والدہ کہا کرتی ہیں کہ تیرے تایا عبد الرشید کے ماتھے پر پیدا ہوتے ہی تیوری چڑھی ہوئی تھی۔ اللہ سائیں تایا عبد الرشید کو صحت و تندرستی عطاء فرمائے ، میرے والد صاحب سے بڑے چار بھائیوں میں سے اب یہ اور تایا جمیل ہی حیات ہیں۔ تایا جی کی تیوری کچھ ایسی ہی چیز ہے جیسے کسی کمپنی کا رجسٹرڈ ٹریڈ مارک ہو۔ مائیکروسافٹ ونڈوز کے چار ڈبے، پیپسی کا نیلا اور سرخ دائرہ اور، انٹیل کا نیلا اسٹیکر دور سے ایک نظر میں پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے تایا جی کا ٹریڈ مارک ان کے متھے کی چار لکیریں جنہیں اردو میں تیوری اور پنجابی میں گھُوری کہتے ہیں، دور سے ہی نظر آ جاتی ہیں۔ ابھی میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں کہ والدہ کو یہ کہنا یاد کیوں آیا کرتا ہے۔ تو اس کی وجہ میری ذات شریف ہے۔ پچھلے تیس برسوں میں روز افزوں وسیع ہوتے متھے کے ساتھ جو چیز میں نے بڑے نازوں سے اپنے ساتھ پالی ہے وہ میرے متھے کی چار لکیریں ہیں۔ اب تو اتنی عادت ہو گئی ہے کہ کبھی کبھی ہنستے ہوئے بھی متھا گھُورنے لگ جاتا ہے۔ والدہ کہتی ہیں کہ گھُوری تم نے اپنے تائے سے لی ہے۔
گھُوری میں تایا جی اور والد صاحب کے غصے کا دخل ہو سکتا ہے کہ یہ وراثتی معاملہ ہے۔ لیکن کچیچی اس میں قطعاً ہماری ذاتی ایجاد ہے۔ کچیچی کا اردو ترجمہ دانت پیسنا بنتا ہے لیکن پنجابی والے معانی اس میں عنقا ہیں۔ کچیچی ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی بندے کو کسی بھی وقت چڑھ سکتی ہے۔ یہ صرف ایک فعل نہیں، ایک حالت ہے۔ جب کچیچی چڑھتی ہے تو دانت پیسنے کے ساتھ ساتھ کچھ اور افعال بھی سرزد ہو جاتے ہیں۔ جیسے ماتھے پر گھُوری، جبڑوں کا بھینچ جانا، کان سرخ اور آنکھوں سے آگ برسانے کی کوشش، اور پھر خون کا نقطہ کھولاؤ کے قریب پہنچ جانا۔ ان ساری کیفیات سے یہ ناتواں اپنے ابتدائی ایام سے واقف ہے۔ اس ناتواں وجود پر فرانسیسی فلسفی رینے دیکارت کا قول ("میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں") کچھ ترمیم و اضافے کے بعد ایسے فِٹ ہو سکتا ہے کہ "میں کچیچتا ہوں اس لیے میں ہوں"۔ شاید فدوی کو اپنے ہونے کا احساس ہی کسی اوّلین کچیچی سے ہوا تھا۔ اس حوالے سے ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ اس دنیا میں پیدا کرنے کے مرکزی مقصد یعنی اللہ کی عبادت کے علاوہ ہمیں خالق نے جو اضافی ذمہ داریاں سونپیں ان میں سے ایک کچیچنا بھی تھا۔ اور اللہ کے فضل سے پچھلے تین عشروں سے ہم عبادت کا فرض انجام دینے میں چاہے کوتاہی کر جائیں، کچیچی کا فرض بہ احسن و خوبی سرانجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔
فنکاروں، اداکاروں اور مشاہیر سے پوچھا جاتا ہے کیا بچپن سے ہی یہ بننا چاہتے تھے؟ پہلی بار کیسے احساس ہوا کہ آپ کے اندر ایک فلاں چھپا بیٹھا ہے؟ اسی فلو میں ہم سے پوچھا جائے کہ پہلی کچیچی کب لی تھی، تو اس کا جواب دینا مشکل ہو گا۔ چونکہ ہمارے لیے کچیچی روزمرہ کے معمولات کا ایک حصہ رہی ہے۔ کچیچی لینا ہمارے لیے کچھ ایسا ہی نارمل عمل تھا جیسے بکری کے بچے (میمنے) کے لیے بے بے کرنا۔ ایک عرصے تک ہم بھی کچیچنے کو ہوا، پانی اور روٹی کی طرح زندگی کی ضرورت سمجھتے رہے۔ یادوں کے افق پر اس کی نفی کرتی ہوئی پہلی رنگین تصویر جو نقش ہے وہ ہمارے گیارہویں کے ٹیوشن پڑھانے والے پروفیسر صاحب تھے۔ پی ایچ ڈی اسسٹنٹ پروفیسر جو جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں استاذ تھے اور ساتھ ہومیو پیتھی کا شغل فرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے ہمارے چہرے پر طاری رہنے والی اس مستقل کیفیت کو دیکھ کر ایک دن ہمیں پکڑ کر زبردستی بٹھا لیا، اپنی ہومیو پیتھی والی کتاب کھول لی اور ہم سے سوال جواب کرنے کے بعد ایک انتہائی کڑوی دوائی کے چند قطرے حکماً ہماری زبان پر ٹپکائے۔ اس دن ہمیں ایسا لگا کہ ہماری کچیچیی ہی دوائی کی صورت میں ہمارے سامنے آ گئی ہے۔ اللہ ان پروفیسر صاحب کا بھلا کرے، وہ ہمارا علاج تو نہ کر سکے لیکن علاج کرنے کی کوشش ضرور کی۔ اللہ انہیں نیت کا ثواب عطاء فرمائے۔
گیارہویں کے بعد بھی ظاہر ہے ہم زندہ و جاوید رہے اور ابھی تک بفضل تعالٰی شریکوں کے سینوں پر مونگ دلتے ہشاش بشاش، اور ہٹے کٹے (چلیں اس کا دس فیصد کر لیں) ہیں۔ اور ہمارا یہ شغل بھی ویسے ہی جاری و ساری ہے۔ اللہ نے وجود بھی دھان پان سا دے رکھا ہے، یا اس کو دھان پان رکھنے میں ہماری کچیچیوں کا عمل دخل ہے۔ ایک تھیوری یہ پیش کی جاتی ہے کہ کچیچیوں سے ہم اپنا خون اتنا جلا لیتے ہیں کہ وجود دھان پان سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتا۔ اس سلسلے میں کتنی سچائی ہے اس کا جواب تو وقت ہی دے گا، ہم نے اپنی ایک کچیچی پر یہ سب لکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔
کل کچھ احباب کے ساتھ کہیں پھرنے پھِرانے کا پروگرام تھا اور حسبِ عادت کسی بات پر ہمیں کچیچی چڑھ گئی۔ آج صبح سو کر اٹھے تو کچیچی جا چکی تھی۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہم نے چند سطریں گھسیٹ ڈالیں۔ اپنی کچیچیوں سے ہی ہم نے سیکھا ہے کہ کچیچی کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ کچیچی میں خون مسلسل دھیمی آگ پر کھولتا رہتا ہے جسمانی و نفسیاتی درجۂ حرارت میں اضافہ اگر دیر تلک چلتا رہے تو صحت کے لیے قطعاً کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ ثبوت کے لیے آپ ہمارے فیس بُک صفحے پر ڈھیر ساری تصاویر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ کچیچنا ایک آرٹ ہے لیکن اس سے اتنی ہی جلد نجات حاصل کر لینا اس سے بھی بڑا آرٹ ہے۔ اور ہمارے نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی کہ اس سلسلے میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے کہ غصہ آنے پر اندازِ نشست (کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں۔۔۔) تبدیل کر لیا جائے، وضو کر لیا جائے یا میں نے جھگڑا کرتے وقت سعودی عربوں کے طرزِ عمل بارے سنا ہے کہ چھڑانے والے لڑنے والے فریقین کو صلو علی الحبیب کے الفاظ سے درود شریف کی تلقین کرتے ہیں۔ اور نبی ﷺ کا تو نامِ نامی ہی ایسا ہے کہ زبان پر آتے ہی دل نرم پڑ جاتا ہے۔ اللہم صل علی محمد و اٰل محمد و اصحاب محمد۔
اپنی کچیچیوں سے تنگ آ کر ایک دن ہم بابا جی سرفراز اے شاہ صاحب کی خدمت میں چلے گئے جو کسی بابے کی خدمت میں حاضری کا اوّلین موقع تھا۔ ہم نے عرض کیا سر غصہ بہت آتا ہے جواباً انہوں نے دعا کر کے ایک ٹافی عنایت فرما دی۔ یہ ان کی دعا کا اثر ہے یا ہماری ڈھلتی عمر کا تقاضا ہے، وسیلہ جو بھی ہو ، اللہ کریم کی خاص رحمت ہے کہ اب احساس ہو جاتا ہے اور ہم اپنے آپ کو لعن طعن کر کے اس کیفیت سے نکلنے کی کوشش کر لیتے ہیں۔ جس طرح سٹنٹ سین کے نیچے لکھا ہوتا ہے کہ گھر پر ٹرائی مت کریں، اسی طرح آپ قارئین سے بھی التماس ہے کہ گھر پر غصہ ٹرائی مت کریں بلکہ نبوی ﷺ نسخہ آزمائیں، اور میری گزارش تو یہی ہو گی کہ درود شریف پڑھنے سے غصہ چلا جاتا ہے۔
اور آخر میں فیض کا ایک شعر
قرب کے نا وفا کے ہوتے ہیں
سارے جھگڑے انا کے ہوتے ہیں
گھُوری میں تایا جی اور والد صاحب کے غصے کا دخل ہو سکتا ہے کہ یہ وراثتی معاملہ ہے۔ لیکن کچیچی اس میں قطعاً ہماری ذاتی ایجاد ہے۔ کچیچی کا اردو ترجمہ دانت پیسنا بنتا ہے لیکن پنجابی والے معانی اس میں عنقا ہیں۔ کچیچی ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی بندے کو کسی بھی وقت چڑھ سکتی ہے۔ یہ صرف ایک فعل نہیں، ایک حالت ہے۔ جب کچیچی چڑھتی ہے تو دانت پیسنے کے ساتھ ساتھ کچھ اور افعال بھی سرزد ہو جاتے ہیں۔ جیسے ماتھے پر گھُوری، جبڑوں کا بھینچ جانا، کان سرخ اور آنکھوں سے آگ برسانے کی کوشش، اور پھر خون کا نقطہ کھولاؤ کے قریب پہنچ جانا۔ ان ساری کیفیات سے یہ ناتواں اپنے ابتدائی ایام سے واقف ہے۔ اس ناتواں وجود پر فرانسیسی فلسفی رینے دیکارت کا قول ("میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں") کچھ ترمیم و اضافے کے بعد ایسے فِٹ ہو سکتا ہے کہ "میں کچیچتا ہوں اس لیے میں ہوں"۔ شاید فدوی کو اپنے ہونے کا احساس ہی کسی اوّلین کچیچی سے ہوا تھا۔ اس حوالے سے ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ اس دنیا میں پیدا کرنے کے مرکزی مقصد یعنی اللہ کی عبادت کے علاوہ ہمیں خالق نے جو اضافی ذمہ داریاں سونپیں ان میں سے ایک کچیچنا بھی تھا۔ اور اللہ کے فضل سے پچھلے تین عشروں سے ہم عبادت کا فرض انجام دینے میں چاہے کوتاہی کر جائیں، کچیچی کا فرض بہ احسن و خوبی سرانجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔
فنکاروں، اداکاروں اور مشاہیر سے پوچھا جاتا ہے کیا بچپن سے ہی یہ بننا چاہتے تھے؟ پہلی بار کیسے احساس ہوا کہ آپ کے اندر ایک فلاں چھپا بیٹھا ہے؟ اسی فلو میں ہم سے پوچھا جائے کہ پہلی کچیچی کب لی تھی، تو اس کا جواب دینا مشکل ہو گا۔ چونکہ ہمارے لیے کچیچی روزمرہ کے معمولات کا ایک حصہ رہی ہے۔ کچیچی لینا ہمارے لیے کچھ ایسا ہی نارمل عمل تھا جیسے بکری کے بچے (میمنے) کے لیے بے بے کرنا۔ ایک عرصے تک ہم بھی کچیچنے کو ہوا، پانی اور روٹی کی طرح زندگی کی ضرورت سمجھتے رہے۔ یادوں کے افق پر اس کی نفی کرتی ہوئی پہلی رنگین تصویر جو نقش ہے وہ ہمارے گیارہویں کے ٹیوشن پڑھانے والے پروفیسر صاحب تھے۔ پی ایچ ڈی اسسٹنٹ پروفیسر جو جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں استاذ تھے اور ساتھ ہومیو پیتھی کا شغل فرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے ہمارے چہرے پر طاری رہنے والی اس مستقل کیفیت کو دیکھ کر ایک دن ہمیں پکڑ کر زبردستی بٹھا لیا، اپنی ہومیو پیتھی والی کتاب کھول لی اور ہم سے سوال جواب کرنے کے بعد ایک انتہائی کڑوی دوائی کے چند قطرے حکماً ہماری زبان پر ٹپکائے۔ اس دن ہمیں ایسا لگا کہ ہماری کچیچیی ہی دوائی کی صورت میں ہمارے سامنے آ گئی ہے۔ اللہ ان پروفیسر صاحب کا بھلا کرے، وہ ہمارا علاج تو نہ کر سکے لیکن علاج کرنے کی کوشش ضرور کی۔ اللہ انہیں نیت کا ثواب عطاء فرمائے۔
گیارہویں کے بعد بھی ظاہر ہے ہم زندہ و جاوید رہے اور ابھی تک بفضل تعالٰی شریکوں کے سینوں پر مونگ دلتے ہشاش بشاش، اور ہٹے کٹے (چلیں اس کا دس فیصد کر لیں) ہیں۔ اور ہمارا یہ شغل بھی ویسے ہی جاری و ساری ہے۔ اللہ نے وجود بھی دھان پان سا دے رکھا ہے، یا اس کو دھان پان رکھنے میں ہماری کچیچیوں کا عمل دخل ہے۔ ایک تھیوری یہ پیش کی جاتی ہے کہ کچیچیوں سے ہم اپنا خون اتنا جلا لیتے ہیں کہ وجود دھان پان سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتا۔ اس سلسلے میں کتنی سچائی ہے اس کا جواب تو وقت ہی دے گا، ہم نے اپنی ایک کچیچی پر یہ سب لکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔
کل کچھ احباب کے ساتھ کہیں پھرنے پھِرانے کا پروگرام تھا اور حسبِ عادت کسی بات پر ہمیں کچیچی چڑھ گئی۔ آج صبح سو کر اٹھے تو کچیچی جا چکی تھی۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہم نے چند سطریں گھسیٹ ڈالیں۔ اپنی کچیچیوں سے ہی ہم نے سیکھا ہے کہ کچیچی کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ کچیچی میں خون مسلسل دھیمی آگ پر کھولتا رہتا ہے جسمانی و نفسیاتی درجۂ حرارت میں اضافہ اگر دیر تلک چلتا رہے تو صحت کے لیے قطعاً کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ ثبوت کے لیے آپ ہمارے فیس بُک صفحے پر ڈھیر ساری تصاویر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ کچیچنا ایک آرٹ ہے لیکن اس سے اتنی ہی جلد نجات حاصل کر لینا اس سے بھی بڑا آرٹ ہے۔ اور ہمارے نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی کہ اس سلسلے میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے کہ غصہ آنے پر اندازِ نشست (کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں۔۔۔) تبدیل کر لیا جائے، وضو کر لیا جائے یا میں نے جھگڑا کرتے وقت سعودی عربوں کے طرزِ عمل بارے سنا ہے کہ چھڑانے والے لڑنے والے فریقین کو صلو علی الحبیب کے الفاظ سے درود شریف کی تلقین کرتے ہیں۔ اور نبی ﷺ کا تو نامِ نامی ہی ایسا ہے کہ زبان پر آتے ہی دل نرم پڑ جاتا ہے۔ اللہم صل علی محمد و اٰل محمد و اصحاب محمد۔
اپنی کچیچیوں سے تنگ آ کر ایک دن ہم بابا جی سرفراز اے شاہ صاحب کی خدمت میں چلے گئے جو کسی بابے کی خدمت میں حاضری کا اوّلین موقع تھا۔ ہم نے عرض کیا سر غصہ بہت آتا ہے جواباً انہوں نے دعا کر کے ایک ٹافی عنایت فرما دی۔ یہ ان کی دعا کا اثر ہے یا ہماری ڈھلتی عمر کا تقاضا ہے، وسیلہ جو بھی ہو ، اللہ کریم کی خاص رحمت ہے کہ اب احساس ہو جاتا ہے اور ہم اپنے آپ کو لعن طعن کر کے اس کیفیت سے نکلنے کی کوشش کر لیتے ہیں۔ جس طرح سٹنٹ سین کے نیچے لکھا ہوتا ہے کہ گھر پر ٹرائی مت کریں، اسی طرح آپ قارئین سے بھی التماس ہے کہ گھر پر غصہ ٹرائی مت کریں بلکہ نبوی ﷺ نسخہ آزمائیں، اور میری گزارش تو یہی ہو گی کہ درود شریف پڑھنے سے غصہ چلا جاتا ہے۔
اور آخر میں فیض کا ایک شعر
قرب کے نا وفا کے ہوتے ہیں
سارے جھگڑے انا کے ہوتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔