جیسا کہ آج کے اخبارات سے ظاہر ہے، بھارت کو افغانستان تک راہداری کے لیے معاہدہ طے پاگیا ہے۔ پہلے پاکستان اس پر تیار نہیں ہورہا تھا لیکن جیسے بچے کو کڑوی دوا اماں اپنے ہاتھوں سے خود پلاتی ہے اسی طرح ہیلری کلنٹن نے خود یہ معاہدہ کروایا ہے۔ اس کے نقصانات کیا ہونگے، ویسے تو کئی لال بُجھکڑ بیٹھے ہیں میڈیا میں اور اُرے پرے۔ ہمارے اپنے ذاتی خیال میں اس کا سب سے پہلا نقصان یہ ہے کہ بھارتی سامان افغانستان جانے کی بجائے پاکستان میں ہی رہ جایا کرے گا۔ جیسا کہ پہلے بھی افغانستان جانے والا مال پاکستان میں رہ جایا کرتا ہے اور اکثر رہ جایا کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ مقامی صنعت کی تباہی اور ٹیکس کی مد میں کروڑوں شاید اربوں کا نقصان ہوگا۔
اگرچہ یہ کہا گیا ہے کہ بھارت کو راہداری نہیں دی گئی بلکہ وہ سامان پاکستانی ٹرکوں یا افغانی ٹرکوں پر لد کر جائے گا۔ سائیں کان ادھر سے پکڑیں یا اُدھر سے بات تو وہی ہے، بھارت کو راہداری مل گئی۔ ان کی موجیں۔ ہاں یہ ٹرکوں کی ادلا بدلی سے اتنا ہوگا کہ پاکستانی ٹرانسپورٹرز کی چاندی ہوجائے گی۔
آپ کا خيال بالکل درست ہے ۔ ہماری موجودہ حکومت اس سے پہلی حکومت سے بھی زيادہ امريکا کی تابعدار ہے ۔ انہيں صرف اپنے مال ميں اضافہ کی صرورت ہے جو وہ دن رات کر رہے ہيں ۔ پرويز مشرف کے امريکی حکم کے تحت بنائے قانون کہ درآمدی مال پر زيادہ سے زيادہ 30 فيصد ٹيکس اور ملکی پيداوار پر کم سے کم 65 فی صد ٹيکس کے نتيجہ ميں ملک کی صعنت پہلے ہی خسارے ميں جا رہی تھی اس پر موجودہ حکومت کی امريکا نواز پاليسی کے تحت بجلی گيس اور پٹرول کی قيمتيں زيادہ کی گئيں اب بھارتی مال پاکستان ميں بکے گا تو مُلک و قوم کنگال ہو جائيں گے اس پر بے حد بے غيرتی يہ ہے کہ 700 بلين خسارے کا بجٹ بنايا گيا ہے
جواب دیںحذف کریںکچھ سمجھ نہیں آیا۔ عجیب خلط ملط سی خبر ہے، میرے خیال میں یہ رپورٹنگ کی بدترین مثالوں میں سے ایک ہے۔
جواب دیںحذف کریںایک طرف تو کہا گیا ہے کہ پاکستان بھارت کو راہدری نہیں دے رہا۔ دوسری جانب سمندری اور فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ ویسے افغانستان میں کونسی بندرگاہ ہے جہاں سے وہ بھارت سے تجارت کریگا? اسکے علاوہ افغانستان میں بنتا کیا ہے جو وہ واہگہ کے راستے بھارت بھجوائے گا?
مجھے حیرت ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے نزدیک نیٹو سپلائی با حفاظت نا پہنچنے سے بھی بڑا مسئلہ بھارت کو راہداری فراہم کرنا ہوگیا۔ بہرحال، اس فیصلہ کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت ہی کو ہوگا۔ اور جلد ہی پاکستان کو پتا چل جائے گا کہ وہ تین میں ہے نا تیرا میں۔
جواب دیںحذف کریںمزید یہ کہ بھارت کو پاکستان سے تلخیاں بڑھانے کے دو چند مواقع ضرور میسر آجائیں گے۔
ہم کم مول میں بک جاتے ہیں
جواب دیںحذف کریںجناب راہداری کیوں نہ دیتے۔
جواب دیںحذف کریںمالکن بی بی تشریف لے کر آئیں ہیں۔
اورسر پر کھڑے ھو کر معاہدہ کروایا۔
اب خنزیر صاحب کہیں ۔۔۔۔او۔۔۔معذرت وزیر صاحب کہیں کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ھے تو ماننا ہی پڑے گا
گوہر نایاب اور جان سے زیادہ قیمتی عزت وعصمت لٹا کر مٹک مٹک کر ناچنے والی فاحشہ کی طرح ہمارے حکمران ملک و قوم کی غیرت و حمیت کو باوا جی کی جاگیر سمجھتے ہوئے بندر بانٹ کئیے جارہے ہیں۔ اخلاقی دیوالیہ ہونے کے سامنے باقی قسم قسم کے دیوالیہ بحران ثانوی ہوتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںڈائیلاگ یا اسٹرئیجک ڈائیلاگ (اگر جی حضوری کو کوئی ڈائیلاگ اسٹرائیجک ڈائیلاگ کہا جاسکتا ہے تو بھی ) امریکا اور پاکستان کے درمیان تھا کہ چلیں صاحب ہم یعنی پاکستان نے آپ کی دہشت گردی ، دہشت گردی کے خلاف جنگ، جنگ خوب کھیلی ہے اور بدلے میں ہر قسم کی ذلت کے علاوہ قومی سلامتی کو لاحق خطرات جسمیں آپ یعنی امریکہ بہادر کا بھی حصہ ہے تو صاحب آپ سے دست سوال کرتے ہیں کہ چونکہ یہ سب آپکے فیض کا کرم ہے کہ آج ہم عالمی گداگر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں جو چیخ چیخ کر گد ا کی صادئیں لگا رہیں تو آپ ہمارا انرجی بحران حل کرنے میں ہماری مدد کریں۔ آخر آپ نے بھارت سے بھی تو ہر قسم کی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایٹمی توانائی کا سول معائدہ کر لیا ہے ۔ہم جو آپ کے پرانے خادم(غلام)ہیں تو ایک نظر ہم پہ بھی کرم کردیں۔ ۔۔ ایں؟ مگر یہ کیا ؟؟ امریکہ بہادر آپ کی انتہائی سمجھدار اور فطین خاتون حاکمہِ خارجہ نے ہماری سر زمین (اگر اپنی یعنی پاکستان کی سر زمین کو ہمیں اب بھی "ہماری سرزمین" کہنے کا کوئی حق آپ نے چھوڑ رکھا ہو تو ) پہ کھڑے ہو کر کس شاطرانہ طریقے سے بھارت کو راہداری دلوا دی ۔ آپ تو ہم سے سٹرائیجک ، سٹرائیجک مذکرات کھیلنے آئیں تھیں اور ہمارے بودے اور اندھوں سے بھارت بھارت ، امریکہ امریکہ اسٹرائیجی کھیل گئیں۔ آپ نے پاکستانی مصنوعات کو امریکی منڈیوں تک رسائی دینے کے بارے میں بھی غوروفکر کی نوید سنائی تھی، ہم تو یہی سمجھتے رہے آپ ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات جو دنیا کی بہتریں ٹیکسٹائل مصنوعات میں سے ایک ہیں۔ انکی امریکہ رسائی کی بات کریں گی ۔ پاکستانی اسپورٹس گڈز کا حوالہ دیں گی۔ اور کچھ نہیں تو ہمارے اسٹیل کے برتن اور کراکری ہی کے کچھ خریدار امریکہ میں پیدا ہوجانے دینگی۔ مگر آپ نے تو آم چوپنے (چوسنے)کو پاکستانی مصنوعات قرار دیتے ہوئے ان کی امریکہ رسائی کا مژدہ جان افزاء سنایا ہے اب بھلا پاکستانی عوام کو آموں کے امریکہ جانے سے فائدہ ہے یا نقصان کہ پہلے جو سو روپے میں ایک کلو آم مل جاتا تھا اب وہی آم امریکہ جانے سے تین سو روپے فی کلو بھی دستیاب نہیں ہوگا ۔ البتہ آموں کی امریکہ برآمد کے بدلے امریکی ڈالرز آئیں گے تو ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ یہ ڈالرز کس کی جیب میں آئیں گے؟۔ چلیں ایک دو اشارے ہم آپ کو دے دیتے ہیں ۔ ہماری حکومت اور سیاستدانوں میں ڈھیر سارے وزیر مخدوم ہیں جو آموں کے باغات سے آما آم ہیں اسکے بعد جاگیردار ہیں وڈیرے ہیں۔ اور خیر سے ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا یعنی سبھوں کو ڈالروں سے رغبت بھی بہت ہے خواہ بھارت کو راہداری کے بدلے آموں کے آما آم ہونے سے آئیں۔ پاک امریکہ اسٹرائیجک مذکرات ۔۔۔
ہور امب چُوپو۔ آیا سواد؟
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ،اسپین