بدھ، 23 مئی، 2007

میرے ویب دوست (چلتے چلتے ایک کرم فرما پر میری نظر کرم)

امانت علی گوہر۔ بقول علمدار ان کے نام سے لگتا ہے کہ ایک نہیں تین بندے ہیں جنھیں پیک کردیا گیا ہے۔ امانت علی گوہر کے بارے میں ہمارے احساسات بڑے مریدانہ قسم کے تھے۔ ان سے واقفیت تب کی ہے جب یہ گلوبل سائنس میں لکھا کرتے تھے اور ہم ان کی تحاریر پڑھ پڑھ کر سر دھنا کرتے تھے۔


(کبھی ان کا سر دھننے کا خیال آیا ہو تو حد ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں ذکر نہیں کررہے ۔) ان کے بارے میں اگلی سن گن اس وقت ملی جب ہم محفل پر تشریف لائے۔ یہ بھی کبھی کبھی آیا کرتے تھے۔ اس وقت ہمیں محسوس ہوتا تھا یہ کوئی انٹلکچوئل قسم کی چیز ہیں۔ مثلًا ایک بار تشریف آوری ہوئی تو ایک عدد اردو ورڈ فریکوئنسی کاؤنٹر بنا لائے۔ اب ہم ٹھہرے پینڈو ہم اتنے میں ہی مرعوب ہوگئے۔


پھر پتا چلا کہ طبیعت ناساز رہتی ہے۔ تو ہم نے اس سارے سیاق سباق سے یہ اندازہ لگایا کہ دانشور قسم کی چیز ہیں اور نازک طبع بھی کہ ذرا سی بات سے طبیعت ناساز ہوجاتی ہے۔


ان کا اگلا ٹاکر ہم سے محمد علی مکی کے "تھرُو" ہوا۔ انھوں نے انھیں ہماری طرف تھرو کردیا۔ ہمیں یاد ہے ذرا ذرا مکی بھائی فون پر ہم سے بات کررہے تھے کرتے کرتے انھوں نے انھیں فون پکڑا دیا۔ ہمیں  نوے فیصد شک ہے کہ ان کے احترام میں فورًا اٹھ کر کھڑے ہوگئے تھے ہم(اگرچہ یہ دو ماہ سے پرانی بات نہیں لیکن صاحبو ایسی باتیں ہمیں بھولنے کی پرانی عادت ہے)۔ ان کی آواز سنی تو لگا جیسے ساتھ والوں کا چھوٹا لڑکا بول رہا ہے۔ اس دن ہمارے ارے ارمان چکنا چور ہوگئے۔ ہم جو ان کو پیر و مرشد بنانے کے خواہش مند عرصہ دراز سے تھے اب ان کے انکل کے رتبہ جلیلہ پر فائز ہیں۔ یہ بھی لمبی داستا ن ہے بس اتنا سمجھ لیں کہ ایک بار جب ہم نے اپنی عمر عرض کرکے کہا کہ ابھی تو ہمارے کھلینے کودنے کے دن ہیں تو انھوں نے جواب آں غزل کے طور پر اپنی عمر ظاہر فرمائی اور ہمیں شک ہوا کہ اگر ہمارے کھیلنے کودنے کے دن ہیں تو ان کے لازمًا جھولا جھولنے کے دن ہونگے۔


ٰامانت علی گوہرٰ واقعی تین بندے ہیں۔ جو کام انھوں نے "اتنی سی عمر" میں سنبھالا ہوا ہے ایک بندے کا کام نہیں۔ ویسے ہمیں شک ہے کہ ٰگوہرٰ ان میں عارضی بندہ ہے۔ چونکہ یہ ابھی منے ہیں لیکن بڑے ہونے پر ان کی شادی بھی ہوگی۔ اور ہمیں 99 فیصد یقین ہے کہ شادی کے بعد ان کا نام امانت علی گوہر نہیں امانت علی ٰشوہرٰ ہوجائے گا۔


امانت علی گوہر ہمارے بہت اچھے دوست اور کرم فرما ہیں۔ ان کی بدولت ہم خود اب لکھاری لکھاری سا محسوس کرتے ہیں۔ چلتے پھرتے یونہی جب خیال آئے کہ کمپیوٹنگ میں ہماری تحریریں بھی چھپتی ہیں گردن میں سریا آجاتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ان کا اور کمپیوٹنگ کا ہم سے اور اردو سے ساتھ ہمیشہ قائم رہے۔


 


 


 

جمعرات، 17 مئی، 2007

حکمرانوں کی بوکھلاہٹیں

میڈیا کے جرات مندانہ کردار نے حاکموں کو چیخنے پر مجبور کردیا ہے۔ کل مشرف صاحب اخبار میں فرما رہے تھے کہ میڈیا کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے گا. مشرف صاحب کو اب اپنے اقتدار کی جتنی شدید فکر پڑ گئی ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ اب تو امریکہ بہادر بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اتحادی جماعتوں کو مشرف صاحب نے صدارتی انتخابات کی تیاریاں کرنے کی ہدایت کردی ہے۔


 جاوید چوہدری کا کہنا ٹھیک ہی تھا یوں لگتا ہے حاکم اب ڈرے ہوئے ہاتھی ہیں جو اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو روندتے جاتے ہیں۔

منگل، 15 مئی، 2007

جب ہمارے پسینے چھوٹے۔۔۔

کل تک ہم نے پسینے چھوٹنے کے بارے میں چند ایک واقعات اور محاورات ہی سن رکھے تھے۔۔
لیکن کل  محسوس بھی کرلیا اور دیکھ بھی لیا۔ ہمارے استاد محترم سر راشد نے جو ہمیں انگریزی گرامر پڑھاتے ہیں ایک اسائنمٹ دی۔ ساری کلاس کی طرح ہم نے بھی اسے "لائٹ" لیا اور جب کل اسائنمنٹ چیک ہوئی تو ہمارے آدھے کام نے ہمارے پسینے چھڑوا دئیے۔ پسینوں پر عروج تب آیا جب سر نے اسائنمنٹ چیک کرکے اس کے نمبر دینا شروع کردئیے۔ ہمیں بے اختیار رومال نکالنا پڑا۔


کل بقول ہمارے ہی موج ہوگئی۔۔۔۔۔اللہ نہ کرے یہ پسینے دوبارہ چھوٹیں۔


 

اتوار، 13 مئی، 2007

کچھ مزید تصاویر

فیصل آباد کی کچھ باضابطہ تصاویر۔ مختلف اوقات مختلف مقامات لیکن اکثر جی سی یونیورسٹی کے آس پاس اور میرے عمومی روٹس کی ہیں۔ انشاءاللہ دوسرے مقامات کی تصاویر بھی ساتھ ساتھ شامل کرنے کی کوشش کروں گا۔


اہل اقتدار کے بھنگڑے

اہل اقتدار اس نشے میں ہیں کہ انھوں نے کل میدان مار لیا۔ مشرف صاحب اتنےسارے لوگوں کو دیکھ کر یقینًا پھولے نہیں سمائے ہونگے اور ان کا بیان جاری کرنا بھی حق بنتا ہے آخر وردی والے صدر ہیں اور ق لیگ ہی تو ان کی جماعت ہے۔ابھی بی بی سی پر پنجاب سے آنے والے قافلوں کی تصاویر دیکھیں تو اپنے ملنے جلنے والوں کے تبصرے یاد آگئے۔


ایک صاحب نے فرمایا کہ ہر یونین ناظم کو دوسو افراد کا ٹارگٹ دیا گیا تھا۔ ایک اور دوست فرماتے ہیں کہ میرے پاس کئی لوگ آئے جنھوں نے تین سو پانچ سو روپے فی بندہ معاوضے کا ذکر کیا۔


خود ہماری نظروں کے سامنے ایک بس تیار ہورہی تھی جس پر ہمارے ٹاؤن ناظم صاحب کا بینر لگا ہوا تھا۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔ واپڈا والے دو دن وہاں مصروف رہے ہیں۔ لاکھوں روپے  سیکیورٹی پر خرچ کردئیے گئے ہیں۔ حکومت کیوں نہ بھنگڑے ڈالے۔۔۔۔۔


کاش یہ روپیہ جو جھوٹی شان دکھانے میں اڑا دیا گیا کسی غریب کے تن کا کپڑا اور منہ کا نوالہ بن جاتا۔ کاش۔۔۔

ہفتہ، 12 مئی، 2007

آخر کب تک جنرل صاحب؟؟؟

جنزل صاحب بڑے بے خبر صدر ہیں۔ فرماتے ہیں یہ عوامی طاقت ہے۔ میں ایک تیسرے درجے کا شہری یہ بات جانتا ہوں کہ انھیں تین سو روپے فی بندے کے عوض پورے پنجاب سے اکٹھا کیا گیا ہے جنھیں یہ "عوامی" طاقت بتا رہے ہیں۔ انھیں اصل میں عوامی نہیں خزانوی طاقت کہنا چاہیے تھا۔ آخر خزانے میں بارہ ارب ڈالر ہوگئے ہیں کہیں تو خرچ ہونے تھے۔ اور اپنی حکومت کے لیے خرچ کرنا تو عین کار ثواب اور راہ نجات ہے۔
کراچی میں گھروں سے جنازے اٹھ رہے تھے اور ان کی "عوامی" ریلی میں بھنگڑے ڈالے جارہے تھے ، ڈھول تاشے بج رہے تھے۔
آخر کب تک؟؟ کب تک جنرل صاحب ان کرائے کے ڈھول تاشوں اور کرائے کی عوامی طاقت کے بل بوتے پر جلسے بنا کر ان سے خطاب کرلیں گے۔
کبھی تو ظلم کی سیاہ رات چھٹے گی نا۔ کبھی تو آمریت ختم ہوگی۔ کبھی تو مفاد پرستوں کو سر عام ذلیل خوار کرکے اس دھرتی کو ان سے پاک کردیا جائے گا۔
اور یہ کبھی دور نہیں ۔۔۔۔وہ دن دور نہیں۔۔۔۔قافلے چل پڑے ہیں۔۔۔۔منزل نظر آرہی ہے۔۔انشاءاللہ صبح بہت قریب ہے۔ یااللہ ہمیں توفیق عطاء فرما ہم ظلم کے خلاف جہاد کرسکیں۔ آمین۔

پیر، 7 مئی، 2007

ہم بے حس نہیں ہوئے

عرصہ ہوا میں نے سیاست پر لکھنا چھوڑا ہوا تھا۔ عمومی عوامی شعور کی طرح میں بھی سو واٹ اور پنجابی کے فیر کی ہوجائے گا کے چکر میں پڑا ہوا تھا۔ لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ اصل میں پرویز مشرف و حواریوں کے خلاف لاوا اندر ہی اند پک رہا تھا۔ ایک عرصے سے پک رہا تھا۔ میں اپنی روزمرہ کی نشستوں میں اسے بخوبی محسوس بھی کررہا تھا۔ لیکن بات یہ تھی کہ کوئی رہبر نہیں تھا۔ کوئی ایسی سوئی جی اس غبارے کو پھاڑ دیتی۔ پرویز مشرف کی بدقسمتی کہ ایک ناعاقبت اندیشانہ فیصلے نے اس سوئی کا کام کیا۔ عوام کے ہاتھ ایک بہانہ آگیا ہے۔ یہ جو آپ سب دیکھ رہے ہیں یہ سالوں کی فرسٹریشن ہے جو چیف جسٹس کے بت کو چڑھاوے چڑھا کر نکل رہی ہے۔
اگرچہ میرے کچھ دوست اس سلسلے میں خفیہ ہاتھ کی موجودگی کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں عوام کہ بہانہ چاہیے تھا کہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور وہ بہانہ انھیں مل چکا ہے۔ میں چیف جسٹس کی حلف برداری اور مشرف کی حاشیہ برداری کی طرف نہیں جارہا ہوسکتا ہے ان کی بھی اہمیت ہو لیکن میرے لیے اتنا کافی ہے کہ میری قوم ابھی مردہ نہیں ہوئی۔ وہ حق کے لیے لڑنا جانتی ہے۔ میں حق صرف یہ سمجھتا ہوں کہ اب اس حکومت کو چلے جانا چاہیے۔ بس بہت ہوچکا۔ بلکہ میرا تو خیال ہے کہ چیف جسٹس کو ہی صدر کا انتخاب لڑنا چاہیے۔ اگر آرمی کا چیف جو سیکرٹری دفاع کے عہدے کا حامل ہے آٹھ سال ہم پر مسلط رہ سکتا ہے تو ملک کی اعلٰی ترین آئینی شخصیت کیوں نہیں۔
آخر جرنیلوں میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ پچھلے ساٹھ سال سے ہمارے سروں پر گدھوں کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ ہماری آمدن کا آدھے سے زیادہ فوج کو اور اس کا بیشتر یہ لوگ کھا جاتے ہیں۔ کسی چیز کا حساب نہیں دیتے مانگا جائے تو ملکی دفاع کا کہہ کر خاموش کردیا جاتا ہے۔ ان کی وجہ سے آج ہم خودکش حملوں کو بھگت رہے ہیں۔ ان کی روشن خیالی کے ردعمل میں ایک غریب حجام تک کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں۔ یہ اسلام آباد میں روشن خیالی کی تبلیغ کررہے ہیں اور باقی ملک میں اسلام کے ڈنڈہ بردار اور بم بردار پیدا ہورہے ہیں۔
دو وقت کی روٹی مشکل کردی گئی ہے۔ بجلی بس استعمال ہی کی گئی ہے نا کہ مزید پیدا کرنے کا کچھ کیا جاسکتا۔ عوام کو آسائشوں کے نام پر اور ملک کو ترقی کے نام پر قرضوں کے جال میں پھنسایا جاچکا ہے اور جارہا ہے۔ ساتھ یہ نعرے لگائے جاتے ہیں کہ کشکول ٹوٹ گیا۔ کس کشکول کی بات کرتے ہیں یہ لوگ۔
مجھے خوشی ہے کہ میری قوم میں ابھی جرات باقی ہے۔ اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ پنجابیوں نے چیف جسٹس کا استقبال کرکے ثابت کردیا کہ پنجابی بھی حق کے ساتھ ہیں۔ ہاں ہم حق کے ساتھ ہیں۔ ہم وزیرستان اور بلوچستان میں اپنوں کے ہاتھوں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کے خلاف ہیں۔ بخدا وہ ہم میں سے نہیں جنھیں پنجابی سمجھا جارہا ہے وہ تو چند غنڈے ہیں جو عوامی نمائندوں کے بھیس میں ہمارے بھی سروں پر مسلط ہیں۔مجھے رب کریم سے امید ہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب اس ملک پر آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
ڈکٹیٹر شپ سے آزادی کا، نا انصافی اور ظلم سے آزادی کا، وڈیروں جاگیرداروں اور ظالموں سے آزادی کا۔ ہاں وہ دن دور نہیں۔بس جدوجہد کی ضرورت ہے۔