منگل، 9 دسمبر، 2008

دسمبر

پھر دسمبر آرہا ہے

تیری یادوں سے سُلگتا

ستم بر آرہا ہے

پھر دسمبر کے برف زاروں میں

تیری یادوں کی ارتھیاں اٹھائے

ہم بھٹکتے پھریں گے

پھر انھیں جلاتے جلاتے

خود کو شمشان بنا ڈالیں گے

اپنے آپ کو ہی جلا ڈالیں گے

اور تیری یادیں آسیب بن کر

پھر ہم سے چمٹ جائیں گی

پھر اک نیا سال ہوگا

پھر وہی فرقتوں کے غم ہونگے

پھر وہی انداز

تیرے اے صنم ہونگے

5 تبصرے:

  1. خیریت تو قبلہ یہ دکھی دکھی باتیں کیوں ہو رہی ہیں.. کہیں آپ بھی عشق کے مارے ہوئے تو نہیں..

    جواب دیںحذف کریں
  2. شاکر ایک دفعہ میں‌ بھی دسمبر آں پہنچا ہے نام نظم اپنے بلاگ پر ارسال کی تھی، اور اگلے دسمبر سے پہلے پہلے میری شادی ہو گئی ۔ اللہ خیر کرے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ہاہاہاہا
    بہت عرصے سے کچھ اُگلا نہیں تھا۔ پڑھ پڑھ کر جب بدہضمی ہوجائے تو کچھ لکھنے کو دل کرتا ہے۔ غزلیں نظمیں عروض و بحور کی چکر پھیریوں میں الجھا دیتی ہیں سو آزاد میں دل کا حال لکھ مارتا ہوں۔
    ویسے ایسی کوئی بات نہیں، میں تکنیکی طور پر اگلے دو سال تک ایسا کچھ نہیں کرسکتا ابھی پڑھ رہا ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. یہ بد ہضمی جاری رہنا چاہیے، اسی بہانے کچھ اچھا اچھا لکھتے رہیں گے۔
    ایک بات اور کہ دسمبر میں ایسی کیا خاص بات ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
  5. آپ کی دعا چاہیے، اب تو وارث صاحب کی شاگردی اختیار کرلی ہے کہ عروض وغیرہ سیکھ لوں۔
    دسمبر میں کچھ ہو یا نا ہو یار لوگوں نے بنا دیا ہے، ابرار کا گانا دسمبر اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں‌ مل ملا کر بات یہاں‌ پہنچی کہ میرے جیسے بغیر سوچے سمجھ بس ۔۔۔۔۔۔۔ چل پڑے دسمبر پر لکھنے۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔