اتوار، 22 فروری، 2009

السان الاروی

آج پجن اور کرئیول کی تلاش کرتے کرتے مجھے اروی مل گئی. صبح ہمارا سماجی لسانیات کا ٹیسٹ تھا اور میں یہ دو موضوعات تلاش کررہا تھا. پجن یعنی ایسی زبان جو کئی زبانوں کا مربہ ہو، جیسے اردو تھی شروع شروع میں. کسی کی بھی مادری زبان نہیں لیکن رابطے کے لیے ضروری. پھر پجن جب مادری زبان بن جائے تو کرئیول ہوجاتی ہے جیسے اردو اب ہے. تو اسی دوران مجھے اروی کا پتا چلا. السان الاروی اصل میں عربی اور تامل زبان سے مل کر بنی ہے. جس کا رسم الخط ہند کی دوسری زبانوں کی طرح عربی بھی ہے اور تامل زبان کے رسم الخط میں بھی اسے لکھا جاسکتا ہے. اس کا رسم الخط اردو کی طرح عربی میں اضافے کرکے بنایا گیا ہے اور اس کے تیرہ حروف جو اصل میں آوازیں بھی ہیں اسی زبان سے مخصوص ہیں. یہ زبان جنوبی بھارت اور سری لنکا کے مسلمان بولتے ہیں. کہا جاتا ہے کہ عرب سے آنے والے تاجر جو جنوبی بھارت کے ساحلوں اور سری لنکا میں آباد ہوگئے تھے ان کی موجودہ نسلیں یہ زبان بولتی ہیں. لیکن اس زبان کو بھی مٹ جانے کا خدشہ ہے. اس کو بہت کم بولا جاتا ہے، بہت کم مدارس ہیں جو اس زبان کی تعلیم دیتے ہیں یا سری لنکا کی روایتی مسلم فیملیاں اسے استعمال کرتی ہیں.
مجھے اسے دیکھ کر عجیب اپنائیت کا احساس ہورہا ہے. جیسے یہ اردو ہی ہو. لیکن اس کی حالت زار اردو سے بہت بدتر ہے. اس زبان کے ادب کو شائع کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی بول چال کو رواج دینے کی ضرورت ہے ورنہ یہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی. السان الاروی...کتنا میٹھا نام ہےنا اس کے کچھ الفاظ ..ایسا نہیں لگتا اردو ہی ہے؟
بلا، راحت، شفاء، خیر، تعلیم، شیطان، شرک، طیب، اخلاص، جنازہ، موت، شربت، کتاب، بیت، بیاہ،
وہ جو اردو سے نہیں لگتے مگر عربی النسل ہیں شاید
مصیبہ، وللہی، ساہن، دفس،
ان الفاظ کی رومن فہرست اوپر دئیے گئے وکی پیڈیا کے ربط پر رومن میں دیکھی جاسکتی ہے، میں نے کوشش کی ہے اردو کے قریب ترین الفاظ کو لکھ دوں ان کی جگہ. اس کے 13 مخصوص حروف میں سے بہت سی آوازیں اردو کی بھی ہیں جیسے گ کے لیے ک میں تھوڑی سی تبدیلی کی گئی ہے. تفصیلی نقشہ اسی ربط کے سائیڈ بار میں موجود ہے.

2 تبصرے:

  1. معلوماتی تحریر ہے لیکن کیا آُپکو نہیں لگتا کہ زبان ایک جامد نہیں‌بلکہ متحرک چیز ہے یعنی اسمیں زمانے کے ساتھ ساتھ تغیر آتے رہتے ہیں۔ بہت سی زبانیں‌اسلئے مر رہی ہیں‌کیونکی انکو بولنے والا کوئی نہیں‌رہا اور بولنے والا اسلئے نہیں‌رہا کہ اب اس زبان کی ضرورت نہیں‌رہی۔ پہلے ہر 20 کلومیٹر کے بعد بولی تبدیل ہو جاتی تھی کی ذرائع آمد و رفت محدود تھے اور لوگوں‌کا میل ملاپ کم۔ اب تو فاصلے سمٹ گئے ہیں‌اور لوگ ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں‌ سو زبانیں‌ کم ہو رہی ہیں۔ اسکی ایک مثال حالیہ رپورٹ‌ہے جو بی بی سی پر دیکھی کہ پاکستان کے پہاڑی علاقوں‌میں‌بہت سی زبانیں قریب المرگ ہیں‌دوسری طرف میدانی علاقوں میں اتنی بری حالت نہیں غالبآ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ نے درست فرمایا۔ بدلنا زبان کا مقدر ہے۔ زبان دریا ہے اگر بند باندھ بھی دیں تو یہ اپن راستہ نکال لیتی ہے۔ لیکن دکھ تو ہوتا ہے سائیں۔ زبان ماں کی طرح ہوتی ہے۔ زبان میں ثقافت، روایات کے رنگ ہوتے ہیں۔ زبان مرجائے تو بہت دکھ ہوتا ہے سائیں۔ :cry:

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔