بدھ، 9 اپریل، 2008

منظرنامہ

ارباب غلام رحیم اور شیر افگن کی ٹھکائی کے ساتھ ہی نئی حکومت اور حزب اختلاف کے مابین رسا کشی کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے جو افہام و تفہیم کی باتیں کی جارہی تھیں سب ہوا بن کر اڑ گئی ہیں۔

کراچی میں صورت حال بگڑنا شاید اب معمول بن جائے۔ پہلے مہاجر قومی موومنٹ کو سامنے لایا گیا۔ اب وکلاء کو ایک فریق کے طور پر ابھارا گیا ہے۔ پچھلے ایک سال کی جدوجہد نے وکلاء کو بھی اپنے ہونے کا احساس دلا دیا ہے۔ اور یہ احساس کسی بھی وقت منفی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ ملیر بار کو جلانا، وکلا کے دفاتر کو جلانا کسی "نامعلوم" کی کاروائی نہیں۔ متحدہ کو مشرف دور میں جس سکھ کا سانس ملا تھا اور انھوں نے پورے ملک میں تنظیم سازی کرنے کی سوچی تھی وہ سکھ انھیں اب نصیب نہیں ہوگا۔ انھیں پھر سے کراچی کی پسوڑی ڈال دی گئی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ متحدہ سندھ حکومت میں شامل ہوگی۔ چاہے ماہانہ بنیادوں پر ہی اختلافات جنم لیں لیکن نچلا بیٹھنا متحدہ کی عادت نہیں۔ دوسری صورت میں سندھ اسمبلی تو کراچی میں ہی ہے اور ویسے بھی ملک کی ساری تجارت اسی کے راستے ہوتی ہے۔ چناچہ متحدہ کراچی میں بیٹھ کر ہی پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کو پڑھنے پا سکتی ہے۔

کراچی سے باہر اگر کوئی ذرا پرسکون علاقہ ہے تو وہ پنجاب ہے۔ اس میں ق لیگ نے بسم اللہ کردی ہے۔ شیر افگن جو پہلے ہی ذہنی بیماری کا بہانہ کرکے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس سے بچا تھا اب زیادہ زہریلا ہوجائے گا۔ جوتے جس نے بھی مارے، کام اس نے خوب کیا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ق لیگ نے پنجاب اسمبلی کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ یعنی صوبائی اسمبلی میں اس دوران ہونے والی کوئی بھی قانون سازی بغیر کسی بحث کے اور بغیر کسی اعتراض کے ہوجائے گی۔ شیر افگن نے میانوالی کے عوام کو لاہوریوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش بھی کرڈالی ہے۔ عوام تو ہیں ہی جذباتی اس کا نتیجہ اب وقت ہی بتائے گا۔

ان دو واقعات نے عدلیہ کی بحالی سے نظریں ہٹا دی ہیں۔ ایک عام آدمی کی حیثیت سے اگر میں دیکھوں تو وہ چیزیں جن پر فوکس ضروری تھا پس پشت چلی گئی ہیں۔ آٹے کا بحران پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ غذائی اجناس کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ پانی، بجلی کے بحران بھی وہیں ہیں۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ایک بار پھر نوے کی دہائی کی سیاست شروع ہوگئی ہے۔ وہی کنجر خانہ۔ بس چہرے وہ نہیں رہے لیکن ان کا کردار وہی ہے۔

اس ساری صورت حال سے جرنل (ر) پرویز مشرف مغرب کو ایک بار پھر شاید باور کرانے میں کامیاب ہوجائے کہ اس تھرڈ ورلڈ ملک کے تھرڈ کلاس لوگوں کے لیے جمہوریت زہر قاتل ہے۔ دیکھا میں نہ کہتا تھا یہ لوگ جمہوریت کے قابل ہی نہیں۔ انھیں "حقیقی" جمہوریت ہی چاہیے جو صرف میں ہی مہیا کرسکتا ہوں۔ او آئی سی کی سربراہ کانفرنس تھی تو جنرل صاحب یہاں بیٹھے رہے اب سیاستدانوں کو لڑوا کر آرام سے چھ روزہ سرکاری دورے پر چین سدھار رہے ہیں۔ پیچھے وزیر اعظم تحقیقاتی کمیٹیوں کا اعلان کرتے پھریں اور آٹھ سالہ دور اقتدار کا گند دھونے کے لیے منصوبے بناتے رہیں۔ جناب کے دوروں کے ریکارڈ میں 6 روز اور شامل ہوجائیں گے۔

2 تبصرے:

  1. یہ گند کسی نہ کسی کو تو دھونا ہی ہو گا ۔ اگر نئی آنے والی مخلوط حکومت سمجھداری کے ساتھ دھو ڈالے تو قوم بھی شائد سدھر جائے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. کراچی کے با رے مٰیں اپ کا تجزیہ درست ہے سولہ انے سچ !!!

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔