جمعہ، 18 مارچ، 2016

اعتراف

آج میرے لینگوئج سکول میں ہم نے اپنے اساتذہ کے لیے ایک الوداعی پارٹی رکھی تھی۔ یہاں چار ماہ گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ میرے ملک کے عظیم دماغ جن کی صحبت کا شرف مجھے حاصل رہا۔ سائنس، معیشت، قانون غرض ہر شعبے کے ابھرتے ہوئے ستارے اور مجھ جیسا ایک عام سا انسان جو بس تُکے سے ان کے ہمراہ ہو لیا۔ پنجابی میں اسے انھے ہتھ بٹیرا (اندھے کے ہاتھ بٹیر) والی مثال سے سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ میں استاد ہوں اور میں نے یہ بھی مشہور کر رکھا ہے کہ کئی برس سے ترجمہ کر کر کے میں اچھا خاصا مترجم ہو چکا ہوں۔ دوسروں کے الفاظ ترجمہ کر  کر کے اور لوگوں کی کتب سے پڑھا پڑھا کر مجھے چند لفظ کہنے اور لکھنے کا فن آ گیا ہے۔ میرے احباب نے میرے اس بہروپ کو سچ سمجھ کر جب الوداعی کلمات بولنے کے لیے کھڑا کیا تو اپنی کم مائیگی  کا احساس اور شدید ہو گیا۔ اتنے بڑے بڑے لوگ اور ان کے سامنے کھڑا ایک بونا بھلا کیا بولتا۔ انگریزی میں چند جملے بول کر رہ گیا۔ وہ لفظ تو میری زبان سے نکل گئے، لیکن مجھے بہت دیر بعد (جیسا کہ میرا معمول ہے) احساس ہوا کہ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے۔ کہ ان عظیم دماغوں کا ساتھ اب چند دنوں کا ہی ہے۔ پھر سب اپنے اپنے شہر پی ایچ ڈی کے لیے چلے جائیں گے، اور میں جو ان کی تابانی سے روشن ہو کر خود کو بھی ایک ہیرا سمجھنے لگ گیا تھا پھر سے بے قیمت کوئلہ رہ جاؤں گا۔

بھلا صلاح الدین جیسا ہنس مُکھ اور بے لوث دوست کہاں ملے گا۔ اس کی سدا بہار مسکراہٹ اور ایک خاص وقفے سے بلند ہوتی ہوئی ہنسی، عبدالرحمٰن کا افسرانہ انداز اور نپی تلی باتیں بھلا کون بھولے گا۔ عمران کی کھلکھلاتی ہوئی خاموش مسکراہٹ، رانا فیصل شہزاد کا اپنی تعریف پر جھینپتے ہوئے قہقہے لگانا، محمد فیصل کا میری جگت اندازی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا، ظفر صاحب  کا حیران کن حد تک وسیع جرمن ذخیرۂ الفاظ، سہیل آفتاب بھائی کامشفقانہ اور بزرگانہ انداز ۔۔ تنزیلہ علوی، غزالہ عنبرین، عظمیٰ علی جنہوں نے مجھے چھوٹا بھائی سمجھ کر سُدھارنے کی کوشش کی اور جو سخت ناکامی سے دوچار ہوئی، بشرٰی غفران احمد کا سو سنار کی کے جواب میں ایک لوہار کی چوٹ لگانا اور اس پر مخاطب کا بلبلا اُٹھنا، میمونہ منیر کا پانچ سالہ تدریسی تجربہ جو انہوں نے اس کلاس میں بے دریغ آزمایا اور ماریہ (اور ان کا بیٹا محمد عبداللہ)۔۔۔ یہ سب لوگ ستاروں کا ایک ایسا کلسٹر تھے جن کے قریب سے گزرتے گزرتے میں، ایک آوارہ سیارہ، کچھ عرصے کے لیے روشن ہو گیا۔ اور جب یہ سفر ختم ہوا تو پھر سے اندھیرا اس بے آب و گیاہ وجود کا مقدر ہو گا۔

جے میں ویکھاں عملاں ولے
کُجھ نئیں میرے پلے

جے ویکھاں تیری رحمت ولے
بلے بلے بلے

میرے پلّے تو کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ میں کل بھی تہی دامن تھا، آج بھی خالی ہاتھ ہوں۔ جو کچھ ہے اُس کی رحمت ہے۔ ان احباب کا ساتھ بھی اس کی رحمتوں میں سے ایک رحمت تھی۔ میرے لیے بہت کچھ سیکھنے کا موقع، جو میری نالائقی سے ضائع جا رہا ہے۔ جب میرے ہاتھ اُٹھیں اور آنکھیں بھر آئی ہوں تو منہ سے یہی لفظ ادا ہوا کرتے ہیں کہ مالک یہ تو تُجھے اور مُجھے پتا ہے کہ میرے پلّے کچھ نہیں ہے۔ لیکن تُو تو ستّار ہے، تُو میرے عیبوں پر پردہ ڈالے رکھیو، یہ جو بہروپ میں نے بھر رکھا ہے، جو سوانگ رچا رکھا ہے اس پر اپنی عطاء کی چادر ڈالے رکھیو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاکر بہت کچھ ہے، لیکن یہ تو تُو اور میں جانتے ہیں کہ شاکر نامی یہ مٹی کا باوا ہر سانس تیری رحمت کا منتظر ہے، جس سانس تیرا کرم اس پر سے اُٹھا وہ سانس اس کی آخری سانس ہو گی۔

1 تبصرہ:

  1. اعتراف بھی ایک عطا ہی ہے- عجزسے ہی عطا ہوتاہے اوربلاشبہ عاجزی علم بھی اورحکمت بھی - اللہ تعالٰی زورقلم مزید فرمائے اورآپ کو خیرکثیرعطا فرمائے -

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔