ہفتہ، 19 ستمبر، 2015

اینڈرائیڈ کے لیے انگریزی اردو اور اردو انگریزی لغت Urdu English and English Urdu Dictionary for Android

احباب کی ایک عرصے سے خواہش تھی کہ اینڈرائیڈ کے لیے اردو انگریزی اور انگریزی اردو لغت مہیا ہو جو لالچی اشتہار بازوں سے بھی پاک ہو۔ اس سلسلے میں دو برس پہلے ایک کوشش کی تھی۔ لیکن اس سلسلے میں دو خرابیاں تھیں ایک تو یہ سرچ ایپ بہت پرانی ہو چکی تھی، دوسرے استعمال ہونے والی ڈکشنری ڈیٹابیس کافی محدود سی تھی۔ پچھلے دنوں پی سی کے لیے گولڈن ڈکشنری کے پورٹیبل ورژن میں اردو انگریزی اور انگریزی اردو لغات ڈالیں۔ آج فیس بُک اردو بلاگر گروپ پر برادرم نعیم سواتی کے ایک سوال پر خیال آیا کہ گولڈن ڈکشنری اینڈرائیڈ کے لیے بھی تو ہے۔ لیکن مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ قیمتاً کے علاوہ ایک مفت ورژن بھی موجود ہے۔ چنانچہ آج قیمتاً کو خریدتے خریدتے مفت والے ورژن کا پتا چلا جو جھٹ سے اتار کر میں نے تو اپنی لغت چالو کر لی ہے۔ آپ بھی کریں۔
  • یہاں سے گولڈن ڈکشنری ایپ مفت والی اتار لیں۔
گولڈن ڈکشنری نصب ہو گئی ہے۔
  • یہاں سے ڈکشنری ڈیٹابیسز اتار لیں۔ اس میں اردو انگریزی اور انگریزی اردو دونوں موجود ہیں۔
  • اب آپ نے اپنے ایس ڈی کارڈ یا فون اسٹوریج میں ایک نیا فولڈر بنانا ہے اور فون کو پی سی سے جوڑ کر یہ ڈیٹابیس فائلیں اس فولڈر میں ان زپ کر دیں۔
  • میں نے UrduDictionary نامی فولڈر بنا کر اس میں ساری ڈیٹا بیسز کاپی کر دی تھیں۔ اس کے بعد گولڈن ڈکشنری ایپ چلائی۔ پہلی مرتبہ چلانے پر آپ کو Preferences میں جا کر لغات کے لیے ایڈیشنل ڈائریکٹری شامل کرنا پڑے گی یعنی جہاں آپ نے اردو ڈکشنری ڈیٹابیسز رکھی ہیں۔
اس وقت پریفرینسز میں موجود ہیں۔
میں نے متعلقہ فولڈر منتخب کر لیا ہے۔
یہاں ساری ڈکشنری ڈیٹابیسز نظر آ رہی ہیں۔ اردو انگریزی والی بھی اور انگریزی اردو والی بھی۔
ڈکشنریاں انڈیکسنگ کے لیے تیار ہیں۔
انڈیکسنگ جاری ہے۔
 انڈیکسنگ مکمل ہو چکی ہے۔ ہر ڈکشنری میں اندراجات کی تعداد بھی نظر آ رہی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں انگریزی سے اردو تلاش کا ایک نمونہ۔
اردو سے انگریزی تلاش کا ایک نمونہ۔
اور آخر میں اتنا ہی کہ یہ سب جگاڑ ہے۔ امید ہے آپ کا گزارہ کرے گی جیسے میرا گزارہ کر رہی ہیں۔

جمعہ، 18 ستمبر، 2015

جنت کی پوشاکیں



ڈبلیو بی ییٹس کی ایک نظم کے ساتھ کھلواڑ، ایک نثری اور کافی سارا بے تُکا ترجمہ۔


جنت کی پوشاکیں

کاش میرے پاس جنت کی پوشاکیں ہوتیں،
سنہری اور نقرئی کرنوں سے بُنی،
شوخ اور ہلکے آسمانی رنگ کی پوشاکیں،
سیاہ اور سفید رنگوں میں گُندھی؛
تو میں یہ سب تمہارے قدموں میں بچھا دیتا:
لیکن میرے دامن میں خوابوں کے علاوہ کچھ نہیں؛
میں نے اپنے خواب ہی تمہارے قدموں میں بچھا دئیے ہیں؛
دیکھو! سنبھل کر چلنا کہ تم میرے خوابوں پر چل رہے ہو۔
ترجمہ: بقلم خود
The Cloths of Heaven




Had I the heaven's embroidered cloths,
Enwrought with golden and silver light,
The blue and the dim and the dark cloths 
Of night and light and the half-light;
I would spread the cloths under your feet:
But I, being poor, have only my dreams;
I have spread my dreams under your feet;
Tread softly because you tread on my dreams.

W. B. Yeats

جمعرات، 17 ستمبر، 2015

ڈسکورس یا کلامیہ

ڈسکورس کی اصطلاح ادب، تنقید نگاری، عمرانیات، علومِ ترجمہ، سیاسیات وغیرہ وغیرہ میں بکثرت استعمال کی جاتی ہے۔ اس شعبے کے ماہرین اور طلبہ اس سے اپنے اپنے انداز میں واقفیت رکھتے ہیں۔ ڈسکورس کو ترجمہ کریں تو بیانیہ، کلامیہ یا خطابت کا لفظ مناسب لگتا ہے جن میں سے کلامیہ مجھے اس لیے پسند ہے چونکہ یہ پہلے کسی اور معانی کے لیے مستعمل نہیں۔ بیانیہ آج کل ہمارے کالم نگار بڑی شد و مد سے نیریٹِوْ کے اردو متبادل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ خطابت کا لفظ فصاحت و بلاغت اور تقریر و خطبہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ تو قارئین ڈسکورس یا کلامیہ ہم زبان کے ایک درجہ کو کہتے ہیں۔

 زبان آواز سے شروع ہوتی ہے۔ آوازیں مل کر بامعنی ٹکڑے بناتی ہیں جنہیں صرفیے کہا جاتا ہے۔ اردو (اور عربی) گرامر میں صرف الفاظ کی ساخت سے متعلق علم کو کہا جاتا ہے۔ چنانچہ صرف و نحو (گرامر) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ صرف کے بعد لفظ آتے ہیں۔ اور پھر جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں نحو یعنی گرامر کا درجہ آتا ہے۔ اس کے بعد معنیات اور پھر سیاقی معنیات جسے انگریزی میں پریگمیٹکس کہا جاتا ہے، آتی ہے۔ جب بات فقرے کی حدود سے ماوراء ہو جاتی ہے تو پھر ہم زبان کو ڈسکورس یا کلامیہ کہہ دیتے ہیں۔

کلامیہ زبان و بیان کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جسے ابلاغی طور پر مکمل سمجھا جاتا ہے۔ یعنی زبان کا ایک خود انحصاری ٹکڑا، جو اپنے اندر ساختی اور معنیاتی تانے بانے کے ساتھ بڑی مضبوطی سے بندھا ہوتا ہے۔ اس کی مثال مولوی صاحب کا وعظ، سیاستدان کی تقریر، کمنٹیٹر کا رواں تبصرہ، فیس بک کی ایک پوسٹ، کسی بلاگر کی ایک تحریر، مستنصر حسین تارڑ یا کسی بھی مصنف کی ایک کتاب یا ناول یا افسانہ، کسی شاعر کی نظم یا دیگر صنفِ شاعری، کسی کالم نگار کا کالم، ایک خبر یا خبری مضمون، ایک اداریہ، کسی استاد کا لیکچر، دو یا زیادہ لوگوں کا مکالمہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب میں سے آپ کوئی بھی ابلاغی ٹکڑا اٹھا لیں وہ اپنے آپ میں بڑی حد تک مکمل ہو گا۔ اس میں آپ کو ساختی یعنی گرامر کی سطح پر ایسے روابط ملیں گے جو اسے باندھے رکھتے ہیں۔ مثلاً اسمائے ضمیر کا استعمال علی ایک لڑکا ہے۔ وہ کام کرتا ہے۔ وہ اسکول جاتا ہے۔۔۔۔ ان تین فقروں میں پہلا اور اس کے بعد ہر فقرہ آپس میں مربوط ہیں چونکہ اسمائے ضمیر پہلے فقرے کے اسم کی طرف اشارہ کناں ہیں۔ اسی طرح معنیاتی لحاظ سے بھی ان میں ربط موجود ہے۔ علی ایک لڑکا ہے۔ وہ سرخ رنگ کی ہے۔ اس رنگ کا ہیلمٹ ابو کل لے کر آئے تھے۔۔۔ میں ساختی لحاظ سے تو روابط شاید موجود ہوں، معنیاتی لحاظ سے تینوں جملے تین مختلف جگہوں سے اٹھائے گئے ہیں۔ چنانچہ ان کا کوئی ربط نہیں بن رہا اور ہر جملہ ہماری توقعات کو ٹھوکر مار کر ایک نیا مضمون متعارف کروا رہا ہے۔ ایسے بارہ پندرہ جملے پڑھنے کے بعد خاصا امکان ہے کہ آپ لکھنے والے کے سر پر بال (اگر کوئی باقی ہے بھی تو) نہ رہنے دیں۔ تو اب تک نتیجہ یہ ہے کہ ہماری زبان صرف فقرات تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ فقروں سے اوپر ایک درجہ کلامیے کا بھی ہے جو ہماری زبان کو روزمرہ میں ابلاغ کے قابل بناتا ہے۔ ایک عام اہلِ زبان کو ان سارے درجات سے قطعاً کوئی سروکار نہیں چونکہ وہ زبان جانتا ہے اور یہ اس کے لیے کافی ہے۔ لیکن ماہرینِ لسانیات چونکہ ویلے ہوتے ہیں، اور کوئی کام نہیں ہوتا اس لیے پچھلی ایک ڈیڑھ صدی سے وہ بیٹھے یہی کام کر رہے ہیں یعنی لسانیات کی شاخیں متعارف کروانا اور ایسے درجات تعمیر کرتے رہنا۔ تو آپ اگر ابھی تک میرے ساتھ ہیں تو بسم اللہ۔ اگر اس سے پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں تو پھر لیٹ اللہ حافظ قبول فرمائیں۔

تو میرے باقی ماندہ قاری/ئین ہم چلتے ہیں کلامیے کے ایک اور پہلو کی طرف جو تنقید اور انتقادی لسانیات کا موضوع ہے۔ اوپر ہم نے کلامیے کو نیوٹرل نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ لیکن کلامیہ (یا دوسرے لفظوں میں زبان) نیوٹرل نہیں ہوتی۔ زبان میں ہمیشہ سیاست ملوث ہوتی ہے، ہر لفظ کے پیچھے ایک ایجنڈا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کلامیے کے ذریعے لوگ کسی کی حق تلفی کر سکتے ہیں، کسی کو پاکباز اور کسی کو شیطان پیش کر سکتے ہیں، کسی کے حقوق سلب کر سکتے ہیں، کسی کو سچا اور کسی کو جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں، کسی کو برتر اور کسی کو ادنٰی ثابت کر سکتے ہیں۔ یہ سب کھلم کھُلا نہیں ہوتا۔ یہ سب زبان کی میکانیات کے ذریعے ڈھکے چھپے انداز میں کیا جاتا ہے۔ مثلاً صنفی برابری کی مثال ہی لے لیں۔ پدرسری معاشروں کی وجہ سے انگریزی اور اردو جیسی زبانوں میں مذکر غائب اسمِ ضمیر کا استعمال عام رہا ہے۔ انگریزی میں تو ہِی کی جگہ دے اور شی کا استعمال کافی عام ہو چکا ہے لیکن اردو جیسی زبان میں اب بھی ڈیفالٹ مذکر اسمِ ضمیر مستعمل ہے مثلاً میں ترجمہ کرتے وقت لکھتا ہوں "کوئی اور اس دستاویز کی تدوین کر رہا ہے" جبکہ میں اس کی جگہ 'رہی ہے' بھی برت سکتا ہوں جو کہ میں لاشعوری طور پر نہیں کرتا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اس سے صنفی برابری کو کتنا نقصان پہنچتا ہے، یہاں مقصد تنقیدی نقطہ نظر بارے بات کرنا تھا۔ کلامیے کا تجزیہ ایک پورا شعبۂ علم ہے جسے کلامیے کا انتقادی تجزیہ کہا جاتا ہے۔ صنفی مطالعات (خصوصاً تانیثیت)، نسلی رواداری کے حوالے سے (تارکینِ وطن کے حوالے سے مستعمل کلامیہ)، سیاسیات اور سیاسی بیانات، اخبارات اور ٹیلی وژن، اور دیگر میڈیا سے پیدا ہونے والے کلامیے کا انتقادی تجزیہ ایک کثیر الشعبہ جاتی میدان ہے۔ سیاسیات، لسانیات، ادب، اور عمرانیات وغیرہ میں اس پر بے تحاشا کام ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے۔

انتقادی نقطہ نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ کلامیہ معاشرے کو سانچے میں ڈھالتا ہے۔ کلامیے کے ذریعے آپ عدم کو بھی موجود ثابت کر سکتے ہیں۔ اس کی آسان مثال وہی کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ سمجھ لیا جائے۔ اسی طرح سماج بھی کلامیے کی تشکیل کرتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو کلامیہ اوپر بیان کردہ تعریف کے مطابق صرف ایک ابلاغی عمل کا نام نہیں۔ بلکہ کلامیہ تو ایک لہر ہے جو کئی ابلاغی اعمال (تقریر، وعظ، گفتگو، مکالمہ، بلاگ، کالم، فیس بک اسٹیٹس) سے مل کر بنتی ہے۔ ہمارے سماج میں اور اس عالمی گاؤں میں کلامیے کی کئی لہریں پائی جاتی ہیں۔ ایک کلامیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہے، ایک کلامیہ جہاد اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ہے، ایک کلامیہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے کا ہے، ایک کلامیہ پاکستان کے سارے سیاستدان کرپٹ ہیں کا ہے، ایک کلامیہ فوج سارے مسائل کے حل کا ہے، ایک کلامیہ اسلاموفوبیا کا ہے، ایک کلامیہ اخوت و بھائی چارہ اب جرمنی منتقل ہو چکا ہے کا ہے، ایک کلامیہ پناہ گزینوں کو پناہ دینے کے حق میں ہے اور ایک اس کی مخالفت کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔الغرض یہ دنیا ابلاغ کا ایک سمندر ہے۔۔ابلاغ زبان کے ذریعے ہوتا ہے اور زبان کے ذریعے کلامیہ تشکیل دیا جاتا ہے۔۔۔اور پھر ایک رنگا نہیں رنگ برنگا، لہر در لہر کوئی پچاس فٹ اونچی لہر ہے کوئی بمشکل ایک فٹ اونچا اٹھ پاتی ہے۔۔۔کلامیے کی یہ رنگ برنگی اور متنوع لہریں بہتی رہتی ہیں، ادھر سے اُدھر چلتی رہتی ہیں۔ اور جب ہم زبان میں کوئی ابلاغی ٹکڑا لکھتے ہیں یا بولتے ہیں تو ہم کسی نہ کسی انداز میں ان میں سے ایک یا زیادہ کلامیاتی لہروں پر سواری کر رہے ہوتے ہیں۔ اب تک میں نے جسے ابلاغی ٹکڑے کہا اسے اب متن یا ٹیکسٹ کہوں تو آپ کی سمجھ میں آسانی سے آ جائے گا۔ متون ہوا میں تخلیق نہیں ہوتے، متون آپس میں ربط و توافق کے حامل ہوتے ہیں جسے انگریزی میں انٹرٹیکسچویلٹی کہا جاتا ہے۔ ہر متن میں دوسرے متون کا عکس ظاہراً یا باطناً موجود ہوتا ہے۔ ہر نیا متن، متون کے طویل سلسلے کی تازہ ترین مثال یا نمونہ ہوتا ہے۔ ہر متن اپنے آپ کو منوانے کے لیے، اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے، اپنی جواز دہی کے لیے دوسرے متون کا سہارا لیتا ہے۔ تو پھر جو کچھ ہم لکھتے ہیں یا بولتے ہیں وہ ایک ربط و توافق کے ایک ایسے لامحدود نیٹ ورک سے منسلک ہوتا ہے کہ ہم لاشعوری طور پر کبھی اس پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں فرماتے۔

تو اب تک بات یہاں پہنچی کہ کلامیہ اور معاشرہ ایک دوسرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور ہمارے سماج میں زبان کی صورت میں کلامیے لہر در لہر ادھر سے اُدھر بہتے رہتے ہیں۔ اور ہم اور دیگر افراد یا گروہ (چاہے وہ غالب ہوں یا مغلوب، ظالم ہوں یا مظلوم) اپنی پسند کی کلامیاتی لہروں پر سوار ہو کر اپنی اپنی بھیرویں بجاتے پھرتے ہیں۔ میڈیا کلامیہ کی ترسیل کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ کلامیہ کے ذریعے لوگوں کے دل و دماغ بدل کر غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کیا جاتا ہے، اسٹیٹس کو برقرار رکھا جاتا ہے، برتری (انگریزی میں hegemony) تخلیق کی جاتی ہے۔ اور میڈیا اس سب میں بہت بڑا کھلاڑی ہے۔ کلامیہ ہی ہے نا جس نے دو ہفتے پہلے جرمنی کو انصارِ مدینہ کا جانشین ثابت کر دیا، اور اب بھی کلامیہ ہی ہے جو سرحدیں بند کرنے پر سب "نیوٹرل" موڈ میں دکھا رہا ہے۔

اس تحریر کے پسِ پُشت تین چار محرکات تھے، ان میں تازہ ترین آج ایک بلاگر کی پوسٹ کا اقتباس تھا۔ لکھاری نے مثال ناروے میں قتل کرنے والے شدت پسند عیسائی سائیکو کی دی ہوئی تھی اور ان کا متن اسلاموفوبیا کے کلامیے پر سواری کی کوشش کر رہا تھا یعنی جب بھی مسلمان ہو تو دہشت گرد ہوتا ہے، اور غیر مسلم ہو تو زیادہ سے زیادہ پاگل قرار دے دیا جاتا ہے جیسے ناروے کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ان کی اس کھچڑی سی تحریر سے مجھے یہ تحریر لکھنے کا خیال آ گیا جو میں اب لکھ کر ختم کر رہا ہوں۔ اور یہ ختم ہو گئی۔ آپ کے پلے کچھ نہ پڑا ہو تو اس میں میرا بھلا کیا قصور ہے؟

منگل، 18 اگست، 2015

پہلی نظر

پہلی نظر، پہلی ملاقات اور پہلا لمس کبھی نہیں بھولتے۔ پہلی نظر کے بعد باقی رہ جانے والی تشنگی، پہلی ملاقات کے بعد بھی رہ جانے والے ان دیکھے فاصلے اور پہلے لمس میں چھپی اجنبیت صرف ایک مرتبہ کا احساس ہوتے ہیں۔ لیکن یہ احساس کبھی نہیں جاتا۔ پھر چاہے تشنگی مٹانے کو جام بھر بھر کر ملیں، فاصلے ایسے مٹیں کہ قربتوں کو رشک آنے لگے، اجنبیت ایسے دور ہو کہ جنم جنم کا ساتھ لگنے لگے، لیکن وہ پہلی نظر، پہلی ملاقات اور پہلا لمس کبھی نہیں بھولتے۔
میں جب کسی شہر سے، کسی شخص سے، یا کسی راستے سے پہلی بار ملتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ بس کترا کر گُزر جاؤں۔ میرا انداز ایسا ہوتا ہے بس یہ وقت گزر جائے اور اللہ کرے دوبارہ ان سے آمنا سامنا نہ ہو۔ اگر قسمت میں لکھا ہو اور ساتھ طویل ہو جائے تو پھر دھیرے دھیرے میں ان پر اور یہ مجھ پر کھُلتے ہیں۔

کسی شہر میں پہلی بار داخل ہوں تو میرا انداز بتیاں دیکھنے شہر آنے والے پینڈو جیسا ہوتا ہے۔ ہر اجنبی چیز، عمارت، نشانِ راہ کو ایسے دیکھتا ہوں جیسے ایسی کوئی چیز پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔ ہر چیز کوری کنواری لگتی ہے۔ جیسے میرے ہی انتظار میں پڑی ہو کہ میں آؤں، دیکھوں اور اس دیکھنے سے اُسے بھی اُس کے ہونے کا احساس دلاؤں۔ کسی شہر سے پہلی ملاقات میں موجود اجنبیت، سرد مہری، ہلکا سا کٹھور پن اور پردیسی ہونے کا احساس حواسوں پر بہت مختصر عرصے کے لیے وارد ہوتا ہے، لیکن یادداشت میں برسوں تروتازہ رہتا ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔ بڑی طویل پیاس کے بعد ملنے والے ٹھنڈے پانی کا احساس بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ پہلے گھونٹ کی اجنبیت اور ذائقہ بس ایک مِلی سیکنڈ کی گیم ہوتی ہے، لیکن وہ احساس یاد کی صورت میں ہمیشہ کے لیے دماغ میں کہیں محفوظ ہو جاتا ہے۔

گجرات شہر میں میرا پہلا دن جب شروع ہوا تو دن ڈھل چکا تھا۔ اس لیے پہلا احساس اجنبی اور ملگجا سا ہے۔ اس کے بعد مسلسل بارش، نمی اور ہوا کی ٹھنڈک میرے اندر آج بھی کہیں بسی ہوئی ہے، اور آج اتنی بارشوں کے بعد بھی وہ پہلی بارش ان سب سے جدا ہے۔ ملازمت کے انٹرویو سے پہلے کا ایک انجانا سا خوف بھی اس پہلی ملاقات کا ایک اٹل حصہ ہے۔ پھر یونیورسٹی کو جانے والا راستہ اور اس پر سفر کرتے ہوئے مسلسل لگنے والے جھٹکے، ہر جھٹکے میں موجود ایک تیکھا کٹھور پن آج بھی یادداشت کا حصہ ہے۔ آج لگ بھگ ایک برس بعد ان گڑھوں سے اتنی مانوسیت ہو چکی ہے کہ چلتے چلتے کترا کر گزر جاتا ہوں۔ ان کا شکار بھی بن جاؤں تو روٹین کی بات ہے۔ لیکن وہ پہلا سفر جو میں نے اس راستے پر کیا، یونیورسٹی اور اس کے اندر اور پھر انٹرویو کے بعد گیٹ تک پیدل مارچ، ستمبر کی بے موسمی لگاتار برستی بارش میں چلتے چلتے  اردگرد کے منظر کو جب میں نے پہلی بار اپنی یادداشت میں قید کیا، بارش کا پانی کس طرف جا رہا ہے، گرین بیلٹ کہاں ختم ہو رہی ہے، کہیں ایک برگد کا درخت ہے اور اس کے نیچے مزار ہے، کہیں ایک کھیل کا میدان نظر آ رہا ہے اور وہ سامنے ہاں وہی سامنے والا گیٹ ہے جہاں سے میں اندر داخل ہوا تھا۔ اور اس گیٹ پر تعینات سیکیورٹی گارڈ، ان کی نیلی وردیاں اور ان سے دس فٹ کی دوری سے ہی آتا ہوا سگنل کہ "پرے ہٹ کے"۔ اس پہلے دن کی ہر بات، ہر منظر جو بہت مختصر مدت کے لیے میرے اندر جی کر اب کسی حنوط شدہ ممی کی طرح ذہن کے کسی تہہ خانے میں محفوظ ہے، آج اتنی مانوسیت ہونے کے باوجود میں اس اجنبیت بھرے احساس کو بہت مِس کرتا ہوں۔

گجرات بہت چھوٹا سا شہر ہے۔ ان گزرے مہینوں میں بہت حد تک اس شہر کا مزاج آشنا ہو چکا ہوں۔ راستوں کی اونچ نیچ میرے دماغی سکیما (schema) میں فِٹ ہو چکی ہے۔ اندرونِ شہر کی چھوٹی گلیاں، کھانا کھانے کے چند ایک مخصوص سپاٹ، چند بڑی سڑکیں، ایک لاری اڈا جہاں سے ہر ہفتے دو بار آنا جانا ہوتا ہے، کچہری چوک، جیل چوک، لاہور اور اسلام آباد جانے والی جی ٹی روڈ سب کچھ ایک روٹین بن چکا ہے۔ اور آج پہلی بار لگ رہا ہے کہ اس روٹین کے دن گِنے جا چکے ہیں۔ بہت جلد یہ روٹین بھی استعمال شدہ کپڑوں کی طرح کسی نچلے خانے میں رکھ دی جائے گی۔

میں لوگوں سے، شہروں سے اور راستوں سے اتنی جلدی بے تکلف نہیں ہوتا۔ کوشش ہوتی ہے کہ ان سے بس کترا کر، دور دور رہ کر، بس کام کی بات کر کے چلا جاؤں، دور ہو جاؤں۔ اجنبیت برقرار رہے، دوری قائم رہے، وہ جو عدم مانوسیت کی وجہ سے ایک سرد مہری ہوتی ہے وہ ختم نہ ہونے پائے۔ اس سے مجھے تحفظ کا احساس ہوتا ہے، جیسے کسی جنگجو کو آہنی لباس کے پیچھے ایک تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ میں کتراتا ہوں، بچتا ہوں، اس سب سے چونکہ مجھے پتا ہے کہ اگر قربت بڑھی، اجنبیت کی خندق کو مانوسیت کی مٹی نے پاٹ دیا تو احساسات پیدا ہوں گے، سوچنے کے مواقع ملیں گے، اجنبی خوامخواہ اندر آن گھُسے گا۔ اور جب کوئی اندر فروکش ہو جائے تو اسے دیس نکالا دینا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ وہ نکلنے پر آمادہ ہو بھی تو اس عمل میں ہونے والی تکلیف بہت شدید ہوتی ہے جسے برداشت کرنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔

اسی لیے میں اجنبیوں سے بے تکلف نہیں ہوتا، چاہے ہو لوگ ہوں،  شہر ہوں یا راستے۔ مجھے پتا ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن میرے مقدر کا چکر مجھے کہیں اور لے جائے گا۔ یہ سب وہیں رہ جائیں گے، اپنی اپنی جگہ پر اور میں کہیں اور دربدر ہو جاؤں گا، لیکن میرے سامان میں اضافہ ہو جائے گا۔ ایک خلاء جو کبھی پورا نہیں ہو گا۔ ایک سلو پوائزن جیسا میٹھا احساس، ایک کسک، ایک پھانس جو ہمیشہ کے لیے میرے دل میں چبھ جائے گی۔ میرے سامان میں ایک گٹھڑی ان یادوں کی شامل ہو جائے گی جو میں نے اس شخص، اس شہر اور اس راستے کی معیت میں گزارے۔ اور میرے وجود کا ایک ٹکڑا وہیں کہیں رہ جائے گا۔ میری روح کا ایک حصہ قیامت تک اس کے طواف کے لیے وقف ہو جائے گا۔ میں کچھ اور کم ہو جاؤں گا، اور میری یادیں کچھ اور وزنی ہو جائیں گی۔ اسی لیے میں اجنبیوں سے بے تکلف نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 29 جولائی، 2015

ہنرمند

ابو جی کے پاس کوئی ہنر نہیں تھا۔ مڈل بھی مکمل نہیں کیا تھا۔ سب سے چھوٹے تھے۔ والدین ضلع ہوشیار پور سے ہجرت کر کے آئے تھے، انہوں نے بھی تعلیم پر توجہ نہ دی۔ ساری عمر مختلف کام کیے۔ کبھی ٹیکسٹائل مل میں کام کیا، کبھی رکشہ چلایا، کبھی پولٹری فارم ، کبھی کپڑے کی دوکان، کبھی کریانے کی دوکان، کبھی گول گپے، پلاسٹک کے برتن ریڑھی پر اور جمعہ/اتوار بازاروں میں، ناشتے کی ریڑھی، لوڈر رکشہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھے دنوں میں جب رکشے کا کام ابھی مندا نہیں پڑا تھا، اور پھر بعد میں جب ناشتے سے اچھے پیسے بن جاتے تھے تو ابوجی نے دو مرتبہ مکان کی توسیع کروائی۔ غریب کے مکان کی توسیع یہی ہوتی ہے کہ پہلے ایک منزل ڈلوا لی، پھر پلستر کروا لیا، پھر دوسری منزل ڈلوا لی اور پھر ہمت ہوئی تو تیسری منزل۔ ابو جی نے اس طرح کر کے تین چار بار مکان میں ترمیم و اضافہ کیا تاکہ بڑھتے ہوئے خاندان کے رہن سہن میں آسانی پیدا ہوتی۔

ہر بار ابو جی کو مستری ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ پہلے پہلے جب میں چھوٹا تھا تو یہ مسئلہ بہت زیادہ علم میں نہیں تھا۔ ماموں کے گاؤں سے مستری اور مزدور آ گئے اور اوپر والی منزل تعمیر ہو گئی، سارے مکان کو پلستر بھی ہو گیا۔ اس کے بعد دو تین بار جب بھی ضرورت پڑی تو ہر مرتبہ مستری کی تلاش ایک الگ جدوجہد رہی۔ خواہش ہوتی تھی کہ فلک شیر یعنی پرانا مستری ہی کام کر جائے، لیکن وہ لاہور شفٹ کر گیا، پھر واپس آیا تو اس کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا۔ بڑی مشکل سے وقت ملتا، جلدی جلدی کام کر کے چلا جاتا۔ 

آخر ہر مرتبہ فلک شیر ہی کیوں؟ مسئلہ اس کا یا ہمارا نہیں، اس کے ہنر کا تھا۔ وہ بندہ سمجھدار تھا، ہاتھ میں صفائی تھی اور لوگ اس کے آگے پیچھے قطار میں کھڑے نہ بھی رہتے ہوں کم از کم آئندہ کئی مہینوں کے لیے وہ بُک ہوا کرتا تھا۔ ہم ہر بار فلک شیر کے ہنر سے مجبور ہو کر اس کے پاس جاتے تھے۔ ورنہ مستری تو میرے محلے میں کئی تھے، میرے محلے کے باہر اڈے پر ہر روز سو ڈیڑھ سو مستری مزدور کھڑا ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے۔ لیکن ان سے کام کروانے کو دل نہیں مانتا تھا۔

میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں سیکھا کہ پیشہ ورانہ اعتماد قائم کرنا ایک بہت ہی اہم خصوصیت ہے۔ ایک آپ کا کلائنٹ/کسٹمر/گاہک آپ پر کام چھوڑ کر مطمئن ہے تو سمجھ لیں کہ آپ کبھی بھوکے نہیں مریں گے۔ اس کے لیے میں نے مستری فلک شیر سے یہ سیکھا کہ اتنے ہنرمند ہو جاؤ کہ دوسروں کی ضرورت بن جاؤ۔ لوگ دروازے پر آ کر کام کی درخواست کریں۔ 

مجھے نہیں پتا اس کو اور پُراثر انداز میں کیسے لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اپنے طلبہ کو ہمیشہ یہی مشورہ دیتا ہوں  کہ ہنرمند بن جائیں۔ چاہے موٹرمکینک ہوں، انجینئر ہوں، پی ایچ ڈی ہوں، اگر آپ ہنرمند نہیں ہیں تو آپ میں اور آپ کے گلی محلے کے باہر راج مستریوں کے اڈے پر بیٹھنے والے ان مستریوں اور مزدوروں میں کوئی فرق نہیں۔ وہ روز سامان اٹھا کر اڈے پر آتے ہیں۔ کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں۔ مل جائے تو ایک دو دیہاڑیوں کا ہوتا ہے۔ نہ ملے تو سارا دن وہیں بیٹھے بیٹھے بارہ ٹہنی کھیل کر گھر کو لوٹ جاتے ہیں۔ 

میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں یہ سیکھا کہ میں اپنے کلائنٹ کو جو کچھ کر کے دوں اس پر اُسے اعتماد ہو۔ جیسے مستری فلک شیر عین نوے کے زاویے پر دیوار اٹھاتا ہے، پلستر میں کہیں اونچ نیچ نہیں آنے دیتا اور آج بھی اس کا لگایا ہوا فرش کہیں سے اکھڑا نہیں۔ ویسے ہی میں ترجمہ کروں تو میرے کلائنٹ کو بہت کم ضرورت پڑتی ہے کہ اُس پر نظر ثانی یا تصحیح کروائے۔ گزرے برسوں میں مَیں نے بہت کم معاوضے پر بھی کام کیا۔ رات کو اُٹھ اُٹھ کر بھی کام کیا۔ لیکن اب میں تھوڑا کام کرتا ہوں، تھوڑا لیکن سُتھرا۔ میں ترجمہ کرتے وقت پاکستان کے اندر کا کام نہیں پکڑتا، مجھے پتا ہے یہاں لوگ اچھی ادائیگی نہیں کرتے۔ غیر ملکی جب کام کرواتے ہیں تو پیسے اچھے دیتے ہیں۔ وہاں اور یہاں کے کام میں ایک بمقابلہ چار کا فرق سمجھ لیں۔ اگر یہاں روپیہ ملے تو وہ چار روپیہ بھی دے دیتے ہیں۔ تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اب  معاوضے میں بہت کم رعایت دیتا ہوں، لیکن اس کے بدلے میرا کام معیاری ہوتا ہے۔ لیکن یہ معیار اور ساکھ بنانے، اپنے آپ کو زیادہ معاوضے کے قابل بنانے میں مجھے ایک دو سال نہیں آٹھ نو سال لگ گئے ۔

دوسری جانب میں تدریس کے حوالے سے بھی اسی بات پر عمل پیرا ہوں کہ اپنے آپ کو اس مقام پر لے جاؤں جہاں میرے جیسے کم ہی متبادل دستیاب ہوں ۔ اگر ایسا ہو سکا تو ہی میں ایک اچھی ملازمت یا کام کی امید کر سکتا ہوں۔ اس کے لیے آج سے دس برس پہلے پی ایچ ڈی کرنے کا عزم کیا تھا۔ اور وہ عزم آج بھی تازہ ہے۔ انشاءاللہ اس عزم کو مکمل بھی کرنا ہے۔ لیکن پی ایچ ڈی منزل نہیں، صرف نشانِ منزل ہو گی۔ مختصر یہ کہ میری ذات پر سے "زیرِتعمیر" کا بورڈ کبھی نہیں اترے گا۔ میری دعاؤں میں مستقلاً شامل دعا رَبِّ زِدْنِي عِلْما بھی ہے۔ اور جیسے جیسے میری عمرِ عزیز کا اختتام قریب آتا جاتا ہے، مجھے یہ احساس زیادہ شدت سے ہوتا جاتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں معلوم۔ علم دراصل اپنی جہالت کا ادراک کرنے کا نام ہے، اور وہ ادراک دھیرے دھیرے ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہ احساس بھی کہ یہ جو کچھ دیا ہے، یہ سب اُس کی کرم نوازی ہے۔ کہ میرے بس میں تو کبھی  کچھ بھی نہیں تھا، آج میں جس جگہ بھی کھڑا ہوں، یہ سب اُس کی رحمت ہے۔

تو آپ بھی اگر ابھی یونیورسٹی سے چوندے چوندے ماسٹرز کی ڈگری لے کر نکلے ہیں، یاکسی شعبے میں داخل ہو رہے ہیں، دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔۔۔۔ یکدم چھلانگ نہ لگائیں۔ اللہ کی رحمت پر نگاہ رکھیں اور یادر کھیں کہ کامیابی ایک دو دن یا مہینے نہیں برسوں کا کھیل ہے۔ دس برس کا ہدف رکھیں اور محنت کریں۔ اپنے آپ کو اس قابل کر لیں کہ دوسرے آپ کے دروازے  پر آپ سے کام کروانے کی درخواست لے کر آئیں۔ دوسروں کی ضرورت بن جائیں۔ یاد رکھیں کامیابی کا اگر کوئی شارٹ کٹ ہوتا بھی ہے تو وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ سب پیدائشی جینئس نہیں ہوتے۔ ہاں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر محنت کرتے چلے جانا سب کے اختیار میں ہوتا ہے۔ چنانچہ محنت کریں، کچھوا چال ہی سے کریں لیکن محنت کرتے چلے جائیں، اور ایک ہی سمت میں آگے بڑھتے چلے جائیں۔ ہنرمند  ہو جائیں تو آپ کے دلدر دور ہو جائیں گے۔ Jack of all trades, master of none کے مقولے کو ذہن میں رکھیں۔ ایک شعبہ ایسا ضرور ہونا چاہیئے جس کے ماسٹر آپ ہوں۔ باقی شوق تو کئی پالے جا سکتے ہیں، لیکن روزی روٹی کے لیے ایک یا دو شعبے ایسے ہونے لازمی ہیں جن میں آپ کی مہارت پر آنکھ بند کر کے اعتبار کیا جا سکے۔ اللہ سائیں آپ پر اپنی رحمت رکھے۔