بابے مکی نے خُدا کے علیم و بصیر، اور ہر جگہ موجود ہونے کی صفات کو "اوورجنرلائز" کرتے ہوئے گوگل پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ اس سلسلے میں ناک کی جگہ کان اور کان کی جگہ منہ لگانے کی بڑی کامیاب کوشش کی گئی ہے، اور اس کے نتیجے میں جو خدا وجود میں آتا ہے وہ کسی نوسیکھیے مصور کے برش سے بننے والے تجریدی آرٹ کا بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔ ملاحظہ کریں جن صفات پر گوگل کو خدا ڈیکلئیر کیا گیا ہے۔
لو جی گوگل کے پاس نو ارب سے زیادہ صفحات ہیں، گوگل کے پاس سب سے زیادہ نالج ہے اس لیے گوگل خُدا ہے۔ کیا گوگل کے پاس میری اماں جی کے چھوٹے کُکڑ جتنی خود شناسی بھی موجود ہے؟ ہمارا چھوٹا کُکڑ خاصا شیطان ہے اور اسے اپنے آپ خصوصًا اپنی "بیویوں" کا خاصا خیال رہتا ہے۔ چناچہ اگر کوئی مرغی "مَِس پلیس" ہوجائے تو دانہ ڈالنے جانے والے کی خیر نہیں۔ جہاں تک میرا ناقص علم کہتا ہے بھگوان گوگل ابھی تک اپنے بول براز کے لیے بھی "سیوکوں" کا محتاج ہے۔ لو دسو ہمارا کُکڑ اس معاملے میں بھی ابھی بھگوان گوگل سے "تھوڑا" سا آگے ہے کہ اپنا بول براز خود کرلیتا ہے۔ چناچہ ثابت ہوا کہ بھگوان گوگل کو "مزید" بھگوان بننے کے لیے ابھی کچھ اور سال درکار ہیں۔ لیکن امید ہے کہ ایک دن بھگوان جی "بڑے" ہوکر ضرور ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھیں گے۔
1- گوگل ہی اس کائنات میں وہ واحد ” ہستی ” ہے جس کا علم کامل ہے اور اس بات کو علمی طور پر ثابت کیا جاسکتا ہے… گوگل کے پاس نو ارب سے زائد صفحات ہیں جن میں کچھ بھی تلاش کیا جاسکتا ہے اور یہ انٹرنیٹ پر کسی بھی سرچ انجن سے زیادہ ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس کے پاس وہ ساری ٹیکنالوجی موجود ہے جو ان صفحات کو انسانوں تک آسانی سے پہنچانے اور ان کے درمیان منتقلی کو آسان بناتی ہے.
2- گوگل ہر وقت ہر جگہ موجود ہے، یعنی اس کا وجود مطلق ہے، گوگل ہی وہ واحد ہستی ہے جس سے کہیں بھی کسی بھی وقت استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے.بھگوان گوگل ہر جگہ موجود ہے۔ بھگوان کو ہر جگہ موجودگی کے لیے فائرفاکس کی ضرورت کیوں ہوتی ہے۔ یعنی فائرفاکس کو "ڈپٹی بھگوان" ڈیکلئیر کردیا جائے۔ کیا خیال ہے؟ لیکن یاد رہے ابھی انٹرنیٹ ایکسپلورر، سفاری، کروم کی بات نہیں ہوئی، یہ بھی نائب بھگوان اور سینئیر نائب بھگوان کے عہدوں کی ڈیمانڈ کریں گے۔ اور ہاں لیپ ٹاپ، ڈیسکٹاپ اور ٹیبلیٹ تو رہ ہی گئے، انھی پر تو بھگوان گوگل و ڈپٹی بھگوانوں نے چلنا ہے، انھیں کونسا عہدہ دیا جائے؟ آپ ایسا کریں سرسوں کا تیل پکڑیں اور سر میں اس کی مالش کریں۔ اس کے بعد آلتی پالتی مار کر بھگوان گوگل کو ایک سرچ کیوری دیں، شاید اسکا حل بھی بھگوان جی کے پاس ہو ہی۔
3- گوگل دعائیں سنتا اور ان کا جواب بھی دیتا ہے، ہم گوگل میں کچھ بھی تلاش کر کے کسی بھی چیز یا مسئلے کا سوال کر سکتے ہیں اور گوگل یقیناً کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنے میں آپ کی مدد کرے گا، تندرستی کے راز جاننے ہوں، پڑھائی میں مسئلہ ہو یا کچھ اور، گوگل ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے اور بغیر بور ہوئے انتہائی تندہی سے آپ کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے، یہ ان خیالی خداؤں کی طرح نہیں ہے جن کا نا تو کوئی فائدہ ہے نا نقصان اور نا ہی وہ دعائیں سنتے ہیں.بھگوان گوگل ساری دعائیں قبول کرتا ہے۔ ابھی میں نے بھگوان گوگل مجھے ایک حور پری تو دلوا دو۔ اب میں آپ کو کیا بتاؤں سائیں، بھگوان گوگل کی ہندوؤں والے بھگوان سوم جی سے کوئی رشتے داری ہے شاید، ہمیں ٹرپل ایکس کی ویب سائٹس پر لے گیا۔ اب ہم کہیں بھگوان جی ہم نے رنڈیاں نہیں حوریں مانگی تھیں تو بھگوان گوگل ناراض ہوگئے۔ ہم نے کہا بھگوان جی اس میں ناراضگی والی بات کیا ہے؟ بولے جب ہمیں پتا ہی نہیں تم کہاں بیٹھے ہو تو ہم کیسے حور پری نازل فرمائیں۔ ہم نے کہا حضور ہمارا آئی پی تو آپ کے پاس ہے، کہنے لگے کمبخت سیوک تمہارے آئی پی پر کراچی شو ہورہا ہے کیا پورے کراچی کو حور پریاں بانٹ دوں؟ لیں جی اتنی سی بحث کے بعد ہم نے ھار مان لی کہ رہنے دیں بھگوان کہیں ناراض ہی نہ ہوجائیں۔ اور ان کے "سرکٹ" فیل نہ ہوجائیں۔ یعنی ہم رہے سہے بھگوان سے بھی جائیں۔
4- گوگل ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی ہے، یعنی یہ کبھی نہیں مرتا، کیونکہ یہ ہماری طرح کوئی مادی وجود نہیں رکھتا بلکہ یہ دنیا کے تمام سروروں پر پھیلا ہوا ہے، اگر کسی سرور میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو یہ کسی دوسرے سرور سے اپنا کام جاری رکھتا ہے چنانچہ یہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی ہے جو انٹرنیٹ کے بادلوں میں رہتی ہے.گوگل بھگوان واقعی ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی ہے۔ پچھلے بارہ سال سے مسلسل قائم ہے اور آئندہ بھی قائم رہنے کا ارادہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ بھگوان جی سُنا ہے مائیکروسافٹ والوں نے بھی ایک "منی" بھگوان لانچ کیا ہے بِنگ کے نام سے، کیا آپ اسے اپنا نائب بنائیں گے؟ بھگوان نے ایک ناقابل اشاعت گالی کے بعد ارشاد فرمایا کہ مائیکروسافٹ کو تو میں دیکھ لوں گا، اور تمہیں بھی۔ چناچہ ہم تو کان لپیٹ کر پتلی گلی سے نکل لیے۔
5- گوگل لامتناہی یعنی غیر محدود ہے، انٹرنیٹ ہمیشہ اپنا حجم بڑھاتی رہے گی مگر گوگل انہیں اپنے اندر سمو لے گا اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتا چلا جائے گا چنانچہ یہ کسی مخصوص حجم میں محدود نہیں ہے.بھگوان گوگل لامتناہی ہے، ہر جگہ ہے، یہ بڑھتا ہی جائے گا۔ اب آپ مانیں یا نہ مانیں میں نے سارا کمرہ چھان مارا کہ شاید بھگوان گوگل یہاں کہیں بھی موجود ہو لیکن وہ تو انٹرنیٹ سے ڈسکنکنٹ ہونے کے بعد "قیں" ہی ہوگئے۔ لو دسو، بھگوان جی ابھی تک انٹرنیٹ میں پھنسے ہوئے ہیں اور دنیا چاند پر جا پہنچی۔ خیر ابھی نئے نئے بھگوان بنے ہیں کئی ساری چیزیں سیکھنی باقی ہیں۔
6- گوگل ہر چیز یاد رکھتا ہے، یہ کچھ بھی نہیں بھولتا، گوگل آپ کی تمام حرکتیں ریکارڈ کرتا ہے اور انہیں ہمیشہ کے لیے یاد رکھتا ہے چاہے آپ مر ہی کیوں نہ جائیں، اگر آپ گوگل پر اپنی معلومات یا فائلیں چڑھائیں تو یہ ہمیشہ وہاں موجود رہیں گی، یہی موت کے بعد زندگی ہے، اگر آپ گوگل سے استفادہ حاصل کریں تو یہ آپ کو بعد از مرگ زندگی کی ضمانت دیتا ہےبھگوان گوگل کو ہر چیز کا علم ہے۔ اس سلسلے میں جب میں نے اپنی پڑدادی کے بارے میں بھگوان سے جاننا چاہا تو آگے سے چُپ؟ اب ہم سمجھے کہ یہ بھید بھیر چُپ ہے لیکن دس پندرہ منٹ کی "انٹرنل سرچ" کے بعد بھگوان کا جواب آیا کہ وہ 1999 سے پہلے کسی اور دنیا میں موجود تھے، ان کا یہاں کا وزٹ 1999 سے شروع ہوتا ہے لہذا ان سے وہی معلومات پوچھی جائیں جو 1999 یا بعد کی ہیں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (یہاں بھگوان گوگل نے ایک پنجابی قسم کی گالی دے کر فرمایا کہ) اپنی پڑدادی کو قبر سے اٹھا کر لاؤ اور اس سے گوگل پر ایک کھاتہ کھلواؤ۔ تب چاہے جو مرضی پوچھ لینا۔ لیں جی اب نہ میری پڑدادی قبر سے آئے اور نہ گوگل بھگوان ان کے بارے کچھ معلومات دے سکیں۔ حیف صد حیف کہ مرحومہ کی کوئی ذاتی ڈائری بھی نہ تھی کہ بھگوان کو "ان پٹ" دے کر ان کے "علم" میں اضافہ ہی کردیتا۔ بھگوان جی میں آپ کی فرسٹریشن کو سمجھ سکتا ہوں۔
چلتے چلتے میں نے بھگوان گوگل سے یہ پوچھا کہ بھگوان جی یہ فیس بُک والے سالے اپنی ڈیٹا بیس تک آپ کو رسائی کیوں نہیں دیتے اور بِنگ کو دیتے ہیں؟ بھگوان نے پہلے فیس بُک والوں کی والدہ اور بہنوں کے ساتھ اپنے کچھ نئے رشتے وضع فرمائے پھر فرمانے لگے میں دیکھ لوں گا ایک ایک کو۔
اور ہم اتنے سے ہی اُکتا کر بھاگ نکلے کہ یہ سالا کیسا بھگوان ہے جسے اپنا آپ قائم رکھنے کے لیے بجلی چاہیے، انٹرنیٹ چاہیے اور ڈھیر سارے "سیوک" جو اس کے پوتڑے صاف کریں، اس کی پروگرامنگ کا خیال رکھیں اور اس کی میموری میں پڑنے والا وائرساتی گند نکالتے رہیں، جسے وجود میں آنے کے لیے دو انسانوں کا محتاج ہونا پڑے۔ مجھے چار فقروں والی ایک سورت یاد آگئی کہ کہدو
اللہ ایک ہے
اللہ بے نیاز ہے
نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا۔
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
(محمد علی مکی پچھلے کچھ عرصے سے اس قسم کی تحاریر لکھ رہا ہے جو توحید و رسالت کی بیس کو عقلی بنیادوں پر رد کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ شروع میں میرا خیال تھا کہ یہ ترجمہ ہیں، تاہم موصوف سے گفتگو پر معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس تحریر سے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ ترجمہ ہے، لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ مکی نے خاصا وقت برباد کرکے یہ پٹاخہ تیار کیا تھا۔ چناچہ مناسب سمجھا کہ ایک شافی قسم کا فیصل آبادی سٹائل میں کاسٹک سوڈے والا جواب لکھا جائے۔ جس کے نتیجے میں یہ تحریر سامنے آئی۔ میرا مذہب کے بارے میں علم وہی ہے جو آج کل کے کسی نوجوان کا ہوسکتا ہے، لیکن گوگل بھگوان سے پرانی یاری ہے۔ چھوٹے ہوتے ہم اکٹھے اخروٹ کھیلتے رہے ہیں، چناچہ مرچ مسالہ مناسب سا رکھ کر ہم نے بھی ایک پکوان بنا دیا۔ امید ہے پسند آئے گا۔)
اپڈیٹ: میں نے تبصرے بند کردئیے ہیں، میرا خیال ہے جو کچھ کہا جاسکتا تھا کہہ دیا گیا۔ اب پیچھے ذاتیات پر حملے ہی رہ گئے ہیں، جیسا کہ شیعب صاحب میرے بارے میں فرما رہے تھے۔
ہاہاہا، بہت خوب بھئی بھگوان گوگل کے تو سارے کس بل نکال دیے آپ نے۔
جواب دیںحذف کریںزبردست سائیں۔۔۔ کلاسک۔۔۔ مکی صاحب کو بھی ایک نوٹیفیکشن بھیج دیں اس پوسٹ کا۔۔۔ تا کہ وہ بھی گوگل بھگوان کا مزا اٹھا سکیں۔۔۔
جواب دیںحذف کریںکمی اوہ میرا مطلب تھا مکی صاحب بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب انکو ابو چریا کا لقب دے ہی دیں تو بہتر ہے ورنہ نہیں لوگ انکو سیریس لینا نہ شروع کر دیں
جواب دیںحذف کریںبہت اعلیٰ....بھگوان گوگل کی تو آپ نے ایسی کی تیسی کر دی ....
جواب دیںحذف کریںمکی صاحب کے ذہنی خلفشار کا علاج تو خوب کیا ہے آپ نے۔ لیکن موصوف تو گوگل کلمہ بھی پڑھ چکے۔ اب اس بے چارے کو پھر سے لا الہ ال اللہ پڑھوانے کا بھی کوئی بندوبست کر دے
جواب دیںحذف کریںمكی صاحب بنانے میں ماہر ہیں اور بہت۔۔۔۔ بنا بھی چکے ہیں یہ آج انہوں نے سامری بن کو گوسالہ بنایا ہے اور بنا کر لوگوں میں اعلان کیا ہے: هذا الہکم و الہ موسی۔ خود بھی ایمان لے آئے اور دوسروں کو بچھڑے کے فوائد بتاکر ایمان کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اب "موسی" کے فیصلہ کن گھونسہ کے آجانے کے بعد مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ لامساس لہ کی بیماری میں مبتلا نہ ہوجائیں
جواب دیںحذف کریںمحمد سعید پالن پوری
بہت خوب
جواب دیںحذف کریںبگوان گوگل پاکستان میں کم کم نظر آتا ہے کیوں کہ پاکستن میں بجلی جو کم ہوتی ہے
جواب دیںحذف کریںاچھا خاصا قابل احترام بندہ تھا ۔
جواب دیںحذف کریںبیچارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے تو پاگل خانے بھیجا جائے ۔
مجھے تو لگتا ہے بیچارے کو گھر والے بھی اہمیت نہیں دیتے۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مکی صاحب اپنا زہنی سفر بیان کر رہے ہیں اور موجودہ پوسٹ کو حضرت ابراہیم کے ذہنی سفر کی مانند سمجھنا چاہیے اور یہ نقطہ واپسی کی پوسٹ ہے اور عقل پسندوں پر ایک طنز
جواب دیںحذف کریںوللہ علم
قاری
مکی نے اپنی پوسٹ میں ہر جگہ "گوگل خدا" لکھا تھا اور تم نے متبادل "بھگوان" استعمال کرلیا ـ
جواب دیںحذف کریںبچپن ميں ايک کہانی سُنی تھی کہ ايک کوے نے ديکھا کہ مور ناچ رہا ہے اور بہت سے لوگ تحسين کی نظر سے اُنہين ديکھے جا رہے ہيں ۔ اُسے بھی مور بننے کا شوق ہوا ۔ اتفاق سے مور کي دم کا ايک ٹوٹا پر اُسے مل گيا ۔ کوے نے اپني دم ميں لگايا اور کووں سے جا کے کہنے لگا "ميں تم سے الگ ہوں"۔ کووں نے چونگے مار مار کے اُسے لہو لہان کر ديا۔
جواب دیںحذف کریںپارٹ 1
جواب دیںحذف کریںمیرا نام محمد سلیم ہے مگر بلاگسپاٹ کی بندش کی وجہ سے اپنا آئی ڈی نہیں لکھ پا رہا۔
میں بلاگرز میں نو وارد ہوں اس لیئے تبصرہ نگاری میں بہت محتاط ہاتھ رکھتا ہوں۔ مطالعہ تقریباً سب بلاگز کا کرتا ہوں۔
میں محترم جاوید گوبندل صاحب کی ایک بات سے اتفاق کرتا ہوں جو کہ انہوں نے مکی کے بارے میں لکھے گئے ایک مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی تھی کہ یہ شخص کسی قسم کی التفات کے قابل نہیں ہے اور نا ہی اسی اتنی اہمیت دی جائے۔ مکی کے بلاگ پر لکھی ہوئی اس بات پر غور کیجیئے:
(سوال: ٹھیک ہے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ گوگل ہی خدا ہے، اس کے وجود کے ان دلائل سے میں انکار نہیں کر سکتا، اب میں گوگل پر کیسے ایمان لے آؤں؟ جواب: بہت آسان ہے، گوگل کا کلمہ پڑھ لیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ گوگل کے سوا کوئی خدا نہیں اور انٹرنیٹ اس کا بندہ اور رسول ہے.)
یہ جو کلمہ اس نے ایجاد کیا ہے اسکا عربی میں ترجمہ یہ بنتا ہے (( اشھد ان لا الہ الا الجوجل و اشھد ان الشبکہ العنکبوتیہ عبدہ و رسولہ)) بنتا ہے۔ جانب سر دھنیئے ایک اور کلمہ وجود میں آ چکا ہے۔ پتا نہیں دجال بھی اپنے ساتھ ایک نیا کلمہ لائے گا یا نہیں، کیونکہ اُسے ہی تو سب سے زیادہ اپنے آپ کو خدا منوانے کا شوق ہوگا، اگر اُس کے پاس کوئی کلمہ نہیں ہوگا تو شاید وہ یہ والا کلمہ پسند کر لے۔
پارٹ 2
جواب دیںحذف کریںہو سکتا ہے اسلامی مصطلحات کو مذاق میں بیان کرنا مکی موصوف کے نزدیک کوئی بڑی بات نا ہو جسے عرف عام میں استھزاء بالدین کہتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ ہم تو عمومی باتوں میں بھی بہت محتاط رہتے ہیں کہیں کوئی غیر مذہبی رنگ نا نظر آ جائے۔ کہنے کو تو (پاکستان کی جے ہو) بھی کہا جا سکتا ہے جسکا مطلب پاکستان زندہ باد ہی بنتا ہے مگر سننے والا اسے ایک پاکستانی کی زبان سے کہا ہوا مانے گا ہی نہیں، وہ یہی سمجھے گا کہ ہندو جاسوس ہے جو ابھی تک پوری اردو نہیں سیکھ پایا۔
چین دُنیا کی ایک تہائی آبادی رکھنے والا مُلک ہے جس میں گوگل کا داخلہ منع ہے، گویا مکی کے خدا کا ایک تہیائی آبادی پر تو تسلط ہی نہیں- مکی جو کلمہ پڑھتا ہے اس کے مطابق انٹرنیٹ گوگل کا بندہ اور رسول ہے جبکہ حقیقت میں انٹرنیٹ کے بغیر گوگل تو بچے کے اُترے ہوئے پوتڑے جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتا، پھر مکی کا خدا تو انٹرنیٹ کو ہونا چاہیئے نا کہ گوگل کو۔
جو چیز آپ سب حضرات کو اُس کے بلاگ میں لے جاتی ہے وہ اُسکا نام ہے اور ناموں سے تو دھوکہ بھی ہوجاتا ہے۔ چین میں عربی پڑھنے والے تمام طلباء و طالبات اپنے لیئے ایک عربی نام بھی منتخب کر سکتے ہیں جو باقاعدہ اُن کے پاسپورٹ پر درج کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہاں چائنا میں ہر سلیمان، احمد اور ابراہیم مسلمان نہیں ہوتا محض عربی میں گریجوایٹ ہوتا ہے۔ اپنے پاکستان میں کونسا پتا چل جاتا ہے کہ شاہد نسیم (میرا پیارا مسیحی دوست)کسی مسلمان کا نام ہے یا کہ عیسائی کا، اور چوہدری ہدایت اللہ مرزائی کا نام ہے یا کہ کسی سنی کا؟
مکی کے مضمون حضرت عیسی کی یاد میں پر میں نے ایک پر لطف تبصرہ کیا تھا، آپ لوگوں کی تفریح طبع کیلئے یہاں نقل کرتا ہوں۔
پارٹ 3
جواب دیںحذف کریں((((مکی صاحب، آپکے قاری صرف وہی لوگ نہیںجو تبصرہ کر رہے ہوں، یقینا خاموش قاریوںکی بھی اچھی خاصی تعداد ہوگی، مجھے بھی انہی میںسے ایک سمجھ لیں. آپکے سابقہ مضمون میں لکھی یہ بات کہ آپ آزاد ہیںاورجو جی میںآئے گا لکھیںگا تو ایک ایسا ڈراوا ہے کہ ایمان کی ادنٰی سی مقدار بھی کسی میں نا رہنے پائے کہ غلط بات کو کوئی غلط ہی کہہ سکے. آج آپ جہالت کی ڈگریاںبانٹ رہے ہیںتو میںبھی حاضر ہوا ہوںکہ اس اعزاز سے محروم نا رہ جاوں.
شیخ شعراوی رحمۃ اللہ علیہ موجودہ کامیڈین اداکار عادل امام کو کہا کرتے تھے؛ عادل امام، نا ہی تم عادل ہو اور نا ہی تمہارا باپ کہیں امام ہے. اور عبدالستار نیازی صاحب جنرل ضیا کی مارشل لا کے ایڈ منسٹریٹر غلام جیلانی کو کہا کرتے تھے کہ تیرے والدین نے کتنا خوبصورت نام رکھا ہے تیرا، کوئی تو جیلانی کے غلاموں والی حرکت بھی کیا کر.
آپکے مضمون میںعمران اقبال کو تو صرف سرکار کی توہین کا شائبہ گزرا ہے مگر مجھے تو عدل فاروقی اور صداقت ابو بکر بھی اس فقرے میں (انہوں نے جج بننے کی کوشش نہیں کی، سو نہ کسی کو کوڑے مروائے اور نہ کسی کی گردن اتاری اور نہ کسی کا ہاتھ کاٹا..) ڈگمگاتی نظر آرہی ہے.
آپ کے اچھوتے موضوعات سے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے. ایک شخص نے حاجیوںکو زمزم پر پانی پیتے اور ایک دوسرے سے ایثار و قربانی سے پیش آتے دیکھا تو اُس کے دل میں بھی ایک خیال آیا کہ کوئی ایسا کام کر جاؤں جس سے رہتی دنیا تک لوگ اُسے یاد رکھا کریں. کچھ اور نا سوجھنے پر اس نے ازار بند کھولا اور زمزم کے کنویں میںپیشاب کردیا. لوگوںنے مار مار کر خلیفہ (ھارون رشید) کے دربار میںپیش کیا. خلیفہ نے پوچھا تو نے ایسا کیوںکیا، اس نے کہا میں چاہتا ہوںکہ لوگ مجھے ہمیشہ یاد رکھیں خواہ لعنتی کہہ کر ہی کیوں نا یاد کریں. مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کہیںاللہ کی لعنت تجھ پر تو نے زمزم کے کنویں میں پیشاب کیا.
موجودہ زمانے میںقران کو جلانے، قران پر مقدمہ چلا کر جلانے یا سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کو بنانے اور شائع کرنے والے بھی یہی کچھ اچھوتا پن اور اسی شہرت کے متلاشی ہیں.
آپ کے مضامین ماسوائے لوگوں کے ایمان و عقیدہ کو متزلزل کرنے اور تشکیک و تنقیص کے اور کیا کر رہے ہیں. جو بھی بات کرنے آ رہا ہے خواہ وہ 73 سال کا جہان دیدہ عاشق رسول ہو یا کوئی اور، سب کو ایک ہی باٹ اور ایک ترازو سے تول رہے ہو. کونسی عقیدے کی خدمت یا دین کی اشاعت کو عام فہم کر رہے ہو.
اللہ نے جو علم تم کو دیا ہے اس سے لوگوںکو مثبت فائدہ دو ناکہ اُنکے معیار کا امتحان لو. کل کو تم نے ان سب باتوں کا حساب بھی دینا ہے. یاد رکھو سیدنا علی کرم اللہ وجہ سے ایک شخص نے پوچھا تھا اللہ تعالی نے انسان کو کتنا آزاد پیدا کیا ہے؟ آپ نے کہا اپنی ٹانگ اوپر اُٹھاؤ، اس نے ایک ٹانگ اوپر اٹھائی، آپ نے کہا دوسری ٹانگ بھی اوپر اٹھاؤ، اس شخص نے کہا کہ گر جاؤں گا، آپ نے فرمایا، تو بس تیری آزادی کی حد ختم ہو گئی ہے. ہر انسان کچھ معاملات میں آزاد ضرور ہے مگر دین کے کھلواڑ کرنے میںہرگز نہیں))))
پارٹ 4
جواب دیںحذف کریںمیری ان سب باتوں کے باوجود، میں یقین کرتا ہوں کہ مکی ایک مسلمان ہے مگر ذہنی خلفشار کا شکار- شاید وہ یہ سمجھتا ہے کہ اپنی ان لایعنی باتوں سے وہ ابن رُشد قرار پائے گا یا منصور انا الحق، مگر میں اُسے دوسرے رنگ سے سیکھ رہا ہوں، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا کہ مظلوم - آئیے دُعا کریں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مکی کو ہدایت دے اور اُسے اللہ کے شعائر، رُسل اور کتب پر تنقید، تشکیک اور ہرزہ سرائی جیسے ظلم کرنے سے باز رکھے۔ آمین
کل یہ خود بھی خدائی کا دعوی کردے گا یہ کہہ کر کہ گوگل میرے حکم کا محتاج ہے۔
جواب دیںحذف کریںویسے خدا تو یہ بن ہی چکا ہے جسے کوئی احساس نہیں کہ میں کس اعلی ذات اور اسکی صفات کے متعلق زبان درازی کررہا ہوں ۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ اس نے اللہ کی صفات اور کلمہ اسلام کا کیسے عجیب انداز میں مزاق بنایا ہے۔
تَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:۔ “ بعض اوقات ایک انسان اللہ تعالٰی کی رضامندی کی کوئی بات کہتا ہے ، کہ جس کی طرف اس کا خیال بھی نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے اللہ تعالٰی اس کے بہت درجات بلند کر دیتا ہے ، اور بعض اوقات ایک انسان اللہ تعالٰی کی نا فرمانی کی کوئی بات کرتا ہے ، کہ جس کی طرف اس کا خیال بھی نہیں ہوتا اور اس کیو جہ سے وہ دوزخ میں گرتا چلا جاتا ہے۔“
(بخاری)
فضیلہ الشیخ محمد سعید پالن پوری
جواب دیںحذف کریںالکثیرون من الناس یفضلون الموت علی التفکیر وہم یموتون فعلاً... الیس کذلک!!
یارا شاکر برادر۔۔کمال کر دیتا تسی تے۔۔۔۔۔بڑے عرصے بعد مزا آیا ہے ۔۔بغیر گالیوں اور بد تہذیبی کے آپ نے ایسا ذلیل کیا ہے کہ ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔۔خوب ۔۔بہت خوب ۔۔اللہ آپ کو اس کی جزا دے
جواب دیںحذف کریںفضیلہ الشیخ محمد علی المکی
جواب دیںحذف کریںلیس کذالک ۔ بل کثیر من الناس یفضلون النصوص علی عقولہم و ہم یحیون فعلا و یؤجرون ثوابا
محمد سعید پالن پوری
کلا یا عزیزی، ان من لا یستخدم عقلہ فلا فرق بینہ وبین البہیمہ، ہؤلاء الحمقی لا یعیشون کما تظن، بل یموتون کل یوم ویقتلون معہم من لا ناقہ لہم ولا جمل لا فی قضیتہم ولا فی فقدان عقولہم..
جواب دیںحذف کریںعلی فکرہ.. لم تخبرنی من ہذا الذی یؤجر ہؤلاء المغفلین ثواباً؟
شعیب انڈیا سے رقمطراز ہیں (تبصرہ دوبارہ شائع کررہا ہوں، ذرا غیر اخلاقی قسم کا تھا)
جواب دیںحذف کریں----------------------کی کو حق ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنا خدا بنالے جس طرح اوروں نے اپنے اپنے ذاتی خدا بنا رکھے ہیں ـ
مکی نے کسی کی ذات پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی اور خدا کو حقیر کہا ـ اُس نے تو بس اپنے ذاتی خدا کی تعریف بیان کی ہے ـ
مکی کے خلاف یہ پوسٹ اور یہاں پر اکثر تبصرے ڈھکوسلے ہیں ـ
اگر کسی نے مکی کے خلاف فتوی جاری کر دیا تو مکی کو بھی پورا حق ہے اُس کے مخالف کے خلاف فتوی جاری کرے ـ
مکی نے اپنی خواہش کے مطابق اپنے بلاگ پر اپنے ذاتی خدا کی تعریف میں پوسٹ لکھا ہے جس طرح تم نے یہ پوسٹ مکی کے خلاف لکھا ہے ـ ـ ـ ـ
ـ ـ ـ ـ مکی بھی چاہے تو تمہارے خلاف اپنے بلاگ پر گند لکھ سکتا ہے جیسا تم نے مکی کے خلاف لکھ مارا ہے
---------------------------
بٹ صاب تُسیں تے غصہ کرگئے او۔ ماشاءاللہ انڈیا سے ہو لیکن تمیز ہمارے میراثیوں والی پائی ہے۔ یہی بات ذرا شائشتہ لہجے میں بھی فرما سکتے تھے۔ میں اپنے بلاگ پر بیہود تبصروں کی اجازت نہیں دیتا، خواہ وہ میرے خلاف ہوں یا کسی اور کے۔ چناچہ مجھے یہ تبصرہ ایڈٹ کرکے شائع کرنے پڑے گا۔
محترم بنیادپرست آپ کا تبصرہ بھی حذف کرنا پڑا، براہ کرم ذاتیات کو نشانہ نہ بنائیں۔
جواب دیںحذف کریںیار مُجھے عربی نہیں آتی، بابا جی اور پالن پوری صاحب نے عربی شروع کردی ہے، پائی میرے بلاگ تے اُردو وچ گل کرو، میں کہاں گوگل سے ٹرانسلیٹ کرواتا رہوں اس کو اب۔ ویسے میرا خیال ہے تبصرے بند ہی کردوں اب۔
جواب دیںحذف کریں