جمعرات، 12 جنوری، 2006

غم

اک دن میں نے اس سے پوچھا
کیوں اجڑے اجڑے رہتے ہو
کیوں بکھرے بکھرے رہتے ہو
دل کا یہ غم
کسی سے کیوں نہیں کہتے ہو
تب وہ دھیرے سے بولا
کیا کیا سنو گے
کیا کیا سناؤں
چلتے چلتے یونہی اک دن
اک شخص ملا تھا
روٹھا روٹھا رویا رویا
اس دنیا سے
زندگی سے اسے گِلا تھا
اسے صرف غم ملا تھا
کانچ سا وہ شخص
اسے ٹکڑاٹکڑا میں نے جوڑا
زندگی سے اس کا ناتہ جوڑا
اسے پھر سے جینا سکھایا
پھر جانے کیسے یہ سب ہوا
پھولوں سا وہ شخص
آنکھوں میں اتر گیا
دل میں گھر کر گیا
پھر چپکے چپکے دھیرے دھیرے
سیپ کی طرح غم کے موتی اگل کر
وہ بندہوتا گیا
مجھ سے دور ہوتا گیا
دکھ میں بگھوتا گیا
میری محبت، میرا پیار سب بھول گیا
جیسے اجنبی ہوگیا
اور
پھراک دن چپکے سے میرے آشیاںسےاڑگیا
اتنا کہہ کر وہ مجھ سے بولا
شاکر یہ غم بھی عجب ہوتا ہے ناں
نفس کو نفس کا محتاج کردیتا ہے
اک دوجے کا گدا کر دیتاہے
اس کا ستم بھی عجب ہوتا ہے
جاتے جاتے بھی باز نہیں آتا
بے وفا کر دیتا ہے
سنومری اک بات مانو
کبھیکسیکےغمخواربنوتو
اتنے قریب نہ جانا
کہ اسکے غم سے دامن جلا بیٹھو
کوئی روگ لگا بیٹھو
اس کے غم کا سمندر پاٹتےپاٹتے
اپنی متاع لُٹا بیٹھو

1 تبصرہ:

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔