ہمارے ہاں بھی ٹرینڈز ہوا کرتے ہیں۔ آج کل چونکہ ترقی کا دور دورہ ہے۔ ہر طرف ملک کی ترقی کے نعرے لگ رہے ہیں اس صورت حال میں میرے شہر کی ضلعی انتظامیہ بھی پیچھے نہیں رہی۔ انھوں نے بھی دھڑا دھڑ ترقیاتی کام شروع کررکھے ہیں۔
جس طرف دیکھیں سڑکیں بن رہی ہیں۔ ہر جگہ پتھر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ایک سڑک بنتی ہے تو دو بننا شروع ہوجاتی ہیں اور اب یہ حال ہوگیا ہے کہ دس دس سال جن سڑکوں کو کوئی پوچھتا نہیں تھا ان دو تین سالوں میں کئی کئی بار بن چکی ہیں۔
خدا جھوٹ نہ بلوائے میرے محلے کی ایک گلی اس عرصے میں کوئی 4 بار بن چکی ہے۔ ہر آٹھ دس ماہ میں کہیں سے ٹھیکیدار نمودار ہوجاتے ہیں۔ ایک جگہ مٹی کھود کر اپنا تارکول گرم کرنے کا کڑھاؤ اور دوسرا ساز وسامان فٹ کرلیتے ہیں اور پھر کسی اچھی بھلی سڑک کی کمبختی آجاتی ہے۔ اگلے دن ایک ٹریکٹر نمودار ہوتا ہے جس کے پیچھے صرف ایک بلیڈ پر مشمل ہل ہوتا ہے۔ ساری سڑک پر وہ ہل پھیر کر اسے برباد کردیا جاتا ہے۔ کل یہ کام میرے محلے کی دو سڑکوں کے ساتھ ہوچکا ہے۔ اور یہ دونوں سڑکیں صرف دو یا تین جگہوں سے زیادہ خراب تھیں جن کی وجہ پانی کا کھڑا ہونا تھا جس کی با آسانی مرمت کی جاسکتی تھی لیکن چونکہ ترقی ہورہی ہے اس لیے فنڈز کی بھی فراوانی ہے اس طرف کوئی بھی نہیں سوچتا۔ اب چند دنوں بعد اس پر پتھر کے ڈھیر لگ جائیں گے پھر ان کو بچھانے کے لیے بلڈوزر اور ٹریکٹر آجائیں گے اور فٹ فٹ بھر پتھر بچھا دیا جائے گا۔
اس دوران ٹریفک جائے بھاڑ میں انھیں چاہے گرزنے کا بھی رستہ نہ ملے کسی کو کیا۔ ٹھیکدار کو پیسوں سے غرض ہے، انتظامیہ کو خوشی ہے کہ ترقی ہورہی ہے اور عوام۔ عوام کی کون سنتا ہے۔
سڑکیں بنتی جارہی ہیں لیکن پانی کی نکاسی کا نظام ویسے کا ویسا ہے۔ شروع شروع میں ایک ٹھیکیدار صاحب نے سڑک پر سے پانی کے نکاس کے سلسلے میں اس کے ساتھ ملنے والی ساری گلیوں میں پانی کھینچنے والی چھوٹی چھوٹی ہودیاں بنوا دی تھیں۔ لیکن اس کے بعد ان کا کیا بنا وہ بھی نشان عبرت ہے۔ کچھ تو ویسے ہی بند ہوگئیں کہ جھاڑو دینے والے اپنا سارا گند انھیں میں پھینکتے تھے۔ کچھ پر سے لوہے کے جنگلے یار لوگ اتار کر لے گئے اور ہمارے صدر چوک میں موجود ایک ایسی ہودی کو تو دوسرے ٹھیکدار صاحب نے جو چوک میں سے گزرتے دوسرے بازار کی سڑک بنا رہے تھے زمین میں جہاں ہے جیسے ہی کی بنیاد پر گڑوا دیا۔ غالبًا یہ آنے والی نسلوں کے لیے کیا گیا ہے تاکہ وہ جب اس مقام پر کھدائی کریں تو ان کو آثار قدیمہ میں ایک ہودی کے ساتھ نالی اور اوپر جنگلا بھی ملے جس سے وہ ہزاروں سال قدیم شہر کی تہذیب کے بارے میں رائے قائم کرسکیں۔
جہاں سے سڑک نیچی ہے وہاں پر پانی کھڑا ہوجاتا ہےا ور چار ایک بارشوں کے بعد وہاں اس کی محبت کے نشان نمودار ہوجاتے ہیں۔ ایک کنکر اکھڑ جائے تو اس کے پیچھے لائن لگ جاتی ہے اور دو ماہ میں وہاں ایک اچھا بھلا گڑھا نمودار ہوجاتا ہے۔پھر وہ گڑھا ناسور کی طرح بڑھتا رہتا ہے اور آخر کسی ناظم کی نظر میں آجاتا ہے ناظم صاحب فنڈز فراہم کرتے ہیں اور سڑک کی تعمیر شروع ہوجاتی ہے۔
پتھرڈالے جاتے ہیں اور اوپر کنکر تارکول کا ایک لیپ کردیا جاتا ہے جو ناقص رنگ کی طرح چند ہی ماہ میں اکھڑنے لگتا ہے اور دوبارہ سے پھر وہی چکر سڑ ک کی بربادی سے تعمیر تک۔ اس کا نتیجہ اور تو جو نکلے سو نکلے ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ گھر جو زمین سے 2 فٹ سے بھی اونچے تھے اب زمین کے برابر یا اس سے نیچے ہیں۔ چونکہ گھروں کو بارش اور گٹروں کے گندے پانی سے بچانا بھی واسا کی نہیں عوام کی اپنی ذمہ داری ہے اس لیے گھروں کو اونچا بنانے کا رواج ہے لیکن اب لگتا ہے ہر بار سڑک بننے کے بعد اس کے باسیوں کو بھی گھروں میں مٹی ڈلوا کر اونچا کروانا پڑا کرے گا۔ ورنہ حال ہمارے پڑوسی جیسا ہوگا جو چار نفوس ہر بارش میں باری باری پانی نکالنے پر ہی لگے رہتے ہیں ایک بالٹی پکڑے۔ چاہے بارش ادھر آدھ گھنٹے کی بھی کبھی کبھار ہی ہوتی ہے لیکن ان کی اچھی بھلی درگت بنا جاتی ہے۔
ادھر یہ ترقیاں ہیں اور ادھر گاؤں اور قصبوں کا یہ حال ہے کہ میرے ماموں کے گاؤں کو جانے والے سڑک بالکل گنجی ہوچکی ہے۔ میری پیدائش سے پہلے کی بنی ہوئی وہ سڑک ابھی تک ویسے کی ویسے ہے اس طرف پتا نہیں کیوں کسی ناظم کی نظر کیوں نہیں جاتی۔پھر کھپ مچاتے ہیں کہ گاؤں سے شہر کی طرف ہجرت ہورہی ہے۔ ہجرت نہ ہوتو اور کیا ہو۔ اسی گاؤں میں میرے ماموں کے دو ذرا کھاتے پیتے پڑوسی ایک لاہور جاچکے ہیں اور دوسرے ادھر فیصل آباد آگئے ہیں۔ ان کا کیا قصور ہے جو ان علاقوں میں رہتے ہیں اور ہمارا کیا قصور ہے کہ ہم پر ہر چند ماہ بعد ایک آدھ سڑک ٹھونک کر ترقی کا نعرہ لگا دیا جاتا ہے۔
جب تک قصبے میں رہے ہم بھی پانی کی نکاسی سے بہت تنگ رہے لیکن جب کینٹ میں گھر بنایا تو یہ مسلہ حل ہوگیا۔ اس کے بعد جب امریکہ کینیڈا کی سیر کی تو پتہ چلا کہ کسی بھی ٹاؤن کی بنیاد نکاسی آب سے رکھی جاتی ھے۔ پانی کے نکاس کا سارا نظام سڑک سے دس بیس فٹ نیچے ھوتا ھے اور اتنا مظبوط ھوتاہے کہ شائد ہی اسے مرمت کرنے کی ضرورت پڑتی ہو۔ اس کے بعد گلی اونچی کرنے کی نوبت ہی نہیںآتی۔ جب بھی گلی بنے گی اسی اونچائی پر بنے گی اسطرح گھروں کو بھی کبھی کسی کو اونچا کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
جواب دیںحذف کریںہماری حکومت کا ہر وزیر سفیر یورپ کی یاترا پر جاچکا ہے مگر مجال ہے کہ وہ اس طرف دھیان دے۔ بس وہ روشن خیالی اور میوزک اور پینے پلانے کی روائتیں اپنے ساتھ لاے گا کبھہ اچھے کاموں کی نقل نہیں کرے گا۔
یہی تو مسئلہ ہے۔
جواب دیںحذف کریںپر سنتا کون ہے۔
کراچی میں تو اس سے بھی برا حال ہے۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں منتخب نمائندوں کو اربن پلاننگ اور ڈیولپمنٹ سے متعلق امور کی معلومات بالکل نہیں ہوتی۔ اس لئے ان کے صحیح کام بھی غلط ہوجاتے ہیں۔ ہمارے سابق ناظم اعلی نعمت اللہ خان کے دور میں اس قسم کی ٹریننگ کا اہتمام ہوا تھا جس میں منتخب نمائندوں کو اپنے علاقوں کے مسائل سمجھنے اور انہیں حل کرنے کے پائیدار طریقوں پر لیکچرز اور سیمینارز منعقد کئے گئے تھے۔ اس ٹریننگ کے سلسلے کو قومی بنیاد پر اپنایا جانا چاہئے۔ ہمارے اپنے بھی ایسے اعلی تحقیقاتی ادارے ہونے چاہئے جو مقامی حکومتوں کو جدید اربن پلاننگ اور ڈیولپمنٹ سے متعلق مشاورت فراہم کرسکیں۔
جواب دیںحذف کریںسلام
جواب دیںحذف کریںٹھیکیدار تو صرف انگوٹھا چھاپ ہوتے ہیں۔ جب ہم لاہور میں تھے تب وہاں کی ترقی دیکھ کر ہم سب اس بات پر متفق تھے کہ اول ہماری سول انجیرنگ انتہای ناقص ہے دوسرے جیسی بھی ہے سول انجنیر کی بک بک پر ٹھیکیدار کم ہی دھیان دیتا ہے کہ اس کو انجنیر صاحب سے پاس کا سرٹیفیکیٹ نہیں ملتا۔
یہاں اربوں کھربوں کے مالک مگر ایک تنخواہ دار سول انجینیر کے حکم کے منتظر ہوتے ہیں کہ اس کے سرٹیفیکٹ کے بغیر بل کی ادایگی نہیںہونی۔
بات ایک مجموعی مزاج کی ہے۔ جو کہ صرف ایک پہلو دیکھنے کا عادی ہوچکا ہے۔ دوسرے پہلوؤں کا کسی کو دھیان ہی نہیں آتا۔
جواب دیںحذف کریںنتیجہ ہر حالت میں عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔