آج کل میں پھر سر جی بنا ہوا ہوں۔ روزی روٹی کے لیے بننا پڑتا ہے۔ ایک سٹوڈنٹ بندہ اس کے علاوہ اور کسی طرح کما بھی نہیں سکتا۔ اور اللہ جھوٹ نہ بلوائے جتنا پیسا اس انڈسٹری یعنی ایجوکیشن انڈسٹری میں ہے اور کسی چیز میں نہیں۔ آپ کی سرمایہ کاری کی سوفیصد واپسی کی ضمانت کے ساتھ بے انتہا منافع کی گارنٹی ہر چیز موجود ہے اس فیلڈ میں۔
تو میں آج کل ٹیوشن پڑھا رہا ہوں۔ محلے کے ہی ایک دو بچے ہیں جو میرے پاس پڑھنے آتے ہیں۔ نالائق اتنے ہیں کہ بس حق ادا کردیتے ہیں اس صفت کا۔ بڑا بھائی دسویں میں ہے نویں کی دو عدد سپلیوں کے ساتھ، انگریزی اور ریاضی میں۔ اور میرے پاس ریاضی ہی پڑھتا ہے۔ ساتھ انگریزی کا بھی کبھی پوچھ لیتا ہے۔ آج کہنے لگا سرجی فیشن اور ڈریم پر پیرا گراف لکھ دیں گے؟
میں نے کہا کرنا کیا ہے کہتا پرچے میں ان میں سے ایک لازمی آجاتا ہے اس لیے یاد کرنے ہیں۔ میں نے کہا پائلٹ سپر ون سے کرلو تو بولا وہاں مشکل لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا مضامین کا کیا کرو گے تو بولا وہ سکول والے سر تین لکھ کر دے دیں گے جن میں سے ایک آجاتا ہے۔
پھر بولا کوئی خط نہیں مل سکتا جو سارے خطوں میں لکھا جاسکے۔ پندرہ خط ہیں، ایک لڑکے کے پاس ایسا خط تھا جو ہر مضمون پر پورا اترتا تھا اور اس نے انگریزی پاس بھی کرلی ہے۔
میں نے اس کی طرف دیکھا، سوچا اور پھر سر جھکا لیا۔۔ اور بولا ابھی تو نہیں لکھا لیکن دیکھتا ہوں شاید کسی سے مل جائے ایسا خط۔
یہ حقیقت ہے کہ بی اے تک ایسے ٹوٹکے چلتے ہیں۔ ایک خواب نامی مضمون میں ایکسیڈنٹ کو گھسیڑ کر دو مضمون بنا لیے جاتے ہیں۔ میں سڑک کے کنارے جارہا تھا کہ میں نے ایک بس کو آتے دیکھا۔ پھر ایکسیڈنٹ ہوا اور پھر آخر میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا پتا چلا یہ تو خواب تھا۔ اب اگر خواب والا آجائےتو سارا لکھ دو ورنہ آخری حصہ نکال دو۔ خط ایک ہوتا ہے، لیکن اس کا مضمون ایسا مبہم ہوتا ہے کہ پندرہ بیس عنوانات تلے آجاتا ہے۔ شاگرد خوش ہوجاتے ہیں، استاد کو پیسے مل جاتے ہیں اور پرچے بھی پاس ہوجاتے ہیں۔
اس سے مجھے اپنی بات یاد آگئی اگرچہ ہمارا حال اس لڑکےسے کچھ بہتر ہی تھا لیکن پیرے اور مضمون کا فرق نہ اس وقت پتا تھا نہ بی کام کرنے تک ہی پتا چلا۔ اب آکر پتا چلا ہے کہ پیرے کا مطلب ایک ہی پیرے میں سب لکھنا ہوتا ہے اور مضمون کئی پیروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پیرا کیسے لکھنا ہے، مضمون کیسے لکھنا ہے یہ یونیورسٹی میں آکر پتا چلا ہے، سٹڈی سکلز نامی ایک مضمون میں ورنہ ککھ بھی نہیں پتا تھا۔
ہمارا حال کیا ہے اور ہمارے مستقبل کا حال کیا ہے۔ اور ہم ترقی کے دعوے کرتے ہیں۔
تمہیں میری ای میل نہیں ملی؟
جواب دیںحذف کریںجب کسی نئے بندے کو ایڈریس دیتے ہیں تو جنک فولڈر کو دیکھتے رہتے ہیں سر جی۔
شاکر بھائی !!! کیا مسلئہ کشمیر مطالعہ پاکستان میں اب بھی اتا ہے ؟
جواب دیںحذف کریںیا یہ حل ہو گیا ہے کیونکہ جب میں نے پیپر دیے تھے یہ ایک ایسا سوال تھا جو لازمی اتا تھا ۔۔۔۔۔
یار ایک دو ٹیوشنیں مجھے بھی لے دو ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںبدتمیز میرے جی میل والے پتے پر ای میل کی تھی؟ ایک بار پھر کر دو سپیم میں سے نہیں مل رہی۔ یا اپنا ایڈریس بتا دو۔
جواب دیںحذف کریںروسی شہری اب بھی ہوتی ہے اور بی اے تک ہوتی ہے رٹا لگا لگا کر پاس کی جاتی ہے اور پھر بھول جاتی ہے۔ مجال ہے 14 نکات کا ایک ہی نکتہ یاد ہو اب۔
قدیر جی تھوڑی پبلسٹی کرو، گھر کے دو کمرے خالی کرو اور باہر بورڈ لگا دو اکیڈمی کا۔ کام شروع۔ یا کسی ہوم ٹیوشن نیٹورک سے رابطہ کرلو، ممی ڈیڈی سکول کے بچوں کی اچھی ٹیوشن مل جاتی ہے۔
عزیزم شاکر: یار مجھے ایک بار ایک بچی کی ٹیوشن ملی تھی، پھر شاید بچی کی والدہ نے یہ سوچا کہ استاد پپو بچہ ہے، ہماری بچی کسی درست راستہ پر نہ پڑ جائے
جواب دیںحذف کریں:P
محترم ۔ دسویں کا نتیجہ دیکھ کر تو صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے ۔ میں نے 1953ء میں پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک 72 فیصد نمبروں سے پاس کیا تو پورے شھر راولپنڈی اور پورے پاکستان میں پھیلی ہماری برادری میں واہ واہ ہو گئی تھی ۔ آجکل لڑکے لڑکیاں 95 فیصد نمبر لے کر پاس ہوتے ہیں اور انگریزی سے کم میں بات نہیں کرتے ۔ یہ الگ بات ہے کہ لکھنے میں وہ بی اے پاس کر کے بھی اتنی اچھی انگریزی نہیں لکہ سکتے جیسی ہم آٹھویں جماعت میں لکھتے تھے ۔ اللہ آجکل کے طلباء و طالبات کے والدین کو عقل سلیم عطا فرمائے اور وہ بڑے نام کے سکولوں اور ٹیوشن سنٹروں کی بجائے تعلیم کی طرف توجہ دیں
جواب دیںحذف کریںقدیر میاں استاد بننا ایک مقدس پیشہ ہے جو تم جیسے لوگ نہیں کرسکتے مذکورہ خاتون نے حقیقت پہچان کر ہی یہ قدم اٹھایا ہوگا۔
جواب دیںحذف کریںاجمل صاحب یہ حقیقت ہے کہ ٹیوشن سنٹر کا مقصد صرف پرچے میں اچھے نمبر حاصل کرنا ہے اور کچھ نہیں۔
عزیزم شاکر: مجھے پتہ تھا تم یہی کہو گے، خراب ذہن! بچی کی عمر آٹھ سال تھی، اور اتنی چھوٹی بچی کو دیکھر کر ویسے ہی ماحول پرتقدس ہو جانا چاہیے۔ بصورتِ دیگر بچے جو ناک میں دم کرتے ہیں۔۔۔۔ توبہ
جواب دیںحذف کریں:P
میاں تُف ہے تم پر جو تم ایک آٹھ سالہ بچی کو نہیں پڑھا سکے اوروں کو کیا خاک پڑھاؤ گے۔ مستقبل ہی برباد کرو گے جہاں بھی جاؤ گے۔
جواب دیںحذف کریںایک مہینہ پڑھایا تھا، پھر بس ہو گئی۔ اتنے چھوٹے بچے نہیں قابو ہوتے۔
جواب دیںحذف کریںبس یار کیا بتائیں سارے ہی فراڈیئے ڈونگی ہیں۔ ہمیں لُوٹ رہے ہیں یقین جانئیے جو پرچہ جات آتے ہیں ان کےلیے پڑھنا قطعاََ ضروری نہیں صرف رٹہ ضروری ہے۔ میرا تو دل بھر آیا ہے اس ملک کی پڑھائی سے یہ الگ بات ہے کہ جہاں پر تحقیق ہوتی ہے وہاں ہر بندہ جا ہی نہیں سکتا۔ویسے میرا خیال ہے کہ ہم یعنی کہ سکول کے پڑھوں سے بہتر مدرسہ والے ہیں کم از کم دین کو تو نبھاتے ہیں
جواب دیںحذف کریںاف توبہ میں نےبھی ایک دفعہ ٹیوشن پڑہانے کی کوش کی تھی ایسے بچے کو جو پڑھنا نہیںچاہتا تھا، میں نے لیکن کبھی ٹیوشن نہیں پڑھی اس لئے ایسا کوئی مضمون یاد کرنے میں ناکام رہا :D
جواب دیںحذف کریںمجھے 14 نکات کا ایک نکتہ یاد ہے
صوبہ سندھ کو صوبہ بمبئی سے الگ کر کے علیحدہ صوبہ بنایا جائے گا:
ہاں جدید 14 نکات میں سے 13 یقیناً یاد ہی ہوں گے :D
@عبدالقدوس : میرا خیال تھا یہ صرف مولانا ڈیزل سوچتا ہے
بہت خوب! اچھا کیا کہ آپ نے پڑھانا شروع تو کیا۔۔۔ میری اماں جان بھی بہت عرصے سے کہہ رہی ہیں کہ ٹیوشن پڑھانا شروع کروں لیکن مابدولت خود کو اس لائق نہیں پاتے۔ :(
جواب دیںحذف کریںڈفر بھائی آُپ کا خیال غلط ہے کیونکہ ملا ڈیزل تو نا لاشوںپر سیاست کرنے والا ہے
جواب دیںحذف کریںدوست بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔ اللہ جھوٹ نہ بلوئے، خود میں نے پانچ سالہ پرچہ جات سے بی اے اور وہ بھی درجہ اول میں پاس کیا ہے۔ ظاہر ہے جب ہر سال وہی پندرہ بیس سوالوں کو ہی گھوم پھر کر آنا ہے تو کون بے وقوف ’’غیر متعلقہ‘‘ سوالوں پر سر کھپاتا پھرے۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر پاکستان کا تعلیمی نظام اب بھی وہی فرسودہ نصاب اور رٹہ فیکیشن امتحانی طریقہ کار پر مشتمل ہے۔ انگلش میں امتحان سے دو دن قبل ’’اے یو خان‘‘ کے حل شدہ ’’گیس پیپر‘‘ لاؤ اور با آسانی امتحان میں سرخرو ہو جاؤ۔
جواب دیںحذف کریںآپ جن بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہے ہیں ، ان بچوں کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے:
دودھ کا دودھ، پانی کا پانی
یہ بات نہ سمجھی میری ڈاٹر
پھر میں نے آساں کر کے بتلایا
’’مِلک کا مِلک، واٹر کا واٹر
[...] کا معیار اب کس صاحبِ نظر سے پوشیدہ ہے؟ شاکر کی تحریر ”سر جی“ بھی آجکل کے طلبا اور سکولوں کی عکاسی کر رہی ہے۔ جس میں [...]
جواب دیںحذف کریں[...] معیار اب کس صاحبِ نظر سے پوشیدہ ہے؟ شاکر کی تحریر ”سر جی“ بھی آجکل کے طلبا اور سکولوں کی عکاسی کر رہی ہے۔ جس [...]
جواب دیںحذف کریں