پھر دسمبر آرہا ہے
تیری یادوں سے سُلگتا
ستم بر آرہا ہے
پھر دسمبر کے برف زاروں میں
تیری یادوں کی ارتھیاں اٹھائے
ہم بھٹکتے پھریں گے
پھر انھیں جلاتے جلاتے
خود کو شمشان بنا ڈالیں گے
اپنے آپ کو ہی جلا ڈالیں گے
اور تیری یادیں آسیب بن کر
پھر ہم سے چمٹ جائیں گی
پھر اک نیا سال ہوگا
پھر وہی فرقتوں کے غم ہونگے
پھر وہی انداز
تیرے اے صنم ہونگے
خیریت تو قبلہ یہ دکھی دکھی باتیں کیوں ہو رہی ہیں.. کہیں آپ بھی عشق کے مارے ہوئے تو نہیں..
جواب دیںحذف کریںشاکر ایک دفعہ میں بھی دسمبر آں پہنچا ہے نام نظم اپنے بلاگ پر ارسال کی تھی، اور اگلے دسمبر سے پہلے پہلے میری شادی ہو گئی ۔ اللہ خیر کرے ۔
جواب دیںحذف کریںہاہاہاہا
جواب دیںحذف کریںبہت عرصے سے کچھ اُگلا نہیں تھا۔ پڑھ پڑھ کر جب بدہضمی ہوجائے تو کچھ لکھنے کو دل کرتا ہے۔ غزلیں نظمیں عروض و بحور کی چکر پھیریوں میں الجھا دیتی ہیں سو آزاد میں دل کا حال لکھ مارتا ہوں۔
ویسے ایسی کوئی بات نہیں، میں تکنیکی طور پر اگلے دو سال تک ایسا کچھ نہیں کرسکتا ابھی پڑھ رہا ہوں۔
یہ بد ہضمی جاری رہنا چاہیے، اسی بہانے کچھ اچھا اچھا لکھتے رہیں گے۔
جواب دیںحذف کریںایک بات اور کہ دسمبر میں ایسی کیا خاص بات ہے؟
آپ کی دعا چاہیے، اب تو وارث صاحب کی شاگردی اختیار کرلی ہے کہ عروض وغیرہ سیکھ لوں۔
جواب دیںحذف کریںدسمبر میں کچھ ہو یا نا ہو یار لوگوں نے بنا دیا ہے، ابرار کا گانا دسمبر اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں مل ملا کر بات یہاں پہنچی کہ میرے جیسے بغیر سوچے سمجھ بس ۔۔۔۔۔۔۔ چل پڑے دسمبر پر لکھنے۔