کرسمس کے باضابطہ آغاز میں ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ شہر کے گرجا گھروں کے گھنٹے مسیح کی ولادت کی خوشی میں ہر کچھ عرصے بعد بجنے لگتے ہیں۔ میری کھڑکی پر ابھی ابھی ہونے والی بارش کے ان گنت قطرے ایسے بکھرے ہیں جیسے دور بہت دور میرے دیس پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بیس برس پہلے کی راتوں میں آسمان پر ستارے بکھرے ہوا کرتے تھے۔ میرے سامنے والی عمارتوں میں کہیں کہیں جگنو نما ننھی ننھی روشنیاں نظر آ رہی ہیں ۔ ایک دو جگہ ہشت رخ ستارے بھی روشن ہیں۔ سٹریٹ لائٹ کی روشنیاں درختوں کے سائے، دھندلے سائے میری بصارتوں تک پہنچا رہی ہیں۔ ٹنڈ منڈ درخت جنہیں دن کی روشنی میں ذرادور سے دیکھنے پر ہریالی کا گمان ہوتا ہے لیکن قریب جانے پر احساس ہوتا ہے کہ بارشوں کی زیادتی نے ان پر کائی کی مستقل تہہ چڑھا رکھی ہے۔ دن ابھی روشن ہو تو کبھی کبھار کوئی اجنبی سا پرندہ قریب سے اڑتا چلا جاتا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے یادوں کے پرندے بھی اڑان بھر کر اندر ہلچل مچا دیتے ہیں۔ میرے شہر فیصل آباد کی گرد اور دھواں، اور گرد بھرے درختوں پر چہچہاتی چڑیاں، کوے ، کبوتر بازوں کے کبوتر سب اڑان بھرنے چلے آتے ہیں۔ اور میں ہزاروں میل دور ہو کر بھی وہیں جا پہنچتا ہوں جہاں ایک ماہ پہلے میرے بھائی کی شادی کا ہلا گلا تھا، اور پھر میں یہاں آنے کے بارے میں اندر ہی اندر بے قرار تھا۔
یہ شہر بہت اچھا ہے۔ صاف ستھرا ، نیٹ اینڈ کلین، قانون انکل کے سامنے مؤدب اور فرمانبردار۔ لیکن اس سب کے باوجود جب بھی اس کے بارے میں سوچوں تو اجنبی، سرد، سرمئی جیسی صفات جیسے اوپر ہی کہیں رکھی ہوتی ہیں فوراً سامنے آن موجود ہوتی ہیں۔ ایک اجنبی دیس کا اجنبی شہر جس کی اجنبی زبان میں سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ سو تک گنتی، سبزیوں اور پھلوں کے نام، نشست و برخاست کے کلمات اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر روز گھر سے نکل کر اسی راستے پر، اسی عمارت میں پہنچتا ہوں اور پھر وہیں واپسی جہاں سے صبح چلا تھا۔ جیسے ایک دائرے کا سفر۔۔۔رہائش سے اسکول ۔۔۔مسجد ۔۔۔گروسری کی چند دوکانیں ۔۔۔گھر۔۔۔اسکول۔۔۔اور دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اس دائرے میں کہیں کہیں دراڑ اس وقت پڑتی ہے جب ہم چودہ لوگوں کا گروپ کوئی پارٹی ارینج کر لے۔ آج بھی پاکستان کے ان ہونہار ترین لوگوں میں بیٹھا تو جیسے پاکستان کی جانب ایک کھڑکی کھلی رہی۔ ہنسی، قہقہے، چھیڑ چھاڑ ، دیر سے آنے پر غصہ اور پھر کھانا۔۔۔۔اور بیچ میں میری چولیں۔۔۔میرے پرانے احباب کے خیال میں میری تعلیم ایم فِل لسانیات نہیں ایم فِل میراثیات ہے۔ شاید ان کا کہنا بھی ٹھیک ہی ہے کہ میں نے اپنے اوپر ایک خاص کیفیت کچھ ایسے طاری کر رکھی ہے کہ تین عشروں بعد بھی آج بے تُکا، بے ڈھنگا، بے ہدائیتا، کھلنڈرا اور مورکھ ، بدتمیز شرارتی بچہ نظر آتا ہوں جس کی نظر ہمیشہ دوسرے بچے کو تنگ کرنے پر ہوتی ہے۔ اتنے قابل ترین لوگوں میں بیٹھ کر بھی مجھے ہدایت نصیب نہیں ہوئی اور نہ ہونے کی کوئی امید نظر آتی ہے۔
چارلی چپلن کہتا ہے کہ مجھے بارش میں چلنا پسند ہے تاکہ کوئی میرے آنسو نہ دیکھ سکے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر زمانے میں کچھ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خلوت اور جلوت میں دو الگ الگ چہروں کے حامل ہوتے ہیں۔ دوہرے چہرے والے لوگ، ان کے اندر کیسے ہی الاؤ روشن ہوں، دکھ کا سرما پھیلا ہو یا اداسی کی خزاں اتری ہو، اوپر سے ہمیشہ پُر بہار نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں بھی ایسے ہی دو چہرہ لوگوں میں سے ہوں۔ اصل چہرے پر نقاب چڑھا کر اس بات کے آرزومند لوگ کہ دیکھنے والا "اگنور" کا بٹن دبا کر نقاب کو پرے کر دے اور براہِ راست اصل چہرے سے ہم کلام ہو۔
یہ شہر بہت اچھا ہے۔ صاف ستھرا ، نیٹ اینڈ کلین، قانون انکل کے سامنے مؤدب اور فرمانبردار۔ لیکن اس سب کے باوجود جب بھی اس کے بارے میں سوچوں تو اجنبی، سرد، سرمئی جیسی صفات جیسے اوپر ہی کہیں رکھی ہوتی ہے فوراً سامنے آن موجود ہوتی ہیں۔ ایک اجنبی دیس کا اجنبی شہر.....
جواب دیںحذف کریںمیری پچھلے 25 برس کی کہانی کو آپ نے چند سطروں میں بیان کردیا۔۔۔۔بہت خوب لکھا ہے۔