آج آؤ سنواریں پاکستان پر خاصی جذباتی سی پوسٹ پڑھی۔ اس میں بیان کیے گئے حقائق سے انحراف واقعی ممکن نہیں۔ سندھ کے ڈیلٹے کو واقعی خطرہ ہے اور سمندر تیزی سے آباد زمینیں نگل رہا ہے۔ پانی کی کمی نے واقعی تباہی مچائی ہے اور کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ زیریں علاقے والوں کا مطالبہ ہے کہ روزانہ دس ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جائے جو کہ سمندر میں جاگرے تاکہ ڈیلٹا کا تحفظ ہوسکے۔ جبکہ اوپر والوں کا مطالبہ ہے کہ مزید ڈیم بنائے جائیں۔
مجھے بہت ساری تکنیکی تفاصیل کا نہیں پتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ برسات کے موسم میں سیلاب آجاتا ہے۔ اور وہ سارا پانی سمندر میں ہی جاتا ہے اور کہیں نہیں جاتا۔ اگر اس پانی کو ڈیم بنا کر سٹور کرلیا جائے اور پھر دریا میں ہی سارا سال چھوڑا جاتا رہے تو اس سے شاید ڈیلٹا کا کچھ تحفظ ہوسکے۔ یاد رہے میں نہریں نکالنے کی بات نہیں کررہا بلکہ صرف ڈیم بنا کر اسے سٹور کیا جائے اور بجلی پیدا کی جائے اور پھر پانی واپس دریا میں ہی ڈال دیا جائے۔ اس کی مثال پنجاب میں غازی بروتھا پاور پروجیکٹ ہے۔ مزید یہ اقدامات کیے جاسکتے ہیں کہ سمندر کے راستے میں بند بنائے جائیں۔ اس کے لیے ہالینڈ کی مثال کو ذہن میں رکھیں جنھوں نے آدھا ملک سمندر خشک کرکے بنایا ہے۔ تجاویز اور منصوبے ڈھیر۔۔لیکن عمل کوئی نا۔
شاکر بھائی آپ کی تجویز صائب ہے۔ وسائل کا بہتر استعمال یقینی طور پر کیا جانا چاہئے لیکن ہمارے ارباب اقتدار کو نجانے کیوں ایسی کوئی بات سوجھتی ہی نہیں جس سے ملک کا اور اس کی عوام کا بھلا ہو۔
جواب دیںحذف کریںسلام
جواب دیںحذف کریںاس سے بڑے مسائل سے حکومت کا سامنا ھے
کیری لوگربل این آر او - قرضے لینا ۔ انھیں اپنے مغربی ممالک کے اکاؤئٹس میں منتقل کرنا
جوڑ توڑ کرنا اب اتنے ضروری کام کے ھوتے ھوئے عوام کی طرف دیکھنے کا وقت کس کے پاس ھوگا
thek kehte ho bhai aamal koi na kamran Asghar Kami
جواب دیںحذف کریںبات ساری یہی ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار کچھ اور ہی ایجنڈے لے کر حکومت میں آتے ہیں پھر ایسے میں یہ فلاحی پروجیکٹس وقت کا زیاں نہیں تو اور کیا ہے۔
جواب دیںحذف کریں