عرصہ ہوا میں نے سیاست پر لکھنا چھوڑا ہوا تھا۔ عمومی عوامی شعور کی طرح میں بھی سو واٹ اور پنجابی کے فیر کی ہوجائے گا کے چکر میں پڑا ہوا تھا۔ لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ اصل میں پرویز مشرف و حواریوں کے خلاف لاوا اندر ہی اند پک رہا تھا۔ ایک عرصے سے پک رہا تھا۔ میں اپنی روزمرہ کی نشستوں میں اسے بخوبی محسوس بھی کررہا تھا۔ لیکن بات یہ تھی کہ کوئی رہبر نہیں تھا۔ کوئی ایسی سوئی جی اس غبارے کو پھاڑ دیتی۔ پرویز مشرف کی بدقسمتی کہ ایک ناعاقبت اندیشانہ فیصلے نے اس سوئی کا کام کیا۔ عوام کے ہاتھ ایک بہانہ آگیا ہے۔ یہ جو آپ سب دیکھ رہے ہیں یہ سالوں کی فرسٹریشن ہے جو چیف جسٹس کے بت کو چڑھاوے چڑھا کر نکل رہی ہے۔
اگرچہ میرے کچھ دوست اس سلسلے میں خفیہ ہاتھ کی موجودگی کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں عوام کہ بہانہ چاہیے تھا کہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور وہ بہانہ انھیں مل چکا ہے۔ میں چیف جسٹس کی حلف برداری اور مشرف کی حاشیہ برداری کی طرف نہیں جارہا ہوسکتا ہے ان کی بھی اہمیت ہو لیکن میرے لیے اتنا کافی ہے کہ میری قوم ابھی مردہ نہیں ہوئی۔ وہ حق کے لیے لڑنا جانتی ہے۔ میں حق صرف یہ سمجھتا ہوں کہ اب اس حکومت کو چلے جانا چاہیے۔ بس بہت ہوچکا۔ بلکہ میرا تو خیال ہے کہ چیف جسٹس کو ہی صدر کا انتخاب لڑنا چاہیے۔ اگر آرمی کا چیف جو سیکرٹری دفاع کے عہدے کا حامل ہے آٹھ سال ہم پر مسلط رہ سکتا ہے تو ملک کی اعلٰی ترین آئینی شخصیت کیوں نہیں۔
آخر جرنیلوں میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ پچھلے ساٹھ سال سے ہمارے سروں پر گدھوں کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ ہماری آمدن کا آدھے سے زیادہ فوج کو اور اس کا بیشتر یہ لوگ کھا جاتے ہیں۔ کسی چیز کا حساب نہیں دیتے مانگا جائے تو ملکی دفاع کا کہہ کر خاموش کردیا جاتا ہے۔ ان کی وجہ سے آج ہم خودکش حملوں کو بھگت رہے ہیں۔ ان کی روشن خیالی کے ردعمل میں ایک غریب حجام تک کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں۔ یہ اسلام آباد میں روشن خیالی کی تبلیغ کررہے ہیں اور باقی ملک میں اسلام کے ڈنڈہ بردار اور بم بردار پیدا ہورہے ہیں۔
دو وقت کی روٹی مشکل کردی گئی ہے۔ بجلی بس استعمال ہی کی گئی ہے نا کہ مزید پیدا کرنے کا کچھ کیا جاسکتا۔ عوام کو آسائشوں کے نام پر اور ملک کو ترقی کے نام پر قرضوں کے جال میں پھنسایا جاچکا ہے اور جارہا ہے۔ ساتھ یہ نعرے لگائے جاتے ہیں کہ کشکول ٹوٹ گیا۔ کس کشکول کی بات کرتے ہیں یہ لوگ۔
مجھے خوشی ہے کہ میری قوم میں ابھی جرات باقی ہے۔ اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ پنجابیوں نے چیف جسٹس کا استقبال کرکے ثابت کردیا کہ پنجابی بھی حق کے ساتھ ہیں۔ ہاں ہم حق کے ساتھ ہیں۔ ہم وزیرستان اور بلوچستان میں اپنوں کے ہاتھوں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کے خلاف ہیں۔ بخدا وہ ہم میں سے نہیں جنھیں پنجابی سمجھا جارہا ہے وہ تو چند غنڈے ہیں جو عوامی نمائندوں کے بھیس میں ہمارے بھی سروں پر مسلط ہیں۔مجھے رب کریم سے امید ہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب اس ملک پر آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
ڈکٹیٹر شپ سے آزادی کا، نا انصافی اور ظلم سے آزادی کا، وڈیروں جاگیرداروں اور ظالموں سے آزادی کا۔ ہاں وہ دن دور نہیں۔بس جدوجہد کی ضرورت ہے۔
اب تو اسلم بیگ اور ایس ایم ظفر نے بھی کہ دیا ہے کہ حکومت کواب ہوش میں آجانا چاہیے۔
جواب دیںحذف کریںلیکن بقول ایک کالم نگار افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی جماعتوں اور اپوزیشن کی جماعتوں دونوںکو لیڈری کے لیے ایک سیاستدان دستیاب نہیں۔۔ ایک فوجی کی وردی تلے تو دوسرے جسٹس کے جھنڈے کے نیچے۔۔ یعنی قوم تو بیدار ہے مگر لیڈرشب موجود ہی نہیں۔۔
جواب دیںحذف کریںجنرل جہاگیر کرامت بھی کہہ چکے ہیں ۔
جواب دیںحذف کریںعلامہ اقبال نے ایسے ہی تو نہیں کہا
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
جناب کشکول اس لئے توڑ دیا کہ بہت چھوٹا تھا ۔ اب ٹرکوں کے ٹرک قرضے لئے جاتے ہیں ۔
اب تو ایمرجنسی کی دھمکیاں ملنے لگی ہیں۔
جواب دیںحذف کریں