منگل، 15 دسمبر، 2015

132 بچے

ہاں 132 بچے تھے اور 16 دسمبر کا دن تھا۔ پچھلے برس بھی جب یہ خبر میرے سامنے آئی تھی تو میں کلاس پڑھا رہا تھا۔ پھر جیسے جیسے شام ہوتی گئی قطرہ قطرہ کر کے غم برداشت سے باہر ہوتا گیا اور میری آنکھیں برس پڑی تھیں۔ یہ تحریر انہیں لمحات میں لکھی گئی تھی۔
آج ایک دن کم ایک برس بعد میرے اندر لگے الارم کلاک نے پھر وہی کیفیت تازہ کر دی ہے۔ آج میں اپنے وطن سے ہزاروں میل دور ایک سرد اور اجنبی سرزمین پر تنہا بیٹھا اسی غم میں ڈوبا ہوا ہوں۔ 132 بچے اور ان میں ایک ننھی سی بچی بھی تھی۔ میرا کوئی بچہ نہیں ہے، اس لیے شاید مجھے احساس نہیں ہے کہ بیٹے اور بیٹیاں کھو دینے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔ لیکن میں اس غم کا ایک اربواں حصہ شاید محسوس کر سکتا ہوں جو ان بچوں کے ماں باپ پچھلے ایک برس سے جھیل رہے ہیں۔ جوان اولاد کھونے کا دکھ تو میرے ماں باپ بھی سہہ چکے ہیں اس لیے شاید میں اس اذیت کا عینی شاہد ہوں جو تاعمر ماں باپ کے جھریوں زدہ چہروں میں پیوست ہو جاتی ہے۔ جوان اولاد کی موت کا دُکھ بہت بڑی اور بُری چیز ہے۔ کمر توڑ دیتا ہے، بال سفید کر دیتا ہے، قویٰ میں سے جان نکال لیتا ہے اور زندگی بھر کا روگ لگا جاتا ہے۔ ہر عید شبرات اور خوشی پر تازہ ہو جانے والے زخم دے جاتا ہے۔ ماں باپ کو اولاد کبھی نہیں بھولتی چاہے رب اور کتنے ہی دے دے۔ ماں باپ کو بنایا ہی ایسا گیا ہے۔
اور میں یہاں بیٹھا قطرہ قطرہ پگھل رہا ہوں۔ شاید یہ ان معصوم طلبہ کا دکھ ہے، یا ان سے پہلے اس جنگ کا ایندھن بننے والے ہزارہا معصوموں کا دکھ ہے یا میرا اپنا بازو ٹوٹ جانے کا دکھ ہے۔ میں جذباتی ترانے سنتا ہوں تو میرے اندر سے غم اُبل اُبل کر باہر آتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی مرے ذہن میں بیٹھا ایک اور شخص جمع تفریق بھی کر رہا ہے۔
پچھلے ایک برس میں کیا بدلا ہے؟
آتش و آہن کے کھیل کو روکنے کے لیے آتش و آہن کے استعمال کے علاوہ ہم نے اور کیا کِیا ہے؟
تعلیم اور تربیت، ذہن سازی اور قوم سازی کے لیے ہم نے کیا کِیا ہے؟
ابھی کل ہی لاہور حفیظ سنٹر پر ایک مذہبی اقلیت کے نازیبا کلمات ہٹانے کے خلاف ہونے والے احتجاج کی خبر پڑھ کر میں حیران ہو رہا تھا کہ آخر بدلا کیا ہے؟ کیا رویے بدل گئے ہیں؟ کیا برداشت پیدا ہو گئی ہے؟
کیا تیس برس قبل ہم نے نفرت و عداوت اور شدت پسندی کا جو کوڑھ کاشت کرنا شروع کیا تھا اسے آج ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا چکے ہیں؟
کیا ہم نے اپنے ماضی سے سبق سیکھا ہے؟
برداشت، رواداری، حسنِ سلوک اور محبت یہ وہ جادوئی رویے ہیں جو ہمیں پھر سے یکجا کر سکتے ہیں۔ آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ صرف آتش و آہن سے ہی نہیں کسی اور محاذ پر بھی ایک ضربِ عضب کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے ہمیں اپنے اپنے ذہنوں میں قانون سازی کرنی ہو گی۔ ہمارے ادارے (خدا کرے کہ یہ خیال درست ہو) اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں، بحیثیت قوم اور افراد ہمیں سبق سیکھنا اور اپنے رویوں کی اصلاح کرنی ہے۔ وگرنہ ہمارا کام ہر سفاکی کے بعد اس کو کفار کی سازش ثابت کرنا ہی رہ جائے گا جیسے پچھلے دنوں امریکی شہر میں ہونے والے قتل عام میں ملوث پاکستانی خاتون کے معاملے میں ہوا ہے۔
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الإِيْمَانِ.
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْهُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَاجْعَلْهُ لَنَا شَافِعًا وَّ مُشَفَّعًا.
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطاً وَّ اجْعَلْهَا لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرًا وَّ اجْعَلْهَا لَنَا شَافِعَةً وَّ مُشَفَّعَةً.
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ 
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔