بحران پیدا ہونے کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیاں بھی رونما ہوں گی ۔ انتہائی باعث تشویش امر ہے کہ دریا سوکھ رہے ہیں مگر پاکستان و آزاد کشمیر کے حکمران دینی ، سیاسی جماعتوںکے قائدین ملکی دفاع ، اور مفاد میں فیصلے کرنے والے اداروں سمیت ہر وقت یہاں تک کہ عوام کی بڑی تعداد خاموش ہے۔ سیاسی قائدین جنہیں قوم کی راہنمائی کرنی ہوتی ہے مخصوص مفادات کے اسیر ہیں اور پنجاب سندھ اور میرپور ڈویژن ریگستانوں میں بدلنے جا رہاہے مقبوضہ کشمیر کے پیشتر سیاست دان اس صورت حال پر متفکر ہیں ۔ سید علی گیلانی کے علاوہ بھارتی وزیر فاروق عبد اللہ اور محبوبہ مفتی بھارت کی جانب سے پاکستان کا پانی روکنے کے اقدامات کی مذمت کر چکے ہیں ۔ حریت قائدین سید علی گیلانی اور محبوبہ مفتی نے سندھ طاس معاہدہ ختم کر کے پانیوں پر کشمیریوں کا حق ملکیت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق حکومت پاکستان و آزاد کشمیر نے اگر اس صورت حال کے تدارک کے لیے فوری لائحہ عمل مرتب نہ کیا تو آئندہ 5 سالوں میں ان دریاؤں کے نشانات ہی باقی رہیں گےتفصیل میں جانے کا دل نہیں کررہا تو اتنا بتائے دیتا ہوں بات وہی پرانی ہے کہ انڈیا نے ہمارا پانی روک لیا۔ اس طرح کی خبریں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ لیکن چونکہ ہمیں "اصلی تے وڈی" فتح چاہیے ہوتی ہے جس پر بھنگڑے بھی ڈالے جاسکیں اور کرکٹ ایسے تمام نتائج دیتا ہے اس لیے ہمیں یہ فتح مبارک ہو۔ پانی کا کیا ہے چند لاکھ ایکڑ اراضی ہی بنجر ہونے جارہی ہے وہ بھی ابھی کئی سال پڑے ہیں اللہ خیر کرے گا۔ کوئی سلسلہ بن ہی جائے گا نا۔ ہمیں میچ جیتنے کی خوشی منانی چاہیے۔ بلوچستان کا کیا ہے اللہ خیر کرے گا بلوچستان کہیں نہیں جارہا ادھر ہی ہے۔ اور کشمیر پہلے کونسا اپنے پاس تھا باسٹھ سال سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا چھنکنا ہی بجا رہے ہیں ہم۔
تو صاحبو آپ کو ایک اور "فتح" مبارک ہو۔ لیکن جاتے جاتے ایک بات، کہیں اس فتح اور ایسی دوسری "فتوحات" (یہ فتوحات صوفیوں والی نہیں جس کا مفہوم چندے کی صورت میں نکلتا ہے) کی قیمت ہم کسی اور میدان میں ہار کر تو ادا نہیں کررہے۔ ذرا سوچیے گا ضرور۔
انڈیا کی دیوالی اب ہوگی آنسوؤں والی
جواب دیںحذف کریںہمارے حکمران منرل واٹر پیتے ہیں، انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ غریب عوام اس بھارتی سازش کے نتیجے میں پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے۔ انہیں پرواہ ہے تو صرف اس بات کی کہ ملک کو لوٹنا کیسے ہے!۔۔۔
جواب دیںحذف کریںابھی کالا پانی کا مسئلہ قوم کے لیے سب سے اہم ہے پہلے وہ حل ہوجائے پھر پانی کی بات کرتے ہیں۔۔ لیکن اس سے پہلے کوئی نہ کوئی مسئلہ آجائے گا آپ خاطر جمع رکھیے جب تک بوند بوند کو ترسنے نہ لگے گی یہ قوم اس وقت تک کسی کو فکر نہ ہوگی اور جو بھی اس بابت بات کرے گا اسے بنیادی طور پر بڑے مسائل کی فکر نہیں جو قریب قریب غداری کے نزدیک ہے۔ آپ بھی یار۔
جواب دیںحذف کریںہماری حکومت کی پانی کے مسئلے پر سستی اور خاموشی مجرمانہ حد تک جاچکی ہے۔ ہمارا واٹر کمشنر جماعت علی شاہ بھی پتا نہیں کہاں جاسویا ہے۔ پچھلے دنوں مسئلے کو عالمی عدالت میں لے جانے کی باتیں ہورہی تھیں وہ بھی وقت کی گرد تلے دب گئیں۔ عجیب بے حس حکومت ہے ہماری۔
جواب دیںحذف کریںقوم پہلے ہی ایک سے بڑھ کر ایک مسئلے میں گھری ہے اگر اس دوران کوئی خوشی ملتی ہے تو میرے خیال میں خوش ہونا چاہیے۔ گو کہ ابھی ٹورنامنٹ میں اہم مراحل باقی ہیں لیکن پھر بھی بھارت کے خلاف میچ ہمیشہ ایک جذباتی مسئلہ رہا ہے۔
جواب دیںحذف کریںپہلے تو یہ بتائیے کہ اس پانی کے رُک جانے سے میری زمینوں کو کیا نقصان ہوگا؟ اگر میرا پانی بند ہوتا ہے تو پھر تو بہت غلط بات ہے لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر ساہنوں کیہہ۔ جن کی زمینیں خشک ہونگی ان کو فکر ہو۔۔۔۔۔۔ یہی اجتماعی سوچ ہے بدقسمتی سے سو کُڑھتے رہئے ہونا ہوانا کچھ نہیں۔ جب بوند بوند کو ترسیں گے پھر کچھ کر بھی لیں گے اس مسئلہ کا جیسا کہ راشد بھائی نے کہا ہے۔
جواب دیںحذف کریںمینوں ہارنے کی بھی بہت خوشی ہے
جواب دیںحذف کریں