وہ دس زبانیں جانتا تھا اور سات زبانوں کا لکھاری تھا۔ اس کی 150 کتابوں میں سے سب سے زیادہ مشہور شاید اسلام کا تعارف ہے۔ اس کو 22 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس کا فرانسیسی میں قرآن کی تفسیر کے ساتھ ترجمہ اس زبان میں کسی بھی مسلمان کی ایسی پہلی کوشش تھی، اور اس کے بعد اس کے قریبًا بیس ایڈیشن شائع ہوئے۔ کتاب مقدس کے اس فرانسیسی ترجمے اور اس کی ان تھک کوششوں نے یورپیوں خصوصًا فرانسیسیوں کو بڑی تعداد میں اسلام کی طرف مائل کیا۔ بہت سے اس تعداد کو تیس ہزار بیان کرتے ہیں جو کہ شاید مبالغہ ہے۔ انھوں نے یورپی جامعات سے دو پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں اور اپنی زندگی اسلام اور مسلم معاشرے کے لیے وقف کرتے ہوئےعشروں تک درس و تدیس کی۔
جہاں تک احادیث کی بات ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر فرانسیسی میں دو جلدی کتاب لکھنے اور ان ﷺ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بڑی تعداد میں مختلف زبانوں میں تھقیقی مضامین لکھنے کے علاوہ، ان کی عظیم محققانہ دریافت وہ تیرہ سو سال پرانا نسخہ تھا جو احادیث کا ایک مجموعہ تھا۔ انھوں نے اس انتہائی نایاب کتاب کو برلن لائبریری کے اندھیرے کونوں میں دریافت کیا اور اسے روشنی میں لے کر آئے۔
احادیث کے سب سے پہلے لکھے ہوئے مجموعوں میں شمار ہونے والی یہ دستاویز صحیفہ همام بن منیبہ کے طور پر جانی جاتی ہے جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (58 ہجری بمطابق 677 عیسوی) اپنے طلباء کو پڑھانے کے لیے تیار کیا تھا۔ اس عظیم محقق کا نام جس نے پیرس میں زاہدانہ زندگی گزاری، ڈاکٹر محمد حمید اللہ تھا۔
میں نے ڈاکٹر حمید اللہ کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں اور خصوصًا ان کی کتاب خطبات بہاولپور سے بہت متاثر ہوا، اس کا انگریزی میں ترجمہ اسلام کی آمد کے نام سے کیا گیا ہے۔ چناچہ دسمبر 2002 میں ان کی موت کی المناک خبر سن کر میں ایک نجی جامعہ میں یہ غم اپنے طلباء کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا تھا۔ ان کے بارے میں میرے تاثرات حیرت اور لاعلمی سے سنے گئے۔ جب انھوں نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر حمید اللہ جیسے عظیم محقق کو نہیں جانتے تھے، تو میں نے پوچھا کیا وہ یہ جانتے ہیں کہ امیتابھ بچن کون ہے؟ اب کی بار آواز بہت بُلند اور مشترکہ ہاں تھی۔
ڈاکٹر حمید اللہ 19 فروری 1908 میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد خلیل اللہ بھی ایک ادیب اور عالم تھے۔ ان کے دادا محمد صبغت اللہ نے 29 عربی، 24 فارسی اور 14 اردو کتابیں لکھیں اور ان کا شمار عظیم علماء میں ہوتا ہے۔ اسلام علم قانون میں ایم اے اور ایل ایل بی کی سند جامعہ عثمانیہ سے 1930 میں حاصل کرنے کے بعد محمد حمید اللہ نے ایم فل کی ڈگری بون یونیورسٹی جرمنی سے حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری سوربون یونیورسٹی پیرس سے۔ 1935 میں اپنے آبائی شہر آنے کے بعد انھوں نے جامعہ عثمانیہ میں بطور لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسر 1948 تک خدمات سرانجام دیں۔
جس سال انڈیا نے ریاست حیدرآباد پر قبضہ کیا، ڈاکٹر حمید اللہ ڈاکٹر یوسف حسین کے ساتھ یورپ چلے گئے تاکہ ریاست کا کیس اقوام عالم کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ واپس آتے ہوئے حمید اللہ پیرس میں اس کام کے لیے (جو انھوں نے اپنی بقیہ زندگی سرانجام دیا، یعنی اسلام کی خدمت) ٹھہر گئے۔ پیرس میں انھوں نے نیشنل سینٹر آف سائنٹیفک ریسرچ میں شمولیت اختیار کرلی اور جرمنی، فرانس، ترکی کی جامعات میں بطور گشتی پروفیسر پڑھانا شروع کردیا۔
1949 میں بہت سے علماء کو پاکستانی حکومت کی آئین سازی کے معاملے میں رہنمائی کرنے کے لیے دعوت دی گئی۔ ان علماء میں علامہ محمد اسد اور ڈاکٹر حمید اللہ بھی شامل تھے۔ یہ گہرے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ کچھ ہی عرصے بعد دونوں پاکستانی بیوروکریسی کی آئیں بائیں شائیں سے تنگ آکر پاکستان سے چلے گئے۔ لیکن پاکستان میں اپنے مختصر قیام کے دوران، انھوں نے نیک نیتی سے پاکستان کی خدمت کرنے کی کوشش کی اور کراچی میں ’حیدرآباد کی جلاوطن حکومت‘ قائم کرنے میں بھی مدد کی۔ اس اقدام کو ہماری وزارت خارجہ نے شرف قبولیت نہ بخشا اور یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ ڈاکٹر حمید اللہ پیرس میں مقیم ہوگئے اگرچہ وہ فرانس کے شہری نہ تھے اور نہ ان کے پاس وہاں کا پاسپورٹ تھا۔ وہ اپنے آخری وقت تک بےوطن رہے۔ درھقیقت ان کو ایک بین الاقوامی پناہ گزین قرار دے دیا گیا تھا، اور اس طرح وہ ہر دیس کے شہری بن گئے۔
انگریزی میں ڈاکٹر صاحب کی تصنیفات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگیں، دنیا کا پہلا لکھا ہوا آئین، ریاست کا اسلامی رویہ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مسلم خاتون، روزہ کیوں رکھیں؟، حدیث کی سب سے پہلی تدوین اور بہت سی کتب شامل ہیں۔ وہ اپنے تحقیقی کام کے بارے میں کوئی فخر و غرور نہ رکھتے تھے، اگرچہ انھوں نے تن تنہاسات زبانوں میں تھقیقی کام کیا۔ ان کے کچھ تحقیقی کام منفرد نوعیت کے تھے جو پہلے کبھی نہ کیے گئے، جیسا کہ ابتدائی ترین احادیث کا مخطوطہ۔
1980 میں بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی میں ان کے دئیے لیکچرز اسلام کے کچھ بنیادی پہلوؤں اور اس کی ابتدائی تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں۔ فی البدیہہ دئیے جانے والے یہ لیکچرز برسوں کی تحقیق اور دوسرے علم کا فی الواقع آسان زبان میں نچوڑ تھے۔ اردو میں سن کر لکھے جانے والے اور خطبات بہاولپور کے نام سے چھپنے والے یہ لیکچرز دوسری کئی چیزوں کے علاوہ اس بات پر مشتمل تھے کہ قرآن و حدیث کو کیسے جمع کیا گیا اور ان کی تدوین کی گئی۔
ان کے دوسرے تھقیقی کام فرانسیسی، جرمن، عربی، فارسی اور ترکی زبان میں ہیں۔
ان کے سائنسی اور تحقیقی کاموں نے مستشرقین اور یورپی قارئین کو اسلام کے ایک مختلف نظارے سے روشناس کروایا جو کہ ان کی بنائی ہوئی اسلام کی یکطرفہ تصویر سے یکسر مختلف تھا، جس میں صوفیانہ رواجوں پر زور، گھومتے درویش اور دیومالائی قسم کے نظریات شامل تھے۔ ڈاکٹر حمید اللہ اپنی تحاریر میں اسلام کے گرد کھڑی دیومالاؤں کو پاش پاش کردیتے ہیں اور قاری کو یہ دکھاتے ہیں کہ اسلام کتنا انسان شناس، سائنسی اور منطقی مذہب ہے۔ وہ اسلام کے ایک خاموش سپاہی اور اسلامی دنیا میں منفرد عالم تھے۔ اگرچہ انھوں نے اسلام اور علم و ادب کی خدمت بہت سارے طریقوں سے کی اور سب سے پہلے لکھے جانے والے احادیث کے مجموعے کی دریافت شاید ان کی خدمات میں سب سے اہم تھی، تاہم انھوں نے طبع زاد عربی تصانیف کی تدوین، ترجمہ اور اشاعت بھی کی اور انھیں ان زبانوں کے ماہرین علم و ادب کے سامنے پیش بھی کیا۔
یہ بہت حوصلہ افزاء تھا کہ ان کی وفات کی بعد نہ صرف ان کے تحقیقاتی کاموں کو دوبارہ شائع کیا گیا، بلکہ انھیں انڈیا اور پاکستان کے سکالروں نے اپنی کتابوں میں ولولہ انگیز خراج تحسین بھی پیش کیا۔ کچھ پرچوں نے ان پر خصوصی نمبر نکالے۔ ان میں سے نمایاں یہ ہیں: معارف اسلامی، دعوہ، فکر و نظر، اورئینٹل کالج میگزین، شاداب۔ ان کی زندگی اور علمی کام پر تین کتابیں لکھی اور شائع کی گئی ہیں: ڈاکٹر محمد حمید اللہ از راشد شیخ، آثارِ ڈاکٹر حمید اللہ از صفدر حسین اور مجددِ علومِ سیرت از غتریف شہباز۔ اسی طرح سید قاسم محمود، محمد عالم مختارِ حق اور کچھ دوسرے سکالرز نے بھی ان پر مضامین اور تحقیقی مضامین لکھے اور انھیں کتابی شکل میں شائع کیا۔ لیکن انسان محسوس کرتا ہےڈاکٹر صاھب کے سینکڑوں مضامین جو بکھرے ہوئے ہیں اور عام قاری کی پہنچ سے باہر ہیں، انھیں جمع اور شائع کیا جائے کیونکہ ان کے رتبے کا عالم، علماء میں بھی کم ہی دیکھنے میں آتا ہے اور ان کا ہر لفظ بہت قیمتی اور سنبھال لیے جانے کا متقاضی ہے۔
وہ 17 دسمبر 2002 کو جیکسن ولا، فلوریڈا، یو ایس اے میں وفات پا گئے اور انھیں چیپل ہِل، فلوریڈا کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
نوٹ: یہ تحریر میرے انداز میں نہیں لکھی گئی، اتنا تو آپ سمجھ گئے ہونگے۔چونکہ فدوی مترجم کا کام بھی کرتا ہے اور یہ ہماری مترجمانہ افتاد طبع کا نتیجہ ہے۔ اصل تحریر ڈان کا ایک آرٹیکل تھا جس کا اردو ترجمہ عدنان مسعود کی اس تحریر سے متاثر ہوکر کیا گیا۔ ایک عرصے سے ترجمہ شدہ تحاریر کو زینت بلاگ بنانے کا ارادہ تھا آج اس کی شروعات ہو ہی گئی۔ اور اس سلسلے میں عادت مجھے روشنی میگزین نے ڈالی ہے کہ آرٹیکلز و مضامین کا ترجمہ کرکے شائع کیا جائے۔ روشنی میگزین اردو زبان میں علم و دانش کے فروغ کے لیے ایک اچھی کاوش ہے، اور میں ان کی ویب سائٹ لانچ ہونے سے پہلے سے ان کے ساتھ بطور مترجم وابستہ ہوں۔ میری ترجمہ کی گئی تحاریر کونسی ہیں، وہاں جاکر پڑھ لیں شاید آپ میرا اُسلوب پہچان سکیں۔۔ چونکہ یہ تحاریر ان کی ملکیت ہیں اس لیے میں یہ بھی نہیں بتاؤں گا کہ کونسا ترجمہ میں نے کیا ہے۔ میرے بلاگ پر میری اپنی منتخب شدہ تحاریر کا ترجمہ شائع ہوگا، جو مجھے اچھی لگا کریں گی۔ اس تحریر کا ترجمہ کرنے کا ایک اور مقصد یہ درخواست بھی تھی کہ اگر کسی دوسر کے پاس ڈاکٹر صاحب کی کتب کی ای بکس ہوں، انگریزی کتب کی، کسی آنلائن لائبریری سے دلا سکیں یا سکین کرکے مہیا کرسکیں، تو میں مشکور ہونگا، میں ان کا ترجمہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے میرا علم بھی بڑھے گا اور اردو و اسلام کی خدمت بھی ہوگی۔ اور ہاں آپ مجھ سے ترجمہ کروانا چاہیں تو میرا کام ہی یہ ہے۔ :-)
اس تفصیل کے لئے شکریہ شاکر ۔ ڈاکٹر صاحب کی اردو کتب یا کتب کا اردو ترجمہ انٹرنیٹ پر کہیں دستیاب ہیں ؟
جواب دیںحذف کریںوسلام
بھیا یہی تو ہے نہیں میرے خیال سے، اس لیے انگریزی کتب کے ترجمے کا سوچا ہے۔ لیکن اگر کوئی مجھے انگریزی کتابیں مہیا کرسکے تو۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب!
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی کاوش ہے. جاری رکھیے.
بہت بہت شکریہ دوست۔
جواب دیںحذف کریںکل عدنان مسعود کی تحریر بھی پڑھی تھی تو ان سے بھی یہی کہا تھا کہ ان کے بارے مین مزید معلومات شیئر کریں۔ آپ نے بہت اچھا کیا جو یہ تحریر لکھی۔ اس سلسلے میں مزید کا منتظر رہوں گا۔ْ
بہت خوب شاکر بھائی۔ میرے خیال میں ترجمہ کاری کا کام بلاگستان پر بلاگرز کی موجودہ سرگرمیوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہی میں نے اردو وکیپیڈیا پر لکھنا شروع کیا اور انگریزی وکیپیڈیا کے مضامین ترجمہ کر کے پیش کرتا رہا۔
جواب دیںحذف کریںڈاکٹر صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ بلاشبہ دنیا کا سب سے بڑا احادیث کا نسخہ تلاش کرنا تھا۔ حضرت ہمام ابن منبہ معروف محدث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس کارنامے سے منکرین حدیث کے "دلائل" کو زبردست ٹھیس پہنچی۔
ڈاکٹر صاحب نے آخری ایام بڑی مشکل سے کاٹے۔ نامعلوم افراد (غالبا حکومت فرانس) نے ان کے بینک کھاتے کو خالی کرا دیا۔ خود دار آدمی تھے، کئی روز بھوکے رہے لیکن کسی کے سامنے اپنی مشکل عرض نہ کی۔ پھر ان کے کتب خانے سے، جو انہیں جان سے زیادہ عزیز تھا، کئی قیمتی کتب چوری ہو گئیں۔ شاید یہ صدمہ نہ سہہ پائے اور علیل ہو گئے۔ پاکستان نے خورشید احمد صاحب نے رابطہ کیا کہ محترم، آپ پاکستان آ جائیے، ہمیں آپ کی خدمت کا موقع ملے گا لیکن انہوں نے فرمایا کہ وہ امریکہ میں اپنی ایک عزیزہ کے ہاں جانے کا قصد کر چکے ہیں اور انہیں کہہ بھی چکے ہیں، اس لیے اب پاکستان آنا ممکن نہ ہوگا۔ یوں وہ امریکہ چلے گئے جہاں کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد انتقال فرما گئے۔
علالت سے قبل شاید نواز شریف کے دور میں آپ پاکستان آئے تھے۔ کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے۔ اور بہاولپور آمد تو مشہور ہے ان کی، خطبات بہاولپور اسی کی یادگار ہیں۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ 1948ء میں غصے میں آ کر چلے گئے تھے۔ ایسی بات نہ تھی، انہیں اپنے بہت سارے کام کرنے تھے۔ اور یہاں بیورو کریسی اور ملا مافیا کے ساتھ بیٹھ کر وہ اپنا وقت ضایع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ جب وہ اپنا طے کردہ وقت گزار چکے تو انہوں نے مزید وقت ضایع کرنا مناسب نہ سمجھا اور واپس فرانس چلے گئے۔
اللہ ان کے درجات کو بلند کرے اور ہمیں ان کی راہ پر چلنے اور ان کی تعلیمات کو سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین۔
بہت اچھی اور معلوماتی تحریر ہے۔
جواب دیںحذف کریںمیری بھی مرحوم ڈاکٹر حمیداللہ سے آشنائی ہے، ان کی تصانیف کے ذریعے۔ ان کی تحقیقات میں، نبی اکرم کے خطوط پر کی گئی تحقیق بھی ایک منفرد اور اعلا کام ہے، جسے آگے بڑھانے کی کوشش کررہا ہوں۔
ایک بات ان کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس کا شاید ہر کسی کو احساس نہ ہو۔
چونکہ میرا کام تحقیق ہے، جو کتاب پڑھتا ہوں، اس کے حوالے ضرور چیک کرتا ہوں، بہت پیش آتا ہے کہ کتابوں میں، چند ایک حوالے غلط، ناقص یا بے بنیاد ہوتے ہیں۔ لیکن مرحوم حمیداللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کی کتابوں کا کوئی حوالہ بھی غلط نہیں ہوتا۔ اس بات کی طرف مجھے میرے والد علام نے متوجہ کیا۔ جب اس کی کھوج لگائی تو دیکھا کہ واقعا مرحوم ڈاکٹر حمیداللہ، حوالوں میں نہایت امانت دار اور محتاط تھے۔
برادران ! عرض یہ ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی سیرت پر کتاب کا اردو ترجمہ پاکستان میں دستیاب ہے ۔آپ کی اردو کتب، خطبات بھاولپور،نبی اکرم ص کی سیاسی ذندگی،نبی اکم کی حکمرانی اور جان نشینی،نسخہ ہمام بن منبہ،پاکستان میں دستیاب ہیں
جواب دیںحذف کریںبڑی مہربانی ابوشامل حوصلہ افزائی کی، فاضل اگر آپ کے پاس کوئی انگریزی کتاب ہو تو عنایت فرمائیں ڈاکٹر صاحب کی۔
جواب دیںحذف کریںمیرے پاس ان کی اردو اور فرانسیسی تصنیفات موجود ہیں۔ لیکن انگریزی میں کوئی کتاب نہیں، پھر بھی والد صاحب کے کتبخانے میں دیکھ لوں گا شاید کوئی مل جائے۔
جواب دیںحذف کریںجی بہت شکریہ، آج ہی میرے یونیورسٹی کے ایک اُستاد نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کی تمام کتب کا ترجمہ اسلامک ریلیشن انٹرنیشنل، جو کہ عالمی اسلامی یونیورسٹی کا ذیلی ادارہ ہے، نے کردیا ہے اور دستیاب ہے۔
جواب دیںحذف کریںپچھلے تبصرے میں نے غلطی سے "سب سے پرانے حدیث کے نسخے" کو غلطی سے "سب سے بڑا حدیث کا نسخہ" لکھ دیا ہے۔ اس سہو پر معذرت۔
جواب دیںحذف کریںدوسری بات جہاں تک ان کی کتابوں کے ترجمے کا ذکر ہے تو میرے خیال میں اس وقت ان کی تمام قابل ذکر کتب کا ترجمہ ہو چکا ہے، جیسا کہ شاکر بھائی آپ نے خود بھی بتایا۔
دراصل حکومت پاکستان نے انہیں ضیاء الحق کے دور میں سب سے اعلی سول اعزاز، ہلال پاکستان، سے نوازا تھا۔ اور اس اعزاز کے ساتھ جو نقد رقم ملی تھی ڈاکٹر صاحب وہ تمام کی تمام بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کو عطیہ کر گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی لائبریری آج ڈاکٹر حمید اللہ سے موسوم ہے اور انہوں نے ان کی تمام کتب کا ترجمہ بھی کیا ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
جواب دیںحذف کریںبہت خوب شاکربھائی، بہت اچھاترجمہ کیااورہمیں ڈاکٹرصاحب کےمتعلق معلومات فراہم کیں ۔ اللہ تعالی انکوجنت فردوس میں جگہ دے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب دیںحذف کریںڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب بیکن بکس پر دستیاب ہیں