آج کل اردو محفل پر وڈے وڈے چوہدری متعہ کی حرمت و حلت پر بڑی گرما گرم بحث کررہے ہیں۔ حدیثیں لائی جارہی ہیں، روایات پیش کی جارہی ہیں، ایک دوسرے کی کتب سے حوالے پیش کیے جارہے ہیں اور ذاتی و غیر ذاتی قسم کے حملے کیے جارہے ہیں۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ جذبات کے فوارے پھوٹ رہے ہیں اور متعہ کو عین اسلام اور عین غیر اسلام ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔
یہ پوسٹ لکھنے کا مقصد اصل میں کچھ اپنا نکتہ نظر بیان کرنا تھا۔ میں کوئی عالم حدیث نہیں اور نہ ہی قرآن فہم ہوں۔ آج یونہی لائبریری سے یوسف عباس کی ایک کتاب مل گئی۔ اسے پڑھا، موصوف اپنے عقائد سے قرآنسٹ اور فقہ کے اچھے خاصے ناقد ہیں۔ انھوں نے متع کے سلسلے میں اچھی تحقیق کی ہے ۔ جس میں قرآنی آیات سے لے کر ہر دو فقہ، اہلسنت و اہل تشیع، کی روایات کا خاصے ناقدانہ انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ آج میں نے یہ کتاب سکین کرکے، پی ڈی ایف بنا کر یہاں اپلوڈ کردیا۔ یہ پانچ میگا بائٹ کے دس کے قریب حصے ہیں۔ سب اتار کر انھیں ان زپ کرلیں۔ امید ہے آپ کے علم میں اچھا اضافہ ثابت ہوگی۔
متعہ اسلام کے متنازع ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ یہ حلال تھا یا نہیں لیکن آج کے سیاق و سباق میں متعہ کو مذہب کی آڑ مہیا کرنے کا مطلب ہے آپ رنڈی بازی کو اسلامی قرار دے رہے ہیں۔ ویسے اگر ایسے ہوجائے تو حکومت کو خاصے ٹیکس مل سکتے ہیں، طوائف اور کال گرلز کو چوری چھپے کی بجائے کھلے عام کاروبار کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں اور مولویوں کی بھی چاندی ہوسکتی ہے، روز کئی کئی نکاح جو پڑھانے ہونگے۔ ہاں اس دوران پیدا ہونے والے ناجائز بچوں کو پالنے کے لیے حکومت کو کچھ نرسری ہومز وغیرہ بنانے پڑیں گے۔ آج کے معاشرے میں متع کیا گُل کھلا سکتا ہے ایرانی معاشرہ اس کی ایک مثال ہے۔ بی بی سی کی ایک خبر ملاحظہ کیجیے۔
اللہ کا شُکر ہے کہ متعہ کو کبھی بھی اہل اسلام نے پذیرائی نہیں بخشی۔ حتی کہ اہل تشیع نے بھی عملی سطح پر اس کی کبھی بھی اس طرح پذیرائی نہیں کی جیسے ان کی کتب احادیث کافی اور فروع کافی وغیرہ میں اسے بعض جگہ فرائض تک میں شامل کردیا گیا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے اوپر دی گئی کتاب کا مطالعہ کرلیں۔ یہاں ہر دو مذاہب کی کتب حدیث میں سے ان روایات کا جائزہ لیا گیا ہے۔) اس سلسلے میں ایک ایرانی خاتون ڈاکٹر شمائلہ حائری کا مقالہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ جس میں انھوں نے متعہ کے نام پر عورتوں کے بے حرمتی اور اس کے ایرانی معاشرے پر اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
اللہ کریم ہمیں حق کو پہچاننے کی توفیق عطاء فرمائے۔
Aoa. Dost !
جواب دیںحذف کریںi appriciate ur effort.... May Allah Bless You ...
می ں تقلید پسندون میں سے نہیں بلکہ اپنا شمار عقلیت پسندوں میں رکھنا چاہونگی۔ عقل کہتی ہے کہ یہ عورت کی بے حرمتی، ذمہ داری سے دامن چھڑانا او نفسانی خواہشوں کے آگے سر جھکانا ہے۔ عجیب بات یہ کہ جب نفسانی خواہشوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو مردوں کو بالکل کمزور بنا دیا جاتا ہے جو اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتے اور طرح طرح کے بہانوں سے انکی بد ترین سرگرمیوں پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذہب کا استعمال آسان ترین چیز ہے اور اگر اس سے کام نہ چلے تو معاشرتی رسم و رواج کا دباءو۔
جواب دیںحذف کریںخدا جانے مرد معاشرہ کب تک سفلیت کی تسکین کے لئیے یہ تاویلات گھڑتا رہیگا۔
کتاب، خبر اور مقالہ شیئر کرنے کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںBohat zabardast,
جواب دیںحذف کریںmain aap say pori tarah mutafiq hoon or Aniqa say bhi!
آپ بھی بڑے بھولے ہیں یہ جو پاکستان میں طوائفوں کے پورے پورے محلے ہر شہر میں آباد ہیں ان کی جڑ میں یہی متع کا قانون گھسا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ 90 فیصد طوائفیں شیعہ ہوتی ہیں،اس سے میرا مقصد شیعہ حضرات کی توہین کرنا ہرگز نہیں ہے کیونکہ جس طرح سنیوں کی بے شمار قسمیں ہیں اسی طرح شیعوں کی بھی بہت سی قسمیں ہیں اور یہ قسمیں بنانے والے ایسی ہی کسی نفسانی شیطانی چال کے اثر میں پھنسے ہیں،
جواب دیںحذف کریںاللہ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا فرمائے آمین
میں نے اس سلسلہ میں پوری عمر مطالعہ کی کوشش نہیں کی کیونکہ یہ عمل بنیادی طور پر ہی مجھے اچھا نہ لگا ۔ انسان جو ہر وقت ابلیس کے نرغے میں رہتا ہے اس کے غلاف میں شیطانیت کی انتہاء کو پہنچ سکتا ہے ۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ایسا کرنے میں صرف مرد پیش پیش ہوتے ۔ عورتیں بھی یہ لبادہ مل جانے پر کم نہ کرتیں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے تمام سبق ہمارے لئے قرآن شریف میں بیان کر دیئے ہیں ۔ زلیخا کا کردار ہمیں کیا بتاتا ہے
جواب دیںحذف کریںدوست ! آپ نے لکھا ہے کہ : یوسف عباس صاحب نے متع کے سلسلے میں اچھی تحقیق کی ہے ۔
جواب دیںحذف کریںیہ "اچھی تحقیق" نہیں بلکہ "اپنی مرضی کی تحقیق" ضرور کہلائی جا سکتی ہے۔ ہم کیسے اس کو "اچھی تحقیق" کہہ سکتے ہیں جبکہ مصنف محترم ان تمام صحیح روایات کو بیک جنبشِ قلم رد کر رہے ہیں جن میں متعہ کی اجازت دی گئی تھی۔
اس میدان میں یوسف صاحب اکیلے نہیں ہیں۔ اس سے قبل بھی قرآنسٹ حضرات کے جدامجد غلام احمد پرویز صاحب نے متعہ کے اس موضوع سے جی بھر کے فائدہ اٹھایا تھا۔ صاحب موصوف متعہ کے متعلق روایات درج کرتے جاتے اور ہر روایت کے بعد نعوذباللہ ، استغفرلنا، اللھم اغفرلنا وغیرہ وغیرہ الفاظ قوسین میں درج فرماتے جاتے تھے تاکہ "روایات" سے جتنا بھی تنفر پیدا کیا جا سکتا ہے وہ کیا جا سکے۔ پھر حقائق کو توڑ موڑ کر اور انہیں جذباتی انداز میں پیش کر کے ہیجان بھی پیدا کیا گیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے یوسف عباس صاحب نے اپنی کتاب کے ص:132 پر لکھا ہے : لیجئے قارئین کرام ! یہاں نہ غزوے کی بات ہے نہ عام جنگ کی اور نہ لشکرکشی کی بات ہے۔ یوں یہ حدیثِ متعہ معمولاتی احوال یعنی عام حالات میں متعہ کی اجازت دے رہی ہے ۔۔۔۔
پہلے تو صاحبِ کتاب نے عربی متن ہی درست نقل نہیں کیا ، جو کہ یوں ہے ۔۔۔
وقال ابن ابي ذئب حدثني اياس بن سلمة بن الاكوع، عن ابيه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم " ايما رجل وامراة توافقا فعشرة ما بينهما ثلاث ليال فان احبا ان يتزايدا او يتتاركا تتاركا ".
دوسرے یہ کہ ۔۔۔۔ ایک ہی حدیث کو بعض کتب میں دو حصوں میں بیان کیا گیا ہے جس سے غالباً "عام حالات" والا مغالطہ ہوا ہو۔ ورنہ حدیث کے پہلے ہی حصہ میں صاف وضاحت ہے کہ "كنا في جيش" یعنی "ہم ایک لشکر میں تھے"۔
مکمل حدیث کا عربی متن یہاں
تیسری بات یہ کہ ۔۔۔ اس حدیث کے آخر میں امام بخاری اس روایت پر تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : "وبينه علي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه منسوخ" یعنی "خود علی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی روایت کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ متعہ کی حلت منسوخ ہے"۔ اور نکاحِ متعہ کے منسوخ ہونے والی حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی روایت بھی صحیح بخاری میں موجود ہے۔
چوتھی اور آخری اہم بات یہ کہ ۔۔۔۔ امام بخاری نے اس حدیث کو جس باب کے تحت لایا ہے اس کا عنوان ہی کچھ یوں ہے : "باب نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نكاح المتعة اخرا" یعنی "آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ متعہ سے منع کر دیا تھا"۔
اب خود سوچا جا سکتا ہے کہ صاحب کتاب نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کیلئے کیا کیا مغالطے دئے ہیں؟
الحمدللہ اب متعہ پر بحث وہاں اختتام کے قریب ہے۔ یہ بھی اچھا ہو گیا کہ بحث پڑھنے کو ملی اور میرے کافی خیالات کی تصحیح ہو گئی۔
جواب دیںحذف کریںمتعہ کے حامیوں کی تحریر میں تلخی اب ثابت کر رہی ہے کہ ان کا موقف غلط ثابت ہو چکا ہے۔
آپ کو پتا ہے ۔۔ ایک وقت میں تو سور کا گوشت کھانا بھی حلال ہوتا ہے ، وہ وقت جب اور کچھ کھانے کو دستیاب ہی نا ہو ۔۔؟
جواب دیںحذف کریںجان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا بھی ایک وقت میں ٹھیک ہے ۔۔ ! ! ۔۔ وہ وقت جب جان کے لالے پڑے ہوں ؟
AOA
جواب دیںحذف کریںhye dost , nice post
Dear, i'm unable to understand logic of all of you,.... it is too difficult to verify or clarify the masla of Mut'ah.
جواب دیںحذف کریںEvery one of us wants/seek HUJJAT from every rule/guidance/action of Islam that is however difficult.
w-salam