ہفتہ، 26 دسمبر، 2009

متعہ؟

آج کل اردو محفل پر وڈے وڈے چوہدری متعہ کی حرمت و حلت پر بڑی گرما گرم بحث کررہے ہیں۔ حدیثیں لائی جارہی ہیں، روایات پیش کی جارہی ہیں، ایک دوسرے کی کتب سے حوالے پیش کیے جارہے ہیں اور ذاتی و غیر ذاتی قسم کے حملے کیے جارہے ہیں۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ جذبات کے فوارے پھوٹ رہے ہیں اور متعہ کو عین اسلام اور عین غیر اسلام ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔
یہ پوسٹ لکھنے کا مقصد اصل میں کچھ اپنا نکتہ نظر بیان کرنا تھا۔ میں کوئی عالم حدیث نہیں اور نہ ہی قرآن فہم ہوں۔ آج یونہی لائبریری سے یوسف عباس کی ایک کتاب مل گئی۔ اسے پڑھا، موصوف اپنے عقائد سے قرآنسٹ اور فقہ کے اچھے خاصے ناقد ہیں۔ انھوں نے متع کے سلسلے میں اچھی تحقیق  کی ہے ۔ جس میں قرآنی آیات سے لے کر ہر دو فقہ، اہلسنت و اہل تشیع، کی روایات کا خاصے ناقدانہ انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ آج میں نے یہ کتاب سکین کرکے، پی ڈی ایف بنا کر یہاں اپلوڈ کردیا۔ یہ پانچ میگا بائٹ کے دس کے قریب حصے ہیں۔ سب اتار کر انھیں ان زپ کرلیں۔ امید ہے آپ کے علم میں اچھا اضافہ ثابت ہوگی۔
متعہ اسلام کے متنازع ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ یہ حلال تھا یا نہیں لیکن آج کے سیاق و سباق میں متعہ کو مذہب کی آڑ مہیا کرنے کا مطلب ہے آپ رنڈی بازی کو اسلامی قرار دے رہے ہیں۔ ویسے اگر ایسے ہوجائے تو حکومت کو خاصے ٹیکس مل سکتے ہیں، طوائف اور کال گرلز کو چوری چھپے کی بجائے کھلے عام کاروبار کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں اور مولویوں کی بھی چاندی ہوسکتی ہے، روز کئی کئی نکاح جو پڑھانے ہونگے۔ ہاں اس دوران پیدا ہونے والے ناجائز بچوں کو پالنے کے لیے حکومت کو کچھ نرسری ہومز وغیرہ بنانے پڑیں گے۔ آج کے معاشرے میں متع کیا گُل کھلا سکتا ہے ایرانی معاشرہ اس کی ایک مثال ہے۔ بی بی سی کی ایک خبر ملاحظہ کیجیے۔ 
اللہ کا شُکر ہے کہ متعہ کو کبھی بھی اہل اسلام نے پذیرائی نہیں بخشی۔ حتی کہ اہل تشیع نے بھی عملی سطح پر اس کی کبھی بھی اس طرح پذیرائی نہیں کی جیسے ان کی کتب احادیث کافی اور فروع کافی وغیرہ میں اسے بعض جگہ فرائض تک میں شامل کردیا گیا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے اوپر دی گئی کتاب کا مطالعہ کرلیں۔ یہاں ہر دو مذاہب کی کتب حدیث میں سے ان روایات کا جائزہ لیا گیا ہے۔) اس سلسلے میں ایک ایرانی خاتون ڈاکٹر شمائلہ حائری کا مقالہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ جس میں انھوں نے متعہ کے نام پر عورتوں کے بے حرمتی اور اس کے ایرانی معاشرے پر اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
اللہ کریم ہمیں حق کو پہچاننے کی توفیق عطاء فرمائے۔   

جمعرات، 24 دسمبر، 2009

سوڈان تقسیم کی طرف

انڈونیشیا کے ایک صوبے مشرقی تیمور کی علیحدگی والی ساری کہانی آج جنوبی سوڈان میں دوہرائی جارہی ہے۔ کافی عرصے سے تشدد کی خبریں میڈیا میں آرہی تھیں اور آج یہ خبر پڑھی ہے۔
خرطوم ۔ سوڈان کی پارلیمنٹ نے ایک بل کی منظوری دی ہے جس سے جنوری میں جنوبی سوڈان کی آزادی سے متعلق ریفرنڈم کی راہ ہموار ہو گئی ہے بل کے مطابق ریفرنڈم میں جنوبی سوڈان کے 60 فیصد قحط افراد کا حق رائے دہی میںحصہ لینا ضروری ہے ۔ اگر 30 فیصد سے زیادہ افراد نے آزادی کے حق میں ووٹ ڈالے تو جنوبی سوڈان شمالی سوڈان سے علیحدہ ہو جائے گا ۔ شمالی سوڈان زیادہ تر مسلم آبادی پر مشتمل ہے جب کہ جنوبی سوڈان میں مسیحی اور دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں ۔ سوڈان کے تیل کے زیادہ تر ذخائر اس کے جنوبی علاقے میں ہیں
اس ریفرنڈم کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ جنوبی سوڈان الگ ہوجائے گا۔ سوڈان پہلے ہی غریب مسلم ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، تیل کے ذخائر جانے کے بعد اس کا کیا حال ہوگا۔ اس سے ہمیں عبرت حاصل ہونی چاہیے جو بلوچستان کے معاملے پر آئیں بائیں شائیں کررہے ہیں۔ ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ عالمی طاقتیں مسلم ممالک میں علیحدگی پسند عناصر کو کتنا سپورٹ کرتی ہیں۔ جبکہ کشمیر کے معاملے میں اس کے بالکل اُلٹ ہوتا ہے۔

ہفتہ، 12 دسمبر، 2009

سندھ اور پانی

آج آؤ سنواریں پاکستان پر خاصی جذباتی سی پوسٹ پڑھی۔ اس میں بیان کیے گئے حقائق سے انحراف واقعی ممکن نہیں۔ سندھ کے ڈیلٹے کو واقعی خطرہ ہے اور سمندر تیزی سے آباد زمینیں نگل رہا ہے۔ پانی کی کمی نے واقعی تباہی مچائی ہے اور کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ زیریں علاقے والوں کا مطالبہ ہے کہ روزانہ دس ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جائے جو کہ سمندر میں جاگرے تاکہ ڈیلٹا کا تحفظ ہوسکے۔ جبکہ اوپر والوں کا مطالبہ ہے کہ مزید ڈیم بنائے جائیں۔
مجھے بہت ساری تکنیکی تفاصیل کا نہیں پتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ برسات کے موسم میں سیلاب آجاتا ہے۔ اور وہ سارا پانی سمندر میں ہی جاتا ہے اور کہیں نہیں جاتا۔ اگر اس پانی کو ڈیم بنا کر سٹور کرلیا جائے اور پھر دریا میں ہی سارا سال چھوڑا جاتا رہے تو اس سے شاید ڈیلٹا کا کچھ تحفظ ہوسکے۔ یاد رہے میں نہریں نکالنے کی بات نہیں کررہا بلکہ صرف ڈیم بنا کر اسے سٹور کیا جائے اور بجلی پیدا کی جائے اور پھر پانی واپس دریا میں ہی ڈال دیا جائے۔ اس کی مثال پنجاب میں غازی بروتھا پاور پروجیکٹ ہے۔ مزید یہ اقدامات کیے جاسکتے ہیں کہ سمندر کے راستے میں بند بنائے جائیں۔ اس کے لیے ہالینڈ کی مثال کو ذہن میں رکھیں جنھوں نے آدھا ملک سمندر خشک کرکے بنایا ہے۔ تجاویز اور منصوبے ڈھیر۔۔لیکن عمل کوئی نا۔

جمعرات، 3 دسمبر، 2009

کچھ غلط فہمیاں

میری پچھلی دو تحاریر سے اٹھنے والی کچھ غلط فہمیاں اس بات کی متقاضی تھیں کہ ایک اور تحریر لکھی جائے۔
پہلی تحریر میں مَیں نے دو مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ ایک پنجابی اور دوسری علاقائی زبانوں کا انحطاط اور دوسرے اردو وکی پیڈیا پر زبان کی حالت زار۔ یہاں ایک تکنیکی وضاحت کرتا چلوں کہ زبان کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا ،جیسا کہ پنجابی کے بارے میں خاکم بدہن میں خدشے کا اظہار کرچکا ہوں ،سماجی لسانیات میں زبان کی موت کہلاتا ہے۔ جب کسی زبان کا کوئی بھی اہل زبان نہ رہے، یاد رہے وہ اہل زبان جو اسے بطور مادری زبان بولتا ہے، تو ہم یہ کہیں گے کہ یہ زبان مرگئی۔ جہاں تک اردو کے ساتھ معاملہ ہے ، تو اردو بدل رہی ہے لیکن اسے ایسے کسی خطرے کا سامنا نہیں۔ اردو کو پاکستان میں بچوں کو بطور مادری زبان سکھایا جارہا ہے۔ اردو یورپ اور ہند میں بھی پھل پھول رہی ہے۔ اگرچہ اس کا رسم الخط دیوناگری اور اب رومن ہوچلا ہے لیکن اردو ہے۔ جبکہ علاقائی زبانیں جو پہلے ہی بولی کے طور پر موجود ہیں خسارے میں جارہی ہیں۔
اب ابوشامل کی تحریر جس میں انھوں نے بڑے دردمندانہ انداز میں عشاقان اردو یعنی میرے جیسے کم نصیبوں کی بلائیں لیں ہیں۔ پہلے تو ان کو آداب عرض ہے۔ مزے دار باتیں تھیں۔ اس کے بعد چند نکات جو مجھے اس میں نظر آئے ان کا جواب دیتا چلوں۔
مجھے دوسروں کا نہیں پتا لیکن اپنی بات بتا سکتا ہوں، میرے پاس بعض اوقات اپنا بلاگ لکھنے کے لیے بھی وقت نہیں ہوتا اس لیے اردو وکی پیڈیا کو وقت نہیں دے سکتا۔ ہاں جب کوئی موضوع اگر دل میں مچل رہا ہوں تو میں لکھتا ہوں۔ اب یہ نہیں بتاؤں گا کہ کتنا لکھ چکا ہوں وکی پیڈیا پر شاید دو چار ہونگے ہی۔ مجھے پتا ہے یہ بہت ہی کم مقدار ہے جسے امید ہے مستقبل میں بڑھایا جائے گا، لیکن نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے۔ دوسری وجہ نہ لکھنے کی یہ ہے کہ میں اپنی فیلڈ سے متعلقہ لکھنا ہی پسند کرتا ہوں لیکن فیلڈ مجھے کچھ لکھنے تو دے، چونکہ میں خود ابھی ابتدائی مراحل میں ہوں  اس لیے میرا علم ناقص ہے سو سوچ سوچ کر رہ جاتا ہوں۔ بڑے لنگڑے لولے سے اعتراضات ہیں لیکن ۔۔ چلو جان دیو۔
دوسرا نکتہ یہ تھا کہ ہم اردو وکی پیڈیا پر ہونے والی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ یہاں ابوشامل کی مراد تواریخ، مذاہب وغیرہم جیسے موضوعات تھے۔ تو عرض ہے کہ میں سائنس کا طالب علم ہوں اور میری نظر سائنس پر ہی رہتی ہے۔ میں اردو کو سائنسی کی ابلاغی زبان دیکھنا چاہتا ہوں اور اس شعبے میں جب اردو کے پرخچے اڑتے دیکھتا ہوں تو دل دکھتا ہے۔ اردو میں الحمداللہ ان موضوعات  میں سے ہر موضوع پر کئی کئی کتب موجود ہیں اور مجھے اعتراف ہے کہ انھیں برقیا کرکے بہت بڑی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن میں پھر عرض کروں گا کہ میری مراد ویسے مضامین سے نہیں، وہ اپنی جگہ ہیں اور بہت اچھی کاوش ہیں، میری مراد اصل میں ایسے مضامین سے ہے۔ اسی موضوع کو خاکسار نے ایک صارف کے سوال کے جواب میں کچھ ایسے پیش کیا تھا۔ اب آپ زبان و بیان سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسے سمجھنا آسان ہے۔ بات صرف ذخیرہ الفاظ تک محدود نہیں بلکہ زبان و بیان اور انداز تحریر بھی بہت سی اصلاحات کا متقاضی ہے۔

منگل، 1 دسمبر، 2009

زبان کا تغیر اور اردو وکی پیڈیا

میری پچھلی تحریر زبان کے تغیر سے متعلق تھی۔ اس میں مَیں نے اردو وکی پیڈیا کے طرز عمل کا جائزہ لینے کی کوشش کی، لیکن یہ پوسٹ اسی کام کے لیے وقف نہیں تھی۔ چناچہ موجودہ پوسٹ میں مَیں کچھ مزید عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا جو میری نظر میں اردو وکی پیڈیا کے طرز عمل کو انتہاپسندانہ بنادیتے ہیں۔
زبان بدلتی ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں اب یہ بدلاؤ کہاں کہاں آسکتا ہے؟
یہ بدلاؤ زبان کے ہر لیول پر آسکتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اور جلدی تغیر ذخیرہ الفاظ میں آتا ہے۔ ہر چند سال کے بعد، ہر چند کلومیٹر کے بعد زبان کا ذخیرہ الفاظ بدل جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تبدیلی کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، لیکن ایک مناسب فاصلے کے بعد خواہ وہ زمانی ہو یا مکانی، زبان میں ذخیرہ الفاظ کا ایک سیٹ دوسرے سیٹ سے بدل جاتا ہے۔ اس کی  وجہ سیاسی، سماجی یا لسانی کوئی بھی ہو، لیکن ایسا ہوتا ہے۔ اردو میں فارسی اور عربی نژاد الفاظ کی جگہ اگر انگریزی اور مقامی زبانوں کے الفاظ زور پکڑ رہے ہیں تو یہ اسی تغیر کی نشانی ہے۔ انگریزی تو خیر اب سیاسی برتری کی بھی حامل ہے چناچہ اس کے الفاظ اردو میں زیادہ استعمال ہورہے ہیں۔ دوسرے انگریزی تعلیم و ترقی کی بھی زبان ہے یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
اس کے علاوہ صوتیات بھی متاثر ہوتی ہیں۔ اردو کے حوالے سے اتنی مثال دینا چاہوں گا کہ اگر آپ انگریزی الفاظ کو اردو میں انگریزی لہجے کے ساتھ بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ایسے کسی ممکنہ تغیر کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے جس کے ذریعے اردو میں انگریزی کے مصوتے یعنی واؤلز داخل ہوجائیں گے۔ شاید آئندہ دس سالوں میں یا پچاس سالوں میں۔
تغیر کا عمل یہیں پر نہیں رک جاتا۔ زبان کی گرامر بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ میں آپ کو تاریخ کی بات نہیں بتاؤں گا کہ اردو نے کیسے عربی اور فارسی سے گرامر مستعارلی، اسم، فعل، صفت وغیرہ کی حالتیں وہاں سے حاصل کیں۔ میں آج کی بات بتاؤں گا جس کا میں مشاہدہ کرچکا ہوں۔ انگریزی کے پاسٹ رافی ایس سے تو سب واقف ہونگے۔ اسلم کی کار کو انگریزی میں اسلمز کار لکھا جائے گا نا۔ ایک کوما ڈال کر ساتھ ایس لکھ کر۔ تو میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ اسلم کی کار کو اردو میں بھی "اسلم'ز کار" لکھا  جارہا ہے۔ اگرچہ یہ ابھی صرف  اشتہاراتی زبان میں ہے، اور سائن بورڈز پر نظر آتا ہے لیکن یہ کسی ممکنہ تغیر کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے جب اردو میں بھی "پاسٹ رافی ز" استعمال ہونے لگے۔
آپ کو شاید ان مثالوں پر ہنسی آئے یا آپ اسے دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کردیں۔ لیکن صاحب تغیر ایسے ہی آتا ہے۔ زبان ہر لیول پر اس سے متاثر ہوتی ہے۔ لفظ سے لے کر صوتیات اور گرامر تک۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ احساس ذخیرہ الفاظ کی تبدیلی سے زبان میں تغیر کا احساس ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان بدلنا اگر اتنا لمبا چوڑا کام ہے، یعنی ہر لیول متاثر ہوتا ہے، تو اگر ایک لیول یعنی ذخیرہ الفاظ بدل رہا ہے تواس میں ایسی کیا بات ہے؟ اردو کی گرامر تو نہیں بدل رہی؟ ہم انسٹال کو انسٹالڈ تو نہیں لکھ دیتے؟ انسٹال کرنا، انسٹال کیا، انسٹال کریں گے ہی لکھتے ہیں نا۔ صرف بنیادی لفظ یا سٹیم انگریزی سے حاصل کرتے ہیں وہ بھی اس وجہ سے کہ تکنیکی اصطلاحات ہیں جو اردو میں پہلے سے موجود نہیں۔ چلیں فعل کو چھوڑیں ہم اسم کی بات کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ، کمپیوٹر، ویب، کی بورڈ، ماؤس۔۔۔ ان سب کو اردو میں لکھ دینے سے کیا ہوتا ہے؟ کیا اس سے اردو میں وسعت نہیں آرہی؟ کیا اردو میں پہلے سے ان تصورات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تھے؟ نہیں تھے۔ اب اگر یہ مستعار لیے جارہے ہیں تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟ اردو وکی پیڈیا پر بھی تو عربی فارسی سے الفاظ مستعار ہی لیے جارہے ہیں۔ یا نہیں؟ یہ جو فارسی نژاد اصطلاحیں بنائی جارہی ہیں، اور جن موجودہ یتیم و یسیر اصطلاحات کا حلیہ بگاڑا جارہا ہے )جیسے احصاء جسے کیلکولس کی اردو کہتے ہیں، ہمارے ماہرین اس کی اردو کچھ اور ہی کررہے ہیں اس وقت یاد نہیں آرہی۔ ایسے ہی پرائم نمبر کو اردو میں مفرد عدد کہتے ہیں اس پر بھی اعتراض ہے( یہ سب اردو کے ذرائع استعمال کرکے بنائی جارہی ہیں؟  یہاں میری اردو سے مراد وہ اردو ہے جسے اردو کے اہل زبان سمجھتے ہیں۔ جو اصطلاحات بنائی جارہی ہیں اسے اردو کے اہل زبان نہیں سمجھتے۔ اگر کوئی لنک کی بجائے ربط سمجھ جاتا ہے تو میں استعمال کرتا ہوں۔ لیکن اگر کوئی ویب کی بجائے "بین جال" یا ایسی ہی کوئی جناتی اصطلاح نہ سمجھ سکے تو اس میں اُس بے چارے کا کیا قصور ہے۔ کہ وہ اردو جانتا ہے؟  ٹائی کی ہندی کسی نے کی "کنٹھ لنگوٹی"۔ موج ہے نا لیکن سارے ہندی بولنے والے اسے ٹائی ہی کہتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ صارف آسانی چاہتا ہے۔ ایک یک لفظی اسم کی بجائے آپ دو یا تین الفاظ کا ایک مرکب ہاتھ میں پکڑا دیں اور پھر وہ سمجھ بھی نہ آتا ہو تو صارف کو ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ اپنی زبان ٹیڑھی کرکے اسے پڑھے اور لکھے۔
تو میری مودبانہ گزارش ہے کہ جناب من، میرے ماہرین، میرے اساتذہ: آپ بہت اچھے لوگ ہیں۔ مجھ سے بھی زیادہ قابل اور صاحب علم۔ لیکن آپ کا طرز عمل طوفان کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے والا ہے۔ آپ یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ زبان بدل رہی ہے۔ اور زبان اہل زبان سے ہوتی ہے۔ زبان ٹھونسی نہیں جاتی۔ زبان وہی زندہ رہتی ہے جو گلی محلوں میں اور لوگوں کی زبانوں پر ہوتی ہے۔ لغات اور اصطلاحاتی کتابیں زبان کا قبرستان بن جاتے ہیں۔ جن میں مردہ الفاظ کے کتبے بھی دیکھنا کوئی
پسند نہیں کرتا۔ میری دعا ہے کہ اردو وکی پیڈیا اردو کا ایسا ہی کوئی قبرستان نہ بن جائے۔
اور آخری بات یہ کہ ہمیں توجہ اس بات پر رکھنی چاہیے کہ صارف یہ سب سمجھ سکے اور آسان اردو میں سمجھ سکے۔ ہمیں اردو کو بطور تعلیم کی زبان ترویج دینا ہے ورنہ انگریزی تو پہلے ہی یہ مقام حاصل کرچکی ہے۔ ہم غیرشعوری طور پر یہ مان چکے ہیں کہ ہمیں پڑھنا انگریزی میں ہے، لکھنا اردو میں ہے اور بات کسی علاقائی زبان میں کرنی ہے، بولنا پنجابی میں یا سندھی میں یا بلوچی میں یا پشتو میں ہے۔ اسے میں ڈومین سیٹ ہونا کہتے ہیں، یعنی خاص مواقع کے لیے خاص زبان استعمال کرنا۔ اس پر پھر کبھی بحث کریں گے۔
وما علینا الا البلاغ۔