جمعرات، 30 اکتوبر، 2008

جرم

سہ پہر کا وقت تھا، ٹیوشن پڑھا کر اوپر آیا تو نظر بجلی کے بل پر پڑ گئی۔ اٹھایا رقم پڑھی اور رکھ دیا۔ والدہ کہنے لگیں آج پکانے کے لیے کچھ نہیں دال لے آؤ۔


"حنیف سے لے آؤں"


"نہیں وہ کم دیتا ہے شیخوں سے دونوں مکس لے آؤ بیس کی"


اور میں شیخوں کی دوکان سے دال لینے چلا گیا۔ وہاں کچھ اور گاہک موجود تھے۔ ایک لڑکا جس نے کوئی سودا لیا اور چلا گیا۔ ایک بچی جو چھٹی ساتویں کی طالبہ لگتی تھی اپنی ننھی سی بہن کے ساتھ وہاں تھی۔


"وہ ناں ہمیں آج سودا دے دیں"


"پیسے"


"آپ کو پتا ہے ابو بیمار ہیں آپ ادھار دے دیں مہینے کے مہینے پیسے مل جاتے ہیں آپ کو پہلے بھی"


"لیکن اب دو ماہ سے پیسے نہیں ملے"


"اصل میں بھائیوں کی ابھی  تنخواہ نہیں ملی"


"تمہارا بھائی تو اس دن میں موٹر سائیکل پر ملا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کھاتے سے میرے ابے کا تعلق ہے میرا نہیں"


شیخ جی کے چہرے پر تمسخرانہ سے مسکراہٹ تھی، اور بچی کے چہرے پر لجاجت۔۔ اس دوران شیخ جی نے میرے ہاتھ سے پچاس روپے پکڑ لیے۔


"کیا لینا ہے"


"بیس کی مونگ مسور ملا کر دے دیں"


میں نے کہا اور انتظار کرنے لگا۔ اس بچی کے الفاظ میرے دماغ پر ہتھوڑوں کی طرح بجنے لگے۔


"آج کا سودا ادھار دے دیں پیسے مہینے کے آخر میں دے دیں گے"


"آج کا سودا ادھار دے دیں پیسے مہینے کے آخر میں دے دیں گے"


میں نے شیخ جی سے سودا پکڑا اور بقایا تیس روپے بھی پکڑے۔ ایک بار سوچا کہ یہ پیسے اس بچی کو دے دوں تاکہ ان کا چولہا جل جائے۔ پھر میرے سامنے میرے گھر کے خرچے آگئے۔ فلاں چیز لانی ہے، فلاں چیز لانی ہے۔ بجلی کا بل 5 روپے 65 پیسے فی یونٹ کے حساب سے 333 کا 2400 روپے دینا ہے۔ میں نے اس بچی پر ترحم آمیز نگاہ ڈالی اور سرجھکا کر چلا آیا۔


شاید میری مجبوری تھی، یا زمانے کی بے رحمی تھی، لیکن میں اپنی نظروں میں گر گیا۔ میرے اندر اتنا دکھ بھر گیا کہ اگر میں اسے ان الفاظ کی صورت میں نہ ڈھالتا تو جانے کیا ہوجاتا۔


13 تبصرے:

  1. فروری میں ایک دکان پر کچھ لینے گیا تو ایک بابا جی گھی کا ڈبہ لینے آئے۔ قیمت کیا تھی 5 یا ساڑھے 5 سو روپے؟ معلوم نہیں۔ اس کے قریب ہی تھی۔ باب جی نے جو اپنے کوٹ کی جیبیں خالی کرنا شروع کیں۔ سو پچاس، دس بیس کے نوٹ سارے نکال لئے پر پیسے تھے کہ پورے ہونے میں ہی نہیں آ رہے تھے۔ پیسے تو پورے ہو ہی گئے اور بابا جی گھی بھی لے ہی گئے لیکن مجھے اس دن اپنے آپ اور اپنی قوم پہ اتنی کراہت آئی کہ بس۔ ایک وہ شخص تھا جو اپنے آپکو ذمہ دار سمجھتا تھااگر ایک کتا بھی نیل کے کنارے بھوکا مر جاتا اور ایک ہم ہیں جو بھوک کے ہاتھوں مجبوروں کوخود کشی کرنے والوں کو بچا سکتے ہیں لیکن نہیں۔ ہم بھی کتوں کو بھوکا نہیں مرنے دیتے۔ تسلیم سولنگی جیسی بیٹیاں ہیں نا ہمارے پاس ان کتوں کی بھوک مٹانے کو

    جواب دیںحذف کریں
  2. اب تمہاری باتوں پر کیا تبصرہ کروں شاکر.. میری آنکھیں نم ہورہی ہیں..

    جواب دیںحذف کریں
  3. جب بھی ایسا واقعھ دیکھتا پڑھتا یا سنتا ہوں تو حلق بند ہو جاتا ہے سانس گھٹنے لگتی ہے ۔ دل نے لکھنے سے روکا لیکن دماغ نے کہا "لکھو گے نہیں تو آج کی قوم کو کیسے معلوم ہو گا کہ پاکستان کیسے بنا تھا "۔ پاکستان بنا تو میں دس سال کا تھا ۔ کئی ماہ تک بھوک پیاس سردی گرمی سے متواتر دوچار ہونا تو معمولی باتیں تھیں ۔ اس کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ جوانی تک جب کسی کومحتاج دیکھتا جیب میں جو کچہ ہوتا اسے دے دیتا ۔ اسی دوران بڑے غیرتمند بھی دیکھے جنہوں نے لینے سے انکار کیا ۔ اب بھی مجھ سے رہا نہیں جاتا ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. یہ ہما ری معا شرتی بے حسی نہیں‌ہے تو اور کیا ہے ؟ ایک تو راشن اتنا مہنگا ہو گیا ہے ایک لوگوں کے دلوں‌ سے رحم نکل گیا ہے ۔دوکان دار اپنے اپ کو فرعو ن سمجھتے ہے ۔ ان کے اپنے زاتی خیال میں کفن میں جیب ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. [...] اسے ان الفاظ کی صورت میں نہ ڈھالتا تو جانے کیا ہوجاتا۔ جرم اقتباس آواز دوست Segnala presso: زمرہ دیگر بلاگرز سے اقتباس کے تحت شائع ہوا | [...]

    جواب دیںحذف کریں
  6. دراصل ہمیں یہ پرواہ ہی نہیں رہی کہ ہمارے سامنے کسی کے ساتھ کیا ہورہا ہے ہمیں بھی فکر ہے تو اپنی یہاں شاکر صاحب نے اپنی الفاظ میں اس واقعہ کو بیان کر کے خود کو ان لوگوں سے بالاتر ثابت کردیا جو کہ ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں واقعات کے ذمہ داران ہیں قبلہ محترم مکی صاحب کی نے جیسے لکھا کہ تبصرہ سے اوپر کچھ ہے تو وہ انعمول آنکھوں سے جڑتے آنسو ہی ہیں۔ اس کی ایک کاپی یہاں ڈال رہا ہوں
    http://abdulqudoos.info/جرم/

    جواب دیںحذف کریں
  7. میرا تم سے اب بھی یہی سوال ہے کہ تم اپنی اس حالت کو ختم کرنے کے لئے کیا کر رہے ہو؟ 24 کے بعد 29 کو پوسٹ کی۔ اب 31 ہے اور وہ بھی ختم تم وہیں کے وہیں۔ ہونگے تمہارے پاس ہزار ریزنز پر اس حالت میں رہنا ؟؟؟؟؟؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  8. اسلام علیکم شاکر
    شاکر آپ کی اس بات پر صرف اتنا کہنا ہے کے کیا آپ کی مجبوری بچی سے ذیادہ تھی جس کا باپ بھی بیمار تھا ؟؟؟
    نہیں نہ تو پھر میر ے بھائی اس کی مدد کرنی چایے تھی یہ ہی ایثار ہے ۔چائے آپ 10 یا 20 روپے دیتے پر دیتے ضرور بھائی میں خود عید پر کپڑے نہیں بنائے کیونکہ میرے پاس تو کپڑے ہیں ان کودے جو عام زندگی میں اچھے کپڑے نہیں پہنا سکتے ان کے بچوں کی عید بھی تو میر ے بچوں جس ہو گی ۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. جب بھی ایسا کچھ دیکھنے یا سننے کو ملتا ھے تو دل میں غم و غصہ بھر جاتا ھے۔ کئی مرتبہ تو دماغ میں باغی خیالات بھی آتے ھیں۔میری ناقص رائے میں تو صرف ایک ہی حل ھے اور وہ ھے خونی انقلاب !

    جواب دیںحذف کریں
  10. [...] عزیز نے ایک بہترین تحریر “جرم” لکھی، جو ہمارے معاشرے کی بے بسی کی عکاسی کر رہی [...]

    جواب دیںحذف کریں
  11. ایسے کتنے ہی واقعات نظروں کے آگے سے گزرتے ہیں اور اڑن چھو ہو جاتےہیں
    بے حسی کے اس زمانے میں کوئی تو واقع آپ کو متاثر کر گیا اور اسے اتنی اہمیت دی، واقعی کچھ لوگ زمانے کے نباض ہوتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  12. میرے خیال میں رونے دھونے سے بہتر ہے کہ ایسے لوگوں کی مدد کرنے کا خود کو قابل بنایا جائے۔
    میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، جاب کرتے ہوئے بھی کچھ دن ایسے آجاتے ہیں جب کھانے کے پیسے تک جیب میں نہیں ہوتے، لیکن قصور تو میرا اپنا ہی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  13. [...] عزیز نے ایک بہترین تحریر “جرم” لکھی، جو ہمارے معاشرے کی بے بسی کی عکاسی کر رہی [...]

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔