صاحبِ دل تو ہم اس وقت سے تھے جب اس دنیا فانی میں تشریف آوری ہوئی، لیکن آج مریضِ دل ہوتے ہوتے رہ گئے۔ اب آپ پوچھیں گے او کِداں؟ تو ہم آپ کو دسیں گے۔ او ایداں کہ ہمیں ایک عرصے سے دل کے مقام پر درد کی شکایت ہے۔ کبھی کبھار یہ اچانک چھڑ جاتی ہے، یوں لگتا ہے جیسے کوئی پٹھا کھنچنے سے یہ شروع ہوجاتی ہے لیکن کمبخت عین دل کے مقام پر ہوتی ہے اور ہوتی ہی چلی جاتی ہے۔ ناقابل برداشت نہیں ہوتی لیکن اس کا ہونا ہی "عین ہونا" ہے، اس سے بالکل اُلٹ جیسا کہ عابدہ پروین کوک سٹوڈیو کے ایک گانے میں فرماتی ہیں۔ تو ہم بات کررہے تھے درد کی، اس کے ساتھ ساتھ کبھی دل کی دھڑکن اچانک اتنی بڑھ جاتی ہے کہ دھڑکتا محسوس ہونے لگتا ہے۔ اور کبھی بہت سانس بھی چڑھ جاتی ہے۔ دو تین دن پہلے یہی نامُراد درد پھر چھڑا۔ شومئی قسمت ایک کلاس فیلو کے والد کا انتقال بھی اسی مرض میں پرسوں ہوا ہے۔ آج ان کے قُل سے واپسی پر یہ سوچ کر کہ کہیں عنقریب ہمارے قُل بھی نہ اس مرض میں ہوجائیں ہم فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو نکل لیے۔
وہاں پہنچے تو کیا دیکھا۔ کیا دیکھنا تھا عمارت دیکھی۔ نویں نکور عمارت جسے مشرف دور کے کسی وزیر کی گرانٹ ملی تھی۔ آج کل اس کے نام کا کتبہ ہٹا دیا گیا ہے۔ سائیکل کھڑا کرکے اوپر سے او پی ڈی میں گئے اور اندر داخل ہوتے ہی ٹھنڈ پے گئی بادشاہو۔ ساری عمارت سینٹرلی ائیر کنڈیشنڈ۔ سواد آگیا بادشاہو۔ استقبالیے پر جاکر آمد کا مقصد بتایا تو انھوں نے مبلغ تیس روپے لے کر ایک عدد کاپی تھما دی۔ اس کے بعد سامنے والے کمرے میں جانے کا اِذن ملا۔ وہاں پہنچے سے ایک صاحب نے ہمارے ابا جی سے لے کر ہمارا سب بائیو ڈیٹا پوچھ ڈالا۔ ابا جی کیا کرتے ہیں، تم کیا کرتے ہو، کتنا کماتے ہو۔ پہلے تو ہم سمجھے نہیں بتاتے گئے بعد میں پتا چلا "کیٹیگری" لاؤنی سی۔ یہاں یہ صاحب آمدن کے حساب سے مریضوں کو ایک مہر لگا کر دیتے تھے کاپی پر۔ اس کی بنیاد پر آگے چاجز لگتے ہیں۔ ہم نے تو کہہ دیا جی پارٹ ٹائم جاب کرتے ہیں پر پیسے کئی کئی ماہ بعد آتے ہیں۔ انھوں نے جھٹ سے "پوؤر" کی مہر لگا دی۔ لو جی ہم سرکاری طور پر غریب غربا قرار پاگئے۔
اگلا حُکم ملا کہ روم نمبر اٹھارہ وچ ونجو۔ ہم وہاں ونجے تو آگے ای سی جی والے نے ہمارا استقبال کیا۔ اس کے علاوہ خاصے مریض بھی تھے۔ لیکن ای سی جی جلدی جلدی ہورہی تھی۔ جوتے اتارو، اوپر لیٹو، بازؤں کے بٹن کھولوں سینہ ظاہر کرو۔ وہ صاحب کوئی گوند سی چپچپی چیز لگاتے پھر ای سی جی مشین کی تاریں سینے پر جوڑنے لگتے۔ ہم سے پہلے چار لوگوں کا ہوا پھر ہماری باری آئی۔ ہم نے بڑی شان سے اپنا سینا دکھایا تودیکھنے والے ہماری پسلیاں دیکھ کر کہنے لگے تہانوں وی دل دی بیماری اے؟ تو ہم نے کہا صاحب دل ہیں، بیماری کے لیے ایک عدد دل ہونا ضروری ہے جس کے مالک ہم شروع دن سے ہیں چناچہ حیرت کاہے کی ؟
خیر ہمارا ای سی جی ہوا جسے متعلقہ بندے نے ہمارے اعمال نامے میں لگا کر روم نمبری 13 کی طرف دھکیل دیا۔ وہاں پہلے ای سی جی کرانے والے حضرات بیٹھے تھے۔ اور کمرے کی رکھوالی ایک مثلِ لیلی خاتون کے سپرد تھی جو رجسٹر کھولے مریضوں کا اندراج کررہی تھیں۔ ہمارا بھی اندراج کرکے انھوں نے کہا "بھائی بیٹھ جاؤ"۔ اور ہم بالکل ہی بہہ گئے، یعنی لیلی بھی تھی اور بے مروت بھی، سیدھا بھائی بنا ڈالا۔ خیر ہم انتظار میں بیٹھ گئے۔ پہلے حکم ملا کہ چودہ میں چلے جاؤ۔ وہاں گئے تو اندر سے حکم ملا پانچ منٹ بعد آئیے گا ڈاکٹر صاحبہ مصروف ہیں۔ ہم باہر آگئے۔ اس دوران ہم سے پیچھے والے صاحب بھی اندر آچکے تھے۔ دونوں سے اعمال نامے واپس لیے اور پھر بٹھا دیا۔ جب دوبارہ باری آئی تو ہم سے پچھلے کی باری پہلے آگئی۔ وہ باہر آئے تو ہم نے پوچھا بھیا کیا بنا۔ کہنے لگے شوگر چیک کرانے کا کہا ہے اور گولیاں لکھ دی ہیں۔ ہم جل تو جلال تو کا ورد کرتے اندر گئے تو پھر حکم ہوا پانچ منٹ بعد آئیں۔ شاید ہماری شکل پر ہی لکھا ہوا تھا کہ "انھیں پانچ منٹ بعد بُلایا جائے، اور ہر بارایسے ہی بُلایا جائے"۔۔
خیر پانچ منٹ بعد خود ہی بُلاوہ آگیا ہم اندر پدھارے۔ ایک شوخ سی ڈاکٹر صاحبہ مع ایک عدد ایکسٹرا قسم کی نرس کے ساتھ میز کی اِس جانب بیٹھی تھیں۔ شاید پروفیسر صاحب خود کہیں گئے ہوئے تھے او ریہ ان کی جگہ مریض بھُگتا رہی تھیں۔ بیٹھتے ہی ڈاکٹر صاحبہ نے ہمیں اُٹھا دیا ادھر جاکر اپنا بلڈ پریشر چیک کروائیں۔ ہم اُدھر گئے تو نرس صاحبہ نے چپس کرچتے ہوئے ہمارا بلڈ پریشر چیک کیا۔ پھر ڈاکٹر صاحبہ نے ہمارا ای سی جی دیکھا، اور پھر ہمیں دیکھا۔ "کیا مسئلہ ہے" اور ہم نے مسائل بتائے، جو اوپر بتا چکے ہیں۔ انھوں نے لمبے لمبے سانس دلوائے اور سٹیتھوسکوپ سے دل سے رازونیاز کیے۔ پھر ہماری بتائی ہوئی تفصیلات اعمال نامے پر لکھیں، جنہیں ہم آخر تک گولیوں کے نام سمجھتے رہے۔ پوچھنے لگیں سگریٹ پیتے ہوں؟ عرض کیا نہیں، پوچھا شوگر بلڈ پریشر عرض کیا نہیں۔ تو کہنے لگیں آپ کے دل کو کوئی مسئلہ نہیں، بلاوجہ دوائیں نہ کھائیں تو بہتر ہے۔ مزید چیک اپ کروانا ہو تو سول یا الائیڈ میں کروالیں۔ وہ درد دل کا درد نہیں ہے۔
اور ہم خوشی خوشی گھر کو پدھارے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے۔ پہلے ائیر کنڈیشنر خراب ہونگے، پھر عمارت ، جس کا نقشہ مسترد ہوگیا ہے پہلے ہی، کے آسے پاسے اترنے لگیں گے، پھر رنگ روغن اڑنے لگے گا، مشینیں خراب ہونگی، اور پھر یہا ں بھی سول اور الائیڈ والا حال ہوگا۔ یعنی کتنے سارے مریض، تھوڑے سے ڈاکٹر اور مزید تھوڑی سی سہولیات۔ ہاہاہاہا ہے نا گندی پاکستانی سوچ، کیا کریں دل جو پاکستانی ہے، اور جانتا ہے کہ جو چیز پاکستان میں بن جاتی ہے اس کی دیکھ بھال تو ہونی نہیں ہوتی تو پیشن گوئی کرنا کونسا مشکل کام ہے۔
تو یہ تھا ہمارا مریض ِ دل نہ ہوسکنے کا ماجرا۔ دیکھیں اگلی بار کب جانا ہوتا ہے ہسپتال۔
ENNNNNT ho yar tum bhi... shukar karo Dil ko kuch ni hua .....
جواب دیںحذف کریںآخری چند جملوں سے تو میں کُلی طور پر متفق ہوں۔ ایسا ہی ہوتا ہے ہمارے ہاں۔
جواب دیںحذف کریںHahahaha ... bohattttttt maza ayaa parh ky , dost bhiya ..bohat mazay ka likha hai... meri hansii naih rokk rehi ..
جواب دیںحذف کریںBUCHEE..
مجھے بھہوتا ہے ايک رات دو بجے ايمرجنسی ميں جانا پڑ گيا چيک اپ ہوئے يہ بھی بتا ديا انہوں نے کہ درد ہو رہا ہے مگر کيوں ہو رہا ہے انکے ليے نامعلوم تھا ہسپتال فرانس کا سب سے بڑے کارڈيالوجی وارڈ والا تھا
جواب دیںحذف کریںمبارک ہو جناب۔۔۔ آپ کا دل آپ کے پاس ہے ابھی تک!
جواب دیںحذف کریںاور بڑا اچھا بیان کیا ہے سب کچھ۔۔ آخر میں پاکستانی پیشن گوئی بھی کر دی۔۔ :پ
لیلی کے بھائی کہنے پر بھی دل کا دورہ نہیں پڑا تو مطلب ہوا کہ آپ مضبوط دل والے ہیں ۔
جواب دیںحذف کریںآپ نے تو ڈرا ہی دیا یار
جواب دیںحذف کریںاللہ کا شکر ادا کریں کہ یہ دل کی بیماری سے بچ گئے ورنہ یہ بیماری بہت خرچہ کراتی ہے لاکھوں روپے نکل جاتے ہیں اور بچنے کی امید ویسے بھی نہیں ہوتی۔کچھ صدقہ خیرات کریں
اور منہ سے شبھ شبھ نکالا کریں
یار یہ شوخ سی ڈاکٹر صاحبہ کا ذکر زیادہ ہی مختصر نہیں کردیا؟
جواب دیںحذف کریںذرا اس کی تھوڑی سی تفصیل اور فراہم کی جائے۔۔۔
اسماء اور شاکر یہ گیسٹرک پین بھی ہوسکتا ہے،ہاضمے کی کسی خرابی کی وجہ سے،مہر آپی ایسے میں نکس وامیکا 30 استعمال کرواتی ہیں ہم سب کو بہترین دوا ہے خاص کر راتوں کو جاگ کر کام کرنے والوں کے لیئے،اور تیز نمک مرچ کھانے والوں کو نیٹرم میور30
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
جواب دیںحذف کریںشکرالحمداللہ کہ آپ بال بال بچےنہیں توموئی یہ بیماری توبڑےبڑوں کاپانی پتہ کردیتی ہے۔
والسلام
جاویداقبال
بہت خوب!!!۔ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب نے بخار اترنے کا ٹیکا لگایا۔بعد میں پتہ لگا بڑے اچھے ڈاکٹر ہیں،دن کو کمپاونڈری فرماتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںلو جی ایک بات تو ہم بھول ہی گئے۔ جب ای سی جی کرانے گئے تو دو فیشن ایبل سی میک اپ شدہ خواتین بھی آئیں۔ ان کا ٹیسٹ لیڈی ڈاکٹر نے کرنا تھا۔ جب انھوں نے پرچی پکڑائی تو جواب آیا پچاس روپے دیں۔ پوچھا باقی تو مفت کرا رہے ہیں۔ جواب ملا آپ کی کیٹگری پؤر نہیں ہے۔ بے چاری بہت سٹپٹائیں اور پرچی پکڑ کر واپس مُڑ گئیں، کیٹگری تبدیل کرانے۔
جواب دیںحذف کریںاور مثلِ لیلی سے ہماری مرادی لیلی کی طرح ڈارک کلر خاتون تھی۔
میرے خیال میں بھی یہ گیسٹرک پرابلم ہی ہے۔ مجھے بھی ہوتا ہے کبھی کبھار۔
جواب دیںحذف کریںاب پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے مشورہ تو ضرور دوں گا :) سب سے پہلے کھانا کھا کر سونے سے پرہیز کریں بلکہ کمپیوٹر پر بیٹھنے سے بھی۔ ایک دو مرتبہ گلی میں چہل قدمی کر لیں تو بہتر رہے گا۔
باقی طبیعت زیادہ خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں :)