عزیزانِ گرامی، عالی قدر بلاگران و سامعین اسلام و علیکم!
سب سے پہلے تو اردو بلاگ فورم اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے مجھے سینئر بلاگر سمجھا۔ ورنہ بقول کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی، میرے جیسے لوگ اکثر کسی کونے میں پڑے پڑے سینئر ہو جایا کرتے ہیں۔ جس میں کمال ان کے کچھ نہ کرنے کا ہوتا ہے۔ میں بھی ایک نام نہاد قسم کا بلاگر ہوں، اور پچھلے کئی سال سے ایویں بلاگر ہوں۔ خیر آپ سب احباب کا شکریہ، اور مزید شکریہ کہ آپ مجھے برداشت کر رہے ہیں۔
میرے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا کہ یہاں تشریف لا کر اردو بلاگنگ پر کچھ ارشاد فرماؤں۔ تو صاحبو کوشش کرتا ہوں کہ کچھ بیان کر سکوں، کوتاہی یا صرفِ نظر ہونے پر، کچھ رہ جانے پر پیشگی معذرت کرتا ہوں۔ میرے لیے اردو بلاگنگ کی تاریخ بیان کرنا تو ممکن نہیں ہو سکے گا، کہ یہ کام برادرم میم بلال میم بہ احسن اپنے بلاگ پر سر انجام دے رہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ پایہ تکمیل تک بھی پہنچے گا۔ اس مختصر سے وقت میں میری کوشش، یہاں اس محفل میں یہ ہو گی کہ پچھلے سات آٹھ برس میں جو کچھ میں نے دیکھا، محسوس کیا اور جو کچھ مجھے آئندہ ہوتا لگ رہا ہے، وہ بیان کر دوں اور کم سے کم الفاظ میں بیان کر دوں۔
تو آئیں پھر بلاگ سے بات شروع کرتے ہیں۔ بلاگ کی کوئی باضابطہ قسم کی تعریف مہیا نہیں کروں گا۔ بس اتنا کہ میری سمجھ کے مطابق بلاگ ایک ڈائری ہے، ایسی ڈائری جو آپ آنلائن لکھتے ہیں اور دوسرے اسے پڑھ کر اس پر تبصرہ ، رائے وغیرہ ظاہر کر سکتے ہیں۔ بلاگ ایک غیر رسمی قسم کی ویب سائٹ ہے، جہاں کوئی کسی بھی موضوع پر اپنے خیالات تحاریر کی شکل میں بیان کر سکتا ہے۔ اور بلاگ عموماً زمروں اور ماہانہ بنیادوں پر درجہ بند ہوتا ہے۔ چناچہ آپ ہر دو اعتبار سے ایک بلاگ پر تحاریر کو پڑھ سکتے ہیں۔
بلاگ کی بات ہو گئی تو اب پاکستانی بلاگز اور اردو بلاگز کی جانب چلتے ہیں۔ انگریزی بلاگز کا ذکر نہیں کروں گا، چونکہ میں اس معاملے میں اناڑی ہوں، بذاتِ خود نہ انگریزی بلاگنگ میں بہت زیادہ ڈبکی لگائی، نہ انگریزی بلاگنگ کے رجحانات سے اتنی زیادہ واقفیت ہے۔ ہاں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ انگریزی بلاگر اور پاکستانی انگریزی بلاگر اردو کی نسبت کچھ آگے ہیں، آج کی محفل ،جو اردو بلاگز کی تاریخ کی پہلی ایسی محفل ہے، ان کے لیے معمول کی بات ہے۔ اور وہ لوگ بطور پیشہ یہ کام بھی کرتے ہیں۔ تو واپس اردو بلاگز پر آتے ہیں۔ میں ماضی سے شروع کروں گا، کچھ یادیں کچھ باتیں آپ سے شئیر کر کے حال اور پھر مستقبل کی جانب بڑھوں گا۔
مجھے یاد ہے شاید 2005 کے آخری ماہ تھے ، جب میں نے انٹرنیٹ پر اردو محفل سے واقفیت حاصل کی۔ کیسے اس فورم کا پتا چلا، یہ اب یاد نہیں۔ تاہم اس کے بعد مجھے دوسروں کی دیکھا دیکھی بلاگ لکھنے کا شوق چڑھا۔ چند احباب جو کبھی بہت فعال تھے، یا اس وقت بلاگنگ کرتے تھے ان کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ زکریا اجمل ہوا کرتے تھے، جو اردو اور انگریزی دونوں میں بلاگ لکھتے تھے۔ پھر ان کا اردو کی طرف رجحان کم ہوتا گیا۔ قدیر احمد رانا، ایک بہت ہی فعال بلاگر ، بہت پیارا انسان لیکن پھر وہ بھی غمِ روزگار کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس نے اپنا اردو بلاگ بھی شروع کیا، اور اردو ٹیک نیوز کے نام سے بھی ایک بلاگ چلایا کرتا تھا۔ ایک آدھ بار میں نے بھی اس بلاگ کے لیے کچھ لکھا۔ پھر ایک بدتمیز بھائی ہوا کرتے تھے، آج کل شادی شدہ ہو کر عمران حمید ہو گئے ہیں۔ بہت تیکھا بندہ تھا، ایک عرصے تک میں موصوف سے بات کرنے سے بھی ہچکچاتا تھا، یہی ڈر ہوتا تھا کہ اس کے ہتھے چڑھ گئے تو بہت بری ہونی ہے۔ لیکن بڑی پیاری شخصیت ، سنجیدہ اور متین ، بالمشافہ ملاقات میں عرفیت کے بالکل متضاد نظر آئے۔ پھر ہمارے راشد کامران ہوا کرتے تھے۔ ہیں تو اب بھی لیکن بہت کم ۔ انہوں نے اردو بلاگنگ کے نام سے اردو بلاگرز کے لیے ایک سروس بھی شروع کی انہیں دنوں میں۔ تب اردو نسخ ایشیا ٹائپ کا دور تھا، تو ان کی سروس کے نئے نئے فونٹ بہت ہی بھلے لگتے تھے۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ سروس بند ہو گئی۔ عمران حمید کے حوالے سے اردو ٹیک بلاگنگ سروس کا تذکرہ بھی ضروری ہے، جہاں اردو بلاگرز نے ایک عرصے تک بلاگز بنائے رکھے۔ لیکن پھر عدم توجہی کی بنیاد پر یہ منصوبہ بھی ٹھپ ہو گیا۔ ایک اور صاحب ماشاءاللہ آج کل بہت مشہور قسم کے وکیل، جناب شعیب صفدر صاحب مجھ سے سینئر بلاگر، اور ان کے بلاگ کی تھیم مجھے ہمیشہ بڑا اٹریکٹ کرتی تھی۔ پھر غلام مصطفٰی خاور جاپان والے بھی مجھ سے کئی سال سینئر بلاگر ہیں۔ ایک عرصے تک ان کی تحریر کا فونٹ ٹائمز نیو رومن یا اس جیسا کوئی فونٹ رہا۔ پچھلے کچھ برسوں سے نستعلیق میں پوسٹ نظر آنے لگی ہے، اور قارئین کو پڑھنے میں کچھ آسانی ہوتی ہے اب۔ پھر ایک بھائی کراچی سے ہوا کرتے تھے، نعمان یعقوب، اپنی ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اور دودھ دہی کی دوکان کیا کرتے تھے۔ پھر ساتھ انگریزی بلاگنگ شرو ع کر دی، میرا اور ان کا ایک مشترکہ شوق لینکس تھا۔ آج کل ماشاءاللہ سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہیں، اور سرچ انجن آپٹمائزیشن کے ماہر بھی ہیں۔ تذکرہ چلا تو افتخار اجمل صاحب جو بزرگ اور پرانے ترین بلاگرز میں سے ایک ہیں، میرا پاکستان والے افضل صاحب جو ایک عرصہ تک بڑی باقاعدگی سے بلاگ لکھتے رہے۔ اور پھر اردو محفل والے نبیل، جن کے تیار کردہ جاوا اسکرپٹ اردو ایڈیٹر نے انٹرنیٹ پر اردو لکھنا بہت آسان کر دیا۔ (تدوین: جہانزیب اشرف کا نام رہ گیا جس کا مجھے بہت افسوس ہوا۔ وہ بھی عرصہ دراز تک اردو میں بلاگ لکھتے رہے اور ابتدائی بلاگروں میں شامل تھے، کچھ برسوں سے کم نظر آتے ہیں۔)
احبابِ مکرم! 2004، 5 یا 6 یا 2008تک بھی اردو بلاگرز دو تین درجن کی تعداد میں تھے، اور ان میں سے بھی بہت کم فعال تھے۔ ابھی نستعلیق کا دور نہیں آیا تھا، اردو نسخ ایشیا ٹائپ بہر حال تاہوما سے بہتر فونٹ تھا، اور یہی طےشدہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ ورڈپریس ابھی نیا نیا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک بار اس کے ورژن 1 اعشاریہ کچھ کا ترجمہ کرنے کی کوشش بھی کی، اور پھر دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ ترجمہ آگے نہ چل سکا۔ اردو بلاگرز کئی جگہوں پر بلاگز بناتے رہے۔ 2006 میں بلاگسپاٹ پر پابندی لگی تو فری ہوسٹس پر منتقل ہو گئے۔ وہاں سے ڈیٹا ضائع ہوا تو واپس بلاگسپاٹ پر۔ کچھ نے ورڈپریس ڈاٹ کام کو ٹرائی کیا، اس دوران اردو ٹیک کی بلاگنگ سروس بھی زیرِ استعمال رہی۔ رفتہ رفتہ کچھ احباب نے ذاتی ڈومین خرید لیے۔
اور آج، اگر ہم دیکھیں تو اردو بلاگز کے سب سے پرانے ایگریگیٹر اردو سیارہ پر ڈیڑھ سو بلاگز رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں کئی نابغہ روزگار ہستیاں موجود ہیں۔ کرک نامہ کے ابوشامل، آئی ٹی نامہ کے ظہیر چوہان، موبائل پر اردو بلاگ کا آغاز کرنے والا نوجوان، میرا خیال یہ نوجوان ایک اور بلال ہے، جو شاید کراچی سے ہیں۔ پھر ہمارے پاس ادب پر لکھنے والی شخصیات میں محمد وارث، آہنگِ ادب والے احباب، خرم بشیر بھٹی جیسی شخصیات موجود ہیں۔ فرحان دانش اپنا بلاگ بھی لکھتے ہیں اور سُوکر نامہ بھی شاید انہی کی ادارت میں چلتا ہے۔ اسی طرح محمد اظہار الحق جو روزنامہ دنیا کے کالم نگار بھی ہیں، اور بلاگ پر بھی مضامین شائع کرتے رہتے ہیں۔ غرض ہمارے پاس ایک لمبی فہرست ہے جس میں موضوعاتی بلاگنگ کی کچھ بہت کامیاب مثالیں بھی موجود ہیں جیسے کرک نامہ، شوگر پر شائع ہونے والا ایک بلاگ، اور منظرنامہ جو ایک بہت اچھی کوشش تھا لیکن زیادہ عرصہ چل نہ سکا۔ طنزو مزاح کے حوالے سے بلو بلا، ڈفر اور جعفر جس کی ہر تحریر کی کاٹ ہی الگ ہوتی ہے۔ پھر بہت سی خواتین بلاگرز موجود ہیں، اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے، عنیقہ ناز جیسی ہستی بھی ہمارے درمیان موجود تھی۔ کچھ احباب بھارت سے بھی بلاگنگ کرتے ہیں حیدرآبادی، شعیب صاحب وغیرہ۔ غرض لمبی فہرست ہے اور جن کا تذکرہ میں نہیں کر سکا ان سے معذرت، یہ میری کوتاہی اور وقت کی کمی کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا۔
عزیزانِ گرامی حال میں ہمارے پاس نہ اردو لکھنے میں کوئی مسئلہ کہ پاک اردو انسٹالر دستیاب ہے، نہ تھیم کی دستیابی کوئی بہت بڑی وجہ کہ بہت سے تھیم اردو میں پہلے سے تبدیل شدہ موجود ہیں، اور نہ اچھا فونٹ نہ ملنے کا عذر کہ ہمارے پاس نستعلیق کی کم از کم تین اقسام موجود ہیں۔ اور تاج نستعلیق جیسے ہیرے بھی جلد ہی دستیاب ہوں گے۔ آج ہم 2004 یا اس سے قبل کے مقابلے میں بہت آگے آ چکے ہیں۔ ہمارے پاس وہ سہولیات ہیں جن کا صرف ایک وقت میں خواب دیکھا جا سکتا تھا۔ مثلاً ویب پر رینڈرنگ کے قابل ایک نستعلیق فونٹ، یہاں وضاحت کرنا چلوں کہ نستعلیق فونٹ ڈسپلے ہونے میں زیادہ پروسیسنگ مانگتا ہے، یا پھر ان پیج کی طرح ترسیمہ جاتی فونٹ ہو جیسا کہ جمیل نستعلیق اور فیض لاہوری نستعلیق جیسے فونٹ موجود ہیں۔
تو صاحب ہمارے پاس آج بڑے پیارے پیارے لوگ موجود ہیں، بڑی نابغہ روزگار ہستیاں ہیں۔ آج اردو بلاگنگ اپنے پنگھوڑا دور سے باہر آ چکی ہے۔ لیکن آج بھی ہمیں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ میں بہت زیادہ تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ بس سرسری تذکرہ کرکے اس گفتگو کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پہلا مسئلہ تو مستقل مزاجی کا ہے۔ منظر نامہ کی مثال دی گئی، قدیر احمد رانا اور عمران حمید جیسے بلاگر، جو کچھ عرصے بعد بلاگنگ کو خیرباد کہہ گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بنیاد رکھی تھی، لیکن پھر ہمارا اور ان کا ساتھ چھوٹ گیا۔ مستقل مزاجی سے جڑی ایک چیز ہے پیشہ ورانہ پن، جو اردو بلاگنگ میں ابھی موجود نہیں۔ صرف کرک نامہ جیسی جہادی قسم کی مثالیں موجود ہیں، تاہم ابوشامل جیسی ڈٹرمینیشن ہر کسی کے پاس نہیں ۔ مستقل مزاجی اور پیشہ ورانہ پن اس وقت آتا ہے جب کسی کام کے ساتھ روزی روٹی لگ جائے۔ اور اردو بلاگنگ میں ابھی یہ بہت دور کی کوڑی لگتی ہے۔ شاید کئی سال اور، چونکہ اردو بلاگز کو اشتہار نہیں ملتے، جو آج کل کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اس لیے بلاگرز اتنے فعال نہیں رہتے یا پھر ویسے ہی غمِ روزگار پر بلاگنگ کو قربان کر دیتے ہیں۔
کمیونٹی کے حوالے سے دیکھیں تو ہمیں فعال نظر آنے کے لیے ایسے اکٹھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت ہی خوش آئند ہے کہ اردو بلاگ فورم معرضِ وجود میں آیا اور دعا ہے کہ یہ کانفرنس ایک لمبے سلسلے کا پہلا قدم ہو، اور ہر برس بلکہ ہر چند ماہ بعد ہر بڑے شہر میں ایسے اکٹھ ہوں۔ جہاں ہم مل بیٹھ کر نہ صرف پیشہ ورانہ مسائل پر گفتگو کریں، بلکہ ایک دوسرے سے سیکھیں بھی اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے اپنی ذمہ داری کے حوالے سے تبادلہ خیال بھی کریں۔
ایک اور اہم چیز روایتی میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے رابطے کا فقدان ہے۔ اگرچہ بی بی سی اردو، جنگ، ڈان اردو وغیرہ وغیرہ پر اردو بلاگ نظر آنے لگے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ بطور کمیونٹی ہمارا تعلق ابھی دوری والا ہے۔ میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں کہ میں نے کبھی بھی کوشش نہیں کی کہ اپنی کوئی تحریر کسی بڑے ادارے مثلاً ڈان اردو کو ہی بھیج دوں کہ وہ اپنے بلاگنگ سیکشن میں شائع کر دیں۔ ہمیں رابطے بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم، یعنی عام عوام میں سے کچھ لوگوں کی بات زیادہ بڑے پیمانے پر سنائی دے تو ایسے رابطے بڑھانے ہوں گے۔
کاپی رائٹ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ہمیں نہ صرف دوسروں کے کاپی رائٹس کا خیال رکھنا ہو گا، بلکہ اپنی تحاریر کی چوری پر بھی چپ رہنے کی بجائے مناسب حکمتِ عملی کے ذریعے اس کا سدِباب کرنا ہو گا۔ کرک نامہ کی کچھ تحاریر کچھ ماہ قبل ایک کرکٹ میگزین نے بلا اجازت اور اپنے نام سے چھاپ دیں، لیکن ہمارے پاس کاروائی کا کوئی ذریعہ ہی نہ تھا، چناچہ ایک دو پوسٹس، اور فیس بک پر دو چار شئیرنگ کے بعد چپ ہو کر بیٹھ گئے۔
آخر میں گروپ بلاگنگ اور موضوعاتی بلاگنگ کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ گروپ بلاگنگ جس کی ایک اچھی مثال منظرنامہ تھا، ایک اچھا قدم ہو سکتی ہے۔ ایک ایسا بلاگ جہاں پر اردو بلاگرز کی بہترین تحاریر کو جگہ ملے۔ یا حالاتِ حاضرہ پر کوئی ایسا بلاگ بھی بن سکتا ہے۔ اور موضوعاتی بلاگنگ، کرک نامہ کی ٹیم کو سلام ہے کہ مفتو مفت کام کیے جا رہے ہیں۔ آئی ٹی نامہ، سوکر نامہ، پاک موبائل وغیرہ کچھ چراغ روشن تو ہیں لیکن انہیں چراغاں میں بدلنا ہو گا۔ اور اس کے لیے جہاں ذاتی کوشش چاہیے، وہاں اجتماعی کوشش بھی چاہیے۔ بطور کمیونٹی اگر ہم فعال ہوئے تو میڈیا اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو احساس ہو گا کہ یہ لوگ بھی ریڈرشپ رکھتے ہیں۔ اور شاید اس طرح ٹیلنٹڈ بلاگرز کے لیے مالی مشکلات کا بھی کچھ مداوا ہو سکے۔
بلاگرانِ عالی قدر، آپ کی سمع خراشی کی ،ا تنا سارا وقت لیا۔ اس زحمت کو برداشت کرنے کا شکریہ۔ اردو بلاگ فورم کا پھر سے شکریہ جنہوں نے یہ اکٹھ ممکن بنایا، دعا ہے کہ اللہ کریم اس میں ہمارے لیے بہتری پیدا فرما دے۔
وما علینا الالبلاغ
سب سے پہلے تو اردو بلاگ فورم اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے مجھے سینئر بلاگر سمجھا۔ ورنہ بقول کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی، میرے جیسے لوگ اکثر کسی کونے میں پڑے پڑے سینئر ہو جایا کرتے ہیں۔ جس میں کمال ان کے کچھ نہ کرنے کا ہوتا ہے۔ میں بھی ایک نام نہاد قسم کا بلاگر ہوں، اور پچھلے کئی سال سے ایویں بلاگر ہوں۔ خیر آپ سب احباب کا شکریہ، اور مزید شکریہ کہ آپ مجھے برداشت کر رہے ہیں۔
میرے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا کہ یہاں تشریف لا کر اردو بلاگنگ پر کچھ ارشاد فرماؤں۔ تو صاحبو کوشش کرتا ہوں کہ کچھ بیان کر سکوں، کوتاہی یا صرفِ نظر ہونے پر، کچھ رہ جانے پر پیشگی معذرت کرتا ہوں۔ میرے لیے اردو بلاگنگ کی تاریخ بیان کرنا تو ممکن نہیں ہو سکے گا، کہ یہ کام برادرم میم بلال میم بہ احسن اپنے بلاگ پر سر انجام دے رہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ پایہ تکمیل تک بھی پہنچے گا۔ اس مختصر سے وقت میں میری کوشش، یہاں اس محفل میں یہ ہو گی کہ پچھلے سات آٹھ برس میں جو کچھ میں نے دیکھا، محسوس کیا اور جو کچھ مجھے آئندہ ہوتا لگ رہا ہے، وہ بیان کر دوں اور کم سے کم الفاظ میں بیان کر دوں۔
تو آئیں پھر بلاگ سے بات شروع کرتے ہیں۔ بلاگ کی کوئی باضابطہ قسم کی تعریف مہیا نہیں کروں گا۔ بس اتنا کہ میری سمجھ کے مطابق بلاگ ایک ڈائری ہے، ایسی ڈائری جو آپ آنلائن لکھتے ہیں اور دوسرے اسے پڑھ کر اس پر تبصرہ ، رائے وغیرہ ظاہر کر سکتے ہیں۔ بلاگ ایک غیر رسمی قسم کی ویب سائٹ ہے، جہاں کوئی کسی بھی موضوع پر اپنے خیالات تحاریر کی شکل میں بیان کر سکتا ہے۔ اور بلاگ عموماً زمروں اور ماہانہ بنیادوں پر درجہ بند ہوتا ہے۔ چناچہ آپ ہر دو اعتبار سے ایک بلاگ پر تحاریر کو پڑھ سکتے ہیں۔
بلاگ کی بات ہو گئی تو اب پاکستانی بلاگز اور اردو بلاگز کی جانب چلتے ہیں۔ انگریزی بلاگز کا ذکر نہیں کروں گا، چونکہ میں اس معاملے میں اناڑی ہوں، بذاتِ خود نہ انگریزی بلاگنگ میں بہت زیادہ ڈبکی لگائی، نہ انگریزی بلاگنگ کے رجحانات سے اتنی زیادہ واقفیت ہے۔ ہاں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ انگریزی بلاگر اور پاکستانی انگریزی بلاگر اردو کی نسبت کچھ آگے ہیں، آج کی محفل ،جو اردو بلاگز کی تاریخ کی پہلی ایسی محفل ہے، ان کے لیے معمول کی بات ہے۔ اور وہ لوگ بطور پیشہ یہ کام بھی کرتے ہیں۔ تو واپس اردو بلاگز پر آتے ہیں۔ میں ماضی سے شروع کروں گا، کچھ یادیں کچھ باتیں آپ سے شئیر کر کے حال اور پھر مستقبل کی جانب بڑھوں گا۔
مجھے یاد ہے شاید 2005 کے آخری ماہ تھے ، جب میں نے انٹرنیٹ پر اردو محفل سے واقفیت حاصل کی۔ کیسے اس فورم کا پتا چلا، یہ اب یاد نہیں۔ تاہم اس کے بعد مجھے دوسروں کی دیکھا دیکھی بلاگ لکھنے کا شوق چڑھا۔ چند احباب جو کبھی بہت فعال تھے، یا اس وقت بلاگنگ کرتے تھے ان کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ زکریا اجمل ہوا کرتے تھے، جو اردو اور انگریزی دونوں میں بلاگ لکھتے تھے۔ پھر ان کا اردو کی طرف رجحان کم ہوتا گیا۔ قدیر احمد رانا، ایک بہت ہی فعال بلاگر ، بہت پیارا انسان لیکن پھر وہ بھی غمِ روزگار کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس نے اپنا اردو بلاگ بھی شروع کیا، اور اردو ٹیک نیوز کے نام سے بھی ایک بلاگ چلایا کرتا تھا۔ ایک آدھ بار میں نے بھی اس بلاگ کے لیے کچھ لکھا۔ پھر ایک بدتمیز بھائی ہوا کرتے تھے، آج کل شادی شدہ ہو کر عمران حمید ہو گئے ہیں۔ بہت تیکھا بندہ تھا، ایک عرصے تک میں موصوف سے بات کرنے سے بھی ہچکچاتا تھا، یہی ڈر ہوتا تھا کہ اس کے ہتھے چڑھ گئے تو بہت بری ہونی ہے۔ لیکن بڑی پیاری شخصیت ، سنجیدہ اور متین ، بالمشافہ ملاقات میں عرفیت کے بالکل متضاد نظر آئے۔ پھر ہمارے راشد کامران ہوا کرتے تھے۔ ہیں تو اب بھی لیکن بہت کم ۔ انہوں نے اردو بلاگنگ کے نام سے اردو بلاگرز کے لیے ایک سروس بھی شروع کی انہیں دنوں میں۔ تب اردو نسخ ایشیا ٹائپ کا دور تھا، تو ان کی سروس کے نئے نئے فونٹ بہت ہی بھلے لگتے تھے۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ سروس بند ہو گئی۔ عمران حمید کے حوالے سے اردو ٹیک بلاگنگ سروس کا تذکرہ بھی ضروری ہے، جہاں اردو بلاگرز نے ایک عرصے تک بلاگز بنائے رکھے۔ لیکن پھر عدم توجہی کی بنیاد پر یہ منصوبہ بھی ٹھپ ہو گیا۔ ایک اور صاحب ماشاءاللہ آج کل بہت مشہور قسم کے وکیل، جناب شعیب صفدر صاحب مجھ سے سینئر بلاگر، اور ان کے بلاگ کی تھیم مجھے ہمیشہ بڑا اٹریکٹ کرتی تھی۔ پھر غلام مصطفٰی خاور جاپان والے بھی مجھ سے کئی سال سینئر بلاگر ہیں۔ ایک عرصے تک ان کی تحریر کا فونٹ ٹائمز نیو رومن یا اس جیسا کوئی فونٹ رہا۔ پچھلے کچھ برسوں سے نستعلیق میں پوسٹ نظر آنے لگی ہے، اور قارئین کو پڑھنے میں کچھ آسانی ہوتی ہے اب۔ پھر ایک بھائی کراچی سے ہوا کرتے تھے، نعمان یعقوب، اپنی ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اور دودھ دہی کی دوکان کیا کرتے تھے۔ پھر ساتھ انگریزی بلاگنگ شرو ع کر دی، میرا اور ان کا ایک مشترکہ شوق لینکس تھا۔ آج کل ماشاءاللہ سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہیں، اور سرچ انجن آپٹمائزیشن کے ماہر بھی ہیں۔ تذکرہ چلا تو افتخار اجمل صاحب جو بزرگ اور پرانے ترین بلاگرز میں سے ایک ہیں، میرا پاکستان والے افضل صاحب جو ایک عرصہ تک بڑی باقاعدگی سے بلاگ لکھتے رہے۔ اور پھر اردو محفل والے نبیل، جن کے تیار کردہ جاوا اسکرپٹ اردو ایڈیٹر نے انٹرنیٹ پر اردو لکھنا بہت آسان کر دیا۔ (تدوین: جہانزیب اشرف کا نام رہ گیا جس کا مجھے بہت افسوس ہوا۔ وہ بھی عرصہ دراز تک اردو میں بلاگ لکھتے رہے اور ابتدائی بلاگروں میں شامل تھے، کچھ برسوں سے کم نظر آتے ہیں۔)
احبابِ مکرم! 2004، 5 یا 6 یا 2008تک بھی اردو بلاگرز دو تین درجن کی تعداد میں تھے، اور ان میں سے بھی بہت کم فعال تھے۔ ابھی نستعلیق کا دور نہیں آیا تھا، اردو نسخ ایشیا ٹائپ بہر حال تاہوما سے بہتر فونٹ تھا، اور یہی طےشدہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ ورڈپریس ابھی نیا نیا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک بار اس کے ورژن 1 اعشاریہ کچھ کا ترجمہ کرنے کی کوشش بھی کی، اور پھر دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ ترجمہ آگے نہ چل سکا۔ اردو بلاگرز کئی جگہوں پر بلاگز بناتے رہے۔ 2006 میں بلاگسپاٹ پر پابندی لگی تو فری ہوسٹس پر منتقل ہو گئے۔ وہاں سے ڈیٹا ضائع ہوا تو واپس بلاگسپاٹ پر۔ کچھ نے ورڈپریس ڈاٹ کام کو ٹرائی کیا، اس دوران اردو ٹیک کی بلاگنگ سروس بھی زیرِ استعمال رہی۔ رفتہ رفتہ کچھ احباب نے ذاتی ڈومین خرید لیے۔
اور آج، اگر ہم دیکھیں تو اردو بلاگز کے سب سے پرانے ایگریگیٹر اردو سیارہ پر ڈیڑھ سو بلاگز رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں کئی نابغہ روزگار ہستیاں موجود ہیں۔ کرک نامہ کے ابوشامل، آئی ٹی نامہ کے ظہیر چوہان، موبائل پر اردو بلاگ کا آغاز کرنے والا نوجوان، میرا خیال یہ نوجوان ایک اور بلال ہے، جو شاید کراچی سے ہیں۔ پھر ہمارے پاس ادب پر لکھنے والی شخصیات میں محمد وارث، آہنگِ ادب والے احباب، خرم بشیر بھٹی جیسی شخصیات موجود ہیں۔ فرحان دانش اپنا بلاگ بھی لکھتے ہیں اور سُوکر نامہ بھی شاید انہی کی ادارت میں چلتا ہے۔ اسی طرح محمد اظہار الحق جو روزنامہ دنیا کے کالم نگار بھی ہیں، اور بلاگ پر بھی مضامین شائع کرتے رہتے ہیں۔ غرض ہمارے پاس ایک لمبی فہرست ہے جس میں موضوعاتی بلاگنگ کی کچھ بہت کامیاب مثالیں بھی موجود ہیں جیسے کرک نامہ، شوگر پر شائع ہونے والا ایک بلاگ، اور منظرنامہ جو ایک بہت اچھی کوشش تھا لیکن زیادہ عرصہ چل نہ سکا۔ طنزو مزاح کے حوالے سے بلو بلا، ڈفر اور جعفر جس کی ہر تحریر کی کاٹ ہی الگ ہوتی ہے۔ پھر بہت سی خواتین بلاگرز موجود ہیں، اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے، عنیقہ ناز جیسی ہستی بھی ہمارے درمیان موجود تھی۔ کچھ احباب بھارت سے بھی بلاگنگ کرتے ہیں حیدرآبادی، شعیب صاحب وغیرہ۔ غرض لمبی فہرست ہے اور جن کا تذکرہ میں نہیں کر سکا ان سے معذرت، یہ میری کوتاہی اور وقت کی کمی کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا۔
عزیزانِ گرامی حال میں ہمارے پاس نہ اردو لکھنے میں کوئی مسئلہ کہ پاک اردو انسٹالر دستیاب ہے، نہ تھیم کی دستیابی کوئی بہت بڑی وجہ کہ بہت سے تھیم اردو میں پہلے سے تبدیل شدہ موجود ہیں، اور نہ اچھا فونٹ نہ ملنے کا عذر کہ ہمارے پاس نستعلیق کی کم از کم تین اقسام موجود ہیں۔ اور تاج نستعلیق جیسے ہیرے بھی جلد ہی دستیاب ہوں گے۔ آج ہم 2004 یا اس سے قبل کے مقابلے میں بہت آگے آ چکے ہیں۔ ہمارے پاس وہ سہولیات ہیں جن کا صرف ایک وقت میں خواب دیکھا جا سکتا تھا۔ مثلاً ویب پر رینڈرنگ کے قابل ایک نستعلیق فونٹ، یہاں وضاحت کرنا چلوں کہ نستعلیق فونٹ ڈسپلے ہونے میں زیادہ پروسیسنگ مانگتا ہے، یا پھر ان پیج کی طرح ترسیمہ جاتی فونٹ ہو جیسا کہ جمیل نستعلیق اور فیض لاہوری نستعلیق جیسے فونٹ موجود ہیں۔
تو صاحب ہمارے پاس آج بڑے پیارے پیارے لوگ موجود ہیں، بڑی نابغہ روزگار ہستیاں ہیں۔ آج اردو بلاگنگ اپنے پنگھوڑا دور سے باہر آ چکی ہے۔ لیکن آج بھی ہمیں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ میں بہت زیادہ تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ بس سرسری تذکرہ کرکے اس گفتگو کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پہلا مسئلہ تو مستقل مزاجی کا ہے۔ منظر نامہ کی مثال دی گئی، قدیر احمد رانا اور عمران حمید جیسے بلاگر، جو کچھ عرصے بعد بلاگنگ کو خیرباد کہہ گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بنیاد رکھی تھی، لیکن پھر ہمارا اور ان کا ساتھ چھوٹ گیا۔ مستقل مزاجی سے جڑی ایک چیز ہے پیشہ ورانہ پن، جو اردو بلاگنگ میں ابھی موجود نہیں۔ صرف کرک نامہ جیسی جہادی قسم کی مثالیں موجود ہیں، تاہم ابوشامل جیسی ڈٹرمینیشن ہر کسی کے پاس نہیں ۔ مستقل مزاجی اور پیشہ ورانہ پن اس وقت آتا ہے جب کسی کام کے ساتھ روزی روٹی لگ جائے۔ اور اردو بلاگنگ میں ابھی یہ بہت دور کی کوڑی لگتی ہے۔ شاید کئی سال اور، چونکہ اردو بلاگز کو اشتہار نہیں ملتے، جو آج کل کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اس لیے بلاگرز اتنے فعال نہیں رہتے یا پھر ویسے ہی غمِ روزگار پر بلاگنگ کو قربان کر دیتے ہیں۔
کمیونٹی کے حوالے سے دیکھیں تو ہمیں فعال نظر آنے کے لیے ایسے اکٹھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت ہی خوش آئند ہے کہ اردو بلاگ فورم معرضِ وجود میں آیا اور دعا ہے کہ یہ کانفرنس ایک لمبے سلسلے کا پہلا قدم ہو، اور ہر برس بلکہ ہر چند ماہ بعد ہر بڑے شہر میں ایسے اکٹھ ہوں۔ جہاں ہم مل بیٹھ کر نہ صرف پیشہ ورانہ مسائل پر گفتگو کریں، بلکہ ایک دوسرے سے سیکھیں بھی اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے اپنی ذمہ داری کے حوالے سے تبادلہ خیال بھی کریں۔
ایک اور اہم چیز روایتی میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے رابطے کا فقدان ہے۔ اگرچہ بی بی سی اردو، جنگ، ڈان اردو وغیرہ وغیرہ پر اردو بلاگ نظر آنے لگے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ بطور کمیونٹی ہمارا تعلق ابھی دوری والا ہے۔ میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں کہ میں نے کبھی بھی کوشش نہیں کی کہ اپنی کوئی تحریر کسی بڑے ادارے مثلاً ڈان اردو کو ہی بھیج دوں کہ وہ اپنے بلاگنگ سیکشن میں شائع کر دیں۔ ہمیں رابطے بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم، یعنی عام عوام میں سے کچھ لوگوں کی بات زیادہ بڑے پیمانے پر سنائی دے تو ایسے رابطے بڑھانے ہوں گے۔
کاپی رائٹ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ہمیں نہ صرف دوسروں کے کاپی رائٹس کا خیال رکھنا ہو گا، بلکہ اپنی تحاریر کی چوری پر بھی چپ رہنے کی بجائے مناسب حکمتِ عملی کے ذریعے اس کا سدِباب کرنا ہو گا۔ کرک نامہ کی کچھ تحاریر کچھ ماہ قبل ایک کرکٹ میگزین نے بلا اجازت اور اپنے نام سے چھاپ دیں، لیکن ہمارے پاس کاروائی کا کوئی ذریعہ ہی نہ تھا، چناچہ ایک دو پوسٹس، اور فیس بک پر دو چار شئیرنگ کے بعد چپ ہو کر بیٹھ گئے۔
آخر میں گروپ بلاگنگ اور موضوعاتی بلاگنگ کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ گروپ بلاگنگ جس کی ایک اچھی مثال منظرنامہ تھا، ایک اچھا قدم ہو سکتی ہے۔ ایک ایسا بلاگ جہاں پر اردو بلاگرز کی بہترین تحاریر کو جگہ ملے۔ یا حالاتِ حاضرہ پر کوئی ایسا بلاگ بھی بن سکتا ہے۔ اور موضوعاتی بلاگنگ، کرک نامہ کی ٹیم کو سلام ہے کہ مفتو مفت کام کیے جا رہے ہیں۔ آئی ٹی نامہ، سوکر نامہ، پاک موبائل وغیرہ کچھ چراغ روشن تو ہیں لیکن انہیں چراغاں میں بدلنا ہو گا۔ اور اس کے لیے جہاں ذاتی کوشش چاہیے، وہاں اجتماعی کوشش بھی چاہیے۔ بطور کمیونٹی اگر ہم فعال ہوئے تو میڈیا اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو احساس ہو گا کہ یہ لوگ بھی ریڈرشپ رکھتے ہیں۔ اور شاید اس طرح ٹیلنٹڈ بلاگرز کے لیے مالی مشکلات کا بھی کچھ مداوا ہو سکے۔
بلاگرانِ عالی قدر، آپ کی سمع خراشی کی ،ا تنا سارا وقت لیا۔ اس زحمت کو برداشت کرنے کا شکریہ۔ اردو بلاگ فورم کا پھر سے شکریہ جنہوں نے یہ اکٹھ ممکن بنایا، دعا ہے کہ اللہ کریم اس میں ہمارے لیے بہتری پیدا فرما دے۔
وما علینا الالبلاغ
آپ کی اس تحریر و تقریر میں تقریباً مکمل معلومات مل ہی جاتی ہیں۔ بلاشبہ آپ نے یہ تحریر سخت محنت کے بعد لکھی ہے جو کہ پڑھنے سے اندازہ ہورہا ہے۔ بس دعا ہے اللہ تعالیٰ ہر سال اردو بلاگرز کانفرنس کرنے کی ہمت دے، آمین ۔ اردو بلاگنگ کے جانب لوگوں کی دلچپسی کم ہونے کی اہم وجہ یہی ہے کہ اشتہارات نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی پہلے کے مقابلے میں سال 2011 اور 2012 میں اردو بلاگرز کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
جواب دیںحذف کریںساکر نامہ فرحان دانش صاحب نہیں بلکہ علمدار حیسن صاحب (استاد جعفر فیم) کی زیر ادارت چلتا ہے
جواب دیںحذف کریںکرک نامہ کا ذکر خیر کرنے پر شکر گزار ہوں۔ اور اب ذمہ داری کا مزید بوجھ بھی خود پر محسوس کرتا ہوں کہ اس قدر توقعات بندھ جانے کے بعد میرے لیے اس کام کو مزید جاری رکھنا کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںآپ نے بہت محنت اور محبت سے اپنی تقریر لکھی ہے قبلہ، بہت جاندار اور پتے کی باتیں آپ نے بیان کی ہیں۔
جواب دیںحذف کریںاور اس خاکسار کا ذکر فرمانے کیلیے آپ کا ممنون ہوں۔
والسلام مع الاکرام
ہم بہت عرصہ بعد کسی بلاگ پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ اردو بلاگستان نے جہاں اپنا حجم بڑھایا وہیں اس میں ایسے افراد کو بھی وافر مقدار میں جگہ ملی جو بے جا منافرت، کج روی، بلا تحقیق الزام تراشی اور لا یعنی تعصب کا کلمہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ ذاتیات پر اتر کر سطحی باتیں کرنا کئیوں کا معمول ہے جس پر بلاگنگ جیسے بے لگام پلیٹ فارم نے مزید آگ میں گھی کا کام کیا اور احباب یہ فراموش کر گئے کہ شخصی آزادی بغیر احساس ذمہ داری کے بہت ہی ہلاکت خیز ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ایسی اجلاس میں جہاں اردو بلاگنگ کے تکنیکی مسائل، بلاگ کے ذریعہ معاشی آمدنی اور بڑی میڈیا سے روابط وغیرہ جیسے معاملات پر گفتگو ہو وہاں بلاگنگ کی اخلاقیات، احساس ذمہ داری، عدم تعصب اور رواداری وغیرہ پر گفتگو کو بھی تھوڑی سی جگہ ضرور دی جانی چاہیے۔
جواب دیںحذف کریںاردو ویب اور اس کے انتظامیہ کے خلوص پر بھی اکثر سر بازار سوالیہ نشان لگایا جاتا رہتا ہے اور انتہائی بے جا الزامات لگائے جاتے ہیں جن کی نہ تو کوئی بنیاد ہوتی ہے اور نہ ہی ان سے اردو بلاگستان کو نفع پہونچنے والا ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کے چلتے کم از کم ہماری ذاتی ترجیحات میں اردو بلاگستان کہیں دور پیچھے چھوٹ گیا۔ بہر کیف اردو کی ہمہ جہت ارتقا بہر کیف اردو ویب کے بنیادی مقاصد میں سے ہے اس لیے بطور ادارہ ان کوششوں پر کسی کی نکتہ چینی یا الزام تراشی اثر انداز نہ ہو سکے گی۔
آپ کے بلاگ کی تھیم میں کم از تین مسائل نظر آئے جنھوں نے کافی پریشان کیا۔ اول یہ کہ اس میں ایک بن بلایا مہمان بطور افقی اسکرولر موجود ہے، اس کا سد باب کر لیں تو اچھا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ کسی غیر ضروری مارجن، پیڈنگ یا پھر فلوٹ وغیرہ کے نتیجے میں نمودار ہوا ہو۔ دوم یہ کہ مرکزی مواد اور تبصروں کے متن میں ورڈ ریپ فعال ہے جس کے نتیجے میں الفاظ بلکہ ترسیمے نئی سطر میں ٹوٹ رہے ہیں۔ سوم یہ کہ سائد بار میں آرکائیو یا محفوظات کا بلاک دو دفعہ نظر آ رہا ہے۔
میں آپ کی تقریر براہ راست سُن رہا تھا، انہی لمحات میں، میں نے فیس پر لکھا ؛ آج اگر شکار بھائی سے سلام دعا ہوتی تو میرا ذکر پکا تھا اُن کی تقریر میں۔ یہ تو خیر مذاق کی بات تھی، تاہم آپ نے مختصر وقت میں خوب احاطہ کیا بہت سی باتوں کا۔ شکریہ
جواب دیںحذف کریں