اس وقت پاکستانی معیشت پھر سے دس سال پہلے والی پوزیشن پر کھڑی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے ہونی والی ایجی ٹیشن، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور متحدہ بحرانوں نے معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ شوکت عزیز حکومت جس نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ ہم نے کشکول توڑ دیا (جو اصل میں آئی ایم ایف سے چھٹکارے پر کہا گیا تھا ورنہ پاکستان عالمی بینک، ایشیائی بینک اور دوسرے ایسے اداروں سے اس کے بعد بھی قرض لیتا رہا ہے)۔ اب وہی کشکول پھر سے اٹھائے ہم کبھی ایک کی طرف دیکھ رہے ہیں کبھی دوسرے کی طرف۔
تیل کی سٹے بازی نے ہماری معیشت کا بھرکس نکال دیا اور اس وقت پاکستان اندرون و بیرون ملک اربوں ڈالر کا مقروض ہے۔ اندرونی جانب بجلی پیدا کرنے والے آزاد اداروں کا مقروض (کوئی ایک سو بیس ارب روپے کسی اخبار میں پڑھے تھے) اور بیرونی طرف سعودی عرب جیسے ممالک کے تیل کے بل کا۔ وزیر خارجہ اور دوسرے کئی لوگ حتی کہ ابتدائی دنوں میں نواز شریف اور زرداری جی نے بھی سعودیہ کا دورہ کیا تاکہ کچھ مہلت حاصل کی جاسکے۔
ہمارا روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے، سٹاک مارکیٹ میں سے غیر یقینی حالات کی بنا پر غیر ملکی سٹے بازوں نے روپیہ نکال لیا ہے۔ افراط زر اس ماہ 25 فیصد کی شرح تک پہنچ چکی ہے۔ جس کی وجہ سے چیزوں کی گرانی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے۔
پانی کی کمی مرے پر سو درے ہیں۔ اس بار بارشیں ہونے کے باوجود دریاؤں میں پانی کم ہے اور پنجاب کے لیے بری خبر یہ کہ اس کو پچاس فیصد تک کم پانی ملنے کا خدشہ ہے۔ یعنی اگلی گندم کی فصل کے لیے پانی کی عدم دستیابی۔ اس بار بھی اکثر علاقوں میں کسانوں نے چاول اس امید پر کاشت کرلیے کہ بارشیں ہورہی ہیں۔ لیکن شیخوپورہ کے اردگرد (میرے ننھیال) کے علاقے میں زمینیں بارش کو ترستی ہی رہ گئیں۔ یہ علاقہ کبھی نہری پانی سے اچھا خاصا سیراب ہوا کرتا تھا اب پانی کے کھال آدھے سے بھی کم بھرے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے کسانوں کو مہنگا ڈیزل خرید کر فصلوں کو ٹیوب ویل کا پانی دینا پڑتا ہے۔ ان علاقوں میں چاول کی فصل کی نگہداشت بہت مشکل سے ہوپارہی ہے۔
اور آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان پہنچ گئی ہے۔ ان کا مقصد کیا ہے۔ سب کے سامنے ہے۔ کچھ قرض دینے کے لیے یہ لوگ اپی ڈھیروں شرائط منوائیں گے۔ جن میں (بشمول منافع بخش) حکومتی اداروں کی نجکاری، سبسڈی کا خاتمہ، ٹیکسوں میں اضافہ اور غیر ترقیاتی اخراجات میں میں کمی جیسی چیزیں شامل ہونگی۔ اس بار ترقیات بجٹ ویسے بھی کم رکھا گیا ہے، مزید کم خسارہ کم کرنے کے چکر میں ہوجائے گا۔
قبائلی علاقوں میں جاری جنگ اور امریکی حملوں نے سرمایہ کاری کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ سرمایہ دار زرافے کی سی خصلت والا جانور ہے جو خطرے کو کئی میل دور سے ہی محسوس کرکے بگٹٹ بھاگ لیتا ہے۔ پاکستان میں یہ حال ہے کہ یہاں سے سرمایہ دھڑا دھڑ دبئی اور یورپ منتقل ہورہا ہے۔ پچھلے سالوں میں اربوں ڈالر دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں لگ چکے ہیں، وہاں ہمارے سرمایہ کار ٹھیکیداری کررہے ہیں، بزنس کررہے ہیں اور یہاں عوام مکانوں کو ترس رہے ہیں۔
بجلی کا بحران ابھی مزید سنگین ہوگا۔ اگلے ایک سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کردینے کے دعوے پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ ابھی ستمبر ہے مجھے خدشہ ہے کہ اکتوبر کے وسط سے ہی سردیوں کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوجائے گی۔ اور یہ 8 دس گھنٹے نہیں 16 سے 20 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ ہوگی۔ وجہ پانی کی کمی ہوگی۔ لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے جو ہنگامی انتظامات کیے جارہے ہیں ان میں سرفہرست کرائے کے بجلی گھروں کی فراہمی ہے۔ لیز پر لیے گئے یہ پلانٹ اچھے خاصے مہنگے پڑیں گے۔ جتنی ان کی لیز ادا کی جائے گی اتنے میں شاید نیا پلانٹ مہیا ہوجائے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ متعلقہ مینوفیکچررز سے نئے ٹربائن دستیاب ہی نہیں اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ ڈیزل اور مٹی کے تیل سے چلنے والے کرائے کے ٹربائن حاصل کیے جائیں۔ ان سے بجلی کی کمی تو پوری ہوجائے گی لیکن اس کا اثر قیمتوں، معیشت اور صنعت پر کیا پڑے گا وہ اظہر من الشمس ہے۔ انڈیا کی طرز پر ہمیں کوئی بھی ایٹمی توانائی دینے کا نہیں۔ لے دے کر ایک چین رہ جاتا ہے۔ کاش ہمارے حکمران چین سے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرسکیں۔ صدر صاحب پہلا دورہ چین کا فرما رہے ہیں اللہ کرے اس میں دس بارہ ایٹمی ری ایکٹرز کی بات بن جائے۔ ایٹم بم تو ہم نے چوری کرکے بنا لیا لیکن ایٹمی توانائی سے بجلی بنانے کے معاملے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ توانائی کے لیے ایران پاکستان، وسطی ایشیائی ریاستوں سے اور قطر سے گیس کی درآمد کو بھی جلد از جلد حتمی شکل دی جائے۔ پاکستان کے پاس اگلے بیس برس میں ملکی گیس کے نام پر شاید کچھ ہی بچے۔ استعمال تو پہلے ہی ہورہے تھے لیکن اب پٹرول کی بجائے گیس پر انحصار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے یعنی گیس اتنی ہی جلدی ختم بھی ہوجائے گی۔
ہمیں متبادل ذرائع توانائی پر بھی غور کرنا ہوگا۔ شمسی توانائی ایک بہترین آپشن ہے۔ اگر اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے جائیں تو بحران آدھے سے بھی کم رہ سکتا ہے۔ لیکن یہ سب تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم مخلص ہوں اور اس جنگ سے ہماری جان چھوٹے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہمارے منہ سے نوالے بھی چھین لے گی۔
پاکتان میں حقیقی جمہوریت اسی کشکول کا نام تو ہے
جواب دیںحذف کریںاور جنگیں لڑیں۔ بھلا جنگ زدہ ملک کی معیشت بھی ترقی کرتی ہے؟ لوڈشیڈنگ بھی آئی پی پیز کو بروقت ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے ہو رہی ہے۔
جواب دیںحذف کریں