آج کل ہم سٹوڈنٹس کے ازلی پیشے بلکہ پاکستانی پیشے یعنی ٹیوشن پڑھانے سے منسلک ہیں۔ ہم نے طالب علم اس لیے نہیں کہا کہ طالب علم پڑھاتا نہیں پڑھتا ہے اور اگر پڑھائے بھی تو معاوضے میں پیسے نہیں لیتا۔ لیکن ہماری مجبوری کہیں، فیشن کہیں ٹرینڈ کہیں کچھ بھی کہہ لیں کہ یہ پیشہ آج کل ہر سٹوڈنٹ اختیار کررہا ہے۔ا س کا جیب خرچ بھی نکل آتا ہے اور گھر والوں سے بے کاری کے طعنے بھی نہیں ملتے اور ساتھ ساتھ جو بھول چکے ہوں وہ دوبارہ یاد آتا چلا جاتا ہے۔
کہتے ہیں استاد کو دوبار پڑھنا پڑتا ہے ایک بار خود سمجھنے کے لیے اور دوسرے سمجھانے کے لیے۔ ہم جیسوں کو تین بار پڑھنا پڑتا ہے۔ ایک بار پچھلا یاد کرنے کے لیے ۔ پھر سمجھنے کے لیے اور پھر سمجھانے کے لیے۔ ویسے آپس کی بات بتاؤں یہاں سمجھاتا کوئی بھی نہیں بس پڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں بیٹا یاد کر آنا۔ اگر بیٹے کو سمجھانے بھی بیٹھ جائیں تو ان کا انداز بتارہا ہوتا ہے پاگل ای اوئے۔
بڑا شہنشاہی پیشہ ہے۔ سوٹڈ بوٹڈ ہوکر جاؤ ڈیڑھ سے دو گھنٹے پڑھاؤ اور واپس گھر۔ اس کے معاوضے میں ایک ہینڈسم سی رقم آپ کے ہاتھ میں مہینے بعد آجاتی ہے۔ ہر سکول کے ریٹ مقرر ہیں بچہ جتنے بڑے سکول کا ہوگا اس کی فیس اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔ جتنی بڑی کلاس ہوگی فیس اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اور اکثر ہوتا کیا ہے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی ہی انگریزی میڈیم کتابیں پڑھانا ہوتی ہیں۔
کبھی سنا کرتے تھے کہ بیکن ہاؤس کے بچوں کو ہوم ٹیوشن پڑھانا بہت مشکل ہے اس کے لیے پہلے خود ان کی کتابیں ٹیوشن رکھ کر پڑھنا پڑتی ہیں۔ ہمارے ساتھ ابھی تک تو بیکن ہاؤس کا واہ نہیں پڑا۔ ہمیں تو بس اتنا کرنا پڑا کہ جس کلاس کا پڑھانا ہوتا اس کی کتابیں خرید لاتے اور ایک بار دوہرائی کرکے اللہ تیری یاری۔
ٹیوشن خصوصًا ہوم ٹیوشن اپر کلاس اور اپر مڈل کلاس میں فیشن سا بن گیا ہے۔ بچے کو امتحانوں کے قریب لازمی ٹیوشن رکھوا دی جاتی ہے۔ اور مڈل کلاس یعنی درمیانے طبقے کی تو مجبوری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اکیڈمی بھیجیں۔ چونکہ سکول میں ٹھیک طرح پڑھائی نہیں ہوتی اس لیے ٹیوشن لازمی ہوتی ہے۔
ہم نے اب تک جو تجربہ حاصل کیا اور جو کچھ اس میں دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ انگریزی ہمارا مسئلہ ہے۔ مثلاً ہمارا ایک سٹوڈنٹ جو انگریزی میڈیم میں نویں میں پڑھتا ہے۔ اس کا بڑا مسئلہ ہی انگریزی میں یاد کرنا ہے۔ کہتا ہے سر ترجمہ کردیں۔ 5 سے 7 لائنوں کا ایک پیرا بڑی مشکل سے یاد کرپاتا ہے۔ اس دن کہہ رہا تھا کہ سر پاکستان سڈیز کا کس طرح یاد کروں ( وہ بھی انگلش میں ہے)۔ میں نے کہا کیا اردو میں رکھنے کی اجازت نہیں وہاں تو بولا کچھ لڑکوں نے رکھی ہے لیکن ان کے والدین نے بہت منت سماجت کے بعد رکھوائی ہے جبکہ ابو کہتے ہیں کہ اب انگریزی پڑھ لو گے تو آگے آسان ہوجائے گا۔
آسان تو جو ہوگا سو ہوگا مجھے شک ہے کہ اس بچے کے میٹرک میں سائنس میں داخلہ لینے کے قابل نمبر بھی آجائیں گے یا نہیں۔
دوسری جگہ ایک اکیڈمی ہے جہاں مابدولت بطور سر تعینات ہیں۔ نویں اور دسویں کے بچے جو درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں آتے ہیں۔ سارے اردو میڈیم لیکن ان کا مسئلہ بھی انگریزی ہے۔ اللہ ان کو ہدایت دے ان کا بس چلے تو اردو کے “ہے“ کی جگہ بھی انگریزی کا is اردو میں ایز کرکے لکھا کریں۔ ہر چیز انگریزی میں کردی گئی ہے۔ عمل تنفس کو ریسپیریشن لکھا ہوا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ بریکٹ میں اس کی اردو لکھی ہوئی تھی ورنہ ہم خود سوچ میںپڑ گئے کہ یہ الٹا سا کیا لکھا ہوا ہے۔
چونکہ ہم پہلے کچھ انگریزی میڈیم بچوں کو پڑھا چکے ہیں اس لیے ہمارے منہ سے جمع تفریق کی بجائے ایڈ اور سبٹریکٹ نکلتا ہے جس کی وجہ سے اکیڈمی میںبچے اکثر ٹوک دیتے ہیں سر جی اردو میں بولیں۔
سر کا کیا ہے انھیں تو جو کچھ پڑھانے کو ملے گا وہ پڑھا لیں گے چاہے اردو ہو یا انگریزی۔ بات تو ان معصوموں کی ہے جن کو ابھی انگریزی کے بنیادی قواعد بھی نہیں آتے اور ان پر سائنس کے نام پر انگریزی ٹھونک دی گئی ہے۔ ہم تو اس سٹیج پر پہنچ چکے ہیں جہاں پر اردو انگریزی بے معنی ہوجاتی ہے چونکہ بات سمجھ اور تصور یعنی کونسیپٹ کی ہوتی ہے۔
لیکن ان بے چاروں کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ اس انگریزی نما اردو کو رٹا لگائیں اور نمبر لیں۔ پھر ہمارے ارباب اقتدار و اختیار روتے ہیں کہ ملک ترقی نہیں کررہا تعلیم عام نہیں ہورہی۔ لیکن یہی لوگ ائیر کنڈیشنڈ کمروں میںبیٹھ کر پالیسیاں بناتے ہیںجو نئی پود کا بیڑہ غرق کرتی جارہی ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہم سوچتے پنجابی، پشتو، سندھی بلوچی یا اردو میں ہیں۔ سکول میں بولتے اردو اور پڑھتے انگریزی میںہیں۔ ہمارے بچوں کی دماغی صلاحیتیں انھی میں صرف ہوجاتی ہیں۔ بے شک یہ حقیقت ہے کہ ایک سے زیادہ زبانیں صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہیں لیکن زبانیں بھی آسان ہوں اردو اور علاقائی زبانوں کا تعلق اور ناتہ بہت گہرا ہے۔ لیکن انگریزی تو ان سب کی سوتیلی ہے جس کی ہر چیز مختلف ہے اب بچہ اسے کس طرح ان کےساتھ ملائے۔
اسی انگریزی کی وجہ سے پاکستان میں ٹیوشنوں کا رواج اتنا جڑ پکڑ چکا ہے کہ ایک ٹیوشن مافیا وجود میں آچکی ہے۔ جگہ جگہ اکیڈمیاں بنی ہوئی ہیں۔ میرے جیسے لاکھوں اس روزگار سے وابستہ ہیں۔ باقاعدہ ہوم ٹیوشن نیٹ ورک بنے ہوئے ہیں جو اپنی تشہیر کرتے ہیں اور لوگ ان سے رابطہ کرکے ٹیوٹر مانگتے ہیں۔خاص طور پر ستمبر سے مارچ تک ٹیوشن کا بہت زیادہ زور ہوتا ہے۔ ہر کسی نے اپنا کورس مکمل کرنا ہوتا ہے اس لیے میرے جیسے نتھو پھتو بھی موج میںہوتے ہیں۔
بھلا یہ کسی اور پیشے میں ممکن ہے کہ صرف 4 سے 5 گھنٹے کام کرکے 5 ہزار کے اریب قریب کما لیا جائے؟؟
کم از پاکستان میں تو ایسا ممکن نہیں۔میںاگر اپنے بی کام کے بل پر نوکری تلاش کروں تو کسی مل فیکٹری میں مجھے زیادہ سے زیادہ 4 ہزار پر آٹھ گھنٹے کی نوکری مل سکے گی اور وہ بھی ایسے کہ جانے کا پتہ واپس آنے کا نہیں۔ کب چھٹی ہو، کوئی شپمنٹ جانی ہو تو سٹاف کو روک لیا جائے یا حساب کتاب کرتے ہوئے کوئی انٹری مس ہورہی ہو تو چاہے آدھی رات ہوجائے۔
تو میں کیوں نہ ٹیوشنیں ہی پڑھاؤں۔ بلکہ اب تو میں اسے سنجیدگی سے بطور پیشہ اپنانے پر غور کررہا ہوں کیا ہے جو سال کے 3 یا 4 ماہ مندی کے ہوتے ہیں باقی دن تو موج ہوتی ہے نا۔
جب تک اوپر ایسے لوگ بیٹھے ہیں، جب تک ایسی پالیسیاں بنتی ہیں تب تک اس قوم کی حالت نہیں بدلے گی، تب تک یہ معصوم بچے پہلے سکول اور پھر ٹیوشن کے لیے دن میں آٹھ گھنٹے ذلیل ہوتے پھریں گے اور تب تک میرے جیسے ان کو پڑھا کر اپنا پیٹ بھرتے رہیں گے۔
کاش ۔۔۔۔اے کاش کہ اس قوم پر کوئی مسیحا اترے۔
کاش ہم میںاتنی جرات اور غیرت آجائے کہ اپنی حالت سنوار سکیں۔
وسلام
سلام
جواب دیںحذف کریںہمم ایک خیال رکھیے گا کہ کبھی یہ مت خیال کیجیے گا کہ آپکے کسی طالب علم نے ویسی عزت نہیں دی جسکے آپ حقدار ہیں یا کسی بچے پر آپ نے محنت کی تھی اور اس کا کریڈٹ آپکو نہیں دیا جا رہا۔ پاکستان میں میرے سبھی دوستوں نے اپنے کسی نہ کسی طالب علم کے حوالے سے اس کی شکایت کی تھی اور میرا ان کو یہی کہنا تھا کہ تمہارا کریڈٹ یا جو عزت تم مانگتے ہو اس کو تم ہر ماہ لیتے رہے ہو کم تھی یا زیادہ تم نےمانگی اور انہوں نے دی لہذا شکایت کرنا مناسب نہیں۔
اس پیشے کی سب سے بری بات یہ ہے کہ آپ گھڑے کی مچھلی بن جاتے ہیں۔ مطلب اس کام پر لگے تو بس یہی کرتے رہے۔ میں نے صرف 3 ماہ یہ کام کر کے چھوڑ دیا تھا کیونکہ مجھے کوی سکوپ نظر نہیں آ رہا تھا۔ مل فیکٹری کی نوکری چاہے کم کی سہی کچھ عرصے بعد آپ کو آگے کا راستہ نظر آ ہی جاتا ہے۔ بجاے ابھی کے کم زیادہ پیسے دیکھنے کی لانگ ٹرم پلاننگ کیجیے۔
بہت خوب شاکر بھیا!
جواب دیںحذف کریںہمارے ارباب و اقتدار نے واقعی تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، کسی زمانے میں میں نے بھی اسی موضوع پر قلم اٹھایا تھا مگر یار لوگوں نے اسے ہسی مذاق میں لیا، آپ کی اس تحریر نے تحریر نے میری بات کی تصدیق کر دی ہے، ذرا پڑھیے تو
http://apnadera.blogspot.com/2005/11/blog-post_07.html
http://apnadera.blogspot.com/2006/01/blog-post_16.html
http://apnadera.blogspot.com/2006/03/blog-post_114379167608843033.html
بھائی جی آپ کی بات بجا ہے۔
جواب دیںحذف کریںمیں نے کبھی بھی اس حوالے سے نہیں سوچا۔ بہرحال میری کوشش رہے گی کہ اس کو بطور پروفیشن نہ اپناؤں۔یہ تو جسٹ پارٹ ٹائم جاب ہے۔ سوچنے اور کرنے میں فرق ہوتا ہے اوپر تحریر میں طنزًا ایسا کہا تھا۔
پاکستانی بھائی میں آپ کی تحریر پڑھ کر رائے دیتا ہوں۔
وسلام
جی میں پڑھ چکا ہوں۔ آپ کا موقف بھی میرے والا ہے۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی تحریر پہلے ہی پڑھ چکا ہوں۔
معلمی سے بڑھ کر بھی کوئی اچھا پیشہ ہے کیا؟ روپے پیسے سے قطع نظر آپ کو یہ موقع ملتا ہے کہ آپ طالبعلموں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوسکیں۔ اس کا فائدہ اٹھائیں اور اچھائی عام کریں۔
جواب دیںحذف کریںجی میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے طلباء کو اچھی بات بتاؤں۔
جواب دیںحذف کریںاب دیکھیے نماز پڑھنی ہوتو وہ کم از کم دوگنے فاصلے پر موجود بریلوی مسجد میں جاتے ہیں میں اکثر کہتا ہوں بیٹا ادھر قریب والی میں چلتے ہیں تو کئی نے جواب دیا وہ تو دیوبندیوں کی ہے۔ لیکن میرا جواب ہوتا ہے بیٹا مسجد تو مسجد ہے اور آپ نے تو اللہ کے آگے حاضر ہونا ہے کہ اس کے بندوں کے؟؟
دیکھیں ابھی سے ان کے ذہن کیا بن رہے ہیں۔
اللہ ہمیںمعاف کرے۔ میری تو جتنی استطاعت ہے اپنی سمجھ کے مطابق انھیں بتاتا ہوں کہ ایسے نہیں ایسے کریں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم سب کی دعاؤں کو قبولیت،کہ کوئ تو آئے جسے اس قوم کا اور ان معصوموں کا درد ہو،
جواب دیںحذف کریںجس ملک میں انگوٹھا چھاپ وزیر تعلیم ہوں،اور جہاں ارباب اختیار کی اولادیں اپنے ملک میں تعلیم حاصل ہی نہ کرتی ہوں وہاں غریبوں کا رونا کس نے سننا ہے اور کیوں؟
بس یہی رنڈی رونا ہے جناب۔
جواب دیںحذف کریں