میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ بس بازار سے گزرتے ہوئے اس کو دیکھنے کی عادت سی ہوگئی تھی۔ ہاتھ میں اچھی نسل کی کوئی گن پکڑے وہ جیولرز کے باہر کبھی کھڑا ہوتا تھا اور کبھی بیٹھا ہوا ہوتا تھا۔ شکل سے پٹھان لگتا تھا۔ پچھلے کچھ ماہ سے اس کے ساتھ ایک اور لڑکا بھی نظر آنے لگا تھا جس کے ہاتھ میں اکثر پستول ہوا کرتا۔ دونوں کبھی کرسیوں پر بیٹھے ہوتے اور کبھی کھڑے ہوتے۔ میں نے کبھی اس سے بات نہیں کی تھی۔ بس چپ چاپ اس کے قریب سے گزر جایا کرتا۔ آج جب میں وہاں سے گزرا تو وہ مانوس منظر میرا منتظر نہیں تھا۔ وہ جہاں کھڑا ہوتا تھا وہاں دوکان کی سیڑھیوں پر خون کے دھبے پڑے ہوئے تھے۔ انھیں چھپانے کے لیے کہیں کہیں ریت ڈالی ہوئی تھی۔ قریب ہی لوگوں کا ایک مجمع تھا جو چہ مگویاں کررہے تھے۔ ذرا ادھر دوکان کا مالک سنار چند لوگوں میں گھرا کھڑا تھا۔ اس کے قریب ہی شکل سے پختون لگنے والا ایک ادھیڑ عمر سا آدمی بھی کھڑا باتیں کررہا تھا۔ شاید وہ اس کا باپ تھا۔
اس کا نام گل خان تھا۔ اور اس کے ساتھی لڑکے کا نام اخلاق احمد۔ کل شام ساڑھے سات کے قریب اس دوکان پر ڈاکوؤں نے حملہ کردیا۔ ندیم اسلم جیولرز منصور آباد کے اچھے خاصے مشہور اور کھاتے پیتے جیولرز ہیں۔ پہلے بھی ایک بار ڈکینی کی کوشش ہوچکی تھی جس کی وجہ سے انھوں نے دو محافظ رکھ چھوڑے تھے۔ لیکن یہ محافظ بھی کچھ نہ کرسکے۔ درندوں نے سب سے پہلے انھیں مزاحمت پر گولیاں ماریں۔ پھر دوکان کے شوکیس توڑ کر زیورات اور نقدی نکال کر فرار ہوگئے۔ گل خان اور اخلاق احمد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے۔ جبکہ ایک گاہک خاتون کی ٹانگ میں گولی لگی۔
پولیس نے ملزموں کی گرفتاری کے لیے تین ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔ لیکن وہ کہاں پکڑے جاسکتے ہیں۔ اگر پکڑے بھی گئے تو گل خان اور اخلاق احمد کے گھر والوں کو ان کے سپوت لوٹا سکیں گے؟ ان کے قتل کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ معاشرہ جس کی بدولت وہ اتنے مجبور ہوگئے کہ اپنی جان داؤ پر لگا کر دوسروں کو سیکیورٹی فراہم کریں؟ یا وہ درندے جو انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں؟ ان کے بچوں اور گھر والوں کی کفالت کون کرے گا؟ دونوں شاید پردیسی تھے۔ دور کہیں کسی علاقے میں بیٹھے ان کے عزیز جنھوں نے دو وقت کی روٹی کی امید میں انھیں اتنی دور جانے دیا تھا اب ان کے بے جان لاشے وصول کر جانے کتنا روئے ہونگے۔۔۔ کون ذمہ دار ہے اس سب کا؟ شاید ہم سب۔ :(
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جواب دیںحذف کریںآہ۔ پتہ نہیں۔۔کب تک ایسا ہوتا رہے گا۔
شاکر، شروع سے اتنے اچھے انداز میں لکھا ہے کہ پڑھنے والا خود بخود اداس ہو جائے گا۔
اسلام علیکم
جواب دیںحذف کریںشاکر بھائی
اب قاتل بغیر دستانوں کے قتل کررہے ہیں۔ اور چینخ چینخ کر کہہ رہے ہیں۔ ہاں ہم نے قتل کیاہے۔ اگر ہمت ہے تو ہمیں پکڑ کردیکھائو۔
شکریہ
کل والدہ نے بتایا کہ اس خاتون کا بھی ہسپتال میں انتقال ہوگیا گولی شاید اس کی ٹانگ میں نہیں کسی نازک جگہ پر لگی تھی۔
جواب دیںحذف کریںیار شاکر مجھے ایسے واقعات سن کر جو غصہ آتا ہے ، وہ بیان سے بہتر ہے ، اجازت ہو تو ایک دو گالیاں پولیس کے گھر والوں کے نام کر دوں؟
جواب دیںحذف کریںمیں پھر کہوں گا کہ سارا قصور ہم عوام کا ہے ۔ ہم لوگ سوئے پڑے ہیں ۔ اگر ہم بیدار ہوں تو یہ سب نہ ہو ۔
اِنّا لِلہِ و اِنّا اِلَیہِ راجِعون
جواب دیںحذف کریںخدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا
لِلہِ غلط لکھا گیا ہے اسے ٹھیک کر دیجئے
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم شاکر بھائی!
جواب دیںحذف کریںیہ واقعہ پڑھ کر مجھے افسوس کے ساتھ حیرت بھی ہوئی اور وہ اس لئے کہ ایسے واقعات کراچی میں عام ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آہستہ آہستہ پورا ملک ایسے واقعات کی زد میں آتا جا رہا ہے۔
درندگی اور عدم برداشت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
جواب دیںحذف کریں