جمعہ، 7 ستمبر، 2012

حجاب، نقاب ہم اور ہمارے رویے

ایک عرصہ ہو گیا میں 'موسمی' موضوعات پر لکھنا چھوڑ چکا ہوں۔ جب سارے اردو بلاگر ایک موضوع کو لے کر اس کی مٹی پلید کر رہے ہوتے ہیں اس وقت میری خواہش ہوتی ہے کہ کچھ مختلف لکھا جائے۔ خیر لکھنے والی بات بھی نوے فیصد جھوٹ ہی ہے کہ میں اکثر ایک نام نہاد قسم کا بلاگر ہوں جو مہینوں بعد کچھ لکھتا ہے۔ لیکن بلاگر ہونا شرط ہے، لکھا تو کبھی بھی جا سکتا ہے۔ آج کل کا اِن موضوع حجاب،نقاب وغیرہ ہے۔ ایک طرف یار لوگوں نے عالمی حجاب ڈے وغیرہ کی ڈفلی اٹھائی ہوئی ہے، دوسری طرف سے زبردستی مسلمان کروانے وغیرہ کے راگ الاپے جا رہے ہیں۔ اور اس دوران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار قسم کے تبصرہ نگار ایسی بلاگ پوسٹوں پر طنزیہ لہجے میں براہ راست ہتک آمیز تبصرے بھی کر رہے ہیں۔
خیر یہ تو ہماری قومی عادت ہے کہ برداشت نہیں کرنا، تصویر کا ایک ہی رخ لے سامنے رکھ کر چلائے چلے جانا اور "میں نا مانوں" کا نمونہ اکمل بنے رہنا۔ میں نے سوچا موضوع اِن ہے تو ہم بھی اڑتے کیچڑ میں دو چار پتھر پھینک لیں۔ کروانے تو کپڑے ہی گندے ہیں، ویسے بھی برسات ہے تو چلن دیو۔
میرے حساب سے حجاب نقاب جس کی آج بات کی جا رہی ہے اس کے دو حصے ہیں۔ اول جو اس پیرے میں زیر بحث آئے گا، وہ ہے یورپی ممالک میں مسلمان خواتین پر ہونے والی سختیاں (بسلسلہ حجاب) جن میں حکومتی اقدامات سے لے کر نسلی امتیاز تک ہر چیز شامل ہے۔ دیکھیں جی ہر کسی کو اس کے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے۔ اور یورپی مسلمانوں کو یہ اجازت نہ دے کر انتہا پسندی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ میرا اس سلسلے میں مزید کوئی خیال نہیں، بس اتنا خیال ہے کہ اوکھے دن ہیں لنگھ جائیں گے۔ حجاب کے متعلق آگاہی پھیل رہی ہے، اس کے حامی بھی ظاہر ہے یورپیوں میں ہوں گے، کرنا یہ ہے کہ اپنی آواز پر امن انداز میں شانتی اور سکون سے بلند کی جائے۔ اور اللہ کی مہربانی سے وہ وقت بھی آئے گا جب انسانی حقوق کے یہ بزعم خود علمبردار حجاب کی اجازت دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ہاں جب تک وہ سختی کرتے ہیں تو اللہ تو دیکھ رہا ہے نا جی، اسے پتا ہے کہ مسلمان بے بس ہیں تو اس کی ذات معاف کرنے والی ہے۔ کوشش کرنا ہمارا فرض اور باقی اللہ سائیں راہیں سیدھی کرنے والا۔ چناچہ لگے رہو بھائیو حجاب ڈے مناؤ، اور اپنا موقف ان کے کانوں تک پہینچاتے رہو۔۔۔۔
لیکن تہاڈی مہربانی ہے مسلمانوں کو مسلمان نہ کرو۔ خدا کا واسطہ ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں کس حجاب کے نفاذ کا زور و شور سے مطالبہ ہو رہا ہے۔ پچھلے پانچ سو برس سے یہ علاقہ، اور اس کے باشندے جو مسلمان ہیں، اور ان کی روایات اور ثقافت اسلام اور مقامیت کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں پردہ تب سے رائج ہے جب سے اسلام یہاں ہے۔ میری والدہ، نانی اور خالہ ایک اڑھائی گز کی چادر سر پر لیا کرتی تھیں۔ اور آج بھی میں نے انہیں وہی چادر لیے دیکھا ہے۔ نانی اور خالہ کو زمینوں پر کھانا دینے جانا ہوتا تھا، اور وہ اسی چادر میں جاتی تھیں۔ جسے اوڑھنی کہتے ہیں۔ اب مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اور کیا چاہیئے کیا زمین میں گڑھا کھود کر دبا دیں عورتوں کو؟ سر تا ییر برقعہ اوڑھا کر کام کیسے کرواؤ گے بھائی؟ ہمارے بہادر تو یہ چاہتے ہیں کہ عورت کے ہاتھوں پر بھی دستانے ہوں۔ صدقے جاؤں ایسے اسلام کے اسی نے بیڑے غرق کیے ہیں۔ رونا روتے ہیں یورپیوں کی انتہا پسندی کا خود ان کے استاد ہیں اس معاملے میں۔ برداشت کا ایک ذرہ بھی نہیں ہیں، مار دو، کاٹ دو، قتل کر دو، جو'اہل ایمان' نہیں اسے اڑا دو۔ اور اہل ایمان کی اپنی تعریف ہر کسی کی۔ اللہ جماعت اسلامی کو ہمیشہ اقتدار سے دور رکھے، آمین۔ ضیاء الحق کے رفقاء میں شامل رہنے والے یہ لوگ نان ایشوز کی سیاست بڑے ول انداز میں کرتے ہیں۔ پاسپورٹ پر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہو، پارلیمان کی ویب سائٹ پر تصویر میں کلمہ نظر نہ آ رہا ہو یہ سب سے آگے اور اب حجاب کو آئین میں لازم قرار دیا جائے۔ پہلے مجھے کوئی یہ بتائے گا کہ کونسا حجاب؟ میری والدہ، ان کی ماں، ان کی ماں کی ماں اور ان کی دس نسلوں سے جو اوڑھنی چلی آ رہی ہے، یا شٹل کاک برقع جو افغانستان سے درآمد ہوا ہے، یا عربی اسٹائل حجاب، یا سعودی اسٹائل فل سائز برقعے۔  کونسا حجاب سائیں؟ یہ کدھر کو چل پڑے ہیں، ہر چیز کو مسلمان بنانے پر تلے ہیں۔ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر گرا نہ سکتے تھے اس لیے کلمہ لکھ کر مسلمان کر لیا۔ عمارتیں، نشانات، آثار یا تو مٹا دئیے یا 'مسلمان' کر لیے۔ یہی کام مسلمانوں کے ساتھ کیا۔ یا تو مسلمان کر لیے، جو'رافضی'، 'کافر' وغیرہ بچے انیہں زندگی کی قید سے آزاد کر دیا۔ واہ بھئی، صدقے اس اسلام کے۔ صدقے۔
آخری بات عرض کرتا چلوں، کہ آج نوجوان لڑکیاں چادر یا اوڑھنی والا نقاب نہیں برقعے والا نقاب کرتی ہیں۔ اس کی وجہ اسلام ہائپ تو ہے ہی، معاشرتی عدم تحفظ بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔ اسلام اسلام کرنے سے اوپر اوپر تو ملمع چڑھ گیا ہے، اندر کی بےغیرتی نہیں گئی۔ جب تک یہ بے غیرتی نہیں جائے گی حجاب چھوڑ کر نماز پڑھنے کا آرڈیننس بھی جاری کروا دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔

14 تبصرے:

  1. شکر ہے میں اکیلا نہیں۔
    کوئی تو میرے ساتھ ہی کپڑے گندے کروائے گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت اچھی اور سچی سوچ ،حقیقت اور اصلیت یہی ہے کہ مسلمان کو زبردستی مسلمان کیا نہیں جاسکتا

    جواب دیںحذف کریں
  3. قدرے جھنجھلاہٹ میں لکھی گئی محسوس ہوتی ہے یہ تحریر۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. از احمر

    ۔ ۔ ۔ ۔ ان میں پردہ تب سے رائج ہے جب سے اسلام یہاں ہے

    صرف ریکارڈ کی درستگی کے لیے کہنا چاہوں گا کہ برصغیر میں پردہ اسلام سے پہلے بھی موجود تھا


    جواب دیںحذف کریں
  5. There were millions of Mullahs and a few Sir Syed, Jinnah. Which side you sound like?
    Ajaz Latif

    جواب دیںحذف کریں
  6. صرف ریکارڈ کی درستگی کے لیے کہنا چاہوں گا کہ برصغیر میں پردہ اسلام سے پہلے بھی موجود تھا
    _______________________________________________________________

    بہت عمدہ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جناب یہ بھی فرمادیجیے کہ اسلام سے پہلے کس قسم کا پردہ کس علاقے میں موجود تھا؟

    جواب دیںحذف کریں
  7. ہمارے خاندان نے انڈیا سے ہجرت کی۔
    میں نے اپنے خاندان کی بوڑھیوں کو شٹک کاک برقع پہنتے دیکھا ہے اور بقول ان کے یہ عرصہ دراز سے یہی پہنتے آرہے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. جناب عالی میں پنجابی ہوں اور پنجاب کا محنت کش طبقہ صدیوں سے اوڑھنی لیتا آ رہا ہے۔ شٹل کاک برقع آج کے پر آسائش دور میں یہاں بھی مقبول ہے۔ محنت کش عورت شٹل کاک برقع نہیں پہن سکتی۔ آپ کا خاندان دہلی کے اشرافیہ جیسا لگتا ہے جہاں باہر کا سودا سلف لانے کے لیے مامائیں ہوتی تھیں اور بی بیوں کو سورج کی دھوپ بھی نہیں لگنے دیتے تھے۔ ہمارے ہاں یہ عیاشیاں ذرا کم ہی نصیب ہوتی تھیں۔ چوہدرانی، سیدانی کو ہوتی ہوں گی زمیندار کی بیوی کو نہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. میرا خیال ہے کہ پردے کا اصل مقصد صرف اپنی زینت کو ڈھانپنا ہے، اور یہ مقصد چادر یا اوڑھنی سے بھی بخوبی پورا ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے نقاب/جحاب پراصرار کرنا تنگ نظری ہی ہے، میری حقیر رائے میں۔ مزید برآں، کیا اسلام صرف حجاب اور نقاب کا نام ہے؟ اسلام کے کئی زریں اصول، جو معاشرتی زندگی کے لیے لازمی حیثیت رکھتے ہیں، ان پرعمل درآمد کا تو کسی کو خیال نہیں آتا۔ ہاں، خواتین پرہمیشہ نزلہ ضرور گرایا جاتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. ہم لوگ اسلام کانام لےکرمعاشرہ سنوارنے نکل پڑتے ہیں لیکن ہمیں اپنے گھرکواسلام کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے

    جواب دیںحذف کریں
  11. مذہبی احکامات کی ایسی تشریح کی جا رہی ہے جیسے یہ کسی خلائی معاشرے کے لیئے اترے ہوں نہ کہ اس زمیں کے بے بس اور عاجز انسانوں کے لیئے ۔ مذہب تو لاگوں کو اس بوجھ سے آزاد کروانے آتا ہے جس سے لوگوں کی کمریں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں ۔ رحمت کا پیغام لے کر آتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  12. شاکر صاحب بہت مناسب الفاظ استعمال کر لئے آپ نے اپنے موقف کی ترجمانی کے لیے۔ حجاب برقعہ پہننے کا نام نہیں ہے ۔ جو بھی یہ کہتا ہے کہ حجاب صرف عربی اسٹائل کا برقعہ پہننے کا نام ہے غلط کہتا ہے حجاب کرنا مطلب کسی عورت کا غیر محرم سے اپنے جسم کے اسرار و رموز کو چُھپانا ہے۔ ہماری اور آپکی بزرگ خواتین جو کچھ بھی اوڑھنی وغیرہ کرتی رہی ہیں وہ بھی حجاب ہی کے زمرے میں آتا ہےاور جہاں تک رہی بات اسلام سے پہلے حجاب کی تو اسلام سے پہلے حجاب نہیں تھا لیکن با حیا خواتین اور بے حیا خواتین کا فرق تب بھی تھا اور اب بھی ہے۔ لا اکراہ فی الدین کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلامی معاشرے کو سنوارنے کے لیے اس میں سخت روی اختیار نہ کی جائے۔ اور برادر آپکو کیا لگتا ہے کہ پردہ کا حکم صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خواتین کے لیے ہی قرآن میں موجود تھا؟ اور ہماری خواتین صرف اظہار یکجہتی کے لیے حجاب کا استعمال کرتی ہیں؟ محترم امر بالمعروف نہی عن المنکر کا حکم ہم مسلمانوں کے لیے ہی آیا ہے۔ یہ بتا دیں کہ خلفاء راشدین کے دور میں نماز نہ پڑھنے والے کو اس بات پر کب معافی ملتی تھی کہ عبادت تمھارا اور اللہ کا معاملہ ہے چاہے عبادت کرو یا نہ کرو۔ یا جس پر حد مقرر ہوتی تھی اسے یہ کہہ کر چھوڑ دیا جاتا تھا کہ یہ تمھارا ذاتی معاملہ ہے؟ اسلام اتنا انتہا پسند نہیں جتنا مولوی بنا کر پیش کرتے ہیں اور اتنا لبرل بھی نہیں جتنا آپ نے کر دیا۔ جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  13. كيا برده اس سدى مين شروع هوا كه آج كى عورت نه ابنى شخسيت كو ايس روشن كيا؟

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔